والد کی خدمات پر فخر ہے سکندر میاں داد

بدرمیاںداد کی بارہویں برسی پر بیٹے سکندر میاں داد کا اظہارِ خیال

بدرمیاںداد کی بارہویں برسی پر بیٹے سکندر میاں داد کا اظہارِ خیال۔ فوٹو: فائل

MANCHESTER:
فن قوالی میں اپنے منفرد انداز اور آواز سے نام بنانے والے استاد بدر میانداد خاں کو ہم سے جدا ہوئے 12سال گزر گئے، لیکن ان کی گائی قوالیاں آج بھی زبان زد عام ہیں۔

بدر میانداد خاں 17 فروری 1962ء کوپاکپتن میں پیدا ہوئے، انہیں قوالی کا فن ورثے میں ملا اورانہوں نے اپنے والد استاد میانداد خاں سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ ان کا گھرانہ تو6 سوبرس سے فن قوالی کے ساتھ وابستہ ہے اور اپنی خاندانی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے مختصر عرصہ میں انہوں نے شب وروز محنت کے ساتھ خوب نام کمایا۔ بدرمیانداد نے اپنے فنی سفرکے دوران جہاں بہت سے آڈیو البم ریکارڈ کئے، وہیں بیرون ملک ہونے والے پروگراموں میں بھی عمدہ پرفارمنس سے پاکستان کا نام روشن کیا۔ امریکہ ، کینیڈا، یورپ، برطانیہ، انڈیا سمیت دنیا کے بیشترممالک میں وہ جب بھی پرفارم کرتے توان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد پہنچتی اورفرمائش کرکے قوالیاں سنتی۔

بدر میانداد نے اپنے فنی سفرکے دوران قوالی کو جدید اندازمیں ڈھالنے کیلئے بھی بہت تجربات کئے اوران کا ایک تجربہ ایسا کامیاب رہا کہ ان کی قوالیوںکو بالی وڈ والے بھی لینے پرمجبورہوئے۔ اس کے علاوہ اگرپاکستان میں بننے والی فلموں کی بات کی جائے توبدرمیانداد واحد قوال تھے جن کی قوالیاں سب سے زیادہ فلموں میں شامل کی گئیں بلکہ ان پرفلمبند بھی کیا گیا ہے۔ بدرمیانداد نے قوالیوں کے ساتھ ساتھ غزل گیت اورملی نغمے بھی گائے اوران کے گیتوں کے البم کوملک بھرمیں زبردست رسپانس ملا۔


بدرمیانداد خاں نے اپنے کیرئیرکے دوران شوکت خانم کینسرہسپتال کی تعمیرِ کیلئے ہونے والی فنڈ ریزنگ مہم میں عمران خان کے ساتھ بہت کام کیا اوردنیا کے بیشترممالک میں پرفارم کرتے ہوئے شرکاء کوخوب محظوظ کیا۔ وہ 2مارچ 2007ء کو علالت کے باعث وفات پاگئے تھے لیکن اب ان کی خاندانی روایت کوآگے بڑھاتے ہوئے ان کے صاحبزادے سکندرمیانداد، علی میانداد اورشاہ زیب فن قوالی سے وابستہ ہیں۔

بارہویں برسی کے موقع پرسکندرمیانداد نے ''ایکسپریس''سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ میرے والد ایک بہترین گائیک اورشفیق باپ تھے۔ انہوں نے اپنی تمام عمر فن موسیقی کیلئے وقف رکھی اورہمارے خاندانی کام کوبزرگوںکی طرح بخوبی انجام دیا، جس پرہمیں فخر ہے۔ وہ ایک بہترین گائیک، موسیقاراورمیوزک ارینجر تھے۔

یہی وجہ ہے کہ استاد نصرت فتح علی خاں کی طرح ان کی گائی قوالیاں اورگیت پڑوسی ملک بھارت میں کاپی کئے گئے اوربہت سے موسیقار میرے والد کی دھنوں کی بدولت نامور ہوئے۔ اب ان کے کام کوہم تینوں بھائی آگے لے کربڑھ رہے ہیں۔ یہ بہت مشکل ہے لیکن ہم اپنے والد اوربزرگوں کے نام کوزندہ رکھنے کیلئے قوالی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ حالانکہ آج کے دورمیں میوزک کے شعبے میں ہر کوئی راتوں رات شہرت کی بلندیوں کو چھونے کیلئے مشینوںکا سہارا لے رہا ہے لیکن ہم روایتی انداز سے کام کرتے ہوئے اپنی منزل کی جانب آگے بڑھ رہے ہیں۔

یہ راستہ خاصا مشکل ہے لیکن میرے والد اکثرایک بات سمجھایا کرتے تھے کہ شارٹ کٹ سے صرف وہی لوگ آگے بڑھنا چاہتے ہیں جن کومحنت کرنے سے کوئی لگاؤ نہ ہو۔ اسی لئے وہ لوگ بہت جلد ریس سے باہرہوجاتے ہیں، جبکہ محنت کرنے والا فنکارتاعمر زندہ رہتا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ہم تواپنے والد کے بتائے ہوئے راستے پرچل رہے ہیں اورہماری کوشش ہے کہ جس طرح ہمارے والد نے فن قوالی میں نام کمایا اوربزرگان دین کا پیغام دنیا بھرمیں پہنچایا ، اسی طرح ہم بھی کام کریں اوراپنے والد اورخاندان کا نام زندہ رکھیں۔

Load Next Story