سندھ کا سیاسی مستقبل

سندھ میں پہلی بار متحدہ کی پیپلز پارٹی سے رفاقت ساڑھے چار سال تک چلی ہے

ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت متاثر نہیں ہوئی جب کہ دوسرے صوبوں میں ضرور متاثر ہوئی ہے جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن اپنی مقبولیت بڑھنے کے بعد سب سے آگے ہے۔ سندھ کی موجودہ پارلیمانی صورت حال میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ ہم خیال اور مسلم لیگ (ق) اور فنکشنل لیگ، ANP اسمبلیوں اور سینیٹ میں موجود ہیں جب کہ سندھ کے حوالے سے مسلم لیگ (ن)، جماعتِ اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان، تحریک انصاف اور سندھی قوم پرستوں کی سندھ اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کوئی نمائندگی نہیں ہے۔

2002 کے عام انتخابات میں متحدہ مجلسِ عمل کے پلیٹ فارم سے صرف کراچی میں جے یو آئی اور جماعتِ اسلامی کے کچھ ارکان منتخب ہوئے تھے اور آنے والے انتخابات میں ایم ایم اے کی طرح کوئی مذہبی سیاسی اتحاد قائم ہوا تو کراچی، حیدرآباد سے دوبارہ انھیں کچھ کامیابی مل سکتی ہے۔ حیدرآباد سے بھی ایم ایم اے نے قومی اسمبلی کی ایک نشست حاصل کی تھی۔ سندھ کی قوم پرست جماعتوں میں اب تک صرف جلال محمود شاہ اور امیر بخش بھٹو ہی سندھ اسمبلی میں منتخب ہوئے تھے جب کہ ممتاز علی بھٹو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر تو متعدد بار کامیاب ہوئے مگر اب وہ قوم پرستی اور کنفیڈریشن کی سیاست چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) کا حصّہ بن چکے ہیں۔

سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے بھی اپنے سیاسی اتحاد کے لیے ایک پلیٹ فارم بنایا تھا جس میں شامل ہونے کے باوجود سندھ یونائیٹڈ پارٹی مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کرچکی ہے۔ سندھ میں مسلم لیگ، فنکشنل لیگ پہلے خیرپور، سانگھڑ اور میرپور اضلاع تک محدود تھیں مگر پھر بھی ان کے ریکارڈ کے مطابق ان کے محمد خان جونیجو ملک کے وزیراعظم اور مظفر حسین شاہ سندھ کے وزیراعلیٰ منتخب ہوچکے ہیں اور قاضی اختر بھی مسلم لیگ فنکشنل کی وجہ سے نواز شریف دور میں سندھ کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے جب کہ مسلم لیگ (ن) کے دو رہنما غوث علی شاہ اور لیاقت جتوئی بھی مسلم لیگ فنکشنل، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سے توڑے گئے ارکان اسمبلی کی مدد سے وزیر اعلیٰ سندھ منتخب ہوئے تھے۔

سندھ کی سیاست میں پیپلز پارٹی جب بھی وفاق میں حکومت نہیں بناسکی تب بھی سندھ اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں رکھنے کے باوجود وہ کبھی سندھ میں اپنی حکومت نہیں بناسکی اور اس کے ارکان لوٹے بننے میں کبھی پیچھے نہیں رہے۔ سندھ میں پہلی بار متحدہ کی پیپلز پارٹی سے رفاقت ساڑھے چار سال تک چلی ہے اور یہی دونوں بڑی پارٹیاں دیہی اور شہری سندھ کی ڈھائی عشروں سے نمایندگی کر رہی ہیں۔ متحدہ 1988 سے صرف ایک بار کے سوا سندھ کی ہر حکومت میں شامل رہی ہے اور 1992 میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے شروع کیے گئے آپریشن کا شکار ہوئی تھی، جسے پیپلز پارٹی نے اپنے دوسرے دور میں انتہا پر پہنچا دیا تھا اور دونوں ایک دوسرے سے بہت دور چلی گئی تھیں جب کہ نواز شریف نے اپنے دوسرے دور میں متحدہ کی مدد سے پہلی بار مسلم لیگ (ن) کا وزیر اعلیٰ منتخب کرایا تھا مگر بعد میں گورنر راج نافذ کرکے متحدہ کو (ن) لیگ سے دور ہونے پر مجبور کردیا تھا۔


1990 میں سندھ کے ایک اور وزیر اعلیٰ جام صادق علی نے بھی متحدہ، پی پی کے لوٹوں اور فنکشنل لیگ کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی۔ اس طرح فنکشنل مسلم لیگ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں دیہی سندھ سے منتخب ہونے والی ایک ایسی پارٹی ہے جس کے سندھ میں اپنے وزیر اعلیٰ بھی رہے اور ان کی مدد کے بغیر نواز شریف اور جنرل پرویز سندھ میں کبھی اپنی حکومت نہیں بنواسکے تھے۔پہلی بار فنکشنل لیگ وفاقی اور سندھ حکومت میں پیپلزپارٹی کی حلیف بنی ہے اور امکان ہے کہ عید کے بعد فنکشنل لیگ پی پی سے اپنی پہلی چار سالہ رفاقت ختم کرسکتی ہے، کیونکہ اسے شکایت ہے کہ سندھ میں انھیں اہمیت نہیں مل رہی۔

موجودہ پیر پگارا نے اپنے والد کے دور میں ہونے والی پی پی سے مفاہمت کو اب تک برقرار رکھا ہے اور دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کے بعد اب وہ دوسری بڑی پارٹی بن گئی ہے جس میں سندھ کی ممتاز سیاسی شخصیتیں دھڑا دھڑ شمولیت اختیار کررہی ہیں اور ماضی کے بعض اہم بیورو کریٹ بھی مسلم لیگ فنکشنل میں شامل ہوچکے ہیں جب کہ سندھ کے اہم سیاسی خاندان شیرازی، مہر، جتوئی بھی سندھ میں آیندہ انتخابات میں فنکشنل لیگ کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) بھی سندھ میں اپنے قدم مضبوط کر رہی ہے اور اس نے پہلی بار سندھ کی قوم پرست جماعتوں سے رابطے بڑھائے ہیں اور متحدہ کا سخت مخالف ہو کر سامنے آنے ہی کی وجہ سے سندھ کی بعض قوم پرست جماعتیں (ن) لیگ کے قریب آئی ہیں۔

سندھ کی تمام سیاسی جماعتیں متحدہ کی سخت مخالف ہیں اور اس وقت سندھ کی قوم پرست کسی ایک جماعت سے بھی متحدہ کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔تاہم صدر آصف علی زرداری اب تک متحدہ کو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب رہے ہیں اور اب متحدہ بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ رہنے پر مجبور ہے۔ سندھ کے تمام قوم پرست اور ملک کی دوسری بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) متحدہ کے سخت خلاف ہیں جب کہ کراچی میں جماعت اسلامی متحدہ کی حریف ہے اور مذہبی اتحاد کی صورت میں جے یو آئی، جے یو پی اور جماعت اسلامی متحد ہو کر متحدہ اور پیپلز پارٹی کا مقابلہ کریں گی۔ سندھ میں تحریکِ انصاف اب تک اپنی کوئی سیاسی حیثیت نہیں منواسکی ہے۔ کراچی، حیدرآباد میں وہ کامیاب جلسے ضرور کرچکی ہے مگر وہ ہر حکومتی حلیف سے اتحاد نہ کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔

اے این پی نے کراچی میں صرف دو صوبائی نشستیں جیتی تھیں اور وہ کے کے پی میں اپنی حکومت بچانے کے لیے پیپلز پارٹی کے ساتھ چلنے پر مجبور ہیں اور وہ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ وہ سندھ حکومت سے مطمئن نہیں مگر وہ حکومت کے بغیر رہ بھی نہیں سکتی اور اس کا منشور ہر حالت میں متحدہ کی مخالفت ہے۔

اندرون سندھ فنکشنل لیگ پیپلز پارٹی کے متبادل کے طور پر ابھر رہی ہے اور جو سندھی سیاست دان پیپلز پارٹی میں شامل نہیں ہونا چاہتے وہ فنکشنل لیگ کے قریب آچکے ہیں اور عید کے بعد سندھ کی سیاست میں اہم تبدیلیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
Load Next Story