مقامی حکومتی نظام کا مستقبل… آخری حصہ
اکثر یونین کونسلز میں باقاعدہ ماہانہ اجلاس نہ ہوسکے۔ اکثر یونین کونسل کے اجلاسوں میں خواتین کونسلرز غیر حاضر ہوتیں...
اکثر یونین کونسلز میں باقاعدہ ماہانہ اجلاس نہ ہوسکے۔ اکثر یونین کونسل کے اجلاسوں میں خواتین کونسلرز غیر حاضر ہوتیں اور ان کی جگہ مرد ان کی نمایندگی کرتے بھی دیکھے گئے زیادہ تر چونگی کے غیر تربیت یافتہ محرروں کو سیکریٹری یونین کونسل کی ذمے داریاں دے دی گئیں جنھیں بلدیاتی نظام کا کوئی تجربہ نہ تھا اور ان کی تربیت کا کوئی مناسب انتظام بھی نہ کیا گیا۔ اس نظام میں عوامی نمایندگی کو موثر بنانے کے لیے محلے اور ولیج کی سطح پر محلہ کمیٹیاں اور ویلج کونسل قائم ہونی تھیں، لیکن حکومتی نوٹیفکیشن کے باوجود محلہ اور گائوں کی سطح پر یہ کمیٹیاں قائم نہ ہو سکیں۔ ان کا انتخاب تحصیل کونسل کی ذمے داری تھی۔ اسی طرح یونین کونسل کی سطح پرمصالحتی کونسل رکھی گئی تھی۔
جسے ہم مقامی سطح کی قانونی پنچائیت بھی کہہ سکتے ہیں جس کا کام عوام کو پولیس کے ظالمانہ نظام سے نجات دلا کر چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کا فیصلہ مقامی سطح پرکرنا تھا۔ مصالحتی کونسل کے ممبران تو نامزد ہوئے لیکن یہ مصالحتی کونسلیں بھی اپنا کام کرنے میں ناکام رہیں نہ تو انہیں اپنے اختیارات کا علم تھا، اور نہ ہی ان کے فیصلوں کو کوئی ماننے کے لیے تیار ہوا۔ اسی نظام کا ایک اوراہم ترین جزو عوامی رضا کار بورڈز تھے جس میں 25 غیر منتخب افراد بورڈ بنا کر یونین کونسل، تحصیل کونسل اور ضلع کونسل سے فنڈز حاصل کرسکتے تھے۔ پہلے دو سال تک حکومت اور عوام سی سی بی کے نظام کو سمجھنے سے قاصر رہے۔
آخری برسوں میں این آر بی اور کچھ غیر سرکاری اداروں کی کوششوں سے سی سی بی کا تصور واضح ہوا لیکن سی سی بی کے رکھے گئے 25% فیصد فنڈز اکثر اضلاع میں استعمال نہیں ہو سکے چند اضلاع کے علاوہ اکثر اضلاع میں بیوروکریسی ان فنڈز کے استعمال میں سب سے بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آئی۔ کچھ ضلع ناظمین بھی غیر منتخب لوگوں کے ذریعے اس فنڈز کے استعمال کو پسند نہیں کرتے تھے۔ کچھ اضلاع میں من پسند افراد کے ذریعے بھی سی سی بی بنواکر اس فنڈز کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ حکومت اور غیر حکومتی اداروں کی جانب سے اس فنڈز کے استعمال کے لیے NCHD, UNDP, DTCE, CDSP, ADBجیسے اداروں نے مالی اور تکنیکی مدد سے بھی کام شروع کیا ، اس سلسلے میں خاطر خواہ نتائج نہ نکل سکے تاہم اس حوالے سے کام میں کچھ بہتری ضرور آئی۔
اب ذرا تحصیل کونسل کا جائزہ لیں تو اس سطح پر بھی مانیٹرنگ کمیٹیاں موثر کام نہیں کر سکیں۔ تحصیل ناظم اور ضلع ناظم میں باقاعدہ رابطہ کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ تحصیل فنڈزکی کمی کا شکار اور صوبائی حکومت اور ضلع کی محتاج رہی۔ تحصیل کونسل کو شہری اور دیہی یونین کونسل دونوں کو ڈیل کرنا تھا۔ شہری مسائل کے لیے زیادہ فنڈز کی ضرورت تھی۔ سیوریج، اسٹریٹ لائٹ جیسے مسائل ایک بڑا چیلنج رہے۔ تحصیل نائب ناظم کا کونسل چلانے کے علاوہ کوئی واضح کردارنہ تھا۔ضلع کونسل کی سطح پر اگر ہم دیکھیں تو وہاں پر بھی اس نظام کے اکثر حصوں پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
خصوصاً مانیٹرنگ کمیٹیاں غیر فعال رہیں۔ ضلع کا اہم ترین ادارہ ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن جسکا کام پولیس کے خلاف شکایت کا ازالہ تھا وہ موثر نہ ہوسکا اور اس کے کام کو موثر بنانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات بھی نہ کیے جا سکے۔ ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن بنا تو ہر جگہ اور کچھ اضلا ع میں موثر انداز میں ان اداروں نے کام بھی کیا لیکن پولیس جیسے با اختیار ادارے کو کنٹرول کر نے کے لیے جس قدر اختیارات اور وسائل درکار تھے وہ نہ مل سکے، کئی اضلاع میں پولیس نے سیفٹی کمیشن کے ممبران کے خلاف جوابی کارروائیا ں بھی کیں کیو نکہ آج بھی پولیس کو مقامی وڈیر ے، جاگیردار کی آشیر باد حا صل ہے۔ ضلعی محتسب کا تقرر نہ ہوسکا۔ جسکی وجہ سے مالیاتی کرپشن کی شکایات سامنے آئیں۔
اس نظام میں ضلع ناظمین اور ڈی سی اوز کے درمیان کوآرڈینیشن کی کمی رہی اکثر اضلاع میں دونوں کے درمیان اختیارات کی جنگ چلتی رہی۔ مختلف محکموں کے افسران اور ضلع حکومت کے درمیان وہ کوآرڈینیشن قائم نہیں ہو سکی جو اس نظام میں دی گئی تھی۔ 33 فیصد خواتین کی نمایندگی اس نظام کی اہم خصوصیت تھی لیکن ان خواتین کو نہ تو اختیارات مل سکے اور نہ فنڈز۔ اکثر خواتین کو شکایت کا سامنا رہا، یونین ناظم، تحصیل ناظم اور ضلع ناظم اور نائب ناظمین کو اعزازیہ ملتا رہا جب کہ پورے کئی سال خواتین اعزازیے کے لیے آواز بلند کرتی رہیں، زیادہ ترخواتین کونسلرز کو مشینیں دے کر ٹرخایا جاتا رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ترقی وخوشحالی اور عوام کو باشعور اور با اختیار بنانے کی ضمانت، اس نظام کو کسی بھی ضلع میں تمام تر آئینی تقاضوں کے مطابق نہیں چلایا گیا یا چلنے نہیں دیا گیا اسی لیے جو کچھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس میں تحریر تھا اس پر عمل بھی نہ ہوسکا۔ تاہم اس نظام کی خوبیاں خامیوں پر حاوی نظر آتی ہیں، ترقیاتی سرگرمیوں کے حوالے اس نظام کے تحت ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے۔ بڑے بڑے شہروں با لخصوص کراچی، حیدر آباد اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں کا تونقشہ بدل گیا۔ اضلاع کو ریکارڈ ترقیاتی فنڈز ملے۔ ضلع ناظمین بالخصوص سٹی ڈسٹرکٹ ناظمین کو بے شمار اختیارات ملے تحصیل ناظمین ،ٹائون ناظمین اور یونین ناظمین ترقیاتی عمل کا حصہ رہے۔
عوام کو ایم این اے، ایم پی اے کے ڈیروںکی بجائے ناظمین کے ذریعے مسائل حل کرانے کا موقع ملا۔ سرکاری دفاتر تک عوام کی رسائی ہوئی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ عوام کا اکثریتی طبقہ، کونسلرز خواتین کونسلرز اور عام شہری براہِ راست اقتدار اور اختیار حاصل نہ کر سکے لیکن کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہوتا ہے۔ اس نظام کی بدولت اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کا عمل ایم این اے، ایم پی اے اور بیورو کریسی سے نکل کرضلع ناظم، تحصیل ناظم اور یونین ناظم تک تو ضرور پہنچا ہے اور وہ با اختیار بھی رہے ہیں۔ اگر اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو یہ نظام جہاں عوام میں شعور بیدار کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرسکتا ہے، انہیں با اختیاربنا سکتا ہے وہاں اس کے ذریعے حقیقی جمہوریت قائم کرکے ملک و قوم کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔
اس نظام نے برسوں سے قائم فرسودہ نظام کو تبدیل کیا ہے اوراتنے طویل عرصے سے قائم کسی نظام کو تبدیل کرنے اور اس کی جگہ نئے نظام کو نافذ کرنے کا عرصہ کم ہے۔ اس نئے نظام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے کچھ عرصہ ضرور درکار تھا اور اس نظام میں کچھ بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ جس میں مجسٹریٹی نظام کی بحالی، ضلع ناظم کا براہ راست انتخاب، یونین کونسل کو زیادہ فنڈ کی فراہمی، اور اس طرح کی دیگر ترامیم کی جائیں۔ تاہم جب قوم کو اس نئے نظام سے آگاہ کیا گیاہے۔ کروڑوں کے فنڈز اس کی تشہیر پر خرچ کیے گئے۔ اس نظام کو ختم کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ انتخابات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے تاکہ آیندہ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والے ادارے گزشتہ اداروں کی نسبت زیادہ طاقتور ہوسکیں۔ ضروری ہے کہ حکومت اس نظام میں ایسی تبدیلیاں کرے جس سے اس کی بنیادی خامیاں دور کی جاسکیں، اس کو ختم نہ کیا جائے۔اس نظام کو ختم کرکے 1979ء کے پرانے فرسودہ نظام کو مسلط کرنا عوام دشمنی کے مترادف ہے۔
کیونکہ محروم طبقات خصوصاً خواتین، مزدور، کسانوں اور اقلیتوں کی بھر پور نمایندگی کے باعث ہی اختیار اور اقتدار عوام تک پہنچ سکتے ہیں اور جب تک محروم طبقات ترقی کے عمل میں بااختیار انداز میں شامل نہیں ہونگے محرومیاں دور نہیں ہونگی۔ پاکستان ترقی نہیں کرسکتا ہمیں اقتدار ان طبقات تک پہنچاناہے جو 65 سال سے اقتدار سے باہرہیں اور اس کا واحد طریقہ صرف یہی ہے کہ جمہوری عمل جاری رہنا چاہیے۔
جسے ہم مقامی سطح کی قانونی پنچائیت بھی کہہ سکتے ہیں جس کا کام عوام کو پولیس کے ظالمانہ نظام سے نجات دلا کر چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کا فیصلہ مقامی سطح پرکرنا تھا۔ مصالحتی کونسل کے ممبران تو نامزد ہوئے لیکن یہ مصالحتی کونسلیں بھی اپنا کام کرنے میں ناکام رہیں نہ تو انہیں اپنے اختیارات کا علم تھا، اور نہ ہی ان کے فیصلوں کو کوئی ماننے کے لیے تیار ہوا۔ اسی نظام کا ایک اوراہم ترین جزو عوامی رضا کار بورڈز تھے جس میں 25 غیر منتخب افراد بورڈ بنا کر یونین کونسل، تحصیل کونسل اور ضلع کونسل سے فنڈز حاصل کرسکتے تھے۔ پہلے دو سال تک حکومت اور عوام سی سی بی کے نظام کو سمجھنے سے قاصر رہے۔
آخری برسوں میں این آر بی اور کچھ غیر سرکاری اداروں کی کوششوں سے سی سی بی کا تصور واضح ہوا لیکن سی سی بی کے رکھے گئے 25% فیصد فنڈز اکثر اضلاع میں استعمال نہیں ہو سکے چند اضلاع کے علاوہ اکثر اضلاع میں بیوروکریسی ان فنڈز کے استعمال میں سب سے بڑی رکاوٹ کے طور پر سامنے آئی۔ کچھ ضلع ناظمین بھی غیر منتخب لوگوں کے ذریعے اس فنڈز کے استعمال کو پسند نہیں کرتے تھے۔ کچھ اضلاع میں من پسند افراد کے ذریعے بھی سی سی بی بنواکر اس فنڈز کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔ حکومت اور غیر حکومتی اداروں کی جانب سے اس فنڈز کے استعمال کے لیے NCHD, UNDP, DTCE, CDSP, ADBجیسے اداروں نے مالی اور تکنیکی مدد سے بھی کام شروع کیا ، اس سلسلے میں خاطر خواہ نتائج نہ نکل سکے تاہم اس حوالے سے کام میں کچھ بہتری ضرور آئی۔
اب ذرا تحصیل کونسل کا جائزہ لیں تو اس سطح پر بھی مانیٹرنگ کمیٹیاں موثر کام نہیں کر سکیں۔ تحصیل ناظم اور ضلع ناظم میں باقاعدہ رابطہ کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ تحصیل فنڈزکی کمی کا شکار اور صوبائی حکومت اور ضلع کی محتاج رہی۔ تحصیل کونسل کو شہری اور دیہی یونین کونسل دونوں کو ڈیل کرنا تھا۔ شہری مسائل کے لیے زیادہ فنڈز کی ضرورت تھی۔ سیوریج، اسٹریٹ لائٹ جیسے مسائل ایک بڑا چیلنج رہے۔ تحصیل نائب ناظم کا کونسل چلانے کے علاوہ کوئی واضح کردارنہ تھا۔ضلع کونسل کی سطح پر اگر ہم دیکھیں تو وہاں پر بھی اس نظام کے اکثر حصوں پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
خصوصاً مانیٹرنگ کمیٹیاں غیر فعال رہیں۔ ضلع کا اہم ترین ادارہ ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن جسکا کام پولیس کے خلاف شکایت کا ازالہ تھا وہ موثر نہ ہوسکا اور اس کے کام کو موثر بنانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات بھی نہ کیے جا سکے۔ ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی کمیشن بنا تو ہر جگہ اور کچھ اضلا ع میں موثر انداز میں ان اداروں نے کام بھی کیا لیکن پولیس جیسے با اختیار ادارے کو کنٹرول کر نے کے لیے جس قدر اختیارات اور وسائل درکار تھے وہ نہ مل سکے، کئی اضلاع میں پولیس نے سیفٹی کمیشن کے ممبران کے خلاف جوابی کارروائیا ں بھی کیں کیو نکہ آج بھی پولیس کو مقامی وڈیر ے، جاگیردار کی آشیر باد حا صل ہے۔ ضلعی محتسب کا تقرر نہ ہوسکا۔ جسکی وجہ سے مالیاتی کرپشن کی شکایات سامنے آئیں۔
اس نظام میں ضلع ناظمین اور ڈی سی اوز کے درمیان کوآرڈینیشن کی کمی رہی اکثر اضلاع میں دونوں کے درمیان اختیارات کی جنگ چلتی رہی۔ مختلف محکموں کے افسران اور ضلع حکومت کے درمیان وہ کوآرڈینیشن قائم نہیں ہو سکی جو اس نظام میں دی گئی تھی۔ 33 فیصد خواتین کی نمایندگی اس نظام کی اہم خصوصیت تھی لیکن ان خواتین کو نہ تو اختیارات مل سکے اور نہ فنڈز۔ اکثر خواتین کو شکایت کا سامنا رہا، یونین ناظم، تحصیل ناظم اور ضلع ناظم اور نائب ناظمین کو اعزازیہ ملتا رہا جب کہ پورے کئی سال خواتین اعزازیے کے لیے آواز بلند کرتی رہیں، زیادہ ترخواتین کونسلرز کو مشینیں دے کر ٹرخایا جاتا رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ترقی وخوشحالی اور عوام کو باشعور اور با اختیار بنانے کی ضمانت، اس نظام کو کسی بھی ضلع میں تمام تر آئینی تقاضوں کے مطابق نہیں چلایا گیا یا چلنے نہیں دیا گیا اسی لیے جو کچھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس میں تحریر تھا اس پر عمل بھی نہ ہوسکا۔ تاہم اس نظام کی خوبیاں خامیوں پر حاوی نظر آتی ہیں، ترقیاتی سرگرمیوں کے حوالے اس نظام کے تحت ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے۔ بڑے بڑے شہروں با لخصوص کراچی، حیدر آباد اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں کا تونقشہ بدل گیا۔ اضلاع کو ریکارڈ ترقیاتی فنڈز ملے۔ ضلع ناظمین بالخصوص سٹی ڈسٹرکٹ ناظمین کو بے شمار اختیارات ملے تحصیل ناظمین ،ٹائون ناظمین اور یونین ناظمین ترقیاتی عمل کا حصہ رہے۔
عوام کو ایم این اے، ایم پی اے کے ڈیروںکی بجائے ناظمین کے ذریعے مسائل حل کرانے کا موقع ملا۔ سرکاری دفاتر تک عوام کی رسائی ہوئی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ عوام کا اکثریتی طبقہ، کونسلرز خواتین کونسلرز اور عام شہری براہِ راست اقتدار اور اختیار حاصل نہ کر سکے لیکن کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہوتا ہے۔ اس نظام کی بدولت اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کا عمل ایم این اے، ایم پی اے اور بیورو کریسی سے نکل کرضلع ناظم، تحصیل ناظم اور یونین ناظم تک تو ضرور پہنچا ہے اور وہ با اختیار بھی رہے ہیں۔ اگر اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو یہ نظام جہاں عوام میں شعور بیدار کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرسکتا ہے، انہیں با اختیاربنا سکتا ہے وہاں اس کے ذریعے حقیقی جمہوریت قائم کرکے ملک و قوم کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔
اس نظام نے برسوں سے قائم فرسودہ نظام کو تبدیل کیا ہے اوراتنے طویل عرصے سے قائم کسی نظام کو تبدیل کرنے اور اس کی جگہ نئے نظام کو نافذ کرنے کا عرصہ کم ہے۔ اس نئے نظام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے کچھ عرصہ ضرور درکار تھا اور اس نظام میں کچھ بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ جس میں مجسٹریٹی نظام کی بحالی، ضلع ناظم کا براہ راست انتخاب، یونین کونسل کو زیادہ فنڈ کی فراہمی، اور اس طرح کی دیگر ترامیم کی جائیں۔ تاہم جب قوم کو اس نئے نظام سے آگاہ کیا گیاہے۔ کروڑوں کے فنڈز اس کی تشہیر پر خرچ کیے گئے۔ اس نظام کو ختم کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ انتخابات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے تاکہ آیندہ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والے ادارے گزشتہ اداروں کی نسبت زیادہ طاقتور ہوسکیں۔ ضروری ہے کہ حکومت اس نظام میں ایسی تبدیلیاں کرے جس سے اس کی بنیادی خامیاں دور کی جاسکیں، اس کو ختم نہ کیا جائے۔اس نظام کو ختم کرکے 1979ء کے پرانے فرسودہ نظام کو مسلط کرنا عوام دشمنی کے مترادف ہے۔
کیونکہ محروم طبقات خصوصاً خواتین، مزدور، کسانوں اور اقلیتوں کی بھر پور نمایندگی کے باعث ہی اختیار اور اقتدار عوام تک پہنچ سکتے ہیں اور جب تک محروم طبقات ترقی کے عمل میں بااختیار انداز میں شامل نہیں ہونگے محرومیاں دور نہیں ہونگی۔ پاکستان ترقی نہیں کرسکتا ہمیں اقتدار ان طبقات تک پہنچاناہے جو 65 سال سے اقتدار سے باہرہیں اور اس کا واحد طریقہ صرف یہی ہے کہ جمہوری عمل جاری رہنا چاہیے۔