جمہوریت کی بھینس
عمران خان اتنا بے وقوف نہیں کہ اس جمہوریت کو گود لے لیتے جس پر عوام نے پان کی پچکاری لگا دی ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کے عاشقان ایسے ایسے بیان دیتے ہیں کہ انھیں پڑھ کر چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں ۔ حزب اختلاف کا اوڑھنا بچھونا جمہوریت بن گئی ہے، اخباری بیانات برسات میں آسمان سے گرنے والی مینڈکوں کی طرح ٹپک رہے ہیں۔ ان کی رنگا رنگی کا عالم یہ ہے کہ انھیں ہم سیاسی بیانات کی کہکشاں کا نام دے سکتے ہیں۔ ہر جماعت میں ایک میڈیا سیل ہوتا ہے اور رہنما اس میڈیا سیل کی ہدایت اور گائیڈ لائن کے مطابق بیانات جاری کرتے ہیں اور تقاریر فرماتے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی اپنے دور وزارت عظمیٰ کے دوران بہت کم بولتے تھے اور بولتے تھے تو ناپ تول کر بولتے تھے لیکن جب سے وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہوئے ہیں گلا پھاڑ کر بول رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جو رہنما گلا پھاڑ کر بولتا ہے اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ ہم بھی ایک عرصے سے سوچ رہے ہیں کہ کالم نگاری چھوڑ کر تقریر نگاری یا بیان نگاری شروع کریں تاکہ اپنا بھی جمہوریت پسندوں میںکچھ نام ہوجائے ۔ لیکن اس حوالے سے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں جھوٹ بولنا نہیں آتا، اور سیاست جھوٹ کے پاؤں پر کھڑی رہتی ہے۔ سنا گیا ہے کہ اہل سیاست کو تقریر کرنے اور بیانات جاری کرنے کا ایک سالہ کورس کرایا جاتا ہے اور ٹیسٹ بھی لیا جاتا ہے۔
شاہد خاقان عباسی سابق وزیر اعظم نے فرمایا ہے کہ ''ہم جمہوریت کی حفاظت بھی کریں گے اور موجودہ حکومت کو بھی گرائیں گے۔'' باقی کے اپوزیشن لیڈر بھی ایسا ہی بھاشن دے رہے ہیں،ایں چہ بوالعجبی است۔ اب یہ سارے سیاستدان جمہوریت کی حفاظت کس طرح کریں گے۔ اس سوال کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ''ہم جمہوریت کی حفاظت اسی طرح کریں گے جس طرح بلی دودھ کی حفاظت کرتی ہے۔'' ہمارے سامنے جو سیاسی لیڈر ہیں، سب بہت کرانک سیاستدان ہیں۔ کم از کم ان تجربہ کار سیاستدانوں سے اس قسم کے بیانات اور تقاریرکی امید نہیں کی جا سکتی۔ دراصل ہمارے ملک کی جمہوریت بارہ مسالے کی چاٹ بنی ہوئی ہے اور سیاست میں مسالوں کی اس قدر بہتات ہے کہ انھیں ترقی یافتہ ملکوں کو برآمد کیا جا سکتا ہے۔ اس نیک کام سے ترقی یافتہ ملکوں کے سیاستدان بھی ہمارے سیاستدانوں کی طرح وزن دار بیانات دینے لگیں گے۔
ہمارے سیاستدان جمہوریت کی بھینس کا دودھ پی کر جوان ہوتے ہیں ۔ بے چارے سیاستدان اگر جھوٹ بولتے ہیں تو اس میں سیاستدانوں کا کوئی قصور نہیں، بھینس کا قصور ہے۔ ہمارے میاں صاحب (بڑے) کو اللہ سلامت رکھے، انھوں نے اس قسم کی بھینسیں جمہوریت کے راستے میں اتنی بندھوا دی ہیں کہ اہل سیاست چلتے پھرتے ان بھینسوں کا دودھ پیتے ہیں اور بیانات جاری کرتے ہیں، تقریریں فرماتے ہیں۔
ہمارے چھوٹے میاں صاحب جب زندان سے کچہری کی طرف جاتے ہیں تو تندرست لگتے ہیں ہے۔
بات چلی تھی شاہد خاقان عباسی سابق وزیر اعظم کی جمہوریت کی حفاظت اور موجودہ حکومت کے گرانے کی۔ ہماری عمران خانی حکومت نے کچھ نہ سوجھا تو غیر قانونی عمارتیں گرانے کا کام شروع کر دیا چونکہ ہمارے ملک میں اوپر سے نیچے تک غیر قانونی کام ہی ہوتے ہیں، لہٰذا عمرانی حکومت کا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیر پنجاب سے کراچی تک غیر قانونی تعمیرات کو بری طرح بلکہ اس طرح بلڈوز کر دیا گیا کہ ہر طرف غیر قانونی عمارتوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔ اگر عمران خان ملبے کے اس ڈھیر کو امریکا برآمد کر دیں تو انھیں سعودی عرب اور چین وغیرہ سے امداد لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ امریکی سائنس اتنی ترقی کرچکے ہے کہ وہ پاکستانی ملبے سے خوبصورت کئی منزلہ عمارتیں بنانا شروع کریں گے اور پانی کے جہاز یا ساتویں بحری بیڑے کے ذریعے پسماندہ ملکوں کو برآمد کرنے لگیں گے۔
بات چلی تھی خاقان عباسی صاحب کی تقریر سے اور پہنچ گئی ملبے کے ڈھیر سے کئی منزلہ عمارتیں بنا کر امریکا کے ساتویں بحری بیڑے کے ذریعے پسماندہ ملکوں کو برآمد کرنے تک۔ جمہوریت مغربی ملکوں کا من بھاتا کھاجا ہے، ہم جیسوں نے جمہوریت کو سمجھے بغیر اچک لیا۔ اب جمہوریت ایسے گلے پڑی ہے کہ چھچھوندر کے منہ کا سانپ بن گئی ہے۔ نگلیں تو اندھے اگلیں تو کوڑھی۔ عمران خان چوبیس گھاٹ کا پانی پیے ہوئے کھلاڑی ہیں انھیں اندازہ تھا کہ جمہوریت، جمہوریت کھیلنے میں مزہ نہیں آئے گا سو انھوں نے نیا پاکستان کا نعرہ بلند کیا۔
عمران خان اتنا بے وقوف نہیں کہ اس جمہوریت کو گود لے لیتے جس پر عوام نے پان کی پچکاری لگا دی ہے، اس لیے انھوں نے نیا پاکستان نئی جمہوریت کا ڈول ڈالا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان نے نئے ملک نئی جمہوریت کا شوشہ چھوڑ کر پرانے سیاست کاروں کو چونکا دیا ہے اور انھیں خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ اگر عوام عمران خان کے نئے پاکستان نئی جمہوریت کے جھانسے میں آ گئے تو پرانی سیاست اور پرانی جمہوریت بیوہ ہو جائے گی۔ سو خاقان عباسی نے کھل کر کہا کہ ہم عمران خان کی حکومت کو تو گرا دیں گے لیکن جمہوریت کی حفاظت ہر طرح کریں گے؟ کیونکہ جمہوریت ایک ایسی بھینس ہے ، سیاستدان بغیر تکلف کے اس بھینس کا دودھ پیتے اور عوام کو دعا دیتے رہیں گے۔
شاہد خاقان عباسی اپنے دور وزارت عظمیٰ کے دوران بہت کم بولتے تھے اور بولتے تھے تو ناپ تول کر بولتے تھے لیکن جب سے وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہوئے ہیں گلا پھاڑ کر بول رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جو رہنما گلا پھاڑ کر بولتا ہے اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ ہم بھی ایک عرصے سے سوچ رہے ہیں کہ کالم نگاری چھوڑ کر تقریر نگاری یا بیان نگاری شروع کریں تاکہ اپنا بھی جمہوریت پسندوں میںکچھ نام ہوجائے ۔ لیکن اس حوالے سے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں جھوٹ بولنا نہیں آتا، اور سیاست جھوٹ کے پاؤں پر کھڑی رہتی ہے۔ سنا گیا ہے کہ اہل سیاست کو تقریر کرنے اور بیانات جاری کرنے کا ایک سالہ کورس کرایا جاتا ہے اور ٹیسٹ بھی لیا جاتا ہے۔
شاہد خاقان عباسی سابق وزیر اعظم نے فرمایا ہے کہ ''ہم جمہوریت کی حفاظت بھی کریں گے اور موجودہ حکومت کو بھی گرائیں گے۔'' باقی کے اپوزیشن لیڈر بھی ایسا ہی بھاشن دے رہے ہیں،ایں چہ بوالعجبی است۔ اب یہ سارے سیاستدان جمہوریت کی حفاظت کس طرح کریں گے۔ اس سوال کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ''ہم جمہوریت کی حفاظت اسی طرح کریں گے جس طرح بلی دودھ کی حفاظت کرتی ہے۔'' ہمارے سامنے جو سیاسی لیڈر ہیں، سب بہت کرانک سیاستدان ہیں۔ کم از کم ان تجربہ کار سیاستدانوں سے اس قسم کے بیانات اور تقاریرکی امید نہیں کی جا سکتی۔ دراصل ہمارے ملک کی جمہوریت بارہ مسالے کی چاٹ بنی ہوئی ہے اور سیاست میں مسالوں کی اس قدر بہتات ہے کہ انھیں ترقی یافتہ ملکوں کو برآمد کیا جا سکتا ہے۔ اس نیک کام سے ترقی یافتہ ملکوں کے سیاستدان بھی ہمارے سیاستدانوں کی طرح وزن دار بیانات دینے لگیں گے۔
ہمارے سیاستدان جمہوریت کی بھینس کا دودھ پی کر جوان ہوتے ہیں ۔ بے چارے سیاستدان اگر جھوٹ بولتے ہیں تو اس میں سیاستدانوں کا کوئی قصور نہیں، بھینس کا قصور ہے۔ ہمارے میاں صاحب (بڑے) کو اللہ سلامت رکھے، انھوں نے اس قسم کی بھینسیں جمہوریت کے راستے میں اتنی بندھوا دی ہیں کہ اہل سیاست چلتے پھرتے ان بھینسوں کا دودھ پیتے ہیں اور بیانات جاری کرتے ہیں، تقریریں فرماتے ہیں۔
ہمارے چھوٹے میاں صاحب جب زندان سے کچہری کی طرف جاتے ہیں تو تندرست لگتے ہیں ہے۔
بات چلی تھی شاہد خاقان عباسی سابق وزیر اعظم کی جمہوریت کی حفاظت اور موجودہ حکومت کے گرانے کی۔ ہماری عمران خانی حکومت نے کچھ نہ سوجھا تو غیر قانونی عمارتیں گرانے کا کام شروع کر دیا چونکہ ہمارے ملک میں اوپر سے نیچے تک غیر قانونی کام ہی ہوتے ہیں، لہٰذا عمرانی حکومت کا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیر پنجاب سے کراچی تک غیر قانونی تعمیرات کو بری طرح بلکہ اس طرح بلڈوز کر دیا گیا کہ ہر طرف غیر قانونی عمارتوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔ اگر عمران خان ملبے کے اس ڈھیر کو امریکا برآمد کر دیں تو انھیں سعودی عرب اور چین وغیرہ سے امداد لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ امریکی سائنس اتنی ترقی کرچکے ہے کہ وہ پاکستانی ملبے سے خوبصورت کئی منزلہ عمارتیں بنانا شروع کریں گے اور پانی کے جہاز یا ساتویں بحری بیڑے کے ذریعے پسماندہ ملکوں کو برآمد کرنے لگیں گے۔
بات چلی تھی خاقان عباسی صاحب کی تقریر سے اور پہنچ گئی ملبے کے ڈھیر سے کئی منزلہ عمارتیں بنا کر امریکا کے ساتویں بحری بیڑے کے ذریعے پسماندہ ملکوں کو برآمد کرنے تک۔ جمہوریت مغربی ملکوں کا من بھاتا کھاجا ہے، ہم جیسوں نے جمہوریت کو سمجھے بغیر اچک لیا۔ اب جمہوریت ایسے گلے پڑی ہے کہ چھچھوندر کے منہ کا سانپ بن گئی ہے۔ نگلیں تو اندھے اگلیں تو کوڑھی۔ عمران خان چوبیس گھاٹ کا پانی پیے ہوئے کھلاڑی ہیں انھیں اندازہ تھا کہ جمہوریت، جمہوریت کھیلنے میں مزہ نہیں آئے گا سو انھوں نے نیا پاکستان کا نعرہ بلند کیا۔
عمران خان اتنا بے وقوف نہیں کہ اس جمہوریت کو گود لے لیتے جس پر عوام نے پان کی پچکاری لگا دی ہے، اس لیے انھوں نے نیا پاکستان نئی جمہوریت کا ڈول ڈالا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان نے نئے ملک نئی جمہوریت کا شوشہ چھوڑ کر پرانے سیاست کاروں کو چونکا دیا ہے اور انھیں خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ اگر عوام عمران خان کے نئے پاکستان نئی جمہوریت کے جھانسے میں آ گئے تو پرانی سیاست اور پرانی جمہوریت بیوہ ہو جائے گی۔ سو خاقان عباسی نے کھل کر کہا کہ ہم عمران خان کی حکومت کو تو گرا دیں گے لیکن جمہوریت کی حفاظت ہر طرح کریں گے؟ کیونکہ جمہوریت ایک ایسی بھینس ہے ، سیاستدان بغیر تکلف کے اس بھینس کا دودھ پیتے اور عوام کو دعا دیتے رہیں گے۔