اب ماضی سے باہر نکلنا ہوگا
بھارت کے ہوشیار اور چالاک رہنماؤں نے پاکستان کی اسرائیل مخالف پالیسی سے ہی فائدہ اٹھا کر اسرائیل کوگلے لگا لیا ہے۔
پرویز مشرف نے اگر پاکستانی عوام کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیا ہے تو یہ عالمی حالات اور ملکی بڑھتے ہوئے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی دیا گیا ہے۔ آخر وہ ایک سابق فوجی جنرل، سابق صدر مملکت اور سب سے بڑھ کر ایک مخلص محب وطن پاکستانی ہیں ۔ وہ ایک آمر ضرور تھے مگر ان کی وطن پرستی ہر قسم کے شک و شبے سے بالاتر ہے۔
کارگل کے معرکے میں ان کے جذبہ حب الوطنی اور بہادری پر خود دشمن بھی انھیں داد دیے بغیر نہیں رہ سکا تھا، اگر میاں صاحب کلنٹن سے مرعوب نہ ہوتے اور استقامت سے کام لیتے تو کارگل کی پہاڑیوں پر آج بھی ہمارا قبضہ ہوتا اور سیاچن کا محاذ خود بخود خالی ہوجاتا ۔ دراصل اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مسئلہ ہمارے ہاں اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی زیر بحث رہا ہے اور آج بھی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارا ملک ایک ذمے دار اسلامی ملک ہے۔ ہم نے عالم اسلام کی بھلائی اور سربلندی کے لیے ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کئی اسلامی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے باوجود بھی ہم اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہم نے اسرائیل کو ایک ناجائز ملک اور ہمیشہ اپنا دشمن مانا ہے۔
ہم نے ہر پلیٹ فارم پر اس کے وجود پر تنقید کی اور فلسطینیوں پر اس کے مظالم کے خلاف محو احتجاج رہے ہیں مگر کیا ہمارے عرب بھائیوں اور دوسرے مسلم ممالک نے کشمیر کے مسئلے پر ہمارا کھل کر ساتھ دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محض اسرائیل دشمنی کی وجہ سے ہی آج پاکستان لامتناہی مصائب اور مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک ہر وقت ہمیں پریشان کرنے کے در پے رہتے ہیں کبھی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ذریعے گرے اور بلیک لسٹ کرنے سے تو کبھی دہشت گردی کا محور قرار دے کر اس طرح ان کی جانب سے ملک کو مسلسل غیر یقینی صورتحال کا شکار کرنے کی دانستہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب بھارت کو ہر طرح کی مراعات سے نوازا جا رہا ہے۔ وہ پاکستان پر حملہ بھی کردے تو کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا مگر پاکستان کی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود اختیاری دلانے کی کوششوں کو بھی دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے۔
بھارت کے ہوشیار اور چالاک رہنماؤں نے پاکستان کی اسرائیل مخالف پالیسی سے ہی فائدہ اٹھا کر اسرائیل کوگلے لگا لیا ہے اس لیے کہ اسرائیل سے دوستی ہی مغربی ممالک سے قربت کے حصول کی کنجی ہے۔ حالانکہ بھارت کا یہ اقدام خطرات سے بھی گھرا ہوا تھا کیونکہ اس سے عرب ممالک جن سے وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے ناراض ہونے کا احتمال تھا، ادھر اپنے محسن روس کا بھی خوف تھا مگر اس نے نہایت چالاک سفارت کاری کے ذریعے ان تمام ممالک کو رام کرلیا۔ کہاں تو وہ فلسطینیوں کی آزادی کا علم بردار بنا ہوا تھا اور اسرائیل کو کبھی نہ تسلیم کرنے کی بات کرتا تھا اب اسرائیل اس کے لیے سب سے پسندیدہ ملک کا درجہ حاصل کرچکا ہے مگر اس کے اسرائیل سے گہرے تعلقات کے باوجود بھی فلسطینی قیادت اسے ابھی بھی اپنا نجات دہندہ خیال کرتی ہے۔ افسوس کہ پاکستان جو ان کی وجہ سے اسرائیل سے دشمنی مول لیے بیٹھا ہے آج فلسطینیوں کے لیے کوئی خاص کشش نہیں رکھتا۔
ترکی جیسا پاکستان کا دوست بھی اسرائیل کو کبھی کا تسلیم کرچکا ہے مصر جو فلسطینیوں کا محافظ بنا ہوا تھا وہ بھی اب اسرائیل کو ایک حقیقت مانتا ہے ہاں البتہ شام، لیبیا اور عراق جو اسے دشمن سمجھتے تھے اور اسے تباہ کرنے کی سوچ بھی رکھتے تھے آج وہ خود تباہ و برباد ہوچکے ہیں ۔ ایران جو اب بھی اسرائیل کو عالم اسلام کا دشمن خیال کرتا ہے وہ محض اسی وجہ سے تنقید اور عالمی مخالفت برداشت کر رہا ہے۔ اسے امریکا آئے دن حملے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے اس پر اس قدر پابندیاں عائد کردی گئی ہیں کہ اس کا ایک آزاد ملک کی حیثیت سے جینا بھی مشکل بنادیا گیا ہے۔ آج وہ اپنی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے جوہری ہتھیار بنانا چاہتا ہے مگر اسے ہرگز اس کی اجازت نہیں ہے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ 1998 میں پاکستان نے اپنا ایٹم بم بنا لیا تھا اور امریکی احتجاج کے باوجود بھی اس کا تجربہ کرلیا تھا اگر اس میں ذرا دیر ہوجاتی تو شاید پاکستان کبھی بھی جوہری طاقت نہ بن پاتا اور اب تک بھارتی جارحیت کا شکار ہو چکا ہوتا۔
آج کے حالات میں دیکھیں تو مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کی خارجہ پالیسی بھی امریکا کی قربت میں اسرائیل کے حق میں استوار ہوچکی ہے۔ جب امریکا نے اپنے سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تو بھی خلیجی ممالک کی جانب سے کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔ خلیجی ممالک اور اسرائیل کی قربت کی بہت سی کہانیاں عالمی اخباروں میں چھپ چکی ہیں جن کی سچائی کسی تصدیق کی محتاج نہیں۔ دراصل عرب ممالک کا رویہ اب اسرائیل کے خلاف وہ نہیں رہا جو پہلے کبھی تھا دراصل اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکا نہایت ہوشیاری سے عرب ممالک کی اسرائیل دشمنی کا رخ ایران کی جانب موڑ چکا ہے۔
پاکستان آج بھی فلسطینیوں اور ایران کے ساتھ کھڑا ہے۔ کیا اسلامی ممالک کی جانب سے اسرائیل سے روابط قائم کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان اور بھارت پر مغربی ممالک کی بڑھتی ہوئی مہربانیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ذریعے بھارت کی فوجی طاقت میں خطرناک اضافے کی وجہ سے اب اپنی بقا کی خاطر ہمیں اپنی اسرائیل پالیسی پر ازسر نو غور نہیں کرنا چاہیے؟ حال ہی میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسلامی کانفرنس کے وزرائے خارجہ کے ابوظہبی میں یکم مارچ سے منعقد ہونے والے اجلاس میں بھارت کو خاص مہمان کے طور پر شرکت کی دعوت دینا سراسر بھارت نوازی معلوم ہوتی ہے۔
بھارت نے پاکستان پر ہوائی حملے کرکے اپنے جارح ہونے کا واضح ثبوت دے دیا ہے پاکستان کو اس اجلاس میں اس کی شرکت کو بہر صورت ناکام بنانا چاہیے۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے وہ آج کل ہم سے ناراض لگتا ہے جب کہ پاکستانی عوام اس کی جان و دل سے محبت اور احترام کرتے ہیں۔ پاکستان نے ایران سے ہر مرحلے پر اپنی دوستی نبھائی ہے۔ ایران بھی ہمیشہ پاکستان کو اپنا بھائی مانتا رہا ہے۔ مگر اب ایران کا رویہ پاکستان سے بھائیوں جیسا نہیں لگتا۔ آج کل اس کی بھارت سے دوستی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ بھارت چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے افغانستان اور وسط ایشاء سے تجارت کررہا ہے لیکن اس کے باوجود بھی پاکستان نے ایران سے تعلقات نہیں بگاڑے اور کوئی شکوہ شکایت بھی نہیں کی۔ جہاں تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال ہے اب ملک کو مشکلات کے بڑھتے بھنور سے باہر نکالنے کے لیے اس کڑوی گولی کو بہرحال جلد یا بدیر نگلنا ہی پڑے گا۔
کارگل کے معرکے میں ان کے جذبہ حب الوطنی اور بہادری پر خود دشمن بھی انھیں داد دیے بغیر نہیں رہ سکا تھا، اگر میاں صاحب کلنٹن سے مرعوب نہ ہوتے اور استقامت سے کام لیتے تو کارگل کی پہاڑیوں پر آج بھی ہمارا قبضہ ہوتا اور سیاچن کا محاذ خود بخود خالی ہوجاتا ۔ دراصل اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مسئلہ ہمارے ہاں اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی زیر بحث رہا ہے اور آج بھی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارا ملک ایک ذمے دار اسلامی ملک ہے۔ ہم نے عالم اسلام کی بھلائی اور سربلندی کے لیے ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کئی اسلامی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے باوجود بھی ہم اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہم نے اسرائیل کو ایک ناجائز ملک اور ہمیشہ اپنا دشمن مانا ہے۔
ہم نے ہر پلیٹ فارم پر اس کے وجود پر تنقید کی اور فلسطینیوں پر اس کے مظالم کے خلاف محو احتجاج رہے ہیں مگر کیا ہمارے عرب بھائیوں اور دوسرے مسلم ممالک نے کشمیر کے مسئلے پر ہمارا کھل کر ساتھ دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محض اسرائیل دشمنی کی وجہ سے ہی آج پاکستان لامتناہی مصائب اور مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک ہر وقت ہمیں پریشان کرنے کے در پے رہتے ہیں کبھی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ذریعے گرے اور بلیک لسٹ کرنے سے تو کبھی دہشت گردی کا محور قرار دے کر اس طرح ان کی جانب سے ملک کو مسلسل غیر یقینی صورتحال کا شکار کرنے کی دانستہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب بھارت کو ہر طرح کی مراعات سے نوازا جا رہا ہے۔ وہ پاکستان پر حملہ بھی کردے تو کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا مگر پاکستان کی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود اختیاری دلانے کی کوششوں کو بھی دہشت گردی قرار دیا جاتا ہے۔
بھارت کے ہوشیار اور چالاک رہنماؤں نے پاکستان کی اسرائیل مخالف پالیسی سے ہی فائدہ اٹھا کر اسرائیل کوگلے لگا لیا ہے اس لیے کہ اسرائیل سے دوستی ہی مغربی ممالک سے قربت کے حصول کی کنجی ہے۔ حالانکہ بھارت کا یہ اقدام خطرات سے بھی گھرا ہوا تھا کیونکہ اس سے عرب ممالک جن سے وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے ناراض ہونے کا احتمال تھا، ادھر اپنے محسن روس کا بھی خوف تھا مگر اس نے نہایت چالاک سفارت کاری کے ذریعے ان تمام ممالک کو رام کرلیا۔ کہاں تو وہ فلسطینیوں کی آزادی کا علم بردار بنا ہوا تھا اور اسرائیل کو کبھی نہ تسلیم کرنے کی بات کرتا تھا اب اسرائیل اس کے لیے سب سے پسندیدہ ملک کا درجہ حاصل کرچکا ہے مگر اس کے اسرائیل سے گہرے تعلقات کے باوجود بھی فلسطینی قیادت اسے ابھی بھی اپنا نجات دہندہ خیال کرتی ہے۔ افسوس کہ پاکستان جو ان کی وجہ سے اسرائیل سے دشمنی مول لیے بیٹھا ہے آج فلسطینیوں کے لیے کوئی خاص کشش نہیں رکھتا۔
ترکی جیسا پاکستان کا دوست بھی اسرائیل کو کبھی کا تسلیم کرچکا ہے مصر جو فلسطینیوں کا محافظ بنا ہوا تھا وہ بھی اب اسرائیل کو ایک حقیقت مانتا ہے ہاں البتہ شام، لیبیا اور عراق جو اسے دشمن سمجھتے تھے اور اسے تباہ کرنے کی سوچ بھی رکھتے تھے آج وہ خود تباہ و برباد ہوچکے ہیں ۔ ایران جو اب بھی اسرائیل کو عالم اسلام کا دشمن خیال کرتا ہے وہ محض اسی وجہ سے تنقید اور عالمی مخالفت برداشت کر رہا ہے۔ اسے امریکا آئے دن حملے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے اس پر اس قدر پابندیاں عائد کردی گئی ہیں کہ اس کا ایک آزاد ملک کی حیثیت سے جینا بھی مشکل بنادیا گیا ہے۔ آج وہ اپنی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے جوہری ہتھیار بنانا چاہتا ہے مگر اسے ہرگز اس کی اجازت نہیں ہے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ 1998 میں پاکستان نے اپنا ایٹم بم بنا لیا تھا اور امریکی احتجاج کے باوجود بھی اس کا تجربہ کرلیا تھا اگر اس میں ذرا دیر ہوجاتی تو شاید پاکستان کبھی بھی جوہری طاقت نہ بن پاتا اور اب تک بھارتی جارحیت کا شکار ہو چکا ہوتا۔
آج کے حالات میں دیکھیں تو مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کی خارجہ پالیسی بھی امریکا کی قربت میں اسرائیل کے حق میں استوار ہوچکی ہے۔ جب امریکا نے اپنے سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تو بھی خلیجی ممالک کی جانب سے کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔ خلیجی ممالک اور اسرائیل کی قربت کی بہت سی کہانیاں عالمی اخباروں میں چھپ چکی ہیں جن کی سچائی کسی تصدیق کی محتاج نہیں۔ دراصل عرب ممالک کا رویہ اب اسرائیل کے خلاف وہ نہیں رہا جو پہلے کبھی تھا دراصل اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکا نہایت ہوشیاری سے عرب ممالک کی اسرائیل دشمنی کا رخ ایران کی جانب موڑ چکا ہے۔
پاکستان آج بھی فلسطینیوں اور ایران کے ساتھ کھڑا ہے۔ کیا اسلامی ممالک کی جانب سے اسرائیل سے روابط قائم کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان اور بھارت پر مغربی ممالک کی بڑھتی ہوئی مہربانیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ذریعے بھارت کی فوجی طاقت میں خطرناک اضافے کی وجہ سے اب اپنی بقا کی خاطر ہمیں اپنی اسرائیل پالیسی پر ازسر نو غور نہیں کرنا چاہیے؟ حال ہی میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسلامی کانفرنس کے وزرائے خارجہ کے ابوظہبی میں یکم مارچ سے منعقد ہونے والے اجلاس میں بھارت کو خاص مہمان کے طور پر شرکت کی دعوت دینا سراسر بھارت نوازی معلوم ہوتی ہے۔
بھارت نے پاکستان پر ہوائی حملے کرکے اپنے جارح ہونے کا واضح ثبوت دے دیا ہے پاکستان کو اس اجلاس میں اس کی شرکت کو بہر صورت ناکام بنانا چاہیے۔ جہاں تک ایران کا تعلق ہے وہ آج کل ہم سے ناراض لگتا ہے جب کہ پاکستانی عوام اس کی جان و دل سے محبت اور احترام کرتے ہیں۔ پاکستان نے ایران سے ہر مرحلے پر اپنی دوستی نبھائی ہے۔ ایران بھی ہمیشہ پاکستان کو اپنا بھائی مانتا رہا ہے۔ مگر اب ایران کا رویہ پاکستان سے بھائیوں جیسا نہیں لگتا۔ آج کل اس کی بھارت سے دوستی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ بھارت چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے افغانستان اور وسط ایشاء سے تجارت کررہا ہے لیکن اس کے باوجود بھی پاکستان نے ایران سے تعلقات نہیں بگاڑے اور کوئی شکوہ شکایت بھی نہیں کی۔ جہاں تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال ہے اب ملک کو مشکلات کے بڑھتے بھنور سے باہر نکالنے کے لیے اس کڑوی گولی کو بہرحال جلد یا بدیر نگلنا ہی پڑے گا۔