پانچ برادریاں
دہلی سے پاکستان بالخصوص کراچی میں ہجرت کرنے والوں نے اپنے آپ کو ایک تنظیم میں ڈھالا۔
دنیا ایک گائوں بن چکی ہے۔ جب سب ایک برادری کے ممبر ہیں تو یہ پانچ برادری کیا؟ کیا یہ پانچ ممالک ہیں جو ویٹو کا حق رکھتے ہیں؟ جی نہیں۔ تو پھر کیا یہ پانچ اقوام ہیں جنھیں پٹھان، پنجابی، سندھی، بلوچ اور سرائیکی کا نام دیا جاتا ہے؟ غلط۔ پانچ ممالک تو سپر پاور ہیں جب کہ پانچ قومیتیں تو پانچ بڑی زبان بولنے والے ہیں۔ برادریاں کیا ہیں؟ یہ ہیںچنیوٹی، پنجابی سوداگران، دہلی، میمن، آغاخانی اور بوہری۔ ان میں کچھ خوبیاں ہیں جو دوسری برادریاں اپنا لیں تو معاشرے کو مزید خوبصورت بنایا جاسکتا ہے۔ پہلے ہم ان کا تعارف کروائیں گے اور پھر تعریف کریں گے۔ قارئین معاف کریں مگر یاد رکھیں کہ یہ کالم نہیں بلکہ ایک مضمون ہے۔
پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس پر انتخابی الزام ہے کہ یہ برادری کی بنیاد پر ووٹ کرتا ہے۔ شہروں میں نہ سہی دیہی علاقوں میں ذات برادری کی وجہ سے حمایت حاصل کرنے والا امیدوار جیت جاتا ہے۔ یہ طرفداری تو پنجاب کے معاشرے کو بہتر نہ بناسکی۔ پرائیویٹ شعبے میں نہ سماجی کام، نہ خدمت کا کوئی نظام۔ اسی پنجاب میں جھنگ کی جانب ایک علاقہ جسے چنیوٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہاں کے چنیوٹی پنجاب کے علاوہ کراچی اور دنیا بھر میںپھیلے ہوئے ہیں۔ یہ برادری سماجی شعبے میں اپنا اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔
دہلی سے پاکستان بالخصوص کراچی میں ہجرت کرنے والوں نے اپنے آپ کو ایک تنظیم میں ڈھالا۔ شاید وہ دہلی سے قبل پنجاب میں رہتے ہوں۔ زیادہ تر لوگوں نے کراچی کے برنس روڈ پر دہلی کالونی میں رہائش اختیار کی۔ انھوں نے اپنی تنظیم کا نام ''دہلی پنجابی سوداگران'' رکھا۔ کاروبار کرتے یہ لوگ اپنے نام کے ساتھ اپنا پیشہ بھی لگاتے مثلا چشمے والے، ٹینٹ والے، بسکٹ والے وغیرہ۔ مرحوم عبدالخالق اﷲ والا، خلیل نینی تال والا اور عبدالقیوم خلیل کو اسی برادری کے نمایاں افراد قرار دیا جاسکتا ہے۔
میمن برادری کی اکثریت بھارت کے صوبے گجرات سے پاکستان آئی۔ جوناگڑھ کے آس پاس رہنے والوں کی اکثریت نے کراچی اور حیدر آباد میں رہائش اختیار کی۔ بانٹوا، مانگرول، جیت پور اور راج کوٹ جیسے پچاس دیہاتوں سے یہ ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ گائوں کی بنیاد پر الگ الگ تنظیمیں اور پھر سب کی ایک میمن فیڈریشن ہے جس میں تنظیموں کو نمایندگی حاصل ہے۔ تمام شعبوں کی طرح سیاست و سماج کے میدان میں عبدالستا ر ایدھی، فاروق ستار، محمد حسین محنتی، حنیف طیب، عبدالعزیز میمن اور ڈاکٹر غفار بلو ان کے نمایاں افراد ہیں جو مختلف شعبوں میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ شاہراہ فیصل کے عائشہ باوانی اسکول اور کھارادر کی میمن مسجد انھیں علمی اور مذہبی برادری ثابت کرتے ہیں۔ تین برادریوں کا تعارف ہم کروا چکے۔ اب دو مزید برادریوں کے بارے میں گفتگو کرکے ہم ان کی تعریف کی جانب آئیں گے۔ چوتھے اور پانچویں نمبر پر دیکھی جانے والی برادریاں آغا خانی اور بوہری ہیں۔ اگر پاکستان کے لوگ سماجی کاموں میں ان کی تقلید کریں تو بڑے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
سر آغا خان سوئم اس برادری کے نمایاں ترین فرد تھے۔ مسلم لیگ کے بانیوں میں سے ایک اور صدر بھی۔ وہ آغا خانی اماموں کے سلسلے میں 49 ویں امام تھے۔ یہ برادری پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ پاکستان میں دیگر برادریوں کی طرح ہم ان کا تعارف اس لیے کروا رہے ہیں کہ یہ بھی سماجی خدمات میں نمایاں ہیں۔ بے شمار اسکول اور کئی درجن شفا خانوں کے علاوہ کراچی کا آغا خان اسپتال اس کی نمایاں مثال ہے۔
بوہری برادری بھی دیگر چار برادریوں کی طرح ہی ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں ان کی خدمات نمایاں ہیں۔ اسے ملک بھر میں ''امن پسند ترین'' قرار دیا جاسکتا ہے۔ کراچی کا بوہری بازار اسی برادری کی کاروباری صلاحیت کا ثبوت قرار دیا جاسکتا ہے۔ طاہر سیف الدین صاحب ان کے روحانی پیشوا ہیں۔
پانچ برادریاں کیوں؟ مسئلے ہر جگہ ہوتے ہیں اور جو مسئلے کو حل کریں انھیں مثال بناکر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ کون سا ملک، جگہ، شہر اور علاقہ ہے جہاں کچھ نہ کچھ غربت نہ ہو۔ غربت کسی بھی ترقی پذیر ملک کے شہری کو تعلیم اور علاج سے محروم کردیتی ہے۔ امیر سے ٹیکس لینا ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے۔ اب جو عام لوگ امیروں سے پیسہ نکلوائیں اور انھیں غریبوں میں تقسیم کریں انھیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ چنیوٹی، دہلی پنجابی سوداگران، میمن، آغا خانی اور بوہری برادریاں یہ کام کررہی ہیں۔ وہ اپنے صاحب ثروت لوگوں سے رقوم وصول کرکے اپنے خاندان، برادری اور معاشرے کی جانب بہتری کو لوٹا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ منظم انداز میں ہوتا ہے۔ تنظیمیں ہوتی ہیں، ذمے دار لوگ ہوتے ہیں، دفاتر ہوتے ہیں۔ صرف ایک فرق ہے۔
تین برادریاں انتخاب کرواتی ہیں اور اس طرح ان میں سے کوئی نہ کوئی رہنما ابھر کر سامنے آتا ہے۔ جیسے میمن برادری کے حنیف طیب، احمد چنائے اور اب عزیز میمن ان کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ایسا کچھ چنیوٹی اور دہلی والوں میں ہوتا ہے۔ دو برادریاں اپنے روحانی پیشوا کے احکامات پر چلتی ہیں۔ آغا خانیوں اور بوہریوں میں قیادت کا کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اس تھوڑے سے فرق کے باوجود ان برادریوں کا تعلیمی اور نجی شعبوں میں نمایاں کام ہر پاکستانی کو نظر آرہا ہے۔ ان پانچ برادریوں کے اس طرز خدمت نے معاشرے سے مایوسی و رنج میں کمی کی ہے۔ اپنے نوجوانوں کو بڑی حد تک غلط راہوں پر چلنے سے بچایا ہے۔ تعارف سے تعریف تک آکر اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کام کیسے کرتی ہیں؟
یہ برادریاں اپنے اجلاس بلاتی ہیں اور ان کے پڑھے لکھے، ذہین، سمجھدار اور دیانت دار لوگ نامزد ہوکر یا منتخب ہوکر کچھ چندہ، ڈونیشن، فنڈ، زکوٰۃ، خیرات اپنی جیب سے دیتے ہیں۔ پھر یہ لوگ اپنے میں سے خوشحال لوگوں سے رجوع کرتے ہیں۔ برادریوں کے افراد ایک دوسرے کو نسل در نسل سے جانتے ہیں۔ اس طرح پھر مساجد، تعلیمی ادارے، شفا خانے ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں صرف ان ہی کے لوگ استفادہ نہیں کرتے بلکہ یہ سب کچھ خلق خدا کے لیے ہوتا ہے۔ لوگ آتے ہیں، لوگ جاتے ہیں لیکن ادارے یونہی چلتے رہتے ہیں۔
دوسروں کو کیا کرنا چاہیے؟ دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو صدیوں سے ایک ہی مقام پر رہ رہے ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے ہجرت کی ہوتی ہے۔ کچھ بھی ہو پانچ سو سے ہزار لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایک جگہ پر ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ وہ اپنی تنظیم بناسکتے ہیں۔ یہ گوجرانوالہ کے جاٹ ہوسکتے ہیں، مشرقی پنجاب کے کسی شہر سے لاہور میں ہجرت کرنے والے ہوسکتے ہیں یا کراچی سے پنجاب بس جانے والے ہوسکتے ہیں یا پھر سوات سے آکر کراچی میں بس جانے والے ہوسکتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی تنظیم بناکر غریبوں اور امیروں کے درمیان پل بن سکتے ہیں۔ زکوٰۃ سے غریبوں کی ماہانہ امداد ہو یا عام رقم سے قرض حسنہ یا کسی بے روزگار کو برسرروزگار کرنا ہو۔ یہ سب کچھ ایسی تنظیمیں کرسکتی ہیں۔ اگلے مرحلے پر تعلیمی و طبی ادارے بھی بن سکتے ہیں۔ پہلا قدم کسی نہ کسی کو اٹھانا پڑے گا۔ پورے ملک کے لوگوں کو ان پانچ برادریوں کی تقلید کرنی پڑے گی۔ کہا جاسکتا ہے کہ کچھ احباب کی تنظیمیں ہیں لیکن ان کا دائرہ مشاعروں و عید ملن تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔
پاکستان کے پچیس سے پچاس برس کے چند ہزار لوگ آگے بڑھ کر اپنی برادری کے لوگوں کو منظم ہونے کی طرف مائل کریں تو پاکستان میں سماجی انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ یہ نوجوانوں کے ہاتھوں سے اسلحہ لے کر کتاب، مایوسی لے کر امید، بندوق لے کر پھول کی منظر کشی کرسکتا ہے۔ کیا ملک کے چند ہزار باشعور لوگ دیکھیں گے کہ کیا کرتی ہیں سماجی شعبے میں پاکستان کی یہ پانچ برادریاں؟
پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس پر انتخابی الزام ہے کہ یہ برادری کی بنیاد پر ووٹ کرتا ہے۔ شہروں میں نہ سہی دیہی علاقوں میں ذات برادری کی وجہ سے حمایت حاصل کرنے والا امیدوار جیت جاتا ہے۔ یہ طرفداری تو پنجاب کے معاشرے کو بہتر نہ بناسکی۔ پرائیویٹ شعبے میں نہ سماجی کام، نہ خدمت کا کوئی نظام۔ اسی پنجاب میں جھنگ کی جانب ایک علاقہ جسے چنیوٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہاں کے چنیوٹی پنجاب کے علاوہ کراچی اور دنیا بھر میںپھیلے ہوئے ہیں۔ یہ برادری سماجی شعبے میں اپنا اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔
دہلی سے پاکستان بالخصوص کراچی میں ہجرت کرنے والوں نے اپنے آپ کو ایک تنظیم میں ڈھالا۔ شاید وہ دہلی سے قبل پنجاب میں رہتے ہوں۔ زیادہ تر لوگوں نے کراچی کے برنس روڈ پر دہلی کالونی میں رہائش اختیار کی۔ انھوں نے اپنی تنظیم کا نام ''دہلی پنجابی سوداگران'' رکھا۔ کاروبار کرتے یہ لوگ اپنے نام کے ساتھ اپنا پیشہ بھی لگاتے مثلا چشمے والے، ٹینٹ والے، بسکٹ والے وغیرہ۔ مرحوم عبدالخالق اﷲ والا، خلیل نینی تال والا اور عبدالقیوم خلیل کو اسی برادری کے نمایاں افراد قرار دیا جاسکتا ہے۔
میمن برادری کی اکثریت بھارت کے صوبے گجرات سے پاکستان آئی۔ جوناگڑھ کے آس پاس رہنے والوں کی اکثریت نے کراچی اور حیدر آباد میں رہائش اختیار کی۔ بانٹوا، مانگرول، جیت پور اور راج کوٹ جیسے پچاس دیہاتوں سے یہ ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ گائوں کی بنیاد پر الگ الگ تنظیمیں اور پھر سب کی ایک میمن فیڈریشن ہے جس میں تنظیموں کو نمایندگی حاصل ہے۔ تمام شعبوں کی طرح سیاست و سماج کے میدان میں عبدالستا ر ایدھی، فاروق ستار، محمد حسین محنتی، حنیف طیب، عبدالعزیز میمن اور ڈاکٹر غفار بلو ان کے نمایاں افراد ہیں جو مختلف شعبوں میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ شاہراہ فیصل کے عائشہ باوانی اسکول اور کھارادر کی میمن مسجد انھیں علمی اور مذہبی برادری ثابت کرتے ہیں۔ تین برادریوں کا تعارف ہم کروا چکے۔ اب دو مزید برادریوں کے بارے میں گفتگو کرکے ہم ان کی تعریف کی جانب آئیں گے۔ چوتھے اور پانچویں نمبر پر دیکھی جانے والی برادریاں آغا خانی اور بوہری ہیں۔ اگر پاکستان کے لوگ سماجی کاموں میں ان کی تقلید کریں تو بڑے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
سر آغا خان سوئم اس برادری کے نمایاں ترین فرد تھے۔ مسلم لیگ کے بانیوں میں سے ایک اور صدر بھی۔ وہ آغا خانی اماموں کے سلسلے میں 49 ویں امام تھے۔ یہ برادری پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ پاکستان میں دیگر برادریوں کی طرح ہم ان کا تعارف اس لیے کروا رہے ہیں کہ یہ بھی سماجی خدمات میں نمایاں ہیں۔ بے شمار اسکول اور کئی درجن شفا خانوں کے علاوہ کراچی کا آغا خان اسپتال اس کی نمایاں مثال ہے۔
بوہری برادری بھی دیگر چار برادریوں کی طرح ہی ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں ان کی خدمات نمایاں ہیں۔ اسے ملک بھر میں ''امن پسند ترین'' قرار دیا جاسکتا ہے۔ کراچی کا بوہری بازار اسی برادری کی کاروباری صلاحیت کا ثبوت قرار دیا جاسکتا ہے۔ طاہر سیف الدین صاحب ان کے روحانی پیشوا ہیں۔
پانچ برادریاں کیوں؟ مسئلے ہر جگہ ہوتے ہیں اور جو مسئلے کو حل کریں انھیں مثال بناکر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ کون سا ملک، جگہ، شہر اور علاقہ ہے جہاں کچھ نہ کچھ غربت نہ ہو۔ غربت کسی بھی ترقی پذیر ملک کے شہری کو تعلیم اور علاج سے محروم کردیتی ہے۔ امیر سے ٹیکس لینا ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے۔ اب جو عام لوگ امیروں سے پیسہ نکلوائیں اور انھیں غریبوں میں تقسیم کریں انھیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ چنیوٹی، دہلی پنجابی سوداگران، میمن، آغا خانی اور بوہری برادریاں یہ کام کررہی ہیں۔ وہ اپنے صاحب ثروت لوگوں سے رقوم وصول کرکے اپنے خاندان، برادری اور معاشرے کی جانب بہتری کو لوٹا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ منظم انداز میں ہوتا ہے۔ تنظیمیں ہوتی ہیں، ذمے دار لوگ ہوتے ہیں، دفاتر ہوتے ہیں۔ صرف ایک فرق ہے۔
تین برادریاں انتخاب کرواتی ہیں اور اس طرح ان میں سے کوئی نہ کوئی رہنما ابھر کر سامنے آتا ہے۔ جیسے میمن برادری کے حنیف طیب، احمد چنائے اور اب عزیز میمن ان کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ایسا کچھ چنیوٹی اور دہلی والوں میں ہوتا ہے۔ دو برادریاں اپنے روحانی پیشوا کے احکامات پر چلتی ہیں۔ آغا خانیوں اور بوہریوں میں قیادت کا کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اس تھوڑے سے فرق کے باوجود ان برادریوں کا تعلیمی اور نجی شعبوں میں نمایاں کام ہر پاکستانی کو نظر آرہا ہے۔ ان پانچ برادریوں کے اس طرز خدمت نے معاشرے سے مایوسی و رنج میں کمی کی ہے۔ اپنے نوجوانوں کو بڑی حد تک غلط راہوں پر چلنے سے بچایا ہے۔ تعارف سے تعریف تک آکر اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کام کیسے کرتی ہیں؟
یہ برادریاں اپنے اجلاس بلاتی ہیں اور ان کے پڑھے لکھے، ذہین، سمجھدار اور دیانت دار لوگ نامزد ہوکر یا منتخب ہوکر کچھ چندہ، ڈونیشن، فنڈ، زکوٰۃ، خیرات اپنی جیب سے دیتے ہیں۔ پھر یہ لوگ اپنے میں سے خوشحال لوگوں سے رجوع کرتے ہیں۔ برادریوں کے افراد ایک دوسرے کو نسل در نسل سے جانتے ہیں۔ اس طرح پھر مساجد، تعلیمی ادارے، شفا خانے ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں صرف ان ہی کے لوگ استفادہ نہیں کرتے بلکہ یہ سب کچھ خلق خدا کے لیے ہوتا ہے۔ لوگ آتے ہیں، لوگ جاتے ہیں لیکن ادارے یونہی چلتے رہتے ہیں۔
دوسروں کو کیا کرنا چاہیے؟ دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو صدیوں سے ایک ہی مقام پر رہ رہے ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے ہجرت کی ہوتی ہے۔ کچھ بھی ہو پانچ سو سے ہزار لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایک جگہ پر ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ وہ اپنی تنظیم بناسکتے ہیں۔ یہ گوجرانوالہ کے جاٹ ہوسکتے ہیں، مشرقی پنجاب کے کسی شہر سے لاہور میں ہجرت کرنے والے ہوسکتے ہیں یا کراچی سے پنجاب بس جانے والے ہوسکتے ہیں یا پھر سوات سے آکر کراچی میں بس جانے والے ہوسکتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی تنظیم بناکر غریبوں اور امیروں کے درمیان پل بن سکتے ہیں۔ زکوٰۃ سے غریبوں کی ماہانہ امداد ہو یا عام رقم سے قرض حسنہ یا کسی بے روزگار کو برسرروزگار کرنا ہو۔ یہ سب کچھ ایسی تنظیمیں کرسکتی ہیں۔ اگلے مرحلے پر تعلیمی و طبی ادارے بھی بن سکتے ہیں۔ پہلا قدم کسی نہ کسی کو اٹھانا پڑے گا۔ پورے ملک کے لوگوں کو ان پانچ برادریوں کی تقلید کرنی پڑے گی۔ کہا جاسکتا ہے کہ کچھ احباب کی تنظیمیں ہیں لیکن ان کا دائرہ مشاعروں و عید ملن تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔
پاکستان کے پچیس سے پچاس برس کے چند ہزار لوگ آگے بڑھ کر اپنی برادری کے لوگوں کو منظم ہونے کی طرف مائل کریں تو پاکستان میں سماجی انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ یہ نوجوانوں کے ہاتھوں سے اسلحہ لے کر کتاب، مایوسی لے کر امید، بندوق لے کر پھول کی منظر کشی کرسکتا ہے۔ کیا ملک کے چند ہزار باشعور لوگ دیکھیں گے کہ کیا کرتی ہیں سماجی شعبے میں پاکستان کی یہ پانچ برادریاں؟