پاکستان کی جیت کا سہرا کس کے سر پر
اگر عمران خان جیت رہے ہیں تو انھیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ دنیا ہم پر کن کن باتوں پر اعتراض کر رہی ہے۔
عمران خان کی حکومت نے پاکستان کے عوام کی یہ خواہش تو پوری کر دی کہ پاکستان صرف امن کا خواہاں ہی نہیں بلکہ اپنی حفاظت کرنا بھی جانتا ہے۔ دو طیارے مارنے اور ونگ کمانڈر ابھے نندن کو گرفتار کر کے پاکستان نے بتایا کہ وہ دن گئے جب سیاسی اقتدارپر فائز حکمران نریندر مودی کے ''گرو'' کہلواتے تھے اور اٹل بہاری واجپائی کو ''معصوم'' کہتے نہیں تھکتے تھے ۔
جب حکمران اپنی فوجی قیادت کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے اور کلبھوشن یادیو کا نام لینے سے گھبراتے تھے ۔لیکن آج پاکستان میں صحیح قیادت کی وجہ سے بھارت کو منہ توڑ جواب دینے میں کسی نے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جس کی وجہ سے بھارت کی غیر اعلانیہ جنگ شروع ہوتے ہی ختم بھی ہو گئی، ایٹمی جنگ کا خطرہ اور خدشہ ٹل گیا۔
آج وزیراعظم عمران خان جشن فتح کے بجائے بھارت کو مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں۔جب کہ بھارت کا جنگی جنون بھی کم و بیش ختم ہو چکا ہے اور وزیر خارجہ سشما سوراج یہ کہتی پائی جا رہی ہیں کہ ''بھارت مذاکرات کے لیے تیار ہے، جنگ سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا، دونوں ممالک کی سرحدوں کے درمیان کشیدگی سے پورے خطے میں منفی اثرات مرتب ہوں گے۔''
طیارے تباہ ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد ہی لب ولہجہ اور مزاج بدل گیا، ورنہ تو امریکی صدر نے بھی کہہ دیا تھا کہ ''حالات'' بہت خراب ہیں۔ وزیراعظم عمران اس بحران میں سے مدبر بن کر ابھرے ہیں جب کہ مودی نے اپنے آپ کوانتہاپسند ثابت کر دیا ہے۔ مودی پر ان کی اپنی اپوزیشن لعن طعن کررہی ہے۔ پاکستان کی طرف سے مسلسل امن اور مذاکرات کے لیے اصرار کا پیغام ، زیادہ موثر ثابت ہوا۔
بدھ کے پاکستانی جواب سے پہلے تین چار دن سے بھارتی چینل وار ہسٹیریا کا شکار تھے۔ اب ان میں سے بعض سنبھل رہے ہیں۔ عمران خاں کے خطاب نے بھارتیوں کو سوچنے پر آمادہ کیا۔ سب سے اہم این ڈی ٹی وی کے رویے میں واضح تبدیلی ہے۔ کچھ بھارتی سیاست دان بھی کہہ اٹھے کہ نریندر مودی اپنی سیاست کے لیے دفاعی ترجیحات طے کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ پاکستان کی بہترین حکمت عملی تھی کہ موثر ''جواب'' دینے کے بعد ایک بار پھر بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی۔
بھارتیوں کو یاد دلایا گیاکہ دوسری عالمگیر جنگ چند ہفتوں کے بجائے چھ سال پر محیط ہو گئی تھی۔یعنی جنگی قوتیں بے لگام ہو جائیں' تو کسی کے بس میں نہیں رہتیں۔خیال یہ ہے کہ عمران خان کے اسی جملے نے بعض بھارتی سیاست دانوں اور دانش وروں کو متاثر کیا۔ بدھ کو' صرف چند گھنٹوں میں پاکستانی قوم زیادہ متحد ہو گئی اور بھارت میں اختلاف پھوٹابقول شاعر ۔
ہم چٹانیں ہیں کوئی ریت کے ساحل تو نہیں
شوق سے شہر پناہ میں لگا دو ہم کو
خیر پاکستان کا موقف جاندار ہے اور قیام امن کی خواہش کا آئینہ دار۔ لہٰذایہ وقت ہے کہ اگر عمران خان جیت رہے ہیں تو انھیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ دنیا ہم پر کن کن باتوں پر اعتراض کر رہی ہے۔ اگر پلوامہ میں حملے کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی ہے ، وہ ہمیں خود احتسابی کا درس بھی دیتی ہے کہ ماضی سے جان چھڑانا ضروری ہوگیا ، اب انتہاپسند تنظیموں کی موجودگی کے ساتھ ملک نہیں چل سکتا۔ لہٰذاموجودہ حکومت کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ سابقہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دنیا ہم سے متنفر کیوں ہوئی ہے؟جب دنیا یہ جانتی ہے کہ پاکستانی دنیا کی چار ذہین ترین اقوام میں سے ایک ہے تو وہ اس سے نفرت کیوں کرتے ہیں۔
دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ دو میدانوں میں ان کی برتری مسلمہ ہے۔ زبان دانی اور جنگ جوئی۔افسوس کہ منصوبہ بندی میں کمزور ہیں۔ ایک عشرہ پہلے پیرس میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق یورپی طلبہ دو سال میں فرانسیسی زبان میں مہارت پاتے ہیں۔ پاکستانی زیادہ سے زیادہ ایک سال میں۔ ایف 16 کے لیے اسرائیلی پائلٹ دو سال میدان میں رہتے ہیں۔ پاکستانی پائلٹ نو ماہ میں ہم پلّہ ہو جاتے ہیں۔ 1973ء میں پاکستانی فضائیہ کے دلاوروں نے دمشق کو اسرائیلی یلغار سے بچا لیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1965ء کی جنگ میں لاہور کے محافظ اور 1970ء میں اپنے انتخابی حریف جنرل سرفراز کو شام میں سفیر بنا کر بھیجا تھا۔
لہٰذابادی النظر میں پہلی دفعہ اس ملک کو ایسی نئی قیادت برسر اقتدار آئی ہے، جو وہ کہہ رہی ہے وہ کر بھی رہی ہے۔ اور ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ وزیر اعظم کے ساتھ فوج بھی متفق ہے،اور اُسے اُس پر اعتماد بھی ہے ورنہ خاص طور پر سابقہ دونوں حکومتوں پر اعتماد نہیں تھا۔ پچھلے دونوں ادوار میں پانچ پانچ سال حکومتیں اپنی فوج ہی کے ساتھ لڑتی دکھائی دیں۔ میمو گیٹ سکینڈل سب کے سامنے ہے۔
بہرکیف جنگ میں حقیقی طور پر شکست انسانیت ہی کی ہوتی ہے، اگر ٹرک اور سائیکل میں بھی ایکسیڈنٹ ہو تو نقصان تو دونوں ہی کا ہوتا ہے، ٹرک کا نقصان کچھ بھی نہ ہو مگر وہ 2چار گھنٹے لیٹ ضرور ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں پاکستان اپنی اسٹرٹیجک پوزیشن کا فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ دونوں مرعوب و خوفزدہ ذہنیت کے مالک ہیں نہ قومی ایشوز پر کنفیوژ اور نہ ذاتی، خاندانی اور کاروباری مفادات کے اسیر۔ بھارت کی خوش فہمی دور نہیں ہوئی تو انتظار کرے،جلد دور ہو جائے گی، شہادت کی موت طلب کرنے والی قوم کا مقابلہ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کے عادی گروہ کے بس میں نہیں۔
قیادت اور قوم دونوں کا اس جذبے سے سرشار ہونا ضروری تھا، شائد وہ وقت آ گیا۔ پاکستانی عوام جنگ کے خواہش مند نہیں، مگر جانتے ہیں۔ امن بھیک میں نہیں ملتا۔ گھوڑے تیار رکھ کر امن کی خواہش غیرت مند اور باوقار قوم کا شیوہ ہے اور پاکستانی قوم غیرت مند ہے۔ جسے یہ بھی علم ہے کہ جنگ میں جیت کسی کی نہیں ہوتی بلکہ انسانیت کی ہار ضرور ہوتی ہے۔ لہٰذاپاکستان کی موجودہ قیادت جنگ کی خواہاں تو نہیں مگر جیتنا اُسے ضرور آتا ہے ورنہ وہ کرپشن کے خلاف جنگ بھی کب کی ہار چکی ہوتی!!!
جب حکمران اپنی فوجی قیادت کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے اور کلبھوشن یادیو کا نام لینے سے گھبراتے تھے ۔لیکن آج پاکستان میں صحیح قیادت کی وجہ سے بھارت کو منہ توڑ جواب دینے میں کسی نے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جس کی وجہ سے بھارت کی غیر اعلانیہ جنگ شروع ہوتے ہی ختم بھی ہو گئی، ایٹمی جنگ کا خطرہ اور خدشہ ٹل گیا۔
آج وزیراعظم عمران خان جشن فتح کے بجائے بھارت کو مذاکرات کی دعوت دے رہے ہیں۔جب کہ بھارت کا جنگی جنون بھی کم و بیش ختم ہو چکا ہے اور وزیر خارجہ سشما سوراج یہ کہتی پائی جا رہی ہیں کہ ''بھارت مذاکرات کے لیے تیار ہے، جنگ سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا، دونوں ممالک کی سرحدوں کے درمیان کشیدگی سے پورے خطے میں منفی اثرات مرتب ہوں گے۔''
طیارے تباہ ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد ہی لب ولہجہ اور مزاج بدل گیا، ورنہ تو امریکی صدر نے بھی کہہ دیا تھا کہ ''حالات'' بہت خراب ہیں۔ وزیراعظم عمران اس بحران میں سے مدبر بن کر ابھرے ہیں جب کہ مودی نے اپنے آپ کوانتہاپسند ثابت کر دیا ہے۔ مودی پر ان کی اپنی اپوزیشن لعن طعن کررہی ہے۔ پاکستان کی طرف سے مسلسل امن اور مذاکرات کے لیے اصرار کا پیغام ، زیادہ موثر ثابت ہوا۔
بدھ کے پاکستانی جواب سے پہلے تین چار دن سے بھارتی چینل وار ہسٹیریا کا شکار تھے۔ اب ان میں سے بعض سنبھل رہے ہیں۔ عمران خاں کے خطاب نے بھارتیوں کو سوچنے پر آمادہ کیا۔ سب سے اہم این ڈی ٹی وی کے رویے میں واضح تبدیلی ہے۔ کچھ بھارتی سیاست دان بھی کہہ اٹھے کہ نریندر مودی اپنی سیاست کے لیے دفاعی ترجیحات طے کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں یہ پاکستان کی بہترین حکمت عملی تھی کہ موثر ''جواب'' دینے کے بعد ایک بار پھر بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی۔
بھارتیوں کو یاد دلایا گیاکہ دوسری عالمگیر جنگ چند ہفتوں کے بجائے چھ سال پر محیط ہو گئی تھی۔یعنی جنگی قوتیں بے لگام ہو جائیں' تو کسی کے بس میں نہیں رہتیں۔خیال یہ ہے کہ عمران خان کے اسی جملے نے بعض بھارتی سیاست دانوں اور دانش وروں کو متاثر کیا۔ بدھ کو' صرف چند گھنٹوں میں پاکستانی قوم زیادہ متحد ہو گئی اور بھارت میں اختلاف پھوٹابقول شاعر ۔
ہم چٹانیں ہیں کوئی ریت کے ساحل تو نہیں
شوق سے شہر پناہ میں لگا دو ہم کو
خیر پاکستان کا موقف جاندار ہے اور قیام امن کی خواہش کا آئینہ دار۔ لہٰذایہ وقت ہے کہ اگر عمران خان جیت رہے ہیں تو انھیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ دنیا ہم پر کن کن باتوں پر اعتراض کر رہی ہے۔ اگر پلوامہ میں حملے کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی ہے ، وہ ہمیں خود احتسابی کا درس بھی دیتی ہے کہ ماضی سے جان چھڑانا ضروری ہوگیا ، اب انتہاپسند تنظیموں کی موجودگی کے ساتھ ملک نہیں چل سکتا۔ لہٰذاموجودہ حکومت کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ سابقہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دنیا ہم سے متنفر کیوں ہوئی ہے؟جب دنیا یہ جانتی ہے کہ پاکستانی دنیا کی چار ذہین ترین اقوام میں سے ایک ہے تو وہ اس سے نفرت کیوں کرتے ہیں۔
دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ دو میدانوں میں ان کی برتری مسلمہ ہے۔ زبان دانی اور جنگ جوئی۔افسوس کہ منصوبہ بندی میں کمزور ہیں۔ ایک عشرہ پہلے پیرس میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق یورپی طلبہ دو سال میں فرانسیسی زبان میں مہارت پاتے ہیں۔ پاکستانی زیادہ سے زیادہ ایک سال میں۔ ایف 16 کے لیے اسرائیلی پائلٹ دو سال میدان میں رہتے ہیں۔ پاکستانی پائلٹ نو ماہ میں ہم پلّہ ہو جاتے ہیں۔ 1973ء میں پاکستانی فضائیہ کے دلاوروں نے دمشق کو اسرائیلی یلغار سے بچا لیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1965ء کی جنگ میں لاہور کے محافظ اور 1970ء میں اپنے انتخابی حریف جنرل سرفراز کو شام میں سفیر بنا کر بھیجا تھا۔
لہٰذابادی النظر میں پہلی دفعہ اس ملک کو ایسی نئی قیادت برسر اقتدار آئی ہے، جو وہ کہہ رہی ہے وہ کر بھی رہی ہے۔ اور ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ وزیر اعظم کے ساتھ فوج بھی متفق ہے،اور اُسے اُس پر اعتماد بھی ہے ورنہ خاص طور پر سابقہ دونوں حکومتوں پر اعتماد نہیں تھا۔ پچھلے دونوں ادوار میں پانچ پانچ سال حکومتیں اپنی فوج ہی کے ساتھ لڑتی دکھائی دیں۔ میمو گیٹ سکینڈل سب کے سامنے ہے۔
بہرکیف جنگ میں حقیقی طور پر شکست انسانیت ہی کی ہوتی ہے، اگر ٹرک اور سائیکل میں بھی ایکسیڈنٹ ہو تو نقصان تو دونوں ہی کا ہوتا ہے، ٹرک کا نقصان کچھ بھی نہ ہو مگر وہ 2چار گھنٹے لیٹ ضرور ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں پاکستان اپنی اسٹرٹیجک پوزیشن کا فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ دونوں مرعوب و خوفزدہ ذہنیت کے مالک ہیں نہ قومی ایشوز پر کنفیوژ اور نہ ذاتی، خاندانی اور کاروباری مفادات کے اسیر۔ بھارت کی خوش فہمی دور نہیں ہوئی تو انتظار کرے،جلد دور ہو جائے گی، شہادت کی موت طلب کرنے والی قوم کا مقابلہ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کے عادی گروہ کے بس میں نہیں۔
قیادت اور قوم دونوں کا اس جذبے سے سرشار ہونا ضروری تھا، شائد وہ وقت آ گیا۔ پاکستانی عوام جنگ کے خواہش مند نہیں، مگر جانتے ہیں۔ امن بھیک میں نہیں ملتا۔ گھوڑے تیار رکھ کر امن کی خواہش غیرت مند اور باوقار قوم کا شیوہ ہے اور پاکستانی قوم غیرت مند ہے۔ جسے یہ بھی علم ہے کہ جنگ میں جیت کسی کی نہیں ہوتی بلکہ انسانیت کی ہار ضرور ہوتی ہے۔ لہٰذاپاکستان کی موجودہ قیادت جنگ کی خواہاں تو نہیں مگر جیتنا اُسے ضرور آتا ہے ورنہ وہ کرپشن کے خلاف جنگ بھی کب کی ہار چکی ہوتی!!!