سلطان راہی اور روحی بانو کی یادیں
سلطان راہی مرحوم نے 500 سے زائد فلموں میں کام کیا وہ بہت اچھے قاری تھے۔
کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے کئی زندگیوں کے چراغ جل رہے ہوتے ہیں اور جب ان کی زندگی کا چراغ بجھ جاتا ہے تو ایک چراغ کے بجھتے ہی کئی زندگیوں کے چراغ مدھم ہوجاتے ہیں۔ اداکار سلطان راہی مرحوم فن کے شہید تھے ایک دور ایسا بھی آیا کہ لاہور کے اسٹوڈیو اردو فلموں کے حوالے سے ویران ہوگئے تھے اور جو اردو فلموں کے فنکار تھے وہ ٹی وی سے وابستہ ہوگئے یا پھر اپنی پروڈکشن شروع کردی تھی۔
سلطان راہی مرحوم واحد اداکار تھے جن کے دم سے ایورنیو اور شباب اسٹوڈیو میں رونقیں بحال ہوئیں وہ واحد اداکار تھے جو عمر رسیدہ ہونے کے باوجود کم عمر ہیروئنیوں کے ہیرو بنے۔ 1970ء سے لے کر 1996ء تک انھوں نے انڈسٹری پر حکومت کی ۔ ان کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں تھی ، چند سکوں کی خاطر لٹیروں نے ان سے زندگی چھین لی۔
سلطان راہی سے میری پہلی ملاقات کراچی کے میٹرو پول ہوٹل میں ہوئی۔ وہ فلم ''سڑک'' کی شوٹنگ کے لیے کراچی آئے تھے۔ تقریباً دو گھنٹے کی ملاقات میں ان سے بہت باتیں ہوئیں۔ دوران انٹرویو ہم نے ان سے پوچھا '' راہی صاحب! آپ کی اردو بہت اچھی ہے جب کہ آپ پنجابی فلموں کے ہیرو ہیں۔''
انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا '' میری مادری زبان اردو ہے اور میرا تعلق یوپی سے ہے۔ جب پاکستان بنا تو میں دس سال کا تھا، پنڈی ہجرت کر کے آئے یہاں سے میں نے میٹرک کیا اور پنڈی کے صدر بازار میں ایک دکان میں سیلز مین کی جاب کر لی اور پھر یہاں سے فلمی صنعت کا رخ کر لیا ۔ یہاں اخلاق احمد انصاری نے مجھے رہائش دی اور پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ اداکار سدھیر نیک آدمی تھے انھوں نے مجھے فلم ''بابل'' میں کاسٹ کروا دیا اور پھر میں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ اسلم ڈار نے وحید مراد کے کہنے پر مجھے ''بشیرا'' میں کاسٹ کروایا اس فلم نے میری تقدیر بدل دی۔ وحید مراد کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا اور پھر ''مولا جٹ'' نے مجھے سپر اسٹار بنا دیا۔''
سلطان راہی مرحوم نے 500 سے زائد فلموں میں کام کیا وہ بہت اچھے قاری تھے ، اسٹوڈیو میں مسجد تعمیر کروائی ۔ رب کریم ان کی بھی مغفرت فرمائے عجب آزاد مرد تھا۔ گزشتہ دنوں روحی بانو جو ہمارے ٹی وی کا گراں قدر اثاثہ تھیں بھی رب کی طرف لوٹ گئیں۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ آرٹسٹ اکلوتے بیٹے کے قتل کے بعد ماری ماری پھرتی رہی مگر اس مملکت خداداد میں اس کی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ کتنی بد نصیب تھی روحی بانو ، جو ترکی کے ایک اسپتال میں چند دن وینٹی لیٹر کی مہمان رہی اور پھر اس دنیا سے چلی گئی۔ 1999ء میں ان کی دوست غزالہ کے گھر لاہور میں ان سے ملاقات ہوئی۔
غزالہ کسی نجی ادارے میں اعلیٰ آفیسر تھیں اور روحی بانو سے بہت محبت کرتی تھیں۔ 1998ء میں صدارتی ایوارڈ لینے والی روحی بانو روتے روتے چلی گئی۔ انھوں نے زندگی میں راقم سے کہا تھا کہ '' ہمارے ہاں فنکار کی کوئی قدر نہیں۔ آپ ہزاروں ایوارڈز لے لیں مگر حقیقی محنت کا ایوارڈ دینے والا کوئی نہیں ۔'' مرحومہ کو ٹی وی ڈراموں میں اپنا ڈرامہ کرن کہانی بہت پسند تھا اور بقول ان کے کہ اب کرن کہانی تو ختم ہوئی اب تو صرف دل کی کہانی رہ گئی ہے۔ ان کی زندگی غموں سے بھری ہوئی تھی جس کا انھوں نے تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''آپ اسے تحریر کی زینت نہ بنائیں یہ میری آپ سے درخواست ہے اور اگر میں ان کی کہانی کو تحریر کروں تو اس کے لیے لاتعداد صفحات کی ضرورت ہوگی۔''
ہاں مجھے یاد ہے کہ راقم نے ان کا ایک انٹرویو 1989ء میں کیا تھا جو اس وقت کے سپرہٹ ماہنامہ پرچے ''فلم ایشیا'' میں شایع ہوا تھا اور پھر اس انٹرویو میں چار چاند روزنامہ ایکسپریس کے ہر دل عزیز نادر شاہ عادل نے لگائے تھے جو اس وقت فلم ایشیا کے ایڈیٹر ہوتے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں شاہ جی نے ہر جگہ اپنے قلم کے تیر چلائے۔ روحی بانو نے بتایا تھا کہ جب نصیب میں ٹھوکریں ہوں تو انسان کہاں تک چل سکتا ہے۔ ان کی ازدواجی زندگی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے بعد بکھر گئی جس کا انھیں بہت ملال تھا اور پھر اکلوتے بیٹے علی کے قتل نے تو انھیں نوک دار سلاخوں میں چن دیا تھا ان حالات میں وہ سابق صدر پرویز مشرف کا ذکر بہت خلوص اور محبت سے کرتی رہیں۔
گفتگو کے دریا میں وہ ہم سے کہتی ہی چلی گئیں کہ سابق صدر پرویز مشرف کی میں ذاتی طور پر مشکور ہوں کہ ان کے دور حکومت میں انھوں نے انتظامیہ سے کہہ کر میرا بھرپور خیال رکھا۔ بھارتی اداکار قادر خان مرحوم نے گلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں شوبزنس صرف شو ہی شو ہے اور کچھ نہیں۔ یہاں محبتیں کوسوں دور ہوتی ہیں انھیں بھی شوبزنس کے رویے سے شکایت تھی۔ سدھیر مرحوم نے تو وصیت کی تھی کہ میرے انتقال کی خبر انڈسٹری کو مت دینا یہاں وفا عروج میں بکتی ہے اور جب انھوں نے انڈسٹری چھوڑی تو انڈسٹری کے لوگوں کو بھی چھوڑ دیا تھا۔
سلطان راہی مرحوم کا جب قتل ہوا تو پاکستان کے ٹاپ ون سیاستدانوں نے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا تھا مگر آج تک ان کے قاتلوں کا سراغ نہ مل سکا۔ اب روحی بانو کے انتقال پر پھر وہی روایتی بیان منظر عام پر آگیا کہ سارے سیاستدان دل گرفتہ ہیں ان کے انتقال سے مگر عزت و آبرو کے تخت و تاج پر بیٹھنے والوں نے کبھی روحی بانو کے دل کی دھڑکن اس کے وجود کا ایک حصہ جس کا نام علی تھا اس کے قاتلوں سے باز پرس نہ کی اپنے بیٹے علی کی یاد میں روحی بانو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بے یارومددگار ممتا کی ماری ماں روحی بانو اپنے علی کے پاس چلی گئی اور مزے کی بات دیکھیں کہ قانونی تقاضے جن کو پورے کرنے چاہیے تھے وہ تعزیتیں کر رہے ہیں۔
سلطان راہی مرحوم واحد اداکار تھے جن کے دم سے ایورنیو اور شباب اسٹوڈیو میں رونقیں بحال ہوئیں وہ واحد اداکار تھے جو عمر رسیدہ ہونے کے باوجود کم عمر ہیروئنیوں کے ہیرو بنے۔ 1970ء سے لے کر 1996ء تک انھوں نے انڈسٹری پر حکومت کی ۔ ان کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں تھی ، چند سکوں کی خاطر لٹیروں نے ان سے زندگی چھین لی۔
سلطان راہی سے میری پہلی ملاقات کراچی کے میٹرو پول ہوٹل میں ہوئی۔ وہ فلم ''سڑک'' کی شوٹنگ کے لیے کراچی آئے تھے۔ تقریباً دو گھنٹے کی ملاقات میں ان سے بہت باتیں ہوئیں۔ دوران انٹرویو ہم نے ان سے پوچھا '' راہی صاحب! آپ کی اردو بہت اچھی ہے جب کہ آپ پنجابی فلموں کے ہیرو ہیں۔''
انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا '' میری مادری زبان اردو ہے اور میرا تعلق یوپی سے ہے۔ جب پاکستان بنا تو میں دس سال کا تھا، پنڈی ہجرت کر کے آئے یہاں سے میں نے میٹرک کیا اور پنڈی کے صدر بازار میں ایک دکان میں سیلز مین کی جاب کر لی اور پھر یہاں سے فلمی صنعت کا رخ کر لیا ۔ یہاں اخلاق احمد انصاری نے مجھے رہائش دی اور پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ اداکار سدھیر نیک آدمی تھے انھوں نے مجھے فلم ''بابل'' میں کاسٹ کروا دیا اور پھر میں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ اسلم ڈار نے وحید مراد کے کہنے پر مجھے ''بشیرا'' میں کاسٹ کروایا اس فلم نے میری تقدیر بدل دی۔ وحید مراد کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا اور پھر ''مولا جٹ'' نے مجھے سپر اسٹار بنا دیا۔''
سلطان راہی مرحوم نے 500 سے زائد فلموں میں کام کیا وہ بہت اچھے قاری تھے ، اسٹوڈیو میں مسجد تعمیر کروائی ۔ رب کریم ان کی بھی مغفرت فرمائے عجب آزاد مرد تھا۔ گزشتہ دنوں روحی بانو جو ہمارے ٹی وی کا گراں قدر اثاثہ تھیں بھی رب کی طرف لوٹ گئیں۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ آرٹسٹ اکلوتے بیٹے کے قتل کے بعد ماری ماری پھرتی رہی مگر اس مملکت خداداد میں اس کی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ کتنی بد نصیب تھی روحی بانو ، جو ترکی کے ایک اسپتال میں چند دن وینٹی لیٹر کی مہمان رہی اور پھر اس دنیا سے چلی گئی۔ 1999ء میں ان کی دوست غزالہ کے گھر لاہور میں ان سے ملاقات ہوئی۔
غزالہ کسی نجی ادارے میں اعلیٰ آفیسر تھیں اور روحی بانو سے بہت محبت کرتی تھیں۔ 1998ء میں صدارتی ایوارڈ لینے والی روحی بانو روتے روتے چلی گئی۔ انھوں نے زندگی میں راقم سے کہا تھا کہ '' ہمارے ہاں فنکار کی کوئی قدر نہیں۔ آپ ہزاروں ایوارڈز لے لیں مگر حقیقی محنت کا ایوارڈ دینے والا کوئی نہیں ۔'' مرحومہ کو ٹی وی ڈراموں میں اپنا ڈرامہ کرن کہانی بہت پسند تھا اور بقول ان کے کہ اب کرن کہانی تو ختم ہوئی اب تو صرف دل کی کہانی رہ گئی ہے۔ ان کی زندگی غموں سے بھری ہوئی تھی جس کا انھوں نے تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''آپ اسے تحریر کی زینت نہ بنائیں یہ میری آپ سے درخواست ہے اور اگر میں ان کی کہانی کو تحریر کروں تو اس کے لیے لاتعداد صفحات کی ضرورت ہوگی۔''
ہاں مجھے یاد ہے کہ راقم نے ان کا ایک انٹرویو 1989ء میں کیا تھا جو اس وقت کے سپرہٹ ماہنامہ پرچے ''فلم ایشیا'' میں شایع ہوا تھا اور پھر اس انٹرویو میں چار چاند روزنامہ ایکسپریس کے ہر دل عزیز نادر شاہ عادل نے لگائے تھے جو اس وقت فلم ایشیا کے ایڈیٹر ہوتے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں شاہ جی نے ہر جگہ اپنے قلم کے تیر چلائے۔ روحی بانو نے بتایا تھا کہ جب نصیب میں ٹھوکریں ہوں تو انسان کہاں تک چل سکتا ہے۔ ان کی ازدواجی زندگی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے بعد بکھر گئی جس کا انھیں بہت ملال تھا اور پھر اکلوتے بیٹے علی کے قتل نے تو انھیں نوک دار سلاخوں میں چن دیا تھا ان حالات میں وہ سابق صدر پرویز مشرف کا ذکر بہت خلوص اور محبت سے کرتی رہیں۔
گفتگو کے دریا میں وہ ہم سے کہتی ہی چلی گئیں کہ سابق صدر پرویز مشرف کی میں ذاتی طور پر مشکور ہوں کہ ان کے دور حکومت میں انھوں نے انتظامیہ سے کہہ کر میرا بھرپور خیال رکھا۔ بھارتی اداکار قادر خان مرحوم نے گلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں شوبزنس صرف شو ہی شو ہے اور کچھ نہیں۔ یہاں محبتیں کوسوں دور ہوتی ہیں انھیں بھی شوبزنس کے رویے سے شکایت تھی۔ سدھیر مرحوم نے تو وصیت کی تھی کہ میرے انتقال کی خبر انڈسٹری کو مت دینا یہاں وفا عروج میں بکتی ہے اور جب انھوں نے انڈسٹری چھوڑی تو انڈسٹری کے لوگوں کو بھی چھوڑ دیا تھا۔
سلطان راہی مرحوم کا جب قتل ہوا تو پاکستان کے ٹاپ ون سیاستدانوں نے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا تھا مگر آج تک ان کے قاتلوں کا سراغ نہ مل سکا۔ اب روحی بانو کے انتقال پر پھر وہی روایتی بیان منظر عام پر آگیا کہ سارے سیاستدان دل گرفتہ ہیں ان کے انتقال سے مگر عزت و آبرو کے تخت و تاج پر بیٹھنے والوں نے کبھی روحی بانو کے دل کی دھڑکن اس کے وجود کا ایک حصہ جس کا نام علی تھا اس کے قاتلوں سے باز پرس نہ کی اپنے بیٹے علی کی یاد میں روحی بانو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بے یارومددگار ممتا کی ماری ماں روحی بانو اپنے علی کے پاس چلی گئی اور مزے کی بات دیکھیں کہ قانونی تقاضے جن کو پورے کرنے چاہیے تھے وہ تعزیتیں کر رہے ہیں۔