مسلم ممالک میں خانہ جنگیوں کا سلسلہ
قدیم اسلامی ملک مصر میں ساتویں صدی میں مملوک حکمراں تھے، اپنی قوت و زور سے قانونی ضابطوں اور فقہی احکامات کو...
قدیم اسلامی ملک مصر میں ساتویں صدی میں مملوک حکمراں تھے، اپنی قوت و زور سے قانونی ضابطوں اور فقہی احکامات کو پامال کرنے کے عادی تھے۔ اس زمانے میں شام سے تعلق رکھنے والے شیخ عزالدین عبدالسلام اپنے علم و تقویٰ کی وجہ سے اسلامی دنیا میں بڑی نیک نامی اور شہرت رکھتے تھے، وہ مصر آئے تو بادشاہ نے انھیں عدالت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز کردیا۔ شیخ صاحب نے قانونی معاملات میں ارباب اقتدار کے خلاف بڑی جرأت اور حق و انصاف کے مطابق فتوے دیے اور احکامات صادر فرمائے، جس سے ارباب اقتدار کے ایوانوں میں اضطراب و ہلچل مچ گئی۔ بادشاہ نے خود شیخ کے پاس آکر فتویٰ اور عدالتی فیصلہ تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر شیخ صاحب نے صاف انکار کردیا اور تنبیہ کی کہ وہ عدالتی معاملات میں دخل اندازی نہ کریں ورنہ وہ شیخ قضا کے منصب سے دستبردار ہوجائیں گے۔
نائب سلطان نہ مانا اور ننگی تلوار لے کر اپنے سپاہیوں کے ساتھ شیخ صاحب کو قتل کرنے ان کے گھر پہنچا، دروازہ کھٹکھٹایا۔ شیخ کے نوعمر بچے نے دروازہ کھولا تو سنگینوں اور سپاہیوں کو دیکھ کر سخت پریشان ہوا مگر شیخ صاحب ایمان، عزم اور ہمت کے پیکر تھے۔ بلاخوف نائب سلطنت کے سامنے آئے اور وہ ایسا ہیبت زدہ ہوا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ شیخ نے فتویٰ تبدیل کرنے سے انکار کردیا اور اپنا تمام سامان گھر سے نکال کر گدھے پر لادا اور قاہرہ چھوڑنے کا عزم کرلیا۔ سوال کیا گیا کہاں جارہے ہیں؟ تو فرمایا ''کیا اﷲ کی زمین فراخ نہیں ہے کہ ایسی سرزمین پر رہا جائے جہاں قانون کی پاسداری نہ ہو، جہاں اہل شریعت بے قیمت ہوجائیں اور عدالتی نظام میں ارباب اقتدار مداخلت کریں۔''
قاہرہ میں یہ خبر پھیلی تو پورا شہر قاضی صاحب کی ہمنوائی میں امنڈ آیا اور مصر کے عوام الناس گھروں سے اس طرح نکل آئے کہ بچے، بوڑھے، جوان، مرد اور خواتین سب ان کی پشت پر تھے۔ اس عوامی یکجہتی کے مظاہرے نے حکمرانوں کو ششدر اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور سلطان قاضی کے فیصلے کو ماننے پر مجبور ہوگیا۔ اس واقعے سے یہ اصولی سبق ملتا ہے کہ اگر تلوار (طاقت) میزان عدل سے باغی ہو تو پھر عوام ہی وہ قوت ہیں جو تلوار (طاقت) کو قابو کرکے حدود کا پابند بناسکتی ہے۔
آج سات صدی گزرنے کے بعد مصر اور خاص طور پر اس کے شہر قاہرہ میں تلوار (طاقت) اور عدل و انصاف آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ عوام کی طاقت ایک مرتبہ پھر غاصب، ظالم اور قانون شکن قابضین اقتدار کے سامنے سینہ سپر کھڑی ہے۔ سرکاری اہلکار ان مظاہرین کے سروں اور سینوں کا نشانہ لے کر سیکڑوں شہریوں کو شہید اور ہزاروں کو زخمی کرچکے ہیں۔ اپنے ہم وطنوں پر گولیوں کی بارش کرنے والی اس فوج کی تاریخ یہ ہے کہ اس نے کبھی کسی دشمن پر کوئی چڑھائی نہیں کی۔ مصر میں پہلی فوجی بغاوت کرنل جمال ناصر نے کی۔
اس کے بعد انورالسادات اقتدار کے مزے لوٹتے اور امریکا اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی پینگیں بڑھاتے رہے اور نتیجتاً اپنے ہی فوجیوں کی گولیوں کی سلامی سے آنجہانی ہوئے، پھر حسنی مبارک کا دور اقتدار شروع ہوا جنھیں ایک زبردست عوامی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور اس طرح عبوری حکومت کے تحت منعقدہ انتخابات میں ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے صدر منتخب ہوئے۔ اخوان المسلمون کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے صدر محمد مرسی نے 6 دہائیوں پر محیط عسکری آمریت کے چنگل سے عوام کو نجات دلائی۔ لیکن عالمی سامراج کو یہ مثبت تبدیلی ایک آنکھ نہ بھائی اور اس نے سازشوں کے تانے بانے بننا شروع کردیے، بالکل اسی طرح جیسے افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم کرکے خانہ جنگی میں دھکیل دیا گیا۔ جس طرح صدام حکومت پر کیمیائی ہتھیاروں کا الزام عائد کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجاکر خانہ جنگی میں مبتلا کردیا گیا اور صدام حسین جس کو عین عید کے دن تختہ دار پر لٹکادیا گیا۔
جس طرح لیبیا میں اپنے مسلح گروہوں اور نیٹو افواج کے ذریعہ بغاوت پیدا کرکے ایک آزاد ریاست کو تاراج کردیا گیا۔ قذافی پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش اور بندوق سے نشانہ بناکر بہیمانہ طریقے سے قتل کرکے لاش گھسیٹی گئی اور پھر اسے گاڑی پر رکھ کر نمائش کی گئی، پھر کھلے صحرا میں نامعلوم مقام پر دفنا دیا گیا، جس طرح اسامہ کو ہلاک کرکے اس کی لاش کھلے سمندر میں پھینکی گئی۔ معمر قذافی کا جرم بھی یہ تھا کہ خلافت عثمانیہ میں اسلامی حکومت کا حصہ بننے والے لیبیا میں اس نے بادشاہت کا خاتمہ کرکے شراب، جوئے خانہ، نائٹ کلب ختم کرکے اسلامی اقدار کو فروغ دیا تھا، ملک سے امریکی اڈے ختم کیے تھے، اطالیوں کی جائیدادیں ضبط کرکے غریب کسانوں میں مفت تقسیم کی تھیں، عوام کو تعلیم، صحت اور رہائش کی مفت سہولیات فراہم کی تھی، عرب اتحاد پر مشتمل پالیسیاں تشکیل دی تھیں، لیبیا کو افریقہ کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک بناکر اس کی فی کس آمدنی کو مصر سے پانچ گنا زیادہ کرا دیا تھا۔
شام جو دنیائے اسلام کا تاریخی ملک ہے، اس میں بھی سازشوں کے ذریعے خلفشار اور خانہ جنگی کی بدترین صورتحال پیدا کردی گئی ہے۔ مقدس ہستیوں کے مزارات کو شدید نقصانات پہنچائے گئے ہیں جو اتفاقیہ نہیں بلکہ مذمومانہ عزائم کے حصول کے لیے کیے گئے ہیں جن کا مقصد ان مقدس ہستیوں کے تقدس کو پامال کرکے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکا کر فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینا ہے۔ شام میں برپا کی جانے والی بین الاقوامی دہشت گردی میں اب تک ایک لاکھ سے زائد شہری ہلاک ہوچکے ہیں، نقل مکانی کرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ شام اور مصر میں جاری خانہ جنگی کی صورتحال عالمی طاقتوں سازشوں کا شاخسانہ، شہریوں کو باہم دست و گریباں کرکے مسلم ممالک میں اپنے من پسند غلام حکمران لانا چاہتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے عالم اسلام سے سرکردہ سیاسی شخصیات اور ملکوں کی خودمختاری اور وقار اور جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کا بلاتامل پامال کیا جا رہا ہے۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ رسم غلامی میں تمام حکمران اور اسلامی ممالک ان سازشوں کے سامنے کوئی بند باندھنے کے بجائے ایک ایک کرکے ریت کی دیوار کی طرح گرتے جارہے ہیں۔ عرب لیگ اور او آئی سی جیسے ادارے بھی خاموش تائیدی یا تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ پہلے ہی اپنے آپ کو ان سامراجی قوتوں کا ذیلی ادارہ ثابت کرچکا ہے۔ پاکستان جو واحد ایٹمی قوت ہے وہ بھی نائن الیون کے بعد سے عالمی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں نمائشی اتحادی بلکہ تائیدی اتحادی بن کر اپنی حیثیت کھو بیٹھا ہے، جو اپنے ہی شہریوں کو ڈرون حملوں سے محفوظ رکھنے کے بجائے اپنے شہریوں کو ان کے حوالے کرنے پر مجبور ہے۔ اگر وہ صدر مرسی کی رہائی یا بحالی کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔
نائب سلطان نہ مانا اور ننگی تلوار لے کر اپنے سپاہیوں کے ساتھ شیخ صاحب کو قتل کرنے ان کے گھر پہنچا، دروازہ کھٹکھٹایا۔ شیخ کے نوعمر بچے نے دروازہ کھولا تو سنگینوں اور سپاہیوں کو دیکھ کر سخت پریشان ہوا مگر شیخ صاحب ایمان، عزم اور ہمت کے پیکر تھے۔ بلاخوف نائب سلطنت کے سامنے آئے اور وہ ایسا ہیبت زدہ ہوا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ شیخ نے فتویٰ تبدیل کرنے سے انکار کردیا اور اپنا تمام سامان گھر سے نکال کر گدھے پر لادا اور قاہرہ چھوڑنے کا عزم کرلیا۔ سوال کیا گیا کہاں جارہے ہیں؟ تو فرمایا ''کیا اﷲ کی زمین فراخ نہیں ہے کہ ایسی سرزمین پر رہا جائے جہاں قانون کی پاسداری نہ ہو، جہاں اہل شریعت بے قیمت ہوجائیں اور عدالتی نظام میں ارباب اقتدار مداخلت کریں۔''
قاہرہ میں یہ خبر پھیلی تو پورا شہر قاضی صاحب کی ہمنوائی میں امنڈ آیا اور مصر کے عوام الناس گھروں سے اس طرح نکل آئے کہ بچے، بوڑھے، جوان، مرد اور خواتین سب ان کی پشت پر تھے۔ اس عوامی یکجہتی کے مظاہرے نے حکمرانوں کو ششدر اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور سلطان قاضی کے فیصلے کو ماننے پر مجبور ہوگیا۔ اس واقعے سے یہ اصولی سبق ملتا ہے کہ اگر تلوار (طاقت) میزان عدل سے باغی ہو تو پھر عوام ہی وہ قوت ہیں جو تلوار (طاقت) کو قابو کرکے حدود کا پابند بناسکتی ہے۔
آج سات صدی گزرنے کے بعد مصر اور خاص طور پر اس کے شہر قاہرہ میں تلوار (طاقت) اور عدل و انصاف آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ عوام کی طاقت ایک مرتبہ پھر غاصب، ظالم اور قانون شکن قابضین اقتدار کے سامنے سینہ سپر کھڑی ہے۔ سرکاری اہلکار ان مظاہرین کے سروں اور سینوں کا نشانہ لے کر سیکڑوں شہریوں کو شہید اور ہزاروں کو زخمی کرچکے ہیں۔ اپنے ہم وطنوں پر گولیوں کی بارش کرنے والی اس فوج کی تاریخ یہ ہے کہ اس نے کبھی کسی دشمن پر کوئی چڑھائی نہیں کی۔ مصر میں پہلی فوجی بغاوت کرنل جمال ناصر نے کی۔
اس کے بعد انورالسادات اقتدار کے مزے لوٹتے اور امریکا اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی پینگیں بڑھاتے رہے اور نتیجتاً اپنے ہی فوجیوں کی گولیوں کی سلامی سے آنجہانی ہوئے، پھر حسنی مبارک کا دور اقتدار شروع ہوا جنھیں ایک زبردست عوامی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور اس طرح عبوری حکومت کے تحت منعقدہ انتخابات میں ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے صدر منتخب ہوئے۔ اخوان المسلمون کے پلیٹ فارم سے منتخب ہونے والے صدر محمد مرسی نے 6 دہائیوں پر محیط عسکری آمریت کے چنگل سے عوام کو نجات دلائی۔ لیکن عالمی سامراج کو یہ مثبت تبدیلی ایک آنکھ نہ بھائی اور اس نے سازشوں کے تانے بانے بننا شروع کردیے، بالکل اسی طرح جیسے افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم کرکے خانہ جنگی میں دھکیل دیا گیا۔ جس طرح صدام حکومت پر کیمیائی ہتھیاروں کا الزام عائد کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجاکر خانہ جنگی میں مبتلا کردیا گیا اور صدام حسین جس کو عین عید کے دن تختہ دار پر لٹکادیا گیا۔
جس طرح لیبیا میں اپنے مسلح گروہوں اور نیٹو افواج کے ذریعہ بغاوت پیدا کرکے ایک آزاد ریاست کو تاراج کردیا گیا۔ قذافی پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش اور بندوق سے نشانہ بناکر بہیمانہ طریقے سے قتل کرکے لاش گھسیٹی گئی اور پھر اسے گاڑی پر رکھ کر نمائش کی گئی، پھر کھلے صحرا میں نامعلوم مقام پر دفنا دیا گیا، جس طرح اسامہ کو ہلاک کرکے اس کی لاش کھلے سمندر میں پھینکی گئی۔ معمر قذافی کا جرم بھی یہ تھا کہ خلافت عثمانیہ میں اسلامی حکومت کا حصہ بننے والے لیبیا میں اس نے بادشاہت کا خاتمہ کرکے شراب، جوئے خانہ، نائٹ کلب ختم کرکے اسلامی اقدار کو فروغ دیا تھا، ملک سے امریکی اڈے ختم کیے تھے، اطالیوں کی جائیدادیں ضبط کرکے غریب کسانوں میں مفت تقسیم کی تھیں، عوام کو تعلیم، صحت اور رہائش کی مفت سہولیات فراہم کی تھی، عرب اتحاد پر مشتمل پالیسیاں تشکیل دی تھیں، لیبیا کو افریقہ کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک بناکر اس کی فی کس آمدنی کو مصر سے پانچ گنا زیادہ کرا دیا تھا۔
شام جو دنیائے اسلام کا تاریخی ملک ہے، اس میں بھی سازشوں کے ذریعے خلفشار اور خانہ جنگی کی بدترین صورتحال پیدا کردی گئی ہے۔ مقدس ہستیوں کے مزارات کو شدید نقصانات پہنچائے گئے ہیں جو اتفاقیہ نہیں بلکہ مذمومانہ عزائم کے حصول کے لیے کیے گئے ہیں جن کا مقصد ان مقدس ہستیوں کے تقدس کو پامال کرکے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکا کر فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینا ہے۔ شام میں برپا کی جانے والی بین الاقوامی دہشت گردی میں اب تک ایک لاکھ سے زائد شہری ہلاک ہوچکے ہیں، نقل مکانی کرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ شام اور مصر میں جاری خانہ جنگی کی صورتحال عالمی طاقتوں سازشوں کا شاخسانہ، شہریوں کو باہم دست و گریباں کرکے مسلم ممالک میں اپنے من پسند غلام حکمران لانا چاہتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے عالم اسلام سے سرکردہ سیاسی شخصیات اور ملکوں کی خودمختاری اور وقار اور جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کا بلاتامل پامال کیا جا رہا ہے۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ رسم غلامی میں تمام حکمران اور اسلامی ممالک ان سازشوں کے سامنے کوئی بند باندھنے کے بجائے ایک ایک کرکے ریت کی دیوار کی طرح گرتے جارہے ہیں۔ عرب لیگ اور او آئی سی جیسے ادارے بھی خاموش تائیدی یا تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ پہلے ہی اپنے آپ کو ان سامراجی قوتوں کا ذیلی ادارہ ثابت کرچکا ہے۔ پاکستان جو واحد ایٹمی قوت ہے وہ بھی نائن الیون کے بعد سے عالمی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں نمائشی اتحادی بلکہ تائیدی اتحادی بن کر اپنی حیثیت کھو بیٹھا ہے، جو اپنے ہی شہریوں کو ڈرون حملوں سے محفوظ رکھنے کے بجائے اپنے شہریوں کو ان کے حوالے کرنے پر مجبور ہے۔ اگر وہ صدر مرسی کی رہائی یا بحالی کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔