کرپشن زدہ معیشت اور سماجی ناہمواری

قانون کا بے رحم شکنجہ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ سکتا ہے

قانون کا بے رحم شکنجہ اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

وطن عزیز پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن زدہ معیشت ہے۔ کرپشن کا پیسہ خودغرض، مفادپرست، بے ضمیر اور بے اصول افراد کے پاس جاتا ہے۔

اخلاقیات سے گرے ہوئے کم ظرف افراد کے پاس اگر کسی بھی ذریعے سے ناجائز دولت آ جائے تو پورا معاشرتی اور سماجی ڈھانچہ زمین بوس ہو جاتا ہے۔ پورے معاشرے میں عدم توازن اور طبقاتی تفریق پیدا ہو جاتی ہے۔ مالی کرپشن ہمیشہ اخلاقی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔ کرپشن کے خلاف ہمارے معاشرے میں کمزور آوازیں تو اٹھتی رہتی ہیں مگر کرپشن زدہ معیشت کا جو زہر معاشرے کی تمام رگوں میں سرایت کر چکا ہے اس کا علاج تجویز کیا گیا ہے نہ تدارک کی ٹھوس حکمت عملی بنائی گئی ہے۔ انھی وجوہات کی بناء پر یہ ہمارے معاشرے کا سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔

کسی بھی معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہاں کی معیشت ہی ناجائز دولت پر استوار ہو جائے۔ ناجائز دولت پر استوار معیشت سے پورے معاشرے میں عدم توازن، معاشرتی و سماجی ناہمواری، خودغرضی، ضمیر فروشی اور ناانصافی کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد یہاں آباد بے ضمیر افراد نے ناجائز دولت کے حصول کے طریقے اور ذرائع ڈھونڈ لئے تھے۔ پاکستان کے قومی رہنماؤں کے جلد رخصت ہونے کی وجہ سے ملک کی باگ ڈور ان افراد کے ہاتھوں میں آگئی کہ جو فکر، تدبر اور بصیرت سے عاری تھے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ کرپشن زدہ معیشت کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ کرپشن زدہ معیشت کی وجہ سے کیا سانحات جنم لیتے ہیں۔

آج ملک کی یہ صورتحال ہے کہ آج پاکستان میں انھی لوگوں کی اکثریت خوشحال زندگی گزار رہی ہے کہ جنہوں نے کسی بھی طریقے سے ناجائز دولت کمائی ۔ یہ دولت رشوت، کمیشن، منشیات فروشی، جرائم، اسمگلنگ، ناجائز فروشی، ذخیرہ اندوزی اور ظلم و استحصال سے کمائی گئی۔ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں منتقل ہو گیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کا موجودہ ''جمہوری نظام'' بھی اسی کرپشن زدہ معیشت کا مرہون منت ہے۔ انتخابات میں کھڑے ہونے والے زیادہ تر امیدواروں کی تعداد ان افراد پر مشتمل ہوتی ہے کہ جنہوں نے کسی بھی طریقے سے ناجائز دولت کمائی ہو ۔ اب تو قبضہ مافیا اور لینڈ مافیا بھی ''لیڈروں'' کی فہرست میں نمایاں نظر آتا ہے۔ جو لوگ خود انتخابات میں حصہ نہیں لیتے وہ اپنی ناجائز دولت امیدواروں کی انتخابی مہم میں خرچ کرتے ہیں اگر ان کا امیدوار جیت جائے تو وہ خرچ کی گئی دولت کا کئی گنا مختلف مراعات کے ذریعے کما لیتے ہیں ۔ یہ لوگ انتخابات میں کر وڑوں روپے خرچ کرتے ہیں اگرچہ الیکشن کمیشن کی طرف سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے مخصوص رقم کا تعین کر دیا گیا ہے مگر ہر حلقے میں اس مقررکردہ رقم سے کئی گنا زیادہ رقم خرچ کی جاتی ہے۔ جب سے حرام کی کمائی سیاسی نظام میں داخل ہو گئی ہے نظریاتی سیاست کی جگہ مفاداتی سیاست فروغ پا چکی ہے۔

ایک منجھے ہوئے بزرگ سیاستدان نے کہا کہ اب انتخابات میں اس قدر رقم خرچ ہوتی ہے کہ جیتنے والے سیاستدان اپنے اختیارات اور منصب کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ملکی خزانوں کو لوٹنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ اب انتخابات کسی پروگرام یا نظریہ کی بنیاد پر نہیں دولت کے بل بوتے پر جیتے جا سکتے ہیں ۔ بیرون ممالک جائیدادوں اور منی لانڈرنگ کی اصل وجہ بھی یہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بدعنوان عناصر سیاسی عناصر کے سپورٹر بن کر سیاسی میدان میں آتے تھے تو میں نے اس سنگین مسئلے کی نشاندہی کی تھی مگر اس وقت کسی نے توجہ نہیں دی۔ان کی ناجائز دولت کے بل بوتے پر بہت سے نااہل افراد منتخب ہوئے تو پھر پورا سیاسی نظام ہی تبدیل ہو گیا۔

پاکستان میں جہاں ہر شعبے میں عدم توازن پیدا ہوا ہے، وہاں مختلف طبقات بھی عدم توازن کا شکار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جس معاشرے میں مختلف طبقات کے مابین عدم توازن بڑھ جائے وہاں ملکی وحدت کو خدشات پیدا ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ طبقاتی تفریق میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اور اس طبقاتی تفریق میں اضافے کی اصل وجہ بھی کرپشن زدہ معیشت ہے۔ اقتصادی امور کے ایک ماہر کے بقول پاکستانی معیشت کا نمایاں حصہ ناجائز وسائل سے حاصل کی گئی دولت پر استوار ہے اور رئیل اسٹیٹ کے شعبے میں 65 فیصد سرمایہ کاری ناجائز کمائی کی دولت سے کی گئی ہے ۔ پاکستان میں جائیدادوں کی قیمت بڑھنے کی اصل وجہ یہی عنصر ہے۔ اس کے علاوہ مہنگا ئی کی بڑی وجہ بھی ناجائز کمائی گئی دولت ہے۔ اس اقتصادی امور کے ماہر کا دعویٰ ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد معیشت کو کرپشن کی دیمک لگ چکی تھی۔

محنت کے بغیر دولت کمانے کا جو کلچر پاکستان میں پیدا ہوا اس کی دنیا میں دوسری مثال نہیں ملتی ۔ اگرچہ کئی مخلص رہنماؤں نے اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگاتے ہوئے کرپشن کی روک تھام کیلئے کئی کوششیں کیں مگر ان کی تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہوئیں اس کی وجہ یہ ہے کہ کرپشن کا زہر پورے معاشرے کی رگوں میں اس طرح سرایت کر چکا ہے کہ اب اسے نکالا ہی نہیں جا سکتا ۔ بلکہ یہ زہر معاشرے کی رگوں میں چلنے والے خون کا لازمی جزو بن چکا ہے ۔ سماجیات کے ماہرین عرصہ دراز سے قوم کو اس سنگین مسئلے سے خبردارکرتے رہے ہیں ۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ کرپشن زدہ معیشت نے پورا سماجی و قومی ڈھانچہ زمین بوس کر دیا ہے۔ غلط ہاتھوں میں دولت کی کثرت ہو تو اخلاقی اقدار زوال پذیر ہو جاتی ہیں ۔ ایسے معاشرے میں ہر فرد ، ہر ضمیر اور ہر شے کی قیمت لگا دی جاتی ہے۔ جہاں اس معاملے کے بے شمار سنگین پہلو سامنے آتے ہیں وہاں معاشرے میں محنت کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے اور تقریباً تمام افراد سہل پسند ہو جاتے ہیں، اخلاقی جرائم میں اضافہ ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ عورت کے احترام میں بھی کمی آ جاتی ہے ۔ عورت کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے کی بجائے اسے بھی بکاؤ مال سمجھا جاتا ہے اور اس کی بھی قیمت لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

محنت کا سارا بوجھ مظلوم اور پسے ہوئے طبقات پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ہر ادارے میں موجود بے ضمیر افراد کرپٹ افراد کے ہاتھوں کٹھ پتلیاں بن جاتے ہیں ۔ ناجائز دولت کمانے والے اپنا ہر ناجائز کام بھی رشوت دے کر نکلوا لیتے ہیں ان کی ناجائز دولت ہر لالچی اور بے ضمیر سرکاری ملازم کی آنکھوں میں چمک پیدا کر دیتی ہے ۔ حقدار کی حق تلفی کرکے دوسرو ں کے ناجائز کام کئے جاتے ہیں۔


اپنی ناجائز دولت کی وجہ سے نااہل افراد کی بڑی تعداد ملک کی قسمت کی مالک بن جاتی ہے۔ ان کی ناجائز دولت انتخابات جیتنے کے کام آتی ہے۔ یہ لوگ اپنی دولت انتخابات میں خرچ کرکے اپنی پسند کے امیدواروں کو جتواتے میں اور بعد میں ان سے ہر ناجائز کام کرواتے ہیں۔جس معاشرے کی معیشت ناجائز کمائی گئی دولت پر استوار ہو جائے وہاں ہر شعبے میں عدم توازن اور معاشی ناہمواری پیدا ہو جاتی ہے اور یہی چیز جرائم میں اضافے کا سبب بھی بنتی ہے۔ کرپشن زدہ معاشرے میں مہنگائی کا گراف بھی آسمان تک پہنچ جاتا ہے۔ سرمائے کا بڑا حصہ فضول خرچیوں اور تعیشات پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔ اپنے ملک کی بہترین اور معیاری مصنوعات ارزاں قیمتوں پر خریدنے کی بجائے درآمد کردہ ناقص کوالٹی کا مال بھی مہنگے داموں خرید لیا جاتا ہے۔ دولت کا بیشتر حصہ فضول رسومات، فضول کاموں اور ہوٹلوں میں مہنگے کھانوں پر خرچ کر دیا جاتا ہے۔ ایسی اشیاء خریدی جاتی ہیں کہ جن کی عموماً ضرورت نہیں ہوتی۔

پاکستان میں تمام مسائل کی اصل وجہ کرپشن زدہ معیشت ہے۔ ملک میں تعلیم، علاج اور انصاف بک رہا ہے۔ ناجائز دولت کمانے والے پاکستان میں مہنگی تعلیم کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ کسی بھی ریاست یا معاشرے کی ترقی کیلئے تعلیم بنیادی جزو ہے۔ ہر حکومت اپنے عوام کی تعلیم و تربیت اپنی ترجیحات میں رکھتی ہے۔ پاکستان ایک ایسے دور میں قائم ہوا کہ جب علم و تحقیق کے سوتے پھوٹ رہے تھے۔ ہر لمحہ نت نئی ایجادات ہو رہی تھیں، کائناتی اسرار آشکار ہو رہے تھے۔ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی پر تحقیق میں مزید اضافہ ہو رہا تھا ۔ علم کی سمت مکمل طور پر تبدیل ہو چکی تھی مگر پاکستان میں روایتی انداز تعلیم ہی اپنایا گیا جس کی وجہ سے ہم جدید تعلیمی نظام سے ہم آہنگ ہی نہ ہو سکے۔ ہم تعلیمی میدان میں پوری دنیا سے پیچھے رہ گئے۔ اس صورتحال کا فائدہ بعض افراد نے نجی شعبے میں تعلیمی ادارے قائم کرکے اٹھایا ۔ ہمارا نظام تعلیم بھی طبقاتی تفریق کا شکار ہو گیا ۔ نجی شعبے نے خوبصورت عمارات میں تعلیمی ادارے قائم کئے۔ ایک سروے کے مطابق 75 فیصد بدعنوان افراد نے اپنے بچوں کو ان مہنگے اسکولوں میں داخل کروایا۔ اب یہ صورتحال ہے کہ سرکاری اسکولوں میں صرف وہی بچے جاتے ہیں کہ جن کے والدین کے ذرائع آمدن خاصے محدود ہوں ۔ اگرچہ ان نجی اداروں میں دی جانے والی تعلیم بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے مگران اداروں میں چونکہ امراء کے بچے زیرتعلیم ہوتے ہیں اس لئے ماحول الگ نظر آتا ہے۔ بدعنوان عناصر کی ناجائز دولت نے معاشرے میں تعلیمی تفریق کی وہ انتہا پیدا کی ہے کہ جسے کم کرنا اب کسی کے بس میں نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض سرکاری ملازمین کے بچے بھی انتہائی مہنگے اسکولوں میں زیرتعلیم ہیں مگران سے بھی ذرائع آمدن نہیں پوچھے جاتے ۔

کرپشن زدہ حیثیت کی وجہ سے پرائیویٹ ہسپتالوں کا کلچر پیدا ہوا۔ زیادہ تر پرائیویٹ ہسپتال ایسے ہیں کہ جہاں دنوں میں لاکھوں روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ کینال روڈ لاہور پر قائم ایک مشہور ہسپتال سے تعلق رکھنے والے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ایک رکن نے بتایا کہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کروانے والے خاندانوں کی اکثریت بدعنوان عناصر سے تعلق رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا جو افراد ضرورت سے بھی زیادہ بدعنوان ہوتے ہیں وہ اپنا علاج بیرون ملک سے کرواتے ہیں ۔

وطن عزیز میں کاروباری اسے کہا جاتا ہے کہ جو ملی بھگت سے ٹیکس، بجلی اور گیس کی چوری کا گر جانتا ہو، یہ لوگ متعلقہ اداروں کے بے ضمیر افراد کی ملی بھگت سے ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا کر اپنی ذاتی تجوریاں بھرتے رہتے ہیں اس کا خمیازہ کچلی ہوئی عوام کو بھگتنا پڑتا ہے، کہا جاتا ہے کہ ٹیکس، بجلی اور گیس چوری کئے بغیر کوئی بھی بڑا صنعتکار یا بزنس مین نہیں بن سکتا ۔ اقتصادیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارا تمام تر تجارتی اور صنعتی نظام بھی کرپشن زدہ ہو چکا ہے۔ اگر آج تجارتی اور صنعتی نظام سے کرپشن کا ناسور ختم ہو جائے تو ملک میں مثبت پہلو دیکھنے کو ملے گا، ایف آئی اے کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ بیرون ممالک میں موجود پاکستانیوں کے اثاثوں کی چھان بین کی گئی تو انکشاف ہوا کہ سرکاری اداروں کے افسران نے بھی بیرون ممالک جائیدادیں بنائی ہوئی ہیں ۔ بیرون ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طالبعلموں کی کثیر تعداد بھی سرکاری ملازمین کے بچوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ تجارتی اور صنعتی ادارے متعلقہ محکموں کی ملی بھگت کے بغیر اتنی زیادہ ترقی کر ہی نہیں سکتے، مگر اس کلچر نے ملکی معیشت کو مکمل طور پر کھوکھلا کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کلچر کو تبدیل کرنا شاید کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔

ملک میں بڑھتے ہوئے ظلم و استحصال اور ناانصافی کی بڑی وجہ بھی ہماری کرپشن زدہ معیشت ہے۔ ناجائز دولت کمانے والے بدعنوان عناصر مہنگے ترین وکیلوں سے رجوع کرتے ہیں ۔ دولت کی چمک سے فیصلے اپنے حق میں کروائے جاتے ہیں، جو لوگ مہنگے وکلا ء سے رجوع کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ انصاف سے محروم رہ جاتے ہیں مگر انصاف کے حصول کی راہ میں اصل رکاوٹ خود قانون نافذ کروانے والے ادارے ہیں، ان اداروں میں موجود بدعنوان عناصر رشوت لے کر اتنی ناقص تفتیش کرتے ہیں کہ سارا فائدہ ملزموں اور مجرموں کو پہنچتا ہے ۔

اگرچہ بدعنوانی کا زہر پورے معاشرے کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے مگر ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس ''زہر'' کو نکالنے کیلئے سارا خون ہی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ان کا کہنا ہے کہ جس ریاست میں معیشت کالے دھن پر کھڑی ہو جائے وہاں تبدیلی لانا خاصا مشکل کام ہوتا ہے کیونکہ بدعنوانی کا یہی پیسہ ہی معیشت کو چلائے رکھتا ہے، اسی پیسے سے جائیدادیں خریدی اور بنائی جاتی ہیں۔ یہی پیسہ سامان تعیشات کی خریداری پر خرچ ہوتا ہے، بڑے سٹوروں، بڑے ہوٹلوں، الیکٹرونکس مصنوعات، جیولری، میک اپ اور مہنگے ملبوسات کے خریدار بھی ناجائز دولت کمانے والے ہی ہوتے ہیں انہی کی ناجائز دولت پورے ملک میں ''گھوم'' رہی ہوتی ہے، اوپر سے نیچے آتی ہے جس کی وجہ سے معیشت کا پہیہ چل رہا ہے اگر یہ بدعنوان عناصر کسی وجہ سے دولت خرچ کرنی بند کر دیں تو اس کے عجیب سے اثرات ملکی معیشت پر مرتب ہوں گے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ کالے دھن کو سفید کرنے کی کوششیں بھی اس خوف کی وجہ سے ہوتی ہیں کہ ملکی معیشت تباہ نہ ہو جائے مگر کالے دھن والی معیشت ہر خرابی کا باعث بنتی ہے قوم کی اخلاقی اقدار تباہ ہو جاتی ہیں ۔

اس میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ کرپشن زدہ معیشت کسی بھی ریاست کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ پاکستان کے ماہر معاشیات اور سماجی اسکالرز کو اس کا بخوبی اندازہ ہے مگر آج تک کسی بھی حکومت نے اس عفریت سے نبٹنے کیلئے کوئی ٹھوس پروگرام نہیں بنایا، نہ ہی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ اس کی واحد وجہ لیڈرشپ کا فقدان ہے، ہمارے وطن کو دانشور سیاستدانوں کی ضرورت ہے کہ جو ملکی مسائل کا ادراک بھی رکھتے ہوں اور ان پر قابو پانے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں ۔ بدعنوان عناصر کی کامیابیوں نے پوری قوم کو دولت کمانے کی دوڑ میں مگن کر دیا ہے۔ جائز اور ناجائز کی تفریق ختم ہو چکی ہے کیونکہ اب انسان کی عزت اس کے اخلاقی اوصاف اور ایمانداری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی دولت کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ کسی کی عزت اس کے منصب کی وجہ سے نہیں اس کے محلات اور بڑی گاڑیوں کی وجہ سے کی جاتی ہے یہی افراد توجہ اور عزت کے مستحق ٹھہرتے ہیں ، ہر فرد دولت کمانے کی دوڑ میں شامل ہے۔ ریاست، انسانیت، اخلاقی و سماجی اقدار، اعلیٰ اسلامی روایات، قومیت اور حب الوطنی کے جذبات سب کچھ دولت کی چمک کے سامنے ماند پڑ چکے ہیں۔

ملکی اور قومی ترقی کیلئے بھی لازم ہے کہ کرپشن زدہ معیشت کے عفریت سے آزاد ہوا جائے اس کا تدارک چنداں مشکل نہیں ہے۔ ہر فرد سے صرف یہ پوچھا جائے کہ وہ وسائل سے بڑھ کر شاہانہ زندگی کیسے گزار رہا ہے اس کے ذرائع آمدن اس کے اخراجات سے مطابقت رکھتے ہیں کہ نہیں؟ اس کا حل تو موجود ہے قانون بھی موجود ہے۔ ادارے بھی موجود ہیں مگر صرف عزم اور مضبوط ارادے کی ضرورت ہے۔ موجودہ وزیر اعظم عمران خان کرپشن زدہ معیشت کی ہولناکی سے بخوبی آگاہ ہیں مگر وہ اس ناسور کو اس وقت جڑ سے اکھاڑنے میں کامیاب ہوں گے کہ جب طاقتور ادارے اور آزاد عدلیہ ان کی پشت پر ہو گی ۔ ہماری قوم اور اداروں نے دہشت گردی کے خلاف اعصاب شکن جنگ جیتی ہے ۔ ملک کی سالمیت کے خلاف کام کرنے والی نادیدہ قوتوں کو بھی ہر محاذ پر شکست فاش دی ہے، اگر معاشی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کا عزم لے کر حکومت، ریاستی ادارے اور قوم دوبارہ ایک پیچ پر کھڑی ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کرپشن زدہ معیشت کو ٹھیک نہ کیا جا سکے ۔ معیشت کی اصلاح ہو گی تو قومی، سماجی اور اخلاقی رویوں میں بہتری آئے گی ۔ ضمیر اور جسموں کی قیمت نہیں لگائی جائے گی ۔ کرپشن کے بازار میں ہر شے بکاؤ مال نہیں سمجھی جائے گی، مگر اس سلسلے میں میڈیا پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے نفع و نقصان کی پرواہ کئے بغیر کرپٹ عناصر کو ہیرو کے طور پر نہیں بلکہ معاشرے کے ناسور کی حیثیت سے پیش کرے، کرپٹ عناصر گرفتاری کے بعد بھی میڈیا کے سامنے انگلیوں سے ''وکٹری'' کا نشان بنا کر دکھا رہے ہوتے ہیں۔ ایسے افراد جنہوں نے اپنی ناجائز دولت سے قومی، سماجی، اخلاقی اور معاشی ناہمواری پیدا کی، نفرت کے قابل ہیں ۔ قوم کو ان کا اصل روپ دکھانے اور ان کی وجہ سے پیدا ہونے والی برائیوں سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے، مورخ بڑی بے رحمی سے منفی رویوں اور زوال کے اسباب کے متعلق لکھتے ہیں، دولت یہیں رہ جاتی ہے تاریخ میں ہونے والا ذکر محفوظ رہ جاتا ہے۔اس لئے بحیثیت قوم ہمیں خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story