ورلڈ کپ 1992 کی فتح پاکستان کرکٹ کے سنہرے دور کا آغاز ہوا انضمام

کئی اسٹارز طویل عرصے تک آب و تاب دکھاتے رہے، 2015 کا ایونٹ مشکل کنڈیشنز میں ثابت قدم رہنے والوں کوصلاحیتوں کے اظہار۔۔۔

کئی اسٹارز طویل عرصے تک آب و تاب دکھاتے رہے،2015 کا ایونٹ مشکل کنڈیشنز میں ثابت قدم رہنے والوں کوصلاحیتوں کے اظہارکا موقع دے گا۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
انضمام الحق نے کہا ہے کہ ورلڈ کپ 1992 کی فتح سے پاکستان کرکٹ کے سنہرے دور کا آغاز ہوا۔

میگا ایونٹ سے اُبھرنے والے کئی اسٹارز ایک عرصہ تک اپنی آب و تاب دکھاتے رہے،سابق کپتان کے مطابق ایک بار پھر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں شیڈول2015 کا ورلڈ کپ مشکل کنڈیشنز میں ثابت قدمی دکھانے والوں کو صلاحیتوں کے اظہارکے بھرپور مواقع فراہم کرے گا، نوجوانوں کو اس چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے خود کو منوانا چاہیے۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان کی 1992 ورلڈ کپ فتح کے اہم کردار انضمام الحق ایک نو آموز بیٹسمین کے طور پر منظر عام پر آئے اور مستقبل کے امکانات روشن کرکے وطن واپس لوٹے، یوں تو انھوں نے 10 اننگز میں 225 رنز اسکور کیے لیکن نیوزی لینڈ کیخلاف سیمی فائنل میں 37 گیندوں پر 60 اور انگلینڈ سے فائنل میں 35 گیندوں پر 42 رنز کی اننگز نے انھیں آنے والے وقتوں کا بڑا کرکٹر ثابت کردیا۔

انضمام نے2007 میں ریٹائر ہونے تک مستند بیٹسمین کے طور پر 8830 ٹیسٹ اور 11739 رنز اپنے نام پر درج کرائے۔تاریخی فتح کی یادیں تازہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ورلڈ کپ کے افق سے ابھرنے والے کئی کھلاڑی مستقبل کے اسٹار ثابت ہوئے، وہیں سے پاکستان کرکٹ کے سنہرے دور کا آغاز ہوا، قومی ٹیم نے ایک طاقت کے طور پر اپنی پہچان بنائی، جن حالات میں گرین شرٹس نے کئی بار گر کر سنبھلتے ہوئے مسلسل فتوحات کے ساتھ ٹائٹل جیتا۔




اس کے بعد کھلاڑیوں کا اپنی صلاحیتوں پر اعتماد بڑھ گیا،انھیں یقین ہوگیا کہ اگر ہم ورلڈ کپ حاصل کرسکتے ہیں تو مزید کامیابیاں کیوں نہیں مل سکتیں، 90 کی دہائی میں انگلینڈ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز اور سری لنکا کے خلاف فتوحات اسی پختہ عزم کا نتیجہ تھیں۔ پاکستان نے اسی دور میں آسٹریلیشیا کپ اور 5 سہ ملکی سیریز بھی اپنے نام کیں، ورلڈ کپ 1996 کا کوارٹر فائنل اور 1999 کا فائنل کھیلا۔ انضمام الحق کا کہنا ہے کہ 1992میں پاکستان کی مضبوط ترین ٹیم میدان میں نہیں اتری تھی، وقار یونس انجری کا شکاراور سعید انور بھی دستیاب نہیں تھے، کپتان عمران خان اور جاوید میانداد مکمل فٹ نہیں تھے۔

نصف کے قریب کھلاڑی آسٹریلیا میں پہلی بار کھیلے، ٹیم میں موجود 4 پلیئرز مشکل حالات اور دباؤ میں کھیلنے کا حوصلہ ہونے کی وجہ سے خود سخت مقابلہ کرتے اور جونیئرز کو بھی ساتھ لے کر چلتے ہوئے فتح کے راستے بناتے، عمران خان، جاوید میانداد، رمیز راجہ اور وسیم اکرم نے کئی مواقع پر اپنی کارکردگی سے گرین شرٹس کو کامیابی کی ڈگر پر ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔ورلڈ کپ 2015 کے حوالے سے انضمام الحق نے کہا کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں نوجوانوں کیلیے صلاحیتوں کے اظہار کا بہترین موقع ہوگا، مشکل حالات میں گھبراہٹ کا شکار ہوئے بغیر میچ پلان پر کاربند رہنا اور کھیل پر پوری توجہ مرکوز رکھنا ہو گی،حریف کی قوت اور کمزوریوں پر نظر رکھتے ہوئے پرفارم کرنے کی کوشش کریں تو کامیابی مقدر بنے گی۔

انھوں نے کہا میگا ایونٹ کے دوران کنڈیشنز سخت ہوں گی، بہترین فٹنس کے حامل کھلاڑی ہی پرفارم کرسکیں گے، بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اترکر پوری جان لڑانے والی ٹیم ہی ورلڈ کپ اپنے شوکیس کی زینت بنا سکے گی۔
Load Next Story