دھندلکے

صرف یہ ہی نہیں مشاق کمانڈو کی مانندکسی انگریزی فلم کے مناظر کی طرح دھماکے سے پہلے دیوار گرائی گئی

24 جولائی افطار کو ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ تیز کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا اور پرسکون ماحول کو حیران کرگیا تھا۔ اچانک کچھ سمجھ نہ آیا، سکھر بیراج کالونی کے رہائشی اس قیامت خیزی پر بدحواس ہوگئے۔ دور دور گھروں کے شیشے تک ٹوٹ گئے اور جو اس دھماکے کے ٹارگٹ تھے ان کا حال ابتر تھا۔ یہ سب کیا تھا؟ سکھر جیسے پرسکون شہر کے پرسکون اور محفوظ علاقے میں پولیس بلڈنگ کے باہر خودکش دھماکا اور آئی ایس آئی آفس کے باہر کار میں بم دھماکا اس بات کا ثبوت تھا کہ ملک دشمن عناصر اب باآسانی کہیں بھی رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔

صرف یہ ہی نہیں مشاق کمانڈو کی مانندکسی انگریزی فلم کے مناظر کی طرح دھماکے سے پہلے دیوار گرائی گئی اور پھر اسی گری دیوار سے وہ اندر داخل ہوئے اور فائرنگ کی۔ وہ اس قدر بے باک تھے کہ ان کا نشانہ حساس علاقے کے اندر تک کے مقامات تھے، گویا سب کچھ مٹا کر اپنے ہدف کو حاصل کرنا ان کا اولین مقصد تھا۔ اس حساس علاقے میں ڈی آئی جی، کمشنر اور اہم افسران کی رہائشی عمارات بھی تھیں، گویا سب کچھ زد میں لانے کا ارادہ تو تھا لیکن قدرت نے موقع نہیں دیا۔ اس قدر تیاری، اتنی مہارت نے ظاہر کردیا کہ وہ پہلے سے خوب ٹریننگ حاصل کیے ہوئے تھے۔ اس دہشت گردی کی ذمے داری تحریک طالبان نے قبول کرلی ہے، جس میں ذرایع کے مطابق ان کا کمانڈر ولی الرحمن بھی ہلاک ہوگیا۔

مئی 2009 میں بھی لاہور کے آئی ایس آئی کے دفتر کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں چوبیس لوگ لقمہ اجل بنے تھے جب کہ اسی برس پشاور میں بھی آئی ایس آئی کی بلڈنگ کو دہشت گردی کی نذر کیا گیا جس میں بم دھماکوں سے دس افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ ملتان اور فیصل آباد میں بھی اسی قسم کی دہشت گردی کی کارروائی کی گئی۔ دہشت گردی کی اس قسم کی وارداتوں میں اداروں کو نشانہ بنانے کے عمل کو امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کی وجہ گردانا جارہا ہے ،اور کہا جاتا ہے کہ پاکستانی اداروں اور امریکی سی آئی اے میں اشتراک عمل جاری ہے، پاکستانی طالبان جو القاعدہ سے متاثر ہیں امریکا کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں لہٰذا خدمات جو دہشت گردی کی روک تھام کے لیے پاکستانی اداروں کی جانب سے انجام دی جا رہی ہیں انھیں گوارا نہیں۔ دہشت گردی کا یہ عمل ملک کے دیگر شہروں سے ہوتا اب سکھر جا پہنچا ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل اس نظریے سے مختلف سوچ رکھتے ہیں، ان کے مطابق بھارت اور امریکا پاکستان کا دشمن ہے اور اس قسم کی وارداتوں میں ان کے ہاتھ ہیں۔

ایک اہم ادارے کے سابق سربراہ کا یہ خیال جب کہ وہ اس اہم حساس ادارے میں رہ کر کام انجام دے چکے ہیں اس طرح کا اظہار کچھ نہ کچھ کی بنیاد پر ایک مفروضے کی شکل اختیار کرچکا ہے اور مفروضے کچھ دلائل کی بنیاد پر تشکیل دیے جاتے ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ پاکستان میں اس طرح کی دہشت گردی کی صورتحال اسے اندرونی طور پر جنگ کی سی صورتحال کی جانب گھسیٹ رہی ہے۔ دشمن چھپ کر مختلف انداز میں مختلف مقامات پر اس طرح کی کارروائیاں کرتا ہے کہ جس سے ملک کی دفاعی صورتحال کی ابتری ظاہر ہو، کراچی میں ایئر فورس کے مقام، کامرہ اور اسی طرح کے حساس علاقوں کو نشانہ بنانا یہی ظاہر کرتا ہے کہ دشمن ہمارے ہی ملک میں ہمارے ہی درمیان موجود ہے لیکن اس کے ہاتھ اور شکلیں مخفی ہیں، جنہوں نے مختلف روپ دھارے ہوئے ہیں لیکن ان کے مقاصد ایک ہیں، ان کے ہاتھ اسی طرح متحرک اور جوشیلے ہیں جیسے ان کے اپنے جذبات، شکلیں کوئی بھی نقاب پہن سکتی ہیں، اس نظریے کو رد کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔


ملکی سلامتی کے لیے آئی ایس آئی کی ضرورت کیسے پڑی؟ ایک برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق 1948 میں برطانوی فوج سے عارضی بنیاد پر آئے میجر جنرل آرکو تھرون نے محسوس کہا کہ پاکستان کو ایک حساس انٹیلی جنس ادارے کی ضرورت ہے۔ ابتدا کے دس سال اس ادارے کے تربیت کے تھے۔

1989 میں افغانستان سے روسیوں کے جانے کے بعد سی آئی اے پاکستان سے ختم ہوگئی جب کہپاکستانی اداروں میں جہادی عناصرجڑ گئے۔ امریکا نے روسیوں کو افغانستان سے نکالنے کے لیے روپیہ پانی کی طرح بہایا تھا جب کہ سعودی عرب نے اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر اپنے برادر ملک کی مدد کی تھی، لیکن امریکی مقصد یعنی روسیوں کو ناکوں چنے چبوانے کے بعد اب امریکا کو افغانستان میں جاری جہاد سے کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی، حالانکہ پہلے اسی نظریے کے تحت پاکستان کو بھی ہمدری کے جام پلا کر شریک کیا گیا تھا لیکن ایسا ممکن نہ تھا کہ پہلے جو کہانی سچائی اور ٹھوس مفروضے پر شروع کی گئی تھی، جسے مذہب کے لبادے میں چھپاکر جذباتیت کے رنگ میں ڈبویا گیا، مقاصد پورے ہونے کے بعد اسی ملک میں ایک فکری و ثقافتی انارکی اپنے رنگ جماتی لیکن بڑی طاقتو ریاستیں چھوٹے ممالک کو ڈگڈگی کی طرح بجانا چاہتی ہیں اور اس مقصد کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتی ہیں۔

امریکی اور بھارتی میڈیا اکثر پاکستانی خفیہ اداروں کے حوالے سے بہت کچھ ادھر ادھر کی اڑاتا رہتا ہے۔ اگر اس مفروضے پر یقین کرلیا جائے کہ سکھر میں ہونے والی کارروائی طالبان کی تھی اور انھوں نے اس کی ذمے داری قبول بھی کرلی ہے لیکن اس دہشت گردی کی کارروائی کے لیے منتخب کیا جانے والا وقت یعنی افطار سے چند منٹوں بعد، یہ بھی ہوسکتا ہے چند منٹوں کی تاخیر کسی بھی وجہ سے مثلاً راستے کی عبوری ، افطار یا اس کے ارد گرد کا وقت تھا، یہ کسی بھی مسلمان کو گوارا ہوسکتا ہے؟

ابھی چند برسوں پہلے ہی ایک بڑے اخبار کے اندرونی صفحہ پر ایک چھوٹی خبر چھپی، جس میں کچھ مغربی ممالک کے سفارتی اور غیر سفارتی اہلکاروں کی سکھر کے سرکاری ادارے کی اجازت کے بغیر دورے کی چھوٹی سی سرخی تھی، تحریر تھا کہ مقامی لوگوں کیمطابق انھوں نے اس غیر ملکی جوڑے کو سکھر کے حساس مقامات تک دیکھا جس سے سرکاری اہلکار بھی متحرک ہوگئے کیونکہ ان کے پاس اس دورے کا کوئی اجازت نامہ موجود نہ تھا، اس گروپ میں وہی مغربی ممالک کے لوگ اور سفارتی عملہ کے لوگ شامل تھے جنہوں نے ایک عرصے تک دنیا میں چھوٹے، کمزور اور غریب ممالک کو اپنی کالونیاں بنائے رکھا۔

ہمارا ملک کم و بیش دہشت گردی اور غربت کے دھندلکوں میں ہے، جہاں ایک غریب اور بے ضمیر باورچی چند ہزار کی خاطر بہت سی انسانی جانوں کو اپنی خوشبو دار زہریلی بریانی کے ذریعے لقمہ اجل تک پہنچانے میں ذرا نہیں ہچکچاتا، یہ بھوک بہت ظالم ہوتی ہے، بہت کچھ کروا دیتی ہے، ہم کس جنگ میں گھرے ہیں ابھی تک یہ ہی واضح نہیں ہوپایا، بھوک، افلاس، اندھا انتقام یا مذہبی جوش۔
Load Next Story