قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل
چلیے آپ کی سہولت کے لیے ہم ایک کلیو بھی دے دیتے ہیں اور وہ کلیو ہے انڈے میں سے چوزہ مرغی اور پولٹری فارم۔
ہمیں بڑی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ پیرومرشد کی ایک اورشعری پیش گوئی پوری ہو رہی ہے بلکہ پوری ہو چکی ہے ، مرشد نے کہا تھا۔۔
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل بچوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
ہمیں بڑی خوشی ہے کہ ہمارا پانچواں ''جھوٹ'' بھی سچ نکلا۔۔۔
فقرے کی گرامر پر مت جائیے کہ یہ فقرہ دیپکا پاڈوکون نے ایک تامل لڑکی بن کر فلم چنائے ایکسپریس میں کہا ہے۔ وہ شاہ رخ کے بارے میں اپنے خاندان سے اکثر ''ناروا قسم'' کے جھوٹ بولتی ہے جو اتفاقاً حقیقت ہو جاتے ہیں۔
ہمیں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے کہ ہمیں بھی کنگ خان کا سامنا ہے اور ہم جب بھی مرشد کا کوئی شعر پڑھتے یا لکھتے ''وہ '' جھوٹ سچ ہو ''جاتا'' ہے۔
اب اس دجلے اور قطرے ۔۔ یا ''جزو'' میں ''کُل'' والا شعر پڑھیے اور سوچیے کہ صاف پتہ چلتا ہے کہ ناممکن کو ممکن کر کے بونا پارٹ کا پارٹ ادا کیا جا رہا ہے اور بونوں کو نپولین بنایا جا نہیں رہا ہے بلکہ بنایا جا چکا ہے۔
کیوں کہ ہمارے ''بنانا اسٹیٹ'' میں۔۔۔۔ سوری بنانا ان معنوں میں نہیں جو عام بیانیہ میں بیان کر کے بنے ہوئوں کو بنایا جاتا ہے بلکہ ''بنانا'' ایک اور ''بنانا'' ہوتا ہے جو ہوتا تو ''شاخوں'' پر ہے لیکن ''کیلا'' نہیں ہوتا۔
لیکن اس دوسری چیز جو کیلا نہیں لیکن کیلے کی طرح کسی درخت پر ہوتا ہے ۔ ان میں ''شاخوں'' کے علاوہ ایک اور خصوصیت بھی پائی جاتی ہے ، اب یہاں ہم آپ سے ایک سوال پوچھیں گے اور اس کے جواب سے پتہ چلے گا کہ آپ کونسا ''بنانا'' ہے۔ سوال بلکہ جواب بھی یہ ہے کہ دنیا میں تقریبا ًہر پھل نیچے کی طرف لٹکا ہوتا ہے لیکن صرف کیلا ہی ایک ایسا پھل ہے جس کا رخ اوپر کی طرف ہوتا۔۔۔ رخ نہ سہی ''دم'' سہی لیکن اوپر کی طرف ہوتا ہے اور وہ دوسری چیز جسے ''بنانا'' کہتے ہیں وہ بھی جب شاخ پر بیٹھتی ہے تو اس کی پائو پائو بھرکی آنکھیں اور پر کی طرف ہوتی ہیں،
سوری بنانے کے چکر میں ہم تو یہ بھول ہی گئے کہ ہمیں اپنے مرشد کی ایک اور بات کے سچ ہونے کی خوشی ہے لیکن ہم دیپکا پاڈوکون تو ہیں نہیں کہ اپنے کنگ خان کے بارے میں یہ کہیں کہ ''ہماری پانچواں جھوٹ بھی سچ نکلی''
لیکن اس سے کسی کو ذرا بھی انکار کی مجال نہیں ہو سکتی ہے کہ ''قطرے میں دجلہ اور جزو میں کلُ'' دیکھنا ممکن ہے۔ حالانکہ بظاہر یہ ناممکن لگتا ہے لیکن ہمارے پاس جو نپولین کی ڈکشنری ہے اس میں ناممکن کا لفظ ہے ہی نہیں۔ اس لیے ہم ''قطرے میں دجلہ'' بھی دیکھیں گے اور جزو میں کلُ بھی بھی دیکھیں گے بلکہ دکھائیں گے بھی۔ آپ نے ''انڈا'' تو دیکھا ہو گا کہیں اور نہیں تو اسکول میں استاد کو تو ''انڈا'' دیتے ہوئے دیکھا ہو گا کیونکہ یہ استاد قسم کے لوگ ''انڈا'' دینے میں ماہر ہوتے ہیں اور انڈا کیا ہے؟ جزو میں''کلُ'' ہی تو ہوتا ہے کیونکہ اسی انڈے کے اندر مرغی ہوتی ہے اور مرغی کے اندر بہت سارے انڈے پھر چوزے اور پھر مرغے مرغیاں ہوتی ہیں ابے یہ کون احمق ہو گا کہ انڈے کے ''جزو'' میں مرغی کا ''کلُ'' نہ دیکھے۔ جہاں تک قطرے میں دجلہ دکھائی دینے کی بات ہے تو مرشد نے یہاں کچھ کٹوتی کر کے ''دجلہ'' کہا ہے حالانکہ قطرے میں سے سمندر بھی نکالا جا سکتا ہے اور سمندر میں سے کوزہ نکال کر اس سمندر کو اس میں ''بند'' بھی کیا جا سکتا ہے۔ دراصل مرشد نے کبھی سمندر دیکھا ہی نہیں تھا صرف دریا دیکھے تھے اس لیے وہ قطرے میں دریا بلکہ ''جمنا'' دیکھا کرتے تھے ۔
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن
ہم کو تقلید تنک ظرفئی منصور نہیں
بہرحال مرشد کی روح کو یقناً شانتی ملی ہوگی کہ ہم اب ''لڑکے'' نہیں رہے ہیں بلکہ ''دیدہ بینا'' کے مالک ہو چکے ہیں اور ''دیدہ بینا'' بھی وہ جس کے لیے ''نرگس'' ہزاروں سال آنکھوں میں گلیسرین ڈال ڈال کر روتی رہی ہے اور نرگس کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ اس کی آنکھ اگرچہ ہمیشہ خود پر مرکوز رہتی ہے اور خود کے سوا کسی اور کی طرف دیکھتی بھی نہیں ہے علامہ نے بھی اس آنکھ کی تعریف کی ہے:
نظارہ جنبش مژگاں بھی عار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے
اور نرگس کی آنکھ سے صرف سنجے دت ہی کو دیکھا جا سکتا ہے بہرحال آنکھ ہو تو ایسی کہ قطرے میں دریا دیکھے چاہے وہ دریا سنجے دت ہی کیوں نہ ہو اور مرشد نے تو قطرے کے بارے میں اور بھی ایسا بہت کچھ بتایا ہے جو دریا کو اپنے اندر لیے ہوئے ہوتا ہے، یا دریا بن سکتا ہے
سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا
شاید آپ پوچھیں کہ کونسا قطرہ کونسا دجلہ۔ یا کونسا ''جزو'' اور کونسا ''کلُ''۔تو اس کے جواب میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اتنا عرصہ بن بن کر اتنا بنانا ہو گئے ہیں کہ آنکھیں بالکل ویسی ہو گئی ہیں جو بنایا جا چکا ہوتا ہے اور پھر بھی آپ دکھائی نہیں دے رہا ہے کہ کس وسیع پیمانے پر قطرے میں دجلے بہائے جا رہے ہیں اور کس ہنگامی بنیاد پر ''جزو'' میں سے کلُ برآمد کیے جا رہے ہیں۔
چلیے آپ کی سہولت کے لیے ہم ایک کلیو بھی دے دیتے ہیں اور وہ کلیو ہے انڈے میں سے چوزہ مرغی اور پولٹری فارم۔ یہ بھی سمجھ میں نہ آیا ہو تو ''صفر'' بھی تو انڈے کی طرح ہوتا ہے اور ایک ماہر ریاضی سے ہم نے سنا ہے کہ ''صفر'' دنیا میں سب سے بڑا معجزہ ہے کہ یہ خود کچھ بھی نہیں ہوتا لیکن دوسرے ہندسوں کی عاقبت سنوار دیتا ہے۔ یہ صفر ہی ہوتا ہے جو ہندسوں کو قیمت دیتا ہے چاہے وہ ڈالر ہوں، پونڈ ہوں یورو ہوں یا ریال اور صفر انڈا ہی تو ہوتا ہے یا دونوں ایک دوسرے جیسے ہوتے ہیں قطرہ بھی ان کی طرح ہوتا ہے اور جزو بھی کلُ کے اندر ایسا ہی پنہاں ہوتا ہے:
نشوونما ہے ''اصل'' سے غالبؔ ''فروغ'' کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل بچوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
ہمیں بڑی خوشی ہے کہ ہمارا پانچواں ''جھوٹ'' بھی سچ نکلا۔۔۔
فقرے کی گرامر پر مت جائیے کہ یہ فقرہ دیپکا پاڈوکون نے ایک تامل لڑکی بن کر فلم چنائے ایکسپریس میں کہا ہے۔ وہ شاہ رخ کے بارے میں اپنے خاندان سے اکثر ''ناروا قسم'' کے جھوٹ بولتی ہے جو اتفاقاً حقیقت ہو جاتے ہیں۔
ہمیں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے کہ ہمیں بھی کنگ خان کا سامنا ہے اور ہم جب بھی مرشد کا کوئی شعر پڑھتے یا لکھتے ''وہ '' جھوٹ سچ ہو ''جاتا'' ہے۔
اب اس دجلے اور قطرے ۔۔ یا ''جزو'' میں ''کُل'' والا شعر پڑھیے اور سوچیے کہ صاف پتہ چلتا ہے کہ ناممکن کو ممکن کر کے بونا پارٹ کا پارٹ ادا کیا جا رہا ہے اور بونوں کو نپولین بنایا جا نہیں رہا ہے بلکہ بنایا جا چکا ہے۔
کیوں کہ ہمارے ''بنانا اسٹیٹ'' میں۔۔۔۔ سوری بنانا ان معنوں میں نہیں جو عام بیانیہ میں بیان کر کے بنے ہوئوں کو بنایا جاتا ہے بلکہ ''بنانا'' ایک اور ''بنانا'' ہوتا ہے جو ہوتا تو ''شاخوں'' پر ہے لیکن ''کیلا'' نہیں ہوتا۔
لیکن اس دوسری چیز جو کیلا نہیں لیکن کیلے کی طرح کسی درخت پر ہوتا ہے ۔ ان میں ''شاخوں'' کے علاوہ ایک اور خصوصیت بھی پائی جاتی ہے ، اب یہاں ہم آپ سے ایک سوال پوچھیں گے اور اس کے جواب سے پتہ چلے گا کہ آپ کونسا ''بنانا'' ہے۔ سوال بلکہ جواب بھی یہ ہے کہ دنیا میں تقریبا ًہر پھل نیچے کی طرف لٹکا ہوتا ہے لیکن صرف کیلا ہی ایک ایسا پھل ہے جس کا رخ اوپر کی طرف ہوتا۔۔۔ رخ نہ سہی ''دم'' سہی لیکن اوپر کی طرف ہوتا ہے اور وہ دوسری چیز جسے ''بنانا'' کہتے ہیں وہ بھی جب شاخ پر بیٹھتی ہے تو اس کی پائو پائو بھرکی آنکھیں اور پر کی طرف ہوتی ہیں،
سوری بنانے کے چکر میں ہم تو یہ بھول ہی گئے کہ ہمیں اپنے مرشد کی ایک اور بات کے سچ ہونے کی خوشی ہے لیکن ہم دیپکا پاڈوکون تو ہیں نہیں کہ اپنے کنگ خان کے بارے میں یہ کہیں کہ ''ہماری پانچواں جھوٹ بھی سچ نکلی''
لیکن اس سے کسی کو ذرا بھی انکار کی مجال نہیں ہو سکتی ہے کہ ''قطرے میں دجلہ اور جزو میں کلُ'' دیکھنا ممکن ہے۔ حالانکہ بظاہر یہ ناممکن لگتا ہے لیکن ہمارے پاس جو نپولین کی ڈکشنری ہے اس میں ناممکن کا لفظ ہے ہی نہیں۔ اس لیے ہم ''قطرے میں دجلہ'' بھی دیکھیں گے اور جزو میں کلُ بھی بھی دیکھیں گے بلکہ دکھائیں گے بھی۔ آپ نے ''انڈا'' تو دیکھا ہو گا کہیں اور نہیں تو اسکول میں استاد کو تو ''انڈا'' دیتے ہوئے دیکھا ہو گا کیونکہ یہ استاد قسم کے لوگ ''انڈا'' دینے میں ماہر ہوتے ہیں اور انڈا کیا ہے؟ جزو میں''کلُ'' ہی تو ہوتا ہے کیونکہ اسی انڈے کے اندر مرغی ہوتی ہے اور مرغی کے اندر بہت سارے انڈے پھر چوزے اور پھر مرغے مرغیاں ہوتی ہیں ابے یہ کون احمق ہو گا کہ انڈے کے ''جزو'' میں مرغی کا ''کلُ'' نہ دیکھے۔ جہاں تک قطرے میں دجلہ دکھائی دینے کی بات ہے تو مرشد نے یہاں کچھ کٹوتی کر کے ''دجلہ'' کہا ہے حالانکہ قطرے میں سے سمندر بھی نکالا جا سکتا ہے اور سمندر میں سے کوزہ نکال کر اس سمندر کو اس میں ''بند'' بھی کیا جا سکتا ہے۔ دراصل مرشد نے کبھی سمندر دیکھا ہی نہیں تھا صرف دریا دیکھے تھے اس لیے وہ قطرے میں دریا بلکہ ''جمنا'' دیکھا کرتے تھے ۔
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن
ہم کو تقلید تنک ظرفئی منصور نہیں
بہرحال مرشد کی روح کو یقناً شانتی ملی ہوگی کہ ہم اب ''لڑکے'' نہیں رہے ہیں بلکہ ''دیدہ بینا'' کے مالک ہو چکے ہیں اور ''دیدہ بینا'' بھی وہ جس کے لیے ''نرگس'' ہزاروں سال آنکھوں میں گلیسرین ڈال ڈال کر روتی رہی ہے اور نرگس کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ اس کی آنکھ اگرچہ ہمیشہ خود پر مرکوز رہتی ہے اور خود کے سوا کسی اور کی طرف دیکھتی بھی نہیں ہے علامہ نے بھی اس آنکھ کی تعریف کی ہے:
نظارہ جنبش مژگاں بھی عار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے
اور نرگس کی آنکھ سے صرف سنجے دت ہی کو دیکھا جا سکتا ہے بہرحال آنکھ ہو تو ایسی کہ قطرے میں دریا دیکھے چاہے وہ دریا سنجے دت ہی کیوں نہ ہو اور مرشد نے تو قطرے کے بارے میں اور بھی ایسا بہت کچھ بتایا ہے جو دریا کو اپنے اندر لیے ہوئے ہوتا ہے، یا دریا بن سکتا ہے
سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا
شاید آپ پوچھیں کہ کونسا قطرہ کونسا دجلہ۔ یا کونسا ''جزو'' اور کونسا ''کلُ''۔تو اس کے جواب میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اتنا عرصہ بن بن کر اتنا بنانا ہو گئے ہیں کہ آنکھیں بالکل ویسی ہو گئی ہیں جو بنایا جا چکا ہوتا ہے اور پھر بھی آپ دکھائی نہیں دے رہا ہے کہ کس وسیع پیمانے پر قطرے میں دجلے بہائے جا رہے ہیں اور کس ہنگامی بنیاد پر ''جزو'' میں سے کلُ برآمد کیے جا رہے ہیں۔
چلیے آپ کی سہولت کے لیے ہم ایک کلیو بھی دے دیتے ہیں اور وہ کلیو ہے انڈے میں سے چوزہ مرغی اور پولٹری فارم۔ یہ بھی سمجھ میں نہ آیا ہو تو ''صفر'' بھی تو انڈے کی طرح ہوتا ہے اور ایک ماہر ریاضی سے ہم نے سنا ہے کہ ''صفر'' دنیا میں سب سے بڑا معجزہ ہے کہ یہ خود کچھ بھی نہیں ہوتا لیکن دوسرے ہندسوں کی عاقبت سنوار دیتا ہے۔ یہ صفر ہی ہوتا ہے جو ہندسوں کو قیمت دیتا ہے چاہے وہ ڈالر ہوں، پونڈ ہوں یورو ہوں یا ریال اور صفر انڈا ہی تو ہوتا ہے یا دونوں ایک دوسرے جیسے ہوتے ہیں قطرہ بھی ان کی طرح ہوتا ہے اور جزو بھی کلُ کے اندر ایسا ہی پنہاں ہوتا ہے:
نشوونما ہے ''اصل'' سے غالبؔ ''فروغ'' کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے