مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ
بھارت کی پشت پناہی امریکا کرتا ہے اور اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان میں امریکی نواز حکمران رہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی ہندوئوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ برصغیر میں امن قائم نہیں ہونے دیں گے اور برصغیر میں ان کا پہلا نشانہ مسلمان ہیں جن کو وہ مردہ نہیں تو زندہ درگور کرنے کی کوششوں سے کبھی باز نہیں آئیں گے۔ بھارت کی پشت پناہی امریکا کرتا ہے اور اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ پاکستان میں امریکی نواز حکمران رہیں کیونکہ یہی پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو بھارت کے ہندوئوں سے 'بات' کر سکتا ہے مگر اس مرتبہ بھارت کو پہلے سے ہی وارننگ دے دی گئی تھی کہ اینٹ کا جواب پتھر سے ملے گا اور ہمارے جانبازوں نے وہ کر کے دکھا دیا جو ہمارے وزیر اعظم نے کہا تھا۔
بھارت کے ہندوئوں نے اگست1947ء میں پاکستان اور برصغیر کے مسلمانوں کے بارے میں جو فیصلہ کیا تھا وہ اب تک اس فیصلے پر قائم ہیں اور وہ برصغیر کے مسلمانوں کو قبرستان کے سوا اور کہیں نہیں دیکھنا چاہتے ۔ انتقامی کاروائیوں کا ایک سلسلہ ہے جو قیام پاکستان سے جاری ہے ۔بنگلہ دیش کا قیام اس کی سب سے بڑی واضح علامت ہے جسے بھارت کے اس وقت کے حکمران نے ہزار سالہ بدلے اور انتقام کا نام دیا تھا۔ کشمیر اس جاری انتقامی کاروائی کی تازہ ترین مثال ہے۔
ہم مسلمانوں کے آبائو اجداد جنہوں نے بھارت کی سر زمین پر ہندوئوں کے ساتھ عمر گزاری تھی بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ یہاں دو قومیں آباد ہیں اور ان کے درمیان تہذیب و تمدن کا اتنا بڑا فرق ہے کہ یہ ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ چنانچہ اسی تاریخی تجربے نے پاکستان کی بنیاد رکھی ۔ آج کی نوجوان نسل اور آج کے جعلی دانشوروں کو اب یہ اندازہ بلکہ یقین ہو جانا چاہیئے کہ ان بزرگوں کا فیصلہ تاریخ کے تجربات کا نچوڑ تھا ۔ غیر ملکی حکمرانوں نے اگرچہ ڈیڑھ دو سو برس تک دونوں قوموں کو دبا کر رکھا اور انھیں ایک گھاٹ پر پانی پینے پر مجبور کیے رکھا لیکن یہ امن دونوں قوموں کی ایک مجبوری تھی ۔ ان غیر ملکی حکمرانوں کے جانے کے بعد وہ باہمی نفرت اور عناد زندہ ہو گئے جو دبے ہوئے تھے اور تقسیم کے وقت ہندو مسلم فسادات اس کا پہلا بے تابانہ اظہار تھا ۔
ہمارے جتنے بھی دانشور یا وفود سرکاری خرچ پر بھارت کی یاترا کریں یا ہم اپنے گرم بستروں میں بیٹھ کر بھارتی فلموں سے لطف اندوز ہوں اس سے تاریخ کی دشمنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ بھارت کا ہندو دیکھ دیکھ کر ہماری نازک حس پر چوٹ لگاتا رہتا ہے کبھی بابری مسجد ہے تو کبھی مسلمانوں کا بھارت میں موجود کوئی اور مقدس مقام ۔ اس کے جذبہ انتقام کے لیے یہ سب ضروری ہے ۔
اگر دنیاوی اعتبار سے دیکھا جائے تو بھارت ایک مضبوط ملک ہے اس کی معیشت ہم سے کئی گنا بڑی اور مضبوط ہے اس کی آبادی ہم سے کئی گنا زیادہ ہے اس آبادی کو اگر دیکھا جائے تو بھارت میں ایک عام آدمی غربت کی انتہائوں کو چھوتا نظر آئے گا ۔ لاکھوں لوگ روزانہ بھوکے سوتے ہیں لیکن ان بھوکوں کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی بند وبست نہیں کیا جاتا ۔بھارت کو جنون ہے تو صرف جنگ کا اور اس کے لیے وہ اپنے وسائل اس خطے کی سب سے بڑی فوج رکھ کر اس کے اخراجات پورے کر رہا ہے ۔ عالمی سطح پر اس کی دوستیاں مضبوط اور مستحکم ہیں ۔
پاکستان کے مسلمانوں کے مقابلے میں وہ تمام قوتیں جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے سر گرم ہیں وہ بھارت کی پشت پر ہیں اور دنیا بھر کی ان مسلم دشمن قوتوں کا سردار امریکا ان کا دم بھرتا ہے ان پر اپنا سایہ کیے ہوئے ہے۔ اس نے اسلامی دنیا کا ایک نقشہ بنا رکھا ہے اور اس میں مرضی کے رنگ بھرنے کے لیے قدم بقدم آگے بڑھ رہا ہے۔ مسلم امہ کا ایٹمی ملک پاکستان اس کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ تصور کیا جاتا ہے جس کو وہ کمزور کر دینے کی ہر ممکن کوشش میں ہے لیکن ابھی تک اسے کامیابی نہیں مل سکی کیونکہ پاکستان میں کوئی نہ کوئی خوف خدا رکھنے والا حکمران آتا ہی رہتا ہے جو پاکستان کے دفاع کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال جاتا ہے جو دشمنوں اور اس کے بد خواہوں کے دلوں میں کھٹکتا رہتا ہے ۔
ہم برصغیر کے رہنے والے مسلمان اس بات پر تو متفق ہیں کہ ہندوئوں کے ساتھ ہمارا گزارا ممکن نہیں کیونکہ ہندو قوم مطلب پرستی میں دنیا کی کسی بھی دوسری قوم سے آگے ہے اور وہ اپنا مطلب نکالنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے ۔ امریکا کی پروردہ ہندو قو م پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن دشمنوں کی کوششیں کچھ بھی کیوں نہ ہوں بات خود پاکستانی قوم پر ہی ختم ہو گی اور یہ دیکھنا پڑے گا کہ ہم حالات کا مقابلہ کرنے کی کتنی سکت رکھتے ہیں ۔ آج کے نازک ترین حالات میں جرات اور دانائی دونوں کی ضرورت ہے ۔کیا یہ دونوں ہمارے پاس موجود ہیں کیونکہ ہندوئوں نے مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے ۔ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے!
بھارت کے ہندوئوں نے اگست1947ء میں پاکستان اور برصغیر کے مسلمانوں کے بارے میں جو فیصلہ کیا تھا وہ اب تک اس فیصلے پر قائم ہیں اور وہ برصغیر کے مسلمانوں کو قبرستان کے سوا اور کہیں نہیں دیکھنا چاہتے ۔ انتقامی کاروائیوں کا ایک سلسلہ ہے جو قیام پاکستان سے جاری ہے ۔بنگلہ دیش کا قیام اس کی سب سے بڑی واضح علامت ہے جسے بھارت کے اس وقت کے حکمران نے ہزار سالہ بدلے اور انتقام کا نام دیا تھا۔ کشمیر اس جاری انتقامی کاروائی کی تازہ ترین مثال ہے۔
ہم مسلمانوں کے آبائو اجداد جنہوں نے بھارت کی سر زمین پر ہندوئوں کے ساتھ عمر گزاری تھی بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ یہاں دو قومیں آباد ہیں اور ان کے درمیان تہذیب و تمدن کا اتنا بڑا فرق ہے کہ یہ ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ چنانچہ اسی تاریخی تجربے نے پاکستان کی بنیاد رکھی ۔ آج کی نوجوان نسل اور آج کے جعلی دانشوروں کو اب یہ اندازہ بلکہ یقین ہو جانا چاہیئے کہ ان بزرگوں کا فیصلہ تاریخ کے تجربات کا نچوڑ تھا ۔ غیر ملکی حکمرانوں نے اگرچہ ڈیڑھ دو سو برس تک دونوں قوموں کو دبا کر رکھا اور انھیں ایک گھاٹ پر پانی پینے پر مجبور کیے رکھا لیکن یہ امن دونوں قوموں کی ایک مجبوری تھی ۔ ان غیر ملکی حکمرانوں کے جانے کے بعد وہ باہمی نفرت اور عناد زندہ ہو گئے جو دبے ہوئے تھے اور تقسیم کے وقت ہندو مسلم فسادات اس کا پہلا بے تابانہ اظہار تھا ۔
ہمارے جتنے بھی دانشور یا وفود سرکاری خرچ پر بھارت کی یاترا کریں یا ہم اپنے گرم بستروں میں بیٹھ کر بھارتی فلموں سے لطف اندوز ہوں اس سے تاریخ کی دشمنی پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ بھارت کا ہندو دیکھ دیکھ کر ہماری نازک حس پر چوٹ لگاتا رہتا ہے کبھی بابری مسجد ہے تو کبھی مسلمانوں کا بھارت میں موجود کوئی اور مقدس مقام ۔ اس کے جذبہ انتقام کے لیے یہ سب ضروری ہے ۔
اگر دنیاوی اعتبار سے دیکھا جائے تو بھارت ایک مضبوط ملک ہے اس کی معیشت ہم سے کئی گنا بڑی اور مضبوط ہے اس کی آبادی ہم سے کئی گنا زیادہ ہے اس آبادی کو اگر دیکھا جائے تو بھارت میں ایک عام آدمی غربت کی انتہائوں کو چھوتا نظر آئے گا ۔ لاکھوں لوگ روزانہ بھوکے سوتے ہیں لیکن ان بھوکوں کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی بند وبست نہیں کیا جاتا ۔بھارت کو جنون ہے تو صرف جنگ کا اور اس کے لیے وہ اپنے وسائل اس خطے کی سب سے بڑی فوج رکھ کر اس کے اخراجات پورے کر رہا ہے ۔ عالمی سطح پر اس کی دوستیاں مضبوط اور مستحکم ہیں ۔
پاکستان کے مسلمانوں کے مقابلے میں وہ تمام قوتیں جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے سر گرم ہیں وہ بھارت کی پشت پر ہیں اور دنیا بھر کی ان مسلم دشمن قوتوں کا سردار امریکا ان کا دم بھرتا ہے ان پر اپنا سایہ کیے ہوئے ہے۔ اس نے اسلامی دنیا کا ایک نقشہ بنا رکھا ہے اور اس میں مرضی کے رنگ بھرنے کے لیے قدم بقدم آگے بڑھ رہا ہے۔ مسلم امہ کا ایٹمی ملک پاکستان اس کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ تصور کیا جاتا ہے جس کو وہ کمزور کر دینے کی ہر ممکن کوشش میں ہے لیکن ابھی تک اسے کامیابی نہیں مل سکی کیونکہ پاکستان میں کوئی نہ کوئی خوف خدا رکھنے والا حکمران آتا ہی رہتا ہے جو پاکستان کے دفاع کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال جاتا ہے جو دشمنوں اور اس کے بد خواہوں کے دلوں میں کھٹکتا رہتا ہے ۔
ہم برصغیر کے رہنے والے مسلمان اس بات پر تو متفق ہیں کہ ہندوئوں کے ساتھ ہمارا گزارا ممکن نہیں کیونکہ ہندو قوم مطلب پرستی میں دنیا کی کسی بھی دوسری قوم سے آگے ہے اور وہ اپنا مطلب نکالنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے ۔ امریکا کی پروردہ ہندو قو م پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن دشمنوں کی کوششیں کچھ بھی کیوں نہ ہوں بات خود پاکستانی قوم پر ہی ختم ہو گی اور یہ دیکھنا پڑے گا کہ ہم حالات کا مقابلہ کرنے کی کتنی سکت رکھتے ہیں ۔ آج کے نازک ترین حالات میں جرات اور دانائی دونوں کی ضرورت ہے ۔کیا یہ دونوں ہمارے پاس موجود ہیں کیونکہ ہندوئوں نے مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے ۔ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے!