پارلیمنٹ کے تقدس کا معاملہ

حکومت اپنے ساتویں ماہ کے اقتدار میں شامل ہوچکی ہے اور قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہنگامہ آرائی معمول بن چکی ہے۔

موجودہ پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی حکومت کو اپنے حلیفوں کے باعث معمولی برتری حاصل ہے جب کہ ایوان بالا سینیٹ میں اپوزیشن کو واضح اکثریت حاصل ہے جس کی وجہ سے حکومت کو قومی اسمبلی سے اپنی مرضی کا فیصلہ منظور کرانے میں بھی خاص دشواری کا سامنا رہتا ہے جب کہ سینیٹ میں تو ایسا ممکن نہیں ہے۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے، جس کی زیادہ ذمے دار خود حکومت اور اس کے چند وزرا ہیں جس سے اپوزیشن فائدہ اٹھا رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں بھاری مراعات لینے والے ارکان کی حاضری کی یہ افسوس ناک صورتحال ہے کہ حکومت کے وزیر مملکت داخلہ نے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے قیام کا بل قومی اسمبلی کے صرف 28 ممبران کی موجودگی میں مشکل سے منظور کرایا اور اس وقت ایوان میں کوئی دوسرا وزیر موجود نہیں تھا اور ایوان میں اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان کو قومی اسمبلی میں آنے کا اپنا ارادہ تبدیل کرنا پڑا جو اب پارلیمنٹ آنے کے سلسلے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جو پارلیمنٹ صرف مطلب پر ہی آیا کرتے تھے۔

حکومت اپنے ساتویں ماہ کے اقتدار میں شامل ہوچکی ہے اور قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہنگامہ آرائی معمول بن چکی ہے اور اسپیکر جب معاملہ نہیں سنبھال پاتے تو مجبور ہوکر ایوان سے اٹھ جاتے ہیں اور اجلاس ملتوی کردیتے ہیں اور بے بس ہوکر یہ اقدام کرتے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اب نئے نہیں رہے کیونکہ وہ کے پی کے اسمبلی کے 5 سال اسپیکر رہے ہیں جب کہ اس سے قبل متعدد افراد جن میں خواتین بھی شامل تھیں اور پہلی بار قومی اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر آئے اور کامیابی سے ایوان کو چلایا اور اپنی مدت پوری بھی کی مگر وہ کبھی اتنے بے بس نظر نہیں آئے جتنا موجودہ اسپیکر اسد قیصر نظر آرہے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے یہ اسپیکر ایوان کو چلانا چاہتے ہیں مگر لگتا یہ ہے کہ حکومت اور بعض وزیر انھیں کامیاب دیکھنا ہی نہیں چاہتے اور اس سلسلے میں حکومت بھی تقسیم ہے۔ اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں تاخیر سے ہی قائم ہوئیں اور اسپیکر نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کا اہم مسئلہ حل کرایا جس کے لیے وزیر اعظم صاف انکار کرچکے تھے مگر اسپیکر کی کوشش یا کسی اور دباؤ کی وجہ سے وزیر اعظم راضی ہوگئے اور کمیٹی کی سربراہی اپوزیشن لیڈر کو دلانے کے بعد بھی وزیر اعظم کو شہباز شریف برداشت نہیں ہو رہے مگر کامیاب بھی نہیں ہو رہے ،کیونکہ شیخ رشید ہی وزیر اعظم کو اکسا رہے ہیں جس سے قومی اسمبلی میں کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔


وزیر اعظم کو یہ بھی پتا ہے کہ ان کے حلیفوں کی مدد سے ایوان میں معمولی برتری حاصل ہے اور اپوزیشن کے بقول انھیں یہ معمولی اکثریت عوام نے نہیں دی بلکہ دلوائی گئی ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس ماضی میں دو تہائی کی اکثریت بھی حاصل تھی مگر ان کا رویہ کبھی موجودہ وزیر اعظم کی طرح سخت جارحانہ متکبرانہ اور رعونت آمیز نہیں رہا۔

موجودہ اکثریت بھی پی ٹی آئی کو اپنے تین حلیفوں ایم کیو ایم، بی این پی مینگل اور (ق) لیگ کی وجہ سے حاصل ہے مگر یہ تینوں حلیف بھی حکومتی پالیسی سے مطمئن نہیں مگر کسی وجہ سے مجبور ہیں اور دھمکی دے کر رہ جاتے ہیں اور حکومت نہیں چھوڑ سکتے۔

وزیر اعظم اور ان کے قریبی رفقا یہ حقیقت تسلیم نہیں کر رہے کہ پی ٹی آئی حکومت حلیفوں کی بے ساکھیوں پر چلوائی جارہی ہے اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں حکومتی پوزیشن بہت کمزور مگر ان کا رویہ اور حکومت کا اپوزیشن سے سلوک جمہوری نہیں ہے جب کہ جمہوریت میں سیاسی دشمنی نہیں چل سکتی کیونکہ عمران خان جمہوری ووٹ لے کر وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے وہغیر جمہوری بااختیار صدر نہیں ہیں۔ وزیر اعظم اپوزیشن سے متعلق جو رویہ رکھتے ہیں وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں اور حالات کی سنگینی اور جمہوری معاملات کو محسوس نہیں کر رہے اور وہ وزیر اعظم بن کر بھی مطمئن نہیں بلکہ مزید بااختیار بننے کے خواہاں نظر آرہے ہیں ۔ پارلیمانی نظام انھیں سوٹ نہیں کر رہا اور اسمبلی کے ذریعے وہ بہت سے فیصلے نہیں کرا پا رہے اور پارلیمنٹ ان کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ آزادی سے حکومت چلا نہیں پا رہے اور حکومت اور اپوزیشن میں کشیدگی اور دوریاں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔

امریکا کے صدارتی نظام میں بھی صدر بے بس ہے کیونکہ وہ بھی منتخب ہوکر آتا ہے مگر پارلیمنٹ میں اسے بھی ناکام ہونا پڑتا ہے جب کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ نواز شریف نے بھی بعض معاملات میں بادشاہی رویہ اختیار اور پارلیمنٹ سے دوری اختیار کی تھی مگر ناکام رہے۔ حکومت کو پارلیمنٹ میں وہی کچھ مل رہا ہے جو وہ بطور اپوزیشن (ن) لیگ حکومت کو دے چکی ہے۔ پی ٹی آئی پہلے خود ایوان میں ہنگامہ کرتی تھی آج اسے شدید ہنگامہ آرائی کا سامنا تو ہے مگر وہ اپنی جارحانہ پالیسی تبدیل نہیں کر رہی ۔
Load Next Story