صحت مند زندگی کے تقاضے

صحت کی فکر زیادہ تر خواتین کو لاحق ہوتی ہے جبکہ اس کا خیال مرد رکھتے ہیں۔

صحت کی فکر زیادہ تر خواتین کو لاحق ہوتی ہے جبکہ اس کا خیال مرد رکھتے ہیں۔ فوٹو: فائل

SEOUL/WASHINGTON:
''صحت مند جسم صحت مند دماغ کی ضمانت ہوتا ہے''۔ اگرچہ یہ مْحاورہ ہم نے بچپن سے جابجا استعمال ہوتے سْنا ہے لیکن پاکستانی معاشرے کا بغور مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اس پر عمل کا قدرے فقدان ہے۔ جس میں انفرادی اور اجتماعی عدم توجہ بنیادی وجہ ہیں۔

2017ء کی مردم شماری کے مطابق، پاکستان کی دو سو سات اعشاریہ آٹھ ملین کی آبادی میں مرد و خواتین کی اوسط عمر بالترتیب تقریباً چھیاسٹھ اور سڑسٹھ ہے جو ترقی یافتہ ممالک کی نسبت بہت کم ہے۔ ان اعدادو شمار کے مطابق جنوبی ایشیا میں پاکستان بین الاقوامی معیار صحت میں سب سے نچلے درجے پر ہے۔ اس صورت حال میں بلاشبہ خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں جس کی بنیادی وجہ پدرانہ معاشرے کی طرف سے خواتین کے خلاف، دیگر معاملات کی طرح صحت کے معاملے میں بھی روا صنفی امتیازہے۔ اس کے تحت روایتی گھرانوں میں آج بھی، کھانے کا غذائی اعتبار سے بہترین حصہ لڑکوں کو فراہم کرنا جبکہ کم غذائیت والی خوراک لڑکیوں کو مہیا کی جاتی ہے۔

اسی طرح خواتین پر سماجی ذمہ داریوں کا بے پناہ بوجھ اس قدر زیادہ ہے کہ وہ زندگی میں اپنی صحت پر توجہ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ اگر کوئی خاتون اپنی صحت پر توجہ دینے کا ''جرم'' کر بیٹھے تو اس عمل کو اکثریت غیر ضروری تصور کرتی ہے۔کْچھ قدامت پسند، دقیا نوسی سوچ کے قیدی تو خواتین کا اپنی صحت پر دھیان دینا مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں اور اس روش کو نہ صرف وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتے ہیں بلکہ ہر حد پار کرتے ہوئے ایسی خواتین کے کردار کو مشکوک گردانتے ہیں، اُنہیں ''برُی عورت'' کا لقب بھی دینے سے گریز نہیں کرتے۔

اسی سوچ کے زیر اثرمردوں کی نسبت خواتین کے لئے انتہائی محدود تعداد میں موجود صحت کے مراکز (فٹنس سینٹر یا جم) ہیں، جن کا خرچہ صرف امیر گھرانوں کی خواتین ہی برداشت کرسکتی ہیں۔ غریب اور متوسط طبقے کی خواتین کے لیے نہ تو بیماری کی صورت میں علاج کی مناسب سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی صحت مند زندگی گزارنے کے لئے صحت مراکز ہیں۔

علاوہ ازیں، خواتین میں اس معاملے میں حساسیت بھی قدرے کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمومی طور پرخواتین زندگی بھر مختلف تکالیف کا شکار رہتی ہیں۔ اگر صرف خواتین کی صحت کا حمل کے حوالے سے ہی جائزہ لیا جائے تو پریشان کُن اعدادو شمار سامنے آتے ہیں۔ جیسا کہ اقوام متحدہ کے مطابق سالانہ ایک لاکھ خواتین میں سے دو سو چھہتر خواتین دوران زچگی موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ زچگی کے دوران میں ہلاکتوں کے معاملے میں پاکستان ایک سو اناسی ممالک میں سے ایک سو اْنچاسویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں لاکھوں خواتین استقاط حمل اور پیدائش سے قبل پیچیدگیوں جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔ زیادہ تر تکالیف کی بنیادی وجہ لاعلمی ہے۔

دیکھا یہ گیا ہے کہ، اکثر مرد و خواتین لاعلمی اور عدم توجہ کے تحت صحت کے مسائل کو ابتدائی مراحل میں حل کرنے کی کوشش نہیں کرتے، جو آگے چل کر سنگین بیماریوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اکثر تکالیف تو محض صحت مند طرز زندگی سے دور کی جاسکتی ہیں۔ اسی تجسس کے تحت میں نے لاہور میں قائم صحت کے نجی مراکز کا دورہ کیا اورتربیت کاروں (انسٹرکٹرز یا ٹرینرز) سے اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی۔ میں ہمیشہ سے یہ جاننا چاہتی تھی کہ صحت (فٹنس) کے کتنے درجے ہیں اورانھیںکیسے جانچنا جاسکتا ہے۔ ماہر تربیت کاروں کے بقول'' صحت کے ویسے تو کئی درجے ہیں۔ مثلاً ایروبکس فٹنس کو ہی لے لیا جائے، تو اس میں مختلف امتحانات ہوتے ہیں جن سے جسمانی لچک کا پتہ لگایا جاتا ہے،جب بھی کوئی فرد صحت مراکز آتا ہے تو اْس سے آنے کا مقصد پوچھنے کے بعد یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اْسے کس قسم کی ورزش درکار ہے۔

ننانوے فیصد لوگوں کے صحت مراکز آنے کی بنیادی وجہ وزن زیادہ ہونا ہے۔ دس میں سے چار یا پانچ فیصد شادی سے تین یا چار ماہ پہلے دْبلے ہونے کی شدید خواہش کے ساتھ آتے ہیں، جو عام طور پر ممکن نہیں ہوتا لیکن ایسے افراد کی تعداد شادی کے بعد محض ایک یا دو فیصد رہ جاتی ہے۔ان میں سے کْچھ ایسے بھی ہوتے ہیںجنہوں نے پہلے کبھی ورزش نہیں کی ہوتی۔ البتہ ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو محض اچھا دکھائی دینے کے لیے اپنے جسم پر توجہ دیتے ہیں۔ دراصل جو صحت کو لے کر سنجیدہ ہوتے ہیں، وہ باقاعدگی سے آتے ہے لیکن ان میں بھی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔ مثلاً وہ لوگ جوتربیت کار کی رہنمائی میں چلتے ہیں۔ چاہے وہ ورزش ہو یا خوراک کا تناسب۔ جبکہ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہوں نے اپنے ذہن میں ایک تصویر بنا رکھی ہوتی ہے، وہ تربیت کار سے نہیں پوچھتے اور نہ اْن کی مانتے ہیں۔

اصل بات یہ سمجھنے کی ہے کہ صحت درجہ بہ درجہ ہوتی ہے، جس میں ورزش کے علاوہ متناسب خوراک ، نیند کا پورا ہونا اور سب سے بڑھ کر ذہنی آسودگی نہایت اہم ہے۔ اکثر لوگ محض جسمانی ورزش پر ہی زور دیتے ہیں۔ یہاں زیادہ تر لوگ اپنی سوچ کے اسیر ہوتے ہیں اور اکثرغلط ورزش کر تے ہیں اور تربیت کار کی رہنمائی سے فا ئدہ نہیں اْٹھاتے جیسا کہ ورزش کے دوران عمر کے مطابق دل کی دھڑکن کا جائزہ لینا کافی اہم ہے۔ اگردھڑکن مقررہ درجے سے بڑھ رہی ہے تو اْس کے مطابق ورزش تبدیل کی جاتی ہے۔ جتنی زیادہ ورزش کریں گے دل کی دھڑکن اسی حساب سے بڑھے گی۔ اچھی صحت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے دل کی دھڑکن، ورزش کے دوران مناسب حد میں رہے۔

تربیت کاروں کے مطابق، ورزش کے معاملے میں خواتین کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ وہ جلدی مطمئن نہیں ہوتیں، البتہ وہ مردوں کے مقابلے میں ورزش کے مختلف زاویے جلد سمجھ جاتی ہیں لیکن اس سارے معاملے کا کافی حد تک انحصارتربیت کار پر بھی ہے۔ یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ پاکستانی معاشرے میں چند حیران کُن دقیا نوسی خیالات پائے جاتے ہیں، خاص طور پر بچوں کے صحت مراکز جانے کے حوالے سے،جیساکہ یہ عام طور پر سننے میں آتا ہے کہ اگر بچے ورزش کریں تو اْن کا قد رْک جاتا ہے۔ اسی طرح لوگوں میں یہ تاثر عام ہے کہ ورزش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اگر یہ چھوڑ دی جائے تو انسان پہلے سے بھی زیادہ موٹا ہوجاتا ہے۔


حقیقت تو یہ ہے کہ وزن کم کرنے کے بعد لوگ زیادہ تر خوراک میں حد درجہ بد احتیاطی کرتے ہیں۔ ایسا زیادہ تر خواتین ہی کرتی ہیں۔ یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ جب آپ ورزش چھوڑیں گے اور خوراک میں احتیاط نہیں کریں گے تو وزن بڑھے گا۔ ورزش اور خوراک دونوں میں اعتدال ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ خواتین میں ایک غلط خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ مردوں کی طرح اْن کے پٹھے (مسلز) بن جائیں گے اور نسوانیت ختم ہو جائے گی۔ حالانکہ پٹھے بنانے کے لیے در حقیقت خوراک سے لے کر ورزش تک سب کْچھ مختلف ہوتا ہے۔

دوسری طرف صحت کے چند دیسی مراکز نے بھی غیر ضروری سٹیرائیڈز کا استعمال سے عام لوگوں کے ذہن میں صحت مراکز کے متعلق کئی شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔ سٹیرائیڈز دراصل اپنی نیچرل گروتھ کو مصنوعی طور پر بڑھانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ صحت کے دیسی مراکز دراصل سٹیرائیڈز کا سہارا لیتے ہیں، اب یہ حکومت کو چاہئیے کہ وہ اس پر قابو پائے۔ اس کی وجہ سے تقریباًساٹھ سے ستر فیصد لڑکے اب تک سٹیرائیڈزکی زیادہ مقدار کھانے کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس کے باوجود کہ اس پر بین الاقوامی سطح پرسخت پابندی ہے۔

تربیت کاروں کے بقول ''عمومی طور پر ایک خاص عمر کے بعد، صحت کی فکر زیادہ تر خواتین کو لاحق ہوتی ہے لیکن یہ اور بات ہے کہ خیال مرد زیادہ رکھتے ہیں۔ پاکستان میں خواتین کا اس طرف اتنا دھیان نہیں ہے۔ اْنھیں بس خود پر کپڑوں کے اچھے لگنے تک کی پرواہ ہوتی ہے۔وہ صحت مند رہنے کے لیے کم ہی ورزش کرتی ہیں۔ البتہ مردو خواتین دونوں کا ہی غذائیت بھری خواراک پر دھیان نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہچالیس سے زیادہ عمر کے لوگ عام طور پر طبی مشورے کے بعد آتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ بچے بھی ہیں جن کی عمر پندرہ یا اکسٹھ سال ہوتی ہے لیکن وہ زیادہ وزن کا شکار ہوتے ہیں تو ان کو بھی طبیب ورزش کے ذریعے وزن کم کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔

خواتین میں ہڈیوں کے درد جبکہ مردوں میں دل اور شوگر کے عارضے میں مبتلا افراد کو طبیب ورزش کرنے یا جم جانے کی ہدایت کرتے ہے۔ اگر کوئی ورزش کے دوران درد یا دباؤ کی شکایت کرے تو اس حساب سے ہی اْس کی ورزش ترتیب دی جاتی ہے۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ورزش جسم کو ٹھیک رکھتی ہی ہے لیکن یہ اندرونی اعضاء کو بھی مضبوط بناتی ہے، جیساکہ دل کی دھڑکن کو ہی لے لیجیے یہ جتنی کم ہوگی، دل کو اتنا کم کام کرنا پڑے گا ، جس سے دل کا عارضہ ہونے کا خدشہ کم ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ ذہنی سکون بھی ملتا ہے۔

یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ تربیت کار بھی ہر کوئی نہیں بن سکتا۔ پاکستان میں عام خیال یہ ہے کہ اگر کسی کے پٹھے بنے ہوئے ہیں تو وہ تربیت کار بن سکتا ہے۔ حالانکہ تربیت کار کوعلم الحیات (فزیالوجی) اور بنیادی غذائیت کے مضامین پر عبور ہونا چاہیے لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں صرف ایک ادارہ ہے،جو اسلام آباد میں واقع ہے اور وہ تربیت کار کو تربیت دیتا ہے۔ وہ بھی امریکن کالج آف سپورٹس کی شاخ ہے، جو بس پڑھاتے ہیں اور امتحان لیتے ہیں۔ پاکستان میں نوّے فیصد تربیت کار ان پڑھ ہیں۔

سرکاری سطح پر بھی اس پیشے کی کوئی سر پرستی نہیں ہے۔ دوسرے ممالک میں اگر دبئی کی ہی مثا ل لے لیں تو وہاں بھی تیسرے درجے کے کورس کے بغیر کوئی تربیت کار نہیں بن سکتا۔ یہاں پر لوگ تربیت کار بھی بنے ہوئے، طبیب بھی بنے ہوئے ہیں، مالشیے بھی بنے ہوئے ہیں۔ جس کے بْرے اثرات عوام کی صحت پر مرتب ہورہے ہیں۔ صحت سے متعلق ان تمام موضوعات پر آگاہی کے لیے سیمنارز منعقد ہونے چاہئیں اور اس کے ساتھ ساتھ نصابی کتابوں میں بھی صحت مند زندگی کے متعلق بھی شعور اْجاگر کرنا چاہیے۔

عام تاثر یہ ہے کہ مہنگے ہونے کی وجہ سے صرف پیسے والے افراد ہی صحت مراکز کا رْخ کرسکتے ہیں۔ لیکن تر بیت کاروں کے خیال میں اکثر افراد جو محدود آمدنی کی وجہ سے صحت مراکز نہیں آسکتے، وہ باقاعدگی سے چہل قدمی اور مشینوں کے بغیر بھی ورزش کرسکتے ہیں۔ یہ سب شوق اور سوچ کی بات ہے۔ ایسے افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ خوراک پر سب سے زیادہ دھیان دیں اور ایک گھنٹہ کوئی جسمانی ورزش گھر پر ہی ضرور کریں اور مستقل بیٹھنے سے گریز کریں۔ کْچھ گروہ ایسے بھی ہیں جو یوگا کرواتے ہیں۔ یہ سیکھا جاسکتا ہے اور آگے بھی پھیلایا جاسکتا ہے لیکن اس سب کے لیے آگاہی ضروری ہے۔

اکثریت، جیسے اْن کے باپ دادا زندگی گزارتے آرہے ہیں ، ویسے ہی زندہ رہنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ بالخصوص مغربی ممالک ، حتیٰ کہ کْچھ مشرقی معاشرے بھی جیساکہ جاپان ، بچوں کو چودہ سے پندرہ سال کا ہوتے ہی صحت مراکز بھیجنا شروع کردیتے ہیں۔ اگرصحت کے مراکز نہیں جاتے توتفریح گاہوں میں یا کھیل کے میدانوں میں شام کے وقت کسی نہ کسی کھیل میں مشغول ہوتے ہیں۔برطانیہ ہی کی مثال لے لیں۔ ہر آدھے کلومیٹر پر تفریح گاہ ہے، جہاں بیٹھنے اور ورزش کرنے کے آلات پڑے ہوئے ہیں۔ تربیت کاروں کے خیال میں ایسے لوگوں کی تعداد قدرے کم ہے جو ورزش یا چہل قدمی کے لیے باہر نکلتے ہیں۔ لوگ خریداری کی غرض سے باہر نکلتے ہیں یا کھانا کھانے، یا پھر دفتر/تعلیمی اداروں میں جانے کے لیے۔

اس ساری بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ صحت پر توجہ کا دارومدار آگاہی اور ذاتی دلچسپی سے جُڑا ہوا ہے۔ اگرچہ معاشرتی رویے خواتین کی نسبت مرد حضرات کو جسمانی طور پر صحت مند رہنے کے زیادہ مواقع فراہم کرتے ہیں، اس کے باوجود سائنس اور مواصلاتی ترقی نے بے شمار ایسی ویب سائٹس متعاوف کروائی ہیں، جن پر موجود ویڈیوز سے مرد و خواتین گھر بیٹھے مستفید ہوسکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کو مجموعی طور پر اپنی سوچ کی درستگی درکار ہے، جس کے تحت خواتین و حضرات کا اپنی جسمانی صحت کا خیال رکھنے کے عمل کی حوصلہ افزائی ضروری ہے کیونکہ جسمانی صحت توانا ذہن کی ضمانت ہے۔

 
Load Next Story