رازدارِ نبوت صدیق اکبرؓ
صدیق ؓ کے لیے ہے، خدا کا رسولؐ بس۔
آج حضور سید دو عالم ﷺ کے اس فداکار و جاں سپار کا یومِ وصال منایا جارہا ہے، بلاشبہہ جس کے نام کے ساتھ عشق و محبت، ایثار و قربانی، خلوص و وفا، عالی ظرفی و سخاوت اور اقلیم فیاضی کی آبرو وابستہ ہے۔ یہ وہ بے عدیل و عدیم النظیر ہستی ہے جو طلوع آفتاب قیامت تک مہر و ماہ کی طرح نیلگوں آکاش پر ضیاء پاشیاں کرتی رہے گی۔
پیکر خلوص و وفا سیدنا صدیق اکبرؓ وہ رفیق نبوتؐ اور معتمدِ خاص تھے، جنہیں اہل وجدان مزاجِ شناسِ نبوتؐ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ آپؓ کے قبولِ اسلام سے فدایانِ دین محمدؐ کے حوصلوں کو نیا ولولہ اور عزائم کو تسخیر کے ایسے افق عطا ہوئے، جس سے تخیل و طائر دینِ مبین اوج ثریا کی جانب مائل پرواز نظر آنے لگا۔ کسی بھی ارفع تحریک کی کام یابی کے دو ہی زینے ہوتے ہیں، جن کو اپنا کر اس تحریک کے فدائی اسے کام یابی سے ہم کنار کرسکتے ہیں۔ ان میں ایک طریقہ مالی معاونت کا اور دوسرا اپنے اثاثۂ حیات کی قربانی کا ہوتا ہے۔
رفیق نبوتؐ، ابن ابی قحافہؓ نے اشاعتِ اسلام اور صاحبؐ قرآن کی بے مثال معاونت کا حق دونوں طرح سے ادا کیا۔ تقدیسِ دامنِ نبوتؐ سے وابستہ ہوتے ہی اپنی تمام دولت و مروت نعلین حبیب کبریاؐ پر نچھاور کردی۔ جنگ ہو یا امن، شب کی تاریکی ہو یا صبح کا اجالا، مصائب و آلام کی آندھیاں چل رہی ہوں یا رحمت کی گھٹائیں برس رہی ہوں، غزوۂ تبوک ہو یا غزوۂ بدر، شب ہجرت ہو یا فتح مکہ، امتدادِ زمانہ کی قہرمانیاں ہوں یا فتح مبین کی شادمانیاں، رنج و کلفت ہو یا فرحت و انبساط، فدایان نبوتؐ کا انبوہِ کثیر ہو یا غارِ ثور کی تنہائیاں، سوز و گدازِ یقین کا معاملہ ہو یا حرارتِ ایمانی کی آزمائش، کون سا ایسا موقع ہے جہاں راز دارِ نبوتؐ، صدیق اکبرؓ نے اپنے جذبۂ ایقان کی قندیل روشن نہ کی ہو۔
فقرِ سوز صدیقؓ تو وہ متاعِ گراں مایہ ہے، جس سے تشنگان غنایت و معرفت تاابد سیراب ہوتے رہیں گے۔ غزوۂ تبوک کے ایمان افروز اور وجد آفرین واقعے سے تو تاریخ اسلام کبھی دست کش نہیں ہوسکتی، جب حضورؐ نے دشوار ترین وقت میں صحابہ کرامؓ سے مالی معاونت طلب فرمائی تو اقلیم وفا کا یہ تاج ور کاشانۂ صدیقؓ کا تمام اثاثہ آقائے گیتی پناہ ﷺ کے حضور لے آیا۔
ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے اس کی کتنی خوب صورت منظر کشی کی ہے۔
اتنے میں وہ رفیقِ نبوتؐ بھی آگیا
جس سے بنائے عشق و محبت ہے اُستوار
اور پھر اقبالؒ کے اس شعر نے تو اہل قلب و نظر کو تڑپا کے رکھ دیا۔
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیقؓ کے لیے ہے، خدا کا رسولؐ بس
حضورؐ کی غلامی کا قلاوہ زیب گلو کرنے کے بعد صدیق اکبرؓ بھی قندیل اسلام کی لو سے لوگوں کے دلوں کو جگمگانے لگے۔ آپؓ اپنے بخت بے دار پر نازاں تھے کہ آپؓ کو بارگاہ نبوتؐ سے انتہائی قرب کی نوید جاں فزا سنائی گئی۔ ابوبکرؓ کے اس جذبہ ایثار و وفا کیشی اور شکوہِ فقر کے پیش نظر ہی اقبال نے بارگاہ نبوت میں یہ درخواست کی ہے
دگرگوں کرد لادینی جہاں را
زآثارِِ بدن گفتند جاں را
ازاں فقرے کہ باصدیق داری
بشورے آور ایں آسودہ جاں را
ترجمہ: ''بے دینی نے جہاں کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔ آج روح کو بھی جسم کی طرح مادی کہا جارہا ہے۔ اُس فقیری سے جو آپؐ نے صدیق اکبر ؓ کو عطا کی، مسلمان کی آرام پسند زندگی میں ایک تلاطم بپا کردیں۔''
سیدنا صدیق اکبرؓ کو یوں تو عمر بھر حضورؐ کی قربت کی انتہا میسر رہی مگر غار ثور کی تین راتیں ارتباطِ صداقت و نبوتؐ کا خلاصہ معلوم ہوتی ہیں۔ ان دو ہستیوں میں تقدیس محبت و مؤدت کی ایسی ایسی منازل طے ہوتی رہیں کہ اقلیم الفاظ و معانی کے بڑے بڑے تاج دار بھی ان کیفیات کی منظر کشی سے عاجز نظر آتے ہیں۔ ایک مؤرخ اسلام چشم تخیل میں دیکھتا ہے کہ غارِ ثور پر چڑھتے ہوئے جبین رسالتؐ پر تھکاوٹ کے آثار ہویدا ہوئے۔ مزاج شناس نبوت جان گئے کہ وجہِ تسکین کائناتؐ گراں باریٔ طبع محسوس فرما رہے ہیں۔ آپؓ نے جانِ کائناتؐ کو کندھوں پہ اٹھالیا۔ چشم فلک کتنا خوب صورت اور کیف آور نظارہ کررہی ہے۔ دوشِ صداقت پر انوارِ نبوتؐ کی بارش ہورہی ہے۔
غار کے دہانے پر پہنچ کر حضورؐ شانۂ صدیقؓ سے نیچے اترے۔ ابوبکرؓ عرض کرتے ہیں آقاؐ میں غار کے اندر جاکر صفائی کا جائزہ لوں تاکہ آپؐ کے نفیس و مقدس وجود اقدس کے مطابق اسے قیام کے قابل بنایا جاسکے۔ صفائی کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی آقاؐ تشریف لے آئیے۔ نبی مکرمؐ چوں کہ تھکاوٹ محسوس فرما رہے تھے، اس لیے سر مبارک آغوش ابوبکرؓ میں رکھ کر محو استراحت ہوگئے۔ اہل دل ذرا صدیق اکبرؓ کی خوش بختی کا جائزہ لیں اور اس جاں بخش منظر کو احاطۂ تخیل میں لائیں۔ محبوب رب کردگار، نورِ اولین و آخرین حضور سرور کائنات ﷺ اپنے رفیق خاص کی گود میں محو خواب ہیں۔
رات کی پرسکون تنہائی میں جناب ابوبکرؓ حضورؐ کے جمالِِ جہاں آرا کا نظارہ فرما رہے ہیں، حریم حسنِ کائنات سے نور چھن چھن کر برس رہا ہے اور چشم صداقت میں سما رہا ہے۔ صدبق اکبرؓ اس وقت قربت نبوی ﷺ کی جن انتہاؤں اور لطافتوں سے حظ اٹھا رہے ہیں، ایسا دل کشا منظر کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ ایک طرف جلوہ ہائے جمال کی فراوانی ہے جو قلب و نظر صدیقیت کو حلقہ بہ گوش بنائے ہوئے ہے۔ دوسری جانب تجلیات جلال کی ایسی لمعہ افشانی ہے کہ آپؓ کی آنکھ جی بھر کر نظارہ کرسکے۔ اس دوران ایک زہریلے سانپ نے ابوبکرؓ کی ایڑی پر ڈس لیا۔ آپؓ شدت درد سے بے قرار ہوگئے۔ مگر انتہائے درد کے باوجود بھی آپ نے اپنے جسم کو جنبش نہ دی مبادا جانِ کائنات و حسنِ کائنات ﷺ کے آرام میں خلل نہ آجائے، مگر درد کی ٹیس اتنی زور آور تھی کہ آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔ جب گرم اشکِ صداقت برگِ گل سے بھی نازک تر رخسار نبوتؐ پر پڑے تو حضورؐ بے دار ہوگئے۔
آپؐ نے ارشاد فرمایا: ابوبکر، آنکھوں میں نمی کیسی؟ عرض کیا ایک سانپ نے ڈس لیا ہے، لب ہائے نبوت پر جاں سپاری ابوبکر کو دیکھ کر تبسم کی جاں افروز لکیر بن گئی۔ مسیحائے انس و جن، حکیم کائنات ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ایڑی قریب لاؤ۔ آپؐ نے لُعاب دہن متاثرہ جگہ پر لگایا تو درد فوراً کافور ہوگیا۔ اس عالم تہائی میں جناب ابوبکرؓ مانندِ غنچہ کھلے جارہے ہیں، جیسے وہ حلقہ موج صبا میں ہوں۔ رحمتوں کی برستی گھٹا میں لبوں پہ ذکر حبیبؐ جاری ہے، اک موج سلسبیل جسم ابوبکرؓ میں ڈھلتی جارہی ہے۔ کونین بھر کی دولت بھی اس ایک لمحے کا بدل نہیں ہوسکتی، جس میں حضورؐ کا سر اقدس آپؐ کی آغوش میں تھا۔
از نگاہِ آقا، می خواہم نشاطِ سرمدی
انبساطِ عالم فانی، مرا درکار نیست
مفہوم ( میں تو اپنے آقا کی نگاہ کرم و عنایت کا خواہش مند ہوں، جو لطف و کرم اور خوشیوں کا منبع ہے، میں عالم فانی کی خوشیوں کا طلب گار نہیں ہوں)
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک ایسا منفرد مقام و مرتبہ، عزت و شوکت جو آپؓ کو کائنات بھر کے جن و انس سے ممیّز کرتا ہے وہ یہ ہے کہ آپؓ کو امام الانبیاء ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ہی آپؐ کے مصلے پر سترہ نمازیں پڑھانے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ قربت بارگاہ نبوتؐ کی ایسی انتہا ہے، جس پر عالمِ گیتی کے تمام اوج و ارتفاع رشک کرتے نظر آتے ہیں۔ اسلام کی ترویج و اشاعت میں میں خریداریٔ موذنِ اسلام کا معاملہ ہو یا حضرت عثمانؓ کو ترغیب اسلام، فتنہ انکار نبوت کی بیخ کنی کا مسئلہ ہو یا مانعین زکوٰۃ سے نبرد آزما ہونا، آپؓ کی قوتِ ایمانی و لامثال استقامت و استقلال کے بین ثبوت ہیں۔
اس کے علاوہ حضرت ابوبکرؓ کے گھرانے کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اس کے تمام افراد کو دولت ایمانی نصیب ہوئی۔ آپؓ کی پیاری صاحبزادی سیدہ عائشہؓ صدیقہ طیبہ طاہرہ کو حضور سرورِ کون و مکاں ﷺ کے عقد مبارک میں آنے کی بھی نعمت عطا ہوئی۔ یہ وارفتگیٔ قربت اس حد تک بڑھی کہ حجرۂ عائشہؓ ہی آپؐ کے مدفن مبارک میں تبدیل ہوگیا۔ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی آپؓ اپنے آقاؐ کے ساتھ ہیں۔
رب کائنات ہمیں جناب صدیقِ اکبرؓ کے خزانۂ جذبۂ عشق رسول ﷺ میں سے خفیف سی رمق ہی عطا فرما دے۔ آمین
پیکر خلوص و وفا سیدنا صدیق اکبرؓ وہ رفیق نبوتؐ اور معتمدِ خاص تھے، جنہیں اہل وجدان مزاجِ شناسِ نبوتؐ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ آپؓ کے قبولِ اسلام سے فدایانِ دین محمدؐ کے حوصلوں کو نیا ولولہ اور عزائم کو تسخیر کے ایسے افق عطا ہوئے، جس سے تخیل و طائر دینِ مبین اوج ثریا کی جانب مائل پرواز نظر آنے لگا۔ کسی بھی ارفع تحریک کی کام یابی کے دو ہی زینے ہوتے ہیں، جن کو اپنا کر اس تحریک کے فدائی اسے کام یابی سے ہم کنار کرسکتے ہیں۔ ان میں ایک طریقہ مالی معاونت کا اور دوسرا اپنے اثاثۂ حیات کی قربانی کا ہوتا ہے۔
رفیق نبوتؐ، ابن ابی قحافہؓ نے اشاعتِ اسلام اور صاحبؐ قرآن کی بے مثال معاونت کا حق دونوں طرح سے ادا کیا۔ تقدیسِ دامنِ نبوتؐ سے وابستہ ہوتے ہی اپنی تمام دولت و مروت نعلین حبیب کبریاؐ پر نچھاور کردی۔ جنگ ہو یا امن، شب کی تاریکی ہو یا صبح کا اجالا، مصائب و آلام کی آندھیاں چل رہی ہوں یا رحمت کی گھٹائیں برس رہی ہوں، غزوۂ تبوک ہو یا غزوۂ بدر، شب ہجرت ہو یا فتح مکہ، امتدادِ زمانہ کی قہرمانیاں ہوں یا فتح مبین کی شادمانیاں، رنج و کلفت ہو یا فرحت و انبساط، فدایان نبوتؐ کا انبوہِ کثیر ہو یا غارِ ثور کی تنہائیاں، سوز و گدازِ یقین کا معاملہ ہو یا حرارتِ ایمانی کی آزمائش، کون سا ایسا موقع ہے جہاں راز دارِ نبوتؐ، صدیق اکبرؓ نے اپنے جذبۂ ایقان کی قندیل روشن نہ کی ہو۔
فقرِ سوز صدیقؓ تو وہ متاعِ گراں مایہ ہے، جس سے تشنگان غنایت و معرفت تاابد سیراب ہوتے رہیں گے۔ غزوۂ تبوک کے ایمان افروز اور وجد آفرین واقعے سے تو تاریخ اسلام کبھی دست کش نہیں ہوسکتی، جب حضورؐ نے دشوار ترین وقت میں صحابہ کرامؓ سے مالی معاونت طلب فرمائی تو اقلیم وفا کا یہ تاج ور کاشانۂ صدیقؓ کا تمام اثاثہ آقائے گیتی پناہ ﷺ کے حضور لے آیا۔
ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے اس کی کتنی خوب صورت منظر کشی کی ہے۔
اتنے میں وہ رفیقِ نبوتؐ بھی آگیا
جس سے بنائے عشق و محبت ہے اُستوار
اور پھر اقبالؒ کے اس شعر نے تو اہل قلب و نظر کو تڑپا کے رکھ دیا۔
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیقؓ کے لیے ہے، خدا کا رسولؐ بس
حضورؐ کی غلامی کا قلاوہ زیب گلو کرنے کے بعد صدیق اکبرؓ بھی قندیل اسلام کی لو سے لوگوں کے دلوں کو جگمگانے لگے۔ آپؓ اپنے بخت بے دار پر نازاں تھے کہ آپؓ کو بارگاہ نبوتؐ سے انتہائی قرب کی نوید جاں فزا سنائی گئی۔ ابوبکرؓ کے اس جذبہ ایثار و وفا کیشی اور شکوہِ فقر کے پیش نظر ہی اقبال نے بارگاہ نبوت میں یہ درخواست کی ہے
دگرگوں کرد لادینی جہاں را
زآثارِِ بدن گفتند جاں را
ازاں فقرے کہ باصدیق داری
بشورے آور ایں آسودہ جاں را
ترجمہ: ''بے دینی نے جہاں کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔ آج روح کو بھی جسم کی طرح مادی کہا جارہا ہے۔ اُس فقیری سے جو آپؐ نے صدیق اکبر ؓ کو عطا کی، مسلمان کی آرام پسند زندگی میں ایک تلاطم بپا کردیں۔''
سیدنا صدیق اکبرؓ کو یوں تو عمر بھر حضورؐ کی قربت کی انتہا میسر رہی مگر غار ثور کی تین راتیں ارتباطِ صداقت و نبوتؐ کا خلاصہ معلوم ہوتی ہیں۔ ان دو ہستیوں میں تقدیس محبت و مؤدت کی ایسی ایسی منازل طے ہوتی رہیں کہ اقلیم الفاظ و معانی کے بڑے بڑے تاج دار بھی ان کیفیات کی منظر کشی سے عاجز نظر آتے ہیں۔ ایک مؤرخ اسلام چشم تخیل میں دیکھتا ہے کہ غارِ ثور پر چڑھتے ہوئے جبین رسالتؐ پر تھکاوٹ کے آثار ہویدا ہوئے۔ مزاج شناس نبوت جان گئے کہ وجہِ تسکین کائناتؐ گراں باریٔ طبع محسوس فرما رہے ہیں۔ آپؓ نے جانِ کائناتؐ کو کندھوں پہ اٹھالیا۔ چشم فلک کتنا خوب صورت اور کیف آور نظارہ کررہی ہے۔ دوشِ صداقت پر انوارِ نبوتؐ کی بارش ہورہی ہے۔
غار کے دہانے پر پہنچ کر حضورؐ شانۂ صدیقؓ سے نیچے اترے۔ ابوبکرؓ عرض کرتے ہیں آقاؐ میں غار کے اندر جاکر صفائی کا جائزہ لوں تاکہ آپؐ کے نفیس و مقدس وجود اقدس کے مطابق اسے قیام کے قابل بنایا جاسکے۔ صفائی کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی آقاؐ تشریف لے آئیے۔ نبی مکرمؐ چوں کہ تھکاوٹ محسوس فرما رہے تھے، اس لیے سر مبارک آغوش ابوبکرؓ میں رکھ کر محو استراحت ہوگئے۔ اہل دل ذرا صدیق اکبرؓ کی خوش بختی کا جائزہ لیں اور اس جاں بخش منظر کو احاطۂ تخیل میں لائیں۔ محبوب رب کردگار، نورِ اولین و آخرین حضور سرور کائنات ﷺ اپنے رفیق خاص کی گود میں محو خواب ہیں۔
رات کی پرسکون تنہائی میں جناب ابوبکرؓ حضورؐ کے جمالِِ جہاں آرا کا نظارہ فرما رہے ہیں، حریم حسنِ کائنات سے نور چھن چھن کر برس رہا ہے اور چشم صداقت میں سما رہا ہے۔ صدبق اکبرؓ اس وقت قربت نبوی ﷺ کی جن انتہاؤں اور لطافتوں سے حظ اٹھا رہے ہیں، ایسا دل کشا منظر کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ ایک طرف جلوہ ہائے جمال کی فراوانی ہے جو قلب و نظر صدیقیت کو حلقہ بہ گوش بنائے ہوئے ہے۔ دوسری جانب تجلیات جلال کی ایسی لمعہ افشانی ہے کہ آپؓ کی آنکھ جی بھر کر نظارہ کرسکے۔ اس دوران ایک زہریلے سانپ نے ابوبکرؓ کی ایڑی پر ڈس لیا۔ آپؓ شدت درد سے بے قرار ہوگئے۔ مگر انتہائے درد کے باوجود بھی آپ نے اپنے جسم کو جنبش نہ دی مبادا جانِ کائنات و حسنِ کائنات ﷺ کے آرام میں خلل نہ آجائے، مگر درد کی ٹیس اتنی زور آور تھی کہ آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔ جب گرم اشکِ صداقت برگِ گل سے بھی نازک تر رخسار نبوتؐ پر پڑے تو حضورؐ بے دار ہوگئے۔
آپؐ نے ارشاد فرمایا: ابوبکر، آنکھوں میں نمی کیسی؟ عرض کیا ایک سانپ نے ڈس لیا ہے، لب ہائے نبوت پر جاں سپاری ابوبکر کو دیکھ کر تبسم کی جاں افروز لکیر بن گئی۔ مسیحائے انس و جن، حکیم کائنات ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ایڑی قریب لاؤ۔ آپؐ نے لُعاب دہن متاثرہ جگہ پر لگایا تو درد فوراً کافور ہوگیا۔ اس عالم تہائی میں جناب ابوبکرؓ مانندِ غنچہ کھلے جارہے ہیں، جیسے وہ حلقہ موج صبا میں ہوں۔ رحمتوں کی برستی گھٹا میں لبوں پہ ذکر حبیبؐ جاری ہے، اک موج سلسبیل جسم ابوبکرؓ میں ڈھلتی جارہی ہے۔ کونین بھر کی دولت بھی اس ایک لمحے کا بدل نہیں ہوسکتی، جس میں حضورؐ کا سر اقدس آپؐ کی آغوش میں تھا۔
از نگاہِ آقا، می خواہم نشاطِ سرمدی
انبساطِ عالم فانی، مرا درکار نیست
مفہوم ( میں تو اپنے آقا کی نگاہ کرم و عنایت کا خواہش مند ہوں، جو لطف و کرم اور خوشیوں کا منبع ہے، میں عالم فانی کی خوشیوں کا طلب گار نہیں ہوں)
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک ایسا منفرد مقام و مرتبہ، عزت و شوکت جو آپؓ کو کائنات بھر کے جن و انس سے ممیّز کرتا ہے وہ یہ ہے کہ آپؓ کو امام الانبیاء ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ہی آپؐ کے مصلے پر سترہ نمازیں پڑھانے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ قربت بارگاہ نبوتؐ کی ایسی انتہا ہے، جس پر عالمِ گیتی کے تمام اوج و ارتفاع رشک کرتے نظر آتے ہیں۔ اسلام کی ترویج و اشاعت میں میں خریداریٔ موذنِ اسلام کا معاملہ ہو یا حضرت عثمانؓ کو ترغیب اسلام، فتنہ انکار نبوت کی بیخ کنی کا مسئلہ ہو یا مانعین زکوٰۃ سے نبرد آزما ہونا، آپؓ کی قوتِ ایمانی و لامثال استقامت و استقلال کے بین ثبوت ہیں۔
اس کے علاوہ حضرت ابوبکرؓ کے گھرانے کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اس کے تمام افراد کو دولت ایمانی نصیب ہوئی۔ آپؓ کی پیاری صاحبزادی سیدہ عائشہؓ صدیقہ طیبہ طاہرہ کو حضور سرورِ کون و مکاں ﷺ کے عقد مبارک میں آنے کی بھی نعمت عطا ہوئی۔ یہ وارفتگیٔ قربت اس حد تک بڑھی کہ حجرۂ عائشہؓ ہی آپؐ کے مدفن مبارک میں تبدیل ہوگیا۔ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی آپؓ اپنے آقاؐ کے ساتھ ہیں۔
رب کائنات ہمیں جناب صدیقِ اکبرؓ کے خزانۂ جذبۂ عشق رسول ﷺ میں سے خفیف سی رمق ہی عطا فرما دے۔ آمین