نند کشور وکرم سے ایک ملاقات
میرا خیال ہے کہ نقادوں کے دیباچے قاری کو مرعوب کرنے کی بجائے اسے کتاب پڑھ کر خود فیصلہ کرنے دیجیے۔
گزشتہ دنوں بھارت کے ممتاز ادیب و شاعر ''عالمی اردو ادب'' کے مدیر اعلیٰ اور روح رواں نندکشور وکرم پاکستان تشریف لائے، انجمن ترقی اردو کی معتمد اور مدیر فاطمہ حسن نے اپنے ساتھیوں کی مشاورت سے ممتاز قلم کار نند کشور وکرم کی علمی و ادبی کاموں کو مدنظر رکھتے ہوئے، ایک تقریب کا اہتمام کیا کہ وہ اس کے مستحق تھے۔ ان کی ساری عمر ادب کی خدمت کرتے ہوئے بسر ہوئی بقول شاعر ''عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں'' ہم نے بھی ان کے تخلیقی کاموں اور ادب کی مختلف اصناف پر معتبر اور موثر تحریروں کو دیکھتے ہوئے، ان سے انٹرویو کے لیے وقت مقررکیا، ڈاکٹر فاطمہ حسن کی رہائش گاہ پر ہم وقت مقررہ پر پہنچے تو اس وقت ڈاکٹر فاطمہ حسن ان کے گھر والے اور مہمان خاص نند وکرم صاحب ناشتہ کر رہے تھے ۔ فاطمہ بہت اچھی میزبان ہیں ان کے اصرار پر ہم نے ان سب کے ساتھ ہی گرم گرم چائے پی اور گفتگو کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ، ہمارا پہلا سوال تھا کہ:
آپ اپنے بارے میں مختصراً بتائیے۔ انھوں نے نہایت سادگی اور انکساری کے ساتھ جواب دیا۔
میری تاریخ پیدائش سترہ ستمبر 1929 اور جائے پیدائش راولپنڈی ہے۔ کاروان حیات کو شاہراہ وقت پر چلتے ہوئے تقریباً 90 سال ہوگئے ہیں کبھی بھی موت آسکتی ہے کب اورکس وقت یہ کسی کو نہیں معلوم ۔
تقسیم سے پیشتر ہمارے آباؤ و اجداد ضلع کہوٹہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں اراضی چھپراں میں آباد تھے اور جو تقسیم کے بعد پاکستان کا حصہ بن گیا اور اس کے بعد مشرقی پنجاب کے ضلع انبالہ آگئے اور جو ہریانہ کا حصہ بن گیا۔ اس کی وجہ پنجاب کی تبادلہ آبادی تھی۔ بزرگوں کا پیشہ کاشتکاری، پولیس اور فوج کی ملازمت تھا ۔انھوں نے اپنے خاندان کے بارے میں مزید بتایا کہ ہمارا خاندان موہیالوں کی اول الذکر ذات ''دت'' سے تعلق رکھتا ہے اور ہمارے خاندان کو دوسرے خاندانوں کی طرح اپنی خاندانی روایت پر بڑا ناز رہا ہے۔
ہمارا دوسرا سوال تھا کہ وکرم صاحب اپنی تعلیم کے بارے میں بتائیے کہ آپ نے کن کن اداروں سے تعلیم حاصل کی اور یہ سلسلہ کہاں رکا؟ انھوں نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں جواب دیا کہ میرے والد کے تبادلے اور خانگی حالات کی وجہ سے میں نے مختلف اداروں میں تعلیم حاصل کی، پہلی جماعت سناتن دھرم پرائمری اسکول سے ہندی میں پڑھی، لیکن والد صاحب کے تبادلے کے بعد ازسر نو گوجر خان میں داخلہ لینا پڑا اور جب دوسری جماعت میں کامیابی حاصل کی تو انھی دنوں والد صاحب کو مجبوراً کہوٹہ آنا پڑا کہ ملازمت کا معاملہ تھا۔ تیسری جماعت پاس کرنے کے بعد ورنیکولر کا امتحان دیا اور جب دسویں جماعت میں تھا تو فسادات شروع ہوگئے ان حالات میں راولپنڈی کو خیرباد کہنا پڑا اور انبالہ کو اپنا مسکن بنایا اور ادھر ہی سے F.A کیا۔ ایم۔اے اردو دہلی یونیورسٹی سے پاس کیا۔
وکرم صاحب ادبی زندگی کے بارے میں بتائیے؟
میری ادبی کاوشوں کا زمانہ وہ تھا، جب میں سیکنڈری جماعتوں میں زیر تعلیم تھا، میں نے ساتویں، آٹھویں جماعت ہی سے تک بندی شروع کردی تھی اور میں جو نظمیں اور غزلیں پڑھتا تو ان کی نقل کر لیتا اس کے بعد میرا رجحان افسانہ نگاری کی طرف ہوگیا پہلا افسانہ لکھا اور ہفتہ وار ''چترال'' لاہور کو بھیجا اس کی اشاعت کب ہوئی اس کا پتا اس لیے نہیں چل سکا کہ میں گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے پشاور چلا گیا تھا، جہاں میری پھوپھی مقیم تھیں لیکن تقسیم کے فوراً بعد ایک افسانہ ''ادیب'' لکھا۔ وہ ماہنامہ ''نرالا'' دہلی سے شایع ہوا انھی دنوں شاعری بھی کی جو اخبارات میں چھپی، لیکن میں نے اس کے ساتھ ہی شاعری کا ارادہ ترک کردیا اس کی وجہ مجھے بحور اور اوزان سمجھ میں نہیں آتی تھیں، اسی وجہ سے دلچسپی ختم ہوگئی۔ وکرم صاحب! آپ نے صحافتی میدان میں بھی کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں اس پر روشنی ڈالیے تاکہ قارئین آپ کی طویل صحافتی جدوجہد کے بارے میں جان سکیں۔
انھوں نے ذہن کے تاروں کو روشن کرتے ہوئے کہا کہ 1949 میں، میں نے اور دیویندراسر ''قومی اخبار'' اور ''امرت'' میں کچھ عرصہ کام یا اور اسی دوران ہم دونوں نے ترقی پسند رسالہ ''ارتقا'' بھی نکالا لیکن ابھی اس کا ایک ہی شمارہ نکلا تھا کہ دیویندراسر کو گرفتار کرلیا گیا یہ سن 1950 تھا۔اس کے بعد ''نئی کہانی'' شروع کیا لیکن دو رسالوں کی اشاعت کے بعد ہی اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا کہ اردو میں شاعری کو شامل کیے بغیر رسالہ نکالنا بہت مشکل ہے، لیکن کامیابی پھر بھی نہ ہوسکی اس واقعے کے تقریباً تیس سال بعد جب میں پریس انفارمیشن بیورو میں تھا تو ان دنوں رسالہ اور وہ بھی انفرادیت کے ساتھ نکالنے کا سوچنے لگا، بہت غور و خوض کے بعد اپنے فیصلے پر عمل کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا میرے تجویز کردہ نام ''اردو'' کے نام سے جب ڈکلیریشن لینے گیا تو پتا یہ چلا کہ اس نام سے تو کسی اور شخص نے پہلے ہی ڈکلیریشن لیا ہوا ہے لہٰذا مجھے مجبوراً ''عالمی اردو ادب'' پر اکتفا کرنا پڑا اور اب 1985 سے میں یہ پرچہ نکال رہا ہوں اس کے 32 شمارے ہوچکے ہیں جو تقریباً 4 سو صفحات پر مشتمل ہوتا ہے اور 8 خصوصی شمارے، حبیب جالب، احمد ندیم قاسمی، دیویندراسر، سردار جعفری، گوپی چند نارنگ، کشمیری لال ذاکر اور محمد حسن کی شخصیت اور ادبی کارناموں پر آچکے ہیں ابھی تازہ شمارہ مشتاق احمد یوسفی پر تھا۔میں گزشتہ 56-57 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوں۔
آپ اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں کہ آپ بہت اچھے ترجمہ نگار بھی ہیں اور کئی کتابیں بھی آچکی ہیں۔ آپ اس بارے میں کچھ کہیں گے؟
بالکل کہوں گا۔ میں نے ہندی، انگریزی، پنجابی میں متعدد مضامین اور لگ بھگ 30 کے قریب کتابیں ترجمہ کی ہیں۔ اپنے افسانوی مجموعوں اور ناولوں کی اشاعت کے بارے میں آگاہی دیجیے۔ انھوں نے کہا کہ افسانوں کے تین مجموعے بعنوانات (1)۔ ''آوارہ گرد''۔ (2)۔''آدھا بیج''۔ (3)۔''ادھوری کلیات''۔ دو ناول لکھے۔ پہلا ''یادوں کے کھنڈر''دوسرا ''انیسواں ادھیائے''۔ یہ ناول تقسیم کے حوالے سے ہے لیکن میں اسے ناول نہیں مانتا بلکہ میں اسے تجزیاتی ناول کہہ سکتا ہوں۔
انھوں نے قارئین کی معلومات میں اضافہ کیا کہ میرا کسی گروپ سے تعلق نہیں رہا اور نہ ہی میں نے اپنی کتاب پر کسی نقاد یا ادیب سے کوئی دیباچہ لکھوایا، کیونکہ میرا خیال ہے کہ نقادوں کے دیباچے قاری کو مرعوب کرنے کی بجائے اسے کتاب پڑھ کر خود فیصلہ کرنے دیجیے، نقاد کی رائے مت تھوپیے کہ کتاب کیسی ہے۔ یہ واقعی نندکشور وکرم نے بہت اچھی اور بڑی بات بتائی جو بہت سے قلم کاروں کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہے۔ شادی کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ''میری شادی 11 مئی 1961 کو کرشن نگر دہلی میں ہوئی تھی تین اولادیں ہیں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں۔ بیٹیاں دہلی میں اور بیٹا یوکے میں رہائش پذیر ہے۔نند کشور وکرم صاحب کی نظر سیاست پر بھی ہے اسی لیے ہمیں سیاسی سوال کرنے کا موقع ہاتھ آگیا۔
پاکستان اور ہندوستان کے حالات کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
جواب میں انھوں نے کہا کہ غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے، اہل دانش نے بہت سوچ کر الجھائی ہے۔ کشمیر کے بارے میں کہا کہ آپ کا اپنا بیج ہے اور ہمارا اپنا بیج ہے یہاں پاکستان کی شہ رگ اور وہاں جسم کا حصہ لیکن اس کا فیصلہ ہونا چاہیے تاکہ دونوں ملک خوش رہیں ۔
ہماری گفتگو یا انٹرویو اپنے اختتام کو پہنچنے والا تھا، لہٰذا ایک دو سوال ذہن کے گوشے میں مچل رہے تھے اسی لیے انھیں آزاد کرنا ضروری تھا۔ آپ نے اپنی عمر کا قیمتی حصہ ادب کو دیا اور آج تک اپنے لہو سے باغ ادب کو سینچ رہے ہیں تو آپ کی اس کارکردگی کے نتیجے میں کوئی ایوارڈ، انعام وغیرہ آپ کو دیا گیا؟ انھوں نے جواباً کہا کہ اردو اکیڈمی نے انیسواں ادھیائے پر انعام دیا تھا، غالب ایوارڈز بھی بہت ملے ہیں اس کے علاوہ ترکی سے استنبول لائف اچیومنٹ اور دوہا، قطر سے ڈیڑھ لاکھ کیش دیا گیا۔ انٹرویو مکمل ہونے کے بعد بھی فاطمہ حسن اور نند وکرم سے گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔
آپ اپنے بارے میں مختصراً بتائیے۔ انھوں نے نہایت سادگی اور انکساری کے ساتھ جواب دیا۔
میری تاریخ پیدائش سترہ ستمبر 1929 اور جائے پیدائش راولپنڈی ہے۔ کاروان حیات کو شاہراہ وقت پر چلتے ہوئے تقریباً 90 سال ہوگئے ہیں کبھی بھی موت آسکتی ہے کب اورکس وقت یہ کسی کو نہیں معلوم ۔
تقسیم سے پیشتر ہمارے آباؤ و اجداد ضلع کہوٹہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں اراضی چھپراں میں آباد تھے اور جو تقسیم کے بعد پاکستان کا حصہ بن گیا اور اس کے بعد مشرقی پنجاب کے ضلع انبالہ آگئے اور جو ہریانہ کا حصہ بن گیا۔ اس کی وجہ پنجاب کی تبادلہ آبادی تھی۔ بزرگوں کا پیشہ کاشتکاری، پولیس اور فوج کی ملازمت تھا ۔انھوں نے اپنے خاندان کے بارے میں مزید بتایا کہ ہمارا خاندان موہیالوں کی اول الذکر ذات ''دت'' سے تعلق رکھتا ہے اور ہمارے خاندان کو دوسرے خاندانوں کی طرح اپنی خاندانی روایت پر بڑا ناز رہا ہے۔
ہمارا دوسرا سوال تھا کہ وکرم صاحب اپنی تعلیم کے بارے میں بتائیے کہ آپ نے کن کن اداروں سے تعلیم حاصل کی اور یہ سلسلہ کہاں رکا؟ انھوں نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں جواب دیا کہ میرے والد کے تبادلے اور خانگی حالات کی وجہ سے میں نے مختلف اداروں میں تعلیم حاصل کی، پہلی جماعت سناتن دھرم پرائمری اسکول سے ہندی میں پڑھی، لیکن والد صاحب کے تبادلے کے بعد ازسر نو گوجر خان میں داخلہ لینا پڑا اور جب دوسری جماعت میں کامیابی حاصل کی تو انھی دنوں والد صاحب کو مجبوراً کہوٹہ آنا پڑا کہ ملازمت کا معاملہ تھا۔ تیسری جماعت پاس کرنے کے بعد ورنیکولر کا امتحان دیا اور جب دسویں جماعت میں تھا تو فسادات شروع ہوگئے ان حالات میں راولپنڈی کو خیرباد کہنا پڑا اور انبالہ کو اپنا مسکن بنایا اور ادھر ہی سے F.A کیا۔ ایم۔اے اردو دہلی یونیورسٹی سے پاس کیا۔
وکرم صاحب ادبی زندگی کے بارے میں بتائیے؟
میری ادبی کاوشوں کا زمانہ وہ تھا، جب میں سیکنڈری جماعتوں میں زیر تعلیم تھا، میں نے ساتویں، آٹھویں جماعت ہی سے تک بندی شروع کردی تھی اور میں جو نظمیں اور غزلیں پڑھتا تو ان کی نقل کر لیتا اس کے بعد میرا رجحان افسانہ نگاری کی طرف ہوگیا پہلا افسانہ لکھا اور ہفتہ وار ''چترال'' لاہور کو بھیجا اس کی اشاعت کب ہوئی اس کا پتا اس لیے نہیں چل سکا کہ میں گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے پشاور چلا گیا تھا، جہاں میری پھوپھی مقیم تھیں لیکن تقسیم کے فوراً بعد ایک افسانہ ''ادیب'' لکھا۔ وہ ماہنامہ ''نرالا'' دہلی سے شایع ہوا انھی دنوں شاعری بھی کی جو اخبارات میں چھپی، لیکن میں نے اس کے ساتھ ہی شاعری کا ارادہ ترک کردیا اس کی وجہ مجھے بحور اور اوزان سمجھ میں نہیں آتی تھیں، اسی وجہ سے دلچسپی ختم ہوگئی۔ وکرم صاحب! آپ نے صحافتی میدان میں بھی کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں اس پر روشنی ڈالیے تاکہ قارئین آپ کی طویل صحافتی جدوجہد کے بارے میں جان سکیں۔
انھوں نے ذہن کے تاروں کو روشن کرتے ہوئے کہا کہ 1949 میں، میں نے اور دیویندراسر ''قومی اخبار'' اور ''امرت'' میں کچھ عرصہ کام یا اور اسی دوران ہم دونوں نے ترقی پسند رسالہ ''ارتقا'' بھی نکالا لیکن ابھی اس کا ایک ہی شمارہ نکلا تھا کہ دیویندراسر کو گرفتار کرلیا گیا یہ سن 1950 تھا۔اس کے بعد ''نئی کہانی'' شروع کیا لیکن دو رسالوں کی اشاعت کے بعد ہی اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا کہ اردو میں شاعری کو شامل کیے بغیر رسالہ نکالنا بہت مشکل ہے، لیکن کامیابی پھر بھی نہ ہوسکی اس واقعے کے تقریباً تیس سال بعد جب میں پریس انفارمیشن بیورو میں تھا تو ان دنوں رسالہ اور وہ بھی انفرادیت کے ساتھ نکالنے کا سوچنے لگا، بہت غور و خوض کے بعد اپنے فیصلے پر عمل کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا میرے تجویز کردہ نام ''اردو'' کے نام سے جب ڈکلیریشن لینے گیا تو پتا یہ چلا کہ اس نام سے تو کسی اور شخص نے پہلے ہی ڈکلیریشن لیا ہوا ہے لہٰذا مجھے مجبوراً ''عالمی اردو ادب'' پر اکتفا کرنا پڑا اور اب 1985 سے میں یہ پرچہ نکال رہا ہوں اس کے 32 شمارے ہوچکے ہیں جو تقریباً 4 سو صفحات پر مشتمل ہوتا ہے اور 8 خصوصی شمارے، حبیب جالب، احمد ندیم قاسمی، دیویندراسر، سردار جعفری، گوپی چند نارنگ، کشمیری لال ذاکر اور محمد حسن کی شخصیت اور ادبی کارناموں پر آچکے ہیں ابھی تازہ شمارہ مشتاق احمد یوسفی پر تھا۔میں گزشتہ 56-57 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوں۔
آپ اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں کہ آپ بہت اچھے ترجمہ نگار بھی ہیں اور کئی کتابیں بھی آچکی ہیں۔ آپ اس بارے میں کچھ کہیں گے؟
بالکل کہوں گا۔ میں نے ہندی، انگریزی، پنجابی میں متعدد مضامین اور لگ بھگ 30 کے قریب کتابیں ترجمہ کی ہیں۔ اپنے افسانوی مجموعوں اور ناولوں کی اشاعت کے بارے میں آگاہی دیجیے۔ انھوں نے کہا کہ افسانوں کے تین مجموعے بعنوانات (1)۔ ''آوارہ گرد''۔ (2)۔''آدھا بیج''۔ (3)۔''ادھوری کلیات''۔ دو ناول لکھے۔ پہلا ''یادوں کے کھنڈر''دوسرا ''انیسواں ادھیائے''۔ یہ ناول تقسیم کے حوالے سے ہے لیکن میں اسے ناول نہیں مانتا بلکہ میں اسے تجزیاتی ناول کہہ سکتا ہوں۔
انھوں نے قارئین کی معلومات میں اضافہ کیا کہ میرا کسی گروپ سے تعلق نہیں رہا اور نہ ہی میں نے اپنی کتاب پر کسی نقاد یا ادیب سے کوئی دیباچہ لکھوایا، کیونکہ میرا خیال ہے کہ نقادوں کے دیباچے قاری کو مرعوب کرنے کی بجائے اسے کتاب پڑھ کر خود فیصلہ کرنے دیجیے، نقاد کی رائے مت تھوپیے کہ کتاب کیسی ہے۔ یہ واقعی نندکشور وکرم نے بہت اچھی اور بڑی بات بتائی جو بہت سے قلم کاروں کے لیے مشعل راہ بن سکتی ہے۔ شادی کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ''میری شادی 11 مئی 1961 کو کرشن نگر دہلی میں ہوئی تھی تین اولادیں ہیں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں۔ بیٹیاں دہلی میں اور بیٹا یوکے میں رہائش پذیر ہے۔نند کشور وکرم صاحب کی نظر سیاست پر بھی ہے اسی لیے ہمیں سیاسی سوال کرنے کا موقع ہاتھ آگیا۔
پاکستان اور ہندوستان کے حالات کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
جواب میں انھوں نے کہا کہ غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے، اہل دانش نے بہت سوچ کر الجھائی ہے۔ کشمیر کے بارے میں کہا کہ آپ کا اپنا بیج ہے اور ہمارا اپنا بیج ہے یہاں پاکستان کی شہ رگ اور وہاں جسم کا حصہ لیکن اس کا فیصلہ ہونا چاہیے تاکہ دونوں ملک خوش رہیں ۔
ہماری گفتگو یا انٹرویو اپنے اختتام کو پہنچنے والا تھا، لہٰذا ایک دو سوال ذہن کے گوشے میں مچل رہے تھے اسی لیے انھیں آزاد کرنا ضروری تھا۔ آپ نے اپنی عمر کا قیمتی حصہ ادب کو دیا اور آج تک اپنے لہو سے باغ ادب کو سینچ رہے ہیں تو آپ کی اس کارکردگی کے نتیجے میں کوئی ایوارڈ، انعام وغیرہ آپ کو دیا گیا؟ انھوں نے جواباً کہا کہ اردو اکیڈمی نے انیسواں ادھیائے پر انعام دیا تھا، غالب ایوارڈز بھی بہت ملے ہیں اس کے علاوہ ترکی سے استنبول لائف اچیومنٹ اور دوہا، قطر سے ڈیڑھ لاکھ کیش دیا گیا۔ انٹرویو مکمل ہونے کے بعد بھی فاطمہ حسن اور نند وکرم سے گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔