زرداری کی شاعری

شاعر حضرات محبوب کے حُسن، اُس کی نزاکت، اپنی کم زوری، فراق کے غم اور وصال کی خوشی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔

شاعر حضرات محبوب کے حُسن، اُس کی نزاکت، اپنی کم زوری، فراق کے غم اور وصال کی خوشی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی اور بہت کچھ کہا۔ ان کی تین باتیں ہمارے دل کو لگیں، ایک یہ کہ ''ملک مشکل حالات سے گزر رہا ہے'' دوسری ''حکومت کو جتنا وقت دینا تھا دے دیا اب مزید وقت نہیں دیں گے'' تیسری ''جیل میرا دوسرا گھر ہے۔''

اگرچہ زرداری صاحب شاعر نہیں، مگر ہم انھیں شاعر مانتے ہیں، کیوں کہ ان میں شعراء کی کئی صفات پائی جاتی ہیں۔ جب وہ دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے ہیں تو لگتا ہے غزل ہورہی ہے، مخالفین پر طنز کے تیر چلائیں تو محسوس ہوتا ہے ہجو کہی جارہی ہے، ان کے لبوں سے کسی کی تعریف قصیدے کا روپ دھار لیتی ہے، جب اپنی قیدوبند کی تاریخ بیان کریں تو شان دار رزمیہ وجود میں آتا ہے، اور ان کی دھمکیوں نے دنیائے شعر میں ''دھمکیہ'' شاعری کی صنف کی طرح ڈالی ہے۔

شاعروں کی طرح ''قفس'' سے ان کا گہرا تعلق رہا ہے، وزن کے معاملے تو وہ سو فی صد شاعر ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کدھر، کس پر، کب اور کتنا وزن ڈالنا ہے، ان کے لیے تو نعرہ بھی وزن والا لگایا جاتا ہے، یعنی ''اک زرداری سب پر بھاری''، اور ان کے شاعر ہونے کا آخری ثبوت یہ کہ شاعر مشاعرے لوٹتا ہے اور وہ۔۔۔۔۔

تو ان کی پریس کانفرنس میں کہے گئے شعر ''ملک مشکل حالات سے گزر رہا ہے'' میں شاعر کی مُلک سے مُراد درحقیقت ملک نہیں، آپ نے وہ نغمہ تو سُنا ہوگا ''میں بھی پاکستان ہوں، تو بھی پاکستان ہے''، اس مثال سے شعر کے معنی آپ پر صاف ہوگئے ہوں گے۔ شاعر سمجھتا ہے کہ ''میں بھی پاکستان ہوں'' بلکہ ''میں ہی پاکستان ہوں'' جو مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ اس شعر میں شاعر بغیر کہے یہ کہنا چاہتا ہے کہ ''ملک'' مشکل حالات سے گزرتے گزرتے حوالات تک پہنچنے والا ہے۔ ''ملک'' کی مشکلات کا تذکرہ کرکے وہ یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ۔۔۔ہم ''مُلک'' بچانے نکلے ہیں، تم آؤ ہمارے ساتھ چلو۔ مگر بچنے کی اُمید بھی نہیں بچی ہے، اور تو اور عمر بھر کی ''بچت'' بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔


دوسرے شعر میں شاعر کہتا ہے ''حکومت کو جتنا وقت دینا تھا دے دیا اب مزید وقت نہیں دیں گے۔'' اس شعر میں شاعر دھمکی نہیں دے رہا، وہ صرف یہ بتا رہا ہے کہ ''اے میرے محبوب! میرے پاس اب دینے کو وقت نہیں ہے، جو ہے وہ بُرا وقت ہے، جو تم لوگے نہیں۔'' شاعر نے یہاں ''وقت'' کو ''دوست وہ ہے جو بُرے وقت میں کام آئے'' کے سُنہری قول کے معنی میں استعمال کیا ہے، یوں کوزے میں دریا یا چوزے میں مرُغا بند کردیا ہے۔ شاعر حکومت سے سینیٹ کے انتخابات، وزیراعظم اور صدر کے چناؤ کے وقت اپنے ''صاف چُھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں'' جیسے تعاون کو لفظ ''وقت'' کے ذریعے لاکر یہ کہنا چاہتا ہے کہ ''ٹیم ٹیم کا گیم ہے پیارے۔۔۔اتنا کرنے پر بھی تم نہ ہوسکے ہمارے۔''

شاعر حضرات محبوب کے حُسن، اُس کی نزاکت، اپنی کم زوری، فراق کے غم اور وصال کی خوشی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، مگر ہمارا شاعر بعض چیزوں کو بہت گھٹا کر پیش کرتا ہے، غزل کے تیسرے شعر میں شاعر کہتا ہے، ''جیل میرا دوسرا گھر ہے۔'' یوں شاعر نے صرف ایک گھر کی ملکیت کا دعویٰ کیا ہے، شاعر بھول گیا کہ اس کے ''مکاناتِ'' آہ وفغاں اور بھی ہیں، مکانات شاعر کے ہیں اور آہ وفغاں عوام کی۔ یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ شاعر نے جیل کو دوسرا گھر کہہ کر شوہروں کی ترجمانی کی ہے یا وہ اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ جیل گھر جیسا ہوگا اور وہاں گھر لانے کے قابل تمام ''سازوسامان'' کی فراہمی کی سہولت موجود ہوگی، اور وہ سلاخوں کے پیچھے پہنچتے ہی کہے گا، ''جیل'' کو دیکھ کے گھر یاد آیا۔ لیکن اس بار شاید ایسا نہ ہو اور شاعر کو اپنے دوسرے گھر کے بارے میں کہنا پڑے۔۔۔ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر اُداسی بال کھولے سو رہی ہے۔

یہ وقت کی کمی ہے کہ شاعر نے شاعری کے قواعد کی پرواہ نہ کرتے ہوئے صرف تین اشعار کی غزل کہی ہے۔ ممکن ہے شاعر نے غزل کے اور بھی شعر کہہ رکھے ہوں، جو وہ وقتاً فوقتاً سُناتا رہے گا، لیکن شاعر کو جلدازجلد اپنی یہ غزل نذرسماعت کردینی چاہیے، اس سے پہلے کہ ''مقدمۂ شعروشاعری'' شروع ہوجائے اور شاعر کا قافیہ مزید تنگ ہوجائے۔

 
Load Next Story