شادمان ٹائون مکینوں نے سرکاری فلیٹ خالی کرنے شروع کردیے

اس وقت کی حکومت نے یہ کہہ کر یہاں ٹھہرایاتھا کہ متبادل جگہ فراہم کی جائے گی، مکینوں کا شکوہ

عدالتی حکم پر شادمان کی رہائشی خاتون فلیٹ خالی کرنے کے لیے اپنا سامان جمع کررہی ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

عدالت کے حکم پر شادمان ٹائون میں پوسٹ آفس سوسائٹی کے سرکاری فلیٹس مکینوں نے خالی کرنے شروع کردیے،24 گھنٹے میں فلیٹ خالی کرنے کے نوٹس نے مکینوں کو پریشانی سے دوچار کر دیا، فلیٹوں میں ایسے خاندان بھی موجود ہیں جو1988کے لسانی فسادات میں اندرون سندھ سے اپنی جان بچا کر کراچی آئے تھے اور انھیں 22 سال قبل ان فلیٹوں میں یہ بول کر ٹھہرایا گیا تھا کہ انھیں متبادل جگہ فراہم کی جائیگی،مکینوں نے شکوہ کیا ہے کہ جن سے مدد کی امید تھی، انھوں نے بھی آنکھیں پھیر لیں، کس سے فریاد کریں، علاقے کے منتخب نمائندوں نے ہماری خیریت تک دریافت کرنا گوارا نہیں کی۔

تفصیلات کے مطابق شادمان ٹاؤن میں واقع پوسٹ آفس سوسائٹی کے سرکاری فلیٹوں کو خالی کرائے جانے کے عدالتی حکم پر شارع نور جہاں پولیس نے جمعرات کی شب فلیٹوں کے مکینوں کو 24 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا جس پر مکینوں میں نہ صرف شدید اشتعال پھیل گیا بلکہ انھوں نے اس پر احتجاج بھی کیا تھا ، جمعہ کو سرکاری فلیٹوں سے مکینوں نے ہنگامی بنیادوں پر نقل مکانی شروع کر دی، فلیٹ کے نابینا مکین حافظ حسن علی نے بتایا کہ 1988 کے لسانی فسادات کے باعث اندرون سندھ کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے اپنی جان بچا کر کراچی پہنچنے والے خاندانوں کو اس وقت کی حکومت نے ان فلیٹوں میں ٹھہرایا تھا۔

تاہم بعدازاں کچھ خاندانوں کو متبادل جگہ فراہم کر دی گئی اور وہ لوگ وہاں پر منتقل ہوگئے اور اس دوران 92 آپریشن شروع ہوگیا اور فلیٹوں میں بچ جانے والے مستحقین کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا، انھوں نے بتایا اندرون سندھ سے آنے والے لوگوں کو متبادل جگہ فراہم کرنے کے بعد خالی ہونے والے فلیٹوں میں دیگر افراد آکر رہنے لگے، حافظ حسن علی بتایا کہ ہم سے اب تیسری ہجرت کرائی جا رہی ہے ہمارے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں کہ کرائے پر حاصل کرنے والے فلیٹ کا ایڈوانس دے سکیں، ہم تو اپنا سب کچھ چھوڑ کر اپنی جان اور عزت آبرو بچا کر خالی ہاتھ آئے تھے۔


انھوں نے کہا کہ ہم قبضہ گروپ نہیں،انھوں نے حکومت سے شکوہ کیا کہ 22 سال قبل اندرون سندھ سے اپنی جان بچا کر خالی ہاتھ آنے والے خاندانوں کا مداوا کیا جائے اور جو خالصتاً مستحق ہیں انھیں سر چھپانے کے لیے متبادل جگہ فراہم کی جائے، ایک اور فلیٹ کے رہائشی عبدالقیوم نے بتایا کہ 36 فلیٹوں میں سے 25 فلیٹوں کے مکین ٹرکوں میں سامان لاد کر جاچکے ہیں جبکہ کچھ خاندان باقی رہ گئے ہیں ، انھوں نے بتایا کہ رکشا چلا کر اپنے 8 بچوں کا پیٹ پالتا ہوں جبکہ فلیٹوں میں رہائشی تمام مکین محنت کش ہیں، کوئی ٹھیلا لگاتا ہے تو کوئی پتھارا لگا کر اپنی زندگی کا گاڑی کو کھینچ رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ گھر کا تمام سامان باندھ دیا ہے جسے مختلف رشتے داروں کے گھر رکھ دونگا جبکہ بچوں کے سر چھپانے کا تاحال کوئی آسرا نہیں ہوسکا، عبدالقیوم نے آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ اﷲ ہی ہماری غیب سے کوئی مدد کرے گا، اس موقع پر فلیٹ کے مکینوں نے کہا کہ رات بھر سے بھوکے پیاسے ہیں نہ تو کسی نے پوچھا اور جن سے امید تھی انھوں نے بھی آنکھیں پھیر لیں، شکوہ کریں تو کس سے کریں اب تو ہمارا اﷲ ہی مالک ہے۔

مکینوں کا کہنا تھا کہ علاقے کے منتخب نمائندوں نے ہماری خیریت تک دریافت کرنا گوارا نہیں کی، مکینوں نے بتایا کہ احتجاج کے باعث متعدد افراد پر پولیس نے وحشیانہ لاٹھی چارج کیا جس کے باعث 2 مکینوں کی نہ صرف ٹانگیں ٹوٹ گئیں بلکہ بھگدڑ کے باعث کمسن لڑکی کا ہاتھ بھی ٹوٹ گیا اور سونے پر سہاگہ کہ پولیس نے بلاجواز فلیٹ کے6 مکینوں کو ہنگامہ آرائی کے الزام میں گرفتار کرلیا اور رات گئے تک ان کی رہائی کے عوض مبینہ طور رشوت طلب کرتے رہے اور نہ دینے پر ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے عدالت میں پیش کر دیا جنھیں بعدازاں عدالت نے تمام افراد کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔
Load Next Story