بھارتی وزیراعظم کی سوچ نہیں بدلے گی
آج بھی آر ایس ایس اور نریندر مودی کے پاکستان مخالف جذبات حددرجہ مشکل اور پرتشدد ہیں۔
پلوامہ کے حادثہ کے بعد بے حد سنجیدہ سوالات کھڑے ہو چکے ہیں۔ مشکل بات یہ ہے کہ ان سوالات کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو واقعی ان کا حق تھا۔ اس سے پہلے کہ دونوں ریاستوں کی موجودہ کشیدگی پر جزوی گزارشات کروں۔
بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر ملک، ریاست اور حکومت کا اپنا سچ ہوتا ہے۔ واقعی معروضی حقیقتوں پر مبنی ہو، یہ ہرگز ہرگز ضروری نہیں ہے۔ جب کوئی بھی ریاست اپنے بیانیہ کو حتمی طور پر ترتیب دے ڈالتی ہے تو اس پر سوالات کی گنجائش حددرجہ کم رہ جاتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ دنیا کی کوئی بھی ریاست مکمل طور پر صحیح نہیں بولتی۔ اس میں تھوڑا سا غیرحقیقی عنصر ضرور ہوتا ہے۔
معاملہ فہمی بھی کافی حدتک شامل ہوتی ہے۔ مگر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان معاملات اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان پرغیرمتعصب طریقے سے بات کرنا مشکل سے مشکل تر ہو چکا ہے۔ ناممکن کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ مگر معاملہ تقریباً ناممکن حدود تک پہنچ چکا ہے۔ اب کیا کیا جائے۔ ماحول کو مخصوص حکمتِ عملی سے دونوں اطراف سے اس قدر جذباتی کر دیا گیا ہے کہ دلیل پر بات کرنا ناممکن ہے۔ دونوں حکومتوں کے بیانے سے معمولی سا اختلاف کرنا غداری کے زمرے میں آجاتا ہے۔ مثال لے لیجیے۔ ہندوستان میں ستائیس سیاسی جماعتوں پر مبنی اپوزیشن نے نریندر مودی کے بیانیے کو چیلنج کیا ہے۔
فوری طور پر بی جے پی کی حکومت نے انھیں پاکستان دوست اور ہندوستان کا غدار قرار دیدیا ہے۔ یہ سب کچھ غیرمعمولی ہے۔ اس مشکل صورتحال کا کوئی حل نہیں ہے۔ نہ جنگ اور نہ مذاکرات۔ ہم تمام ایک خاص سوچ کے تابع بنا دیے گئے ہیں اور فی الحال، اس مخصوص سوچ کو تبدیل کرنا ناممکن ہے۔ دونوں ممالک میں عوامی سطح پر بالکل ایک جیسا ماحول ہے۔ اب معاملات کو کیسے حل کیا جائے۔ اس پر بات کرنا ضروری ہے اور میرے نزدیک حب الوطنی کا عین تقاضہ ہے۔
کسی بھی تجزیے سے پہلے ضروری ہے کہ نریندر مودی کے ذہن اور فکر کو سمجھا جائے۔ آٹھ برس کی عمر میں نریندر مودی آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کر چکا تھا یعنی اوائل عمری سے مودی کے ذہن میں ہندو مذہب کی سربلندی اور دیگر مذاہب کی نفی شامل تھی۔ آر ایس ایس کا نصاب اور منشور پڑھنا بھی ضروری ہے۔ یہ جماعت 1925ء میں کیشاد بالی رام نے شروع کی۔ بنیادی منشور ہندو مذہب کی نشاۃ ثانیہ ہے۔ ہر ممبر کے ذہن میں یہ بات راسخ ہے کہ برصغیر صرف اور صرف ہندوئوں کا ہے۔ باقی تمام مذاہب کا اس خطے پر کوئی قانونی یا اخلاقی حق نہیں ہے۔
برصغیر کی تقسیم کے وقت آر ایس ایس نے پاکستان بننے کی بھرپور مخالفت کی تھی۔ ان کے اکابرین کا خیال تھا کہ نہرو، گاندھی، پٹیل اور کانگریس کے لیڈر انتہائی کمزور لوگ ہیں اور برصغیر کی تقسیم اس وقت کے کانگریسی عمائدین کی شخصی کمزوری کی وجہ سے ہوئی تھی۔ 1949ء میں جب ہندوستان کا آئین بنایا گیا تو آر ایس ایس نے اسکو ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کے بقول ا س میں ہندوئوں کی مذہبی کتاب ''منوسم رتی'' کے بنیادی اُصولوں کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ آر ایس ایس نے ہندوستان کے ترنگے قومی پرچم کو بھی ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کے نزدیک جھنڈے کا رنگ صرف اور صرف ہندوئوں کے مقدس رنگ، زرد (Saffron) ہونا چاہیے۔ طویل بات کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
آر ایس ایس میں بچپن سے شامل ہونے والا نریندر مودی، اپنی سوچ، فکر، عمل اور کردار میں صرف اور صرف متعصب ترین ہندو ہے۔ یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ تمام مذاہب کی طرح ہندوئوں میں بھی معتدل مزاج لوگ موجود ہیں۔ مگر آر ایس ایس کی سوچ حددرجہ دائیں بازو کی ہے۔ نریندر مودی کا بچپن، جوانی اور اب بڑھاپے پر صرف اور صرف آر ایس ایس کی چھاپ ہے۔ بی جے پی، اسی سیاسی شدت پسند تنظیم یعنی آر ایس ایس کا سیاسی بازو ہے۔ یہ نکتہ حددرجہ اہم ہے۔ کیونکہ آر ایس ایس کی مخالفت ہندوستان کے سیکولر طبقے میں موجود ہے لہٰذا بی جے پی کو اس کا ایک ذیلی سیاسی ادارہ بنا کر پیش کیا گیا ہے تاکہ عام لوگوں کو معلوم نہ ہو پائے کہ اصل جڑ یعنی آر ایس ایس کے خیالات کتنے منفی اور درشت ہیں۔
آج بھی آر ایس ایس اور نریندر مودی کے پاکستان مخالف جذبات حددرجہ مشکل اور پرتشدد ہیں۔ شائد آپکو یقین نہ آئے۔ بی جے پی الیکشن کے ذریعے حکومت میں آئی ہے۔ مگر یہ بنیادی طور پر مغربی جمہوریت کے خلاف ہے۔ ایک مثال سامنے رکھتا ہوں۔ بی جے پی نے مسلمانوں کے اکثریت علاقوں میں بھی مقامی مسلمان سیاستدانوں کو ٹکٹ دینے سے انکار کیا ہے۔ یوپی اس کی ایک زندہ مثال ہے۔
دونوں ممالک کی حالیہ جھڑپ میری نظر میں مکمل طور پر غیرحتمی ہے۔ یہ معاملہ ٹھنڈا پڑا ہے مگر ہرگز ہرگز ختم نہیں ہوا۔ اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ نریندر مودی کی زندگی کا بنیادی اُصول مسلمانوں سے شدید نفرت پر مبنی ہے۔ بی جے پی کے صدر امت شا کے نظریات پر غور کیجیے۔ راہول کنول کو انٹرویو دیتے ہوئے صرف دو دن پہلے اس نے صاف صاف کہا ہے کہ پاکستان کے وجود کو کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جائیگا۔ لوگ اس وقت کشمیر کو کشیدگی کی بنیادی وجہ سمجھ رہے ہیں۔ یہ مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ معاملہ کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم اور جبر سے بہت آگے کا ہے۔ نریندرمودی اور بی جے پی کا پارٹی صدر دراصل پاکستان کے وجود پر مشتعل ہیں اور یہی ان کی سیاسی سوچ ہے۔ کشمیر میں دراندازی کا الزام صرف اور صرف ایک دکھاوا ہے۔
گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر نریندر مودی نے برملا کہا تھا، کہ ایک مسلمان مارا جائے تو بالکل اسی طرح ہے جیسے ایک جانور مارا جائے۔ جس جانور کا مودی نے ذکر کیا تھا، اس کا نام نہیں لکھنا چاہتا۔ مگر نریندر مودی کے دور میں ہندوستان کے مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی کوششیں بالکل عام ہیں۔ اس مہم جوئی کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ معمولی سے حقائق عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمیں بحثیت قوم علم ہونا چاہیے کہ بی جے پی، امت شا اور نریندر مودی اصل میں کیا ہیں۔ بچپن سے لے کر آج تک نریندر مودی کا ذہن آر ایس ایس کے منشور کا غلام ہے۔ وہ اس سے باہر آہی نہیں سکتا اور نہ آئیگا۔
ہمارے ملک میں اکثر دانشور یہ کہتے ہیں کہ امن کو موقعہ دیں۔ بالکل درست بات ہے۔ کوئی بھی صائب عقل کا انسان بالکل یہی کہے گا مگر سوچنے کی بات ہے کہ کیا نریندر مودی امن چاہتا ہے۔ طالبعلم کے طور پر عرض ہے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مودی اور امت شا کی موجودگی میں کسی قسم کا پائیدار امن کا ماحول بن سکے گا۔ پلوامہ کے حادثہ پر ہندوستان بنیادی حقائق ہی سننے کے لیے تیار نہیں۔ ہندوستان کے تمام چینلز بار بار کہہ رہے ہیں کہ یہ غیرمسلح سپاہیوں کے خلاف حملہ ہوا ہے۔
یہ حقیقت سے بہت لاتعلقی کی بات ہے۔ ہندوستان فوج کا یہ قافلہ مکمل طور پر ہر طرح کے اسلحہ سے لیس تھا۔ یہ حملہ بنیادی طور پر ایک ایسے نوجوان نے کیا ہے جسکو ہندوستان پیراملٹری فورس نے جی بھر کر ذلیل کیا تھا۔ بغیر وجہ کے تشدد کیا تھا۔ اس کی ناک زمین پر رگڑوائی تھی۔ یہ ایک ایسے لڑکے کا ردعمل تھا جسکی عزت نفس دوسرے آدمیوں کی موجودگی میں پامال کی گئی تھی۔ ٹھیک دو سال پہلے اپنے گھر سے چلا گیا تھا۔ آزادی کی مقامی تنظیموں میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ پلوامہ کے بعدکسی انڈین چینل یا اخبار نے اس نوجوان کی بندوق اٹھانے کی وجہ نہیں بتائی۔
چلیے، پاکستان کو ملوث کرنے کے الزام کو ایک طرف رہنے دیجیے۔ محترمہ محبوبہ مفتی جو مقبوضہ کشمیر کی وزیراعلیٰ رہ چکی ہیں۔ کشمیر کے مسائل اور لوگوں کے ذہن کو سمجھتی ہیں۔ انھوں نے متعدد انٹرویوز اور مناظروں میں کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیرکے نوجوان، ہندوستان حکومت کی مسلمان کُش اور کشمیری کُش پالیسیوں کے خلاف ہتھیار اُٹھا رہے ہیں۔ محترمہ محبوبہ مفتی بارہا کہہ رہی ہیں کہ کشمیری نوجوانوں سے مرکزی حکومت بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے مسائل سننے کے لیے بھی کوئی فورم موجود نہیں ہے۔ جو کشمیری نوجوان ہندوستان کی مختلف درسگاہوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انھیں ذلیل کیا جاتا ہے۔ انھیں پاکستان کا ایجنٹ اور غدار گردانا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ ناروا سلوک ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی کے ایک لیڈر نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے بنی ہوئی ہر چیزکا مکمل بائیکاٹ کر دینا چاہیے۔
محبوبہ مفتی بار بار کہہ رہی ہیں کہ اصل مسئلہ ہندوستان کی حکومت ہے جو کسی بھی صورت میں کشمیری نوجوانوں سے رابطہ نہیں کرنا چاہتی۔ بعینہ یہی بات مقبوضہ کشمیر کے ایک اور سابقہ وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ بھی کہہ رہے ہیں۔ دونوں کا بیانیہ اس حد تک مکمل طور پر یکساں ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کا کوئی پُرسانِ حال نہی ہے۔ مگر نریندر مودی ان نوجوانوں سے بات چیت کرنے کے بجائے اس غیرمعروضی لائن کو اپنا رہے ہیں جو پاکستان کے وجود کے خلاف ہے اور جو آر ایس ایس کی اصل سوچ ہے۔ نریندر مودی کسی صورت میں یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ معاملہ ان کی حکومتی زیادتیوں اور ظلم کا ایک قدرتی ردِعمل ہے۔ اس کے بالکل برعکس پوری دنیا میں پاکستان کے خلاف تسلسل سے بیانیہ تشکیل کیا جا چکا ہے کہ انڈیا میں دہشتگردی پاکستان کروا رہا ہے۔
افسوس تو یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی رائے عامہ مکمل طور پر نریندر مودی کے الزامات کو سچ گردانتی ہے۔ چار سال، سابقہ حکومت نے وزیرخارجہ نہ رکھ کر وہ ظلم کیا ہے کہ آج ہماری سفارتی آواز کمزور ہو چکی ہے۔ چار سال کی مجرمانہ غفلت نے دنیا سے ہمیں تقریباً علیحدہ کر دیا ہے۔ اب معاملات آہستہ آہستہ بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ مگر المناک سچ یہ ہے کہ پاکستان امن کے لیے جو مرضی قدم اُٹھا لے، ایک نہیں، انڈیا کے اَن گنت پائلٹ اور سپاہی قید سے آزاد کر دے۔ معاملہ سلجھے گا نہیں۔ نریندر مودی کی سوچ بدلے گی نہیں۔ وہ کسی قیمت پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش ختم نہیں کرے گا۔ اس بنیادی مسلم دشمن سوچ کی موجودگی میں پائیدار امن قائم کرنا صرف اور صرف خواب ہے!
بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر ملک، ریاست اور حکومت کا اپنا سچ ہوتا ہے۔ واقعی معروضی حقیقتوں پر مبنی ہو، یہ ہرگز ہرگز ضروری نہیں ہے۔ جب کوئی بھی ریاست اپنے بیانیہ کو حتمی طور پر ترتیب دے ڈالتی ہے تو اس پر سوالات کی گنجائش حددرجہ کم رہ جاتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ دنیا کی کوئی بھی ریاست مکمل طور پر صحیح نہیں بولتی۔ اس میں تھوڑا سا غیرحقیقی عنصر ضرور ہوتا ہے۔
معاملہ فہمی بھی کافی حدتک شامل ہوتی ہے۔ مگر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان معاملات اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان پرغیرمتعصب طریقے سے بات کرنا مشکل سے مشکل تر ہو چکا ہے۔ ناممکن کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ مگر معاملہ تقریباً ناممکن حدود تک پہنچ چکا ہے۔ اب کیا کیا جائے۔ ماحول کو مخصوص حکمتِ عملی سے دونوں اطراف سے اس قدر جذباتی کر دیا گیا ہے کہ دلیل پر بات کرنا ناممکن ہے۔ دونوں حکومتوں کے بیانے سے معمولی سا اختلاف کرنا غداری کے زمرے میں آجاتا ہے۔ مثال لے لیجیے۔ ہندوستان میں ستائیس سیاسی جماعتوں پر مبنی اپوزیشن نے نریندر مودی کے بیانیے کو چیلنج کیا ہے۔
فوری طور پر بی جے پی کی حکومت نے انھیں پاکستان دوست اور ہندوستان کا غدار قرار دیدیا ہے۔ یہ سب کچھ غیرمعمولی ہے۔ اس مشکل صورتحال کا کوئی حل نہیں ہے۔ نہ جنگ اور نہ مذاکرات۔ ہم تمام ایک خاص سوچ کے تابع بنا دیے گئے ہیں اور فی الحال، اس مخصوص سوچ کو تبدیل کرنا ناممکن ہے۔ دونوں ممالک میں عوامی سطح پر بالکل ایک جیسا ماحول ہے۔ اب معاملات کو کیسے حل کیا جائے۔ اس پر بات کرنا ضروری ہے اور میرے نزدیک حب الوطنی کا عین تقاضہ ہے۔
کسی بھی تجزیے سے پہلے ضروری ہے کہ نریندر مودی کے ذہن اور فکر کو سمجھا جائے۔ آٹھ برس کی عمر میں نریندر مودی آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کر چکا تھا یعنی اوائل عمری سے مودی کے ذہن میں ہندو مذہب کی سربلندی اور دیگر مذاہب کی نفی شامل تھی۔ آر ایس ایس کا نصاب اور منشور پڑھنا بھی ضروری ہے۔ یہ جماعت 1925ء میں کیشاد بالی رام نے شروع کی۔ بنیادی منشور ہندو مذہب کی نشاۃ ثانیہ ہے۔ ہر ممبر کے ذہن میں یہ بات راسخ ہے کہ برصغیر صرف اور صرف ہندوئوں کا ہے۔ باقی تمام مذاہب کا اس خطے پر کوئی قانونی یا اخلاقی حق نہیں ہے۔
برصغیر کی تقسیم کے وقت آر ایس ایس نے پاکستان بننے کی بھرپور مخالفت کی تھی۔ ان کے اکابرین کا خیال تھا کہ نہرو، گاندھی، پٹیل اور کانگریس کے لیڈر انتہائی کمزور لوگ ہیں اور برصغیر کی تقسیم اس وقت کے کانگریسی عمائدین کی شخصی کمزوری کی وجہ سے ہوئی تھی۔ 1949ء میں جب ہندوستان کا آئین بنایا گیا تو آر ایس ایس نے اسکو ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کے بقول ا س میں ہندوئوں کی مذہبی کتاب ''منوسم رتی'' کے بنیادی اُصولوں کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ آر ایس ایس نے ہندوستان کے ترنگے قومی پرچم کو بھی ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کے نزدیک جھنڈے کا رنگ صرف اور صرف ہندوئوں کے مقدس رنگ، زرد (Saffron) ہونا چاہیے۔ طویل بات کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
آر ایس ایس میں بچپن سے شامل ہونے والا نریندر مودی، اپنی سوچ، فکر، عمل اور کردار میں صرف اور صرف متعصب ترین ہندو ہے۔ یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ تمام مذاہب کی طرح ہندوئوں میں بھی معتدل مزاج لوگ موجود ہیں۔ مگر آر ایس ایس کی سوچ حددرجہ دائیں بازو کی ہے۔ نریندر مودی کا بچپن، جوانی اور اب بڑھاپے پر صرف اور صرف آر ایس ایس کی چھاپ ہے۔ بی جے پی، اسی سیاسی شدت پسند تنظیم یعنی آر ایس ایس کا سیاسی بازو ہے۔ یہ نکتہ حددرجہ اہم ہے۔ کیونکہ آر ایس ایس کی مخالفت ہندوستان کے سیکولر طبقے میں موجود ہے لہٰذا بی جے پی کو اس کا ایک ذیلی سیاسی ادارہ بنا کر پیش کیا گیا ہے تاکہ عام لوگوں کو معلوم نہ ہو پائے کہ اصل جڑ یعنی آر ایس ایس کے خیالات کتنے منفی اور درشت ہیں۔
آج بھی آر ایس ایس اور نریندر مودی کے پاکستان مخالف جذبات حددرجہ مشکل اور پرتشدد ہیں۔ شائد آپکو یقین نہ آئے۔ بی جے پی الیکشن کے ذریعے حکومت میں آئی ہے۔ مگر یہ بنیادی طور پر مغربی جمہوریت کے خلاف ہے۔ ایک مثال سامنے رکھتا ہوں۔ بی جے پی نے مسلمانوں کے اکثریت علاقوں میں بھی مقامی مسلمان سیاستدانوں کو ٹکٹ دینے سے انکار کیا ہے۔ یوپی اس کی ایک زندہ مثال ہے۔
دونوں ممالک کی حالیہ جھڑپ میری نظر میں مکمل طور پر غیرحتمی ہے۔ یہ معاملہ ٹھنڈا پڑا ہے مگر ہرگز ہرگز ختم نہیں ہوا۔ اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ نریندر مودی کی زندگی کا بنیادی اُصول مسلمانوں سے شدید نفرت پر مبنی ہے۔ بی جے پی کے صدر امت شا کے نظریات پر غور کیجیے۔ راہول کنول کو انٹرویو دیتے ہوئے صرف دو دن پہلے اس نے صاف صاف کہا ہے کہ پاکستان کے وجود کو کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جائیگا۔ لوگ اس وقت کشمیر کو کشیدگی کی بنیادی وجہ سمجھ رہے ہیں۔ یہ مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ معاملہ کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم اور جبر سے بہت آگے کا ہے۔ نریندرمودی اور بی جے پی کا پارٹی صدر دراصل پاکستان کے وجود پر مشتعل ہیں اور یہی ان کی سیاسی سوچ ہے۔ کشمیر میں دراندازی کا الزام صرف اور صرف ایک دکھاوا ہے۔
گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر نریندر مودی نے برملا کہا تھا، کہ ایک مسلمان مارا جائے تو بالکل اسی طرح ہے جیسے ایک جانور مارا جائے۔ جس جانور کا مودی نے ذکر کیا تھا، اس کا نام نہیں لکھنا چاہتا۔ مگر نریندر مودی کے دور میں ہندوستان کے مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی کوششیں بالکل عام ہیں۔ اس مہم جوئی کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ معمولی سے حقائق عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمیں بحثیت قوم علم ہونا چاہیے کہ بی جے پی، امت شا اور نریندر مودی اصل میں کیا ہیں۔ بچپن سے لے کر آج تک نریندر مودی کا ذہن آر ایس ایس کے منشور کا غلام ہے۔ وہ اس سے باہر آہی نہیں سکتا اور نہ آئیگا۔
ہمارے ملک میں اکثر دانشور یہ کہتے ہیں کہ امن کو موقعہ دیں۔ بالکل درست بات ہے۔ کوئی بھی صائب عقل کا انسان بالکل یہی کہے گا مگر سوچنے کی بات ہے کہ کیا نریندر مودی امن چاہتا ہے۔ طالبعلم کے طور پر عرض ہے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مودی اور امت شا کی موجودگی میں کسی قسم کا پائیدار امن کا ماحول بن سکے گا۔ پلوامہ کے حادثہ پر ہندوستان بنیادی حقائق ہی سننے کے لیے تیار نہیں۔ ہندوستان کے تمام چینلز بار بار کہہ رہے ہیں کہ یہ غیرمسلح سپاہیوں کے خلاف حملہ ہوا ہے۔
یہ حقیقت سے بہت لاتعلقی کی بات ہے۔ ہندوستان فوج کا یہ قافلہ مکمل طور پر ہر طرح کے اسلحہ سے لیس تھا۔ یہ حملہ بنیادی طور پر ایک ایسے نوجوان نے کیا ہے جسکو ہندوستان پیراملٹری فورس نے جی بھر کر ذلیل کیا تھا۔ بغیر وجہ کے تشدد کیا تھا۔ اس کی ناک زمین پر رگڑوائی تھی۔ یہ ایک ایسے لڑکے کا ردعمل تھا جسکی عزت نفس دوسرے آدمیوں کی موجودگی میں پامال کی گئی تھی۔ ٹھیک دو سال پہلے اپنے گھر سے چلا گیا تھا۔ آزادی کی مقامی تنظیموں میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ پلوامہ کے بعدکسی انڈین چینل یا اخبار نے اس نوجوان کی بندوق اٹھانے کی وجہ نہیں بتائی۔
چلیے، پاکستان کو ملوث کرنے کے الزام کو ایک طرف رہنے دیجیے۔ محترمہ محبوبہ مفتی جو مقبوضہ کشمیر کی وزیراعلیٰ رہ چکی ہیں۔ کشمیر کے مسائل اور لوگوں کے ذہن کو سمجھتی ہیں۔ انھوں نے متعدد انٹرویوز اور مناظروں میں کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیرکے نوجوان، ہندوستان حکومت کی مسلمان کُش اور کشمیری کُش پالیسیوں کے خلاف ہتھیار اُٹھا رہے ہیں۔ محترمہ محبوبہ مفتی بارہا کہہ رہی ہیں کہ کشمیری نوجوانوں سے مرکزی حکومت بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کے مسائل سننے کے لیے بھی کوئی فورم موجود نہیں ہے۔ جو کشمیری نوجوان ہندوستان کی مختلف درسگاہوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انھیں ذلیل کیا جاتا ہے۔ انھیں پاکستان کا ایجنٹ اور غدار گردانا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ ناروا سلوک ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی کے ایک لیڈر نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے بنی ہوئی ہر چیزکا مکمل بائیکاٹ کر دینا چاہیے۔
محبوبہ مفتی بار بار کہہ رہی ہیں کہ اصل مسئلہ ہندوستان کی حکومت ہے جو کسی بھی صورت میں کشمیری نوجوانوں سے رابطہ نہیں کرنا چاہتی۔ بعینہ یہی بات مقبوضہ کشمیر کے ایک اور سابقہ وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ بھی کہہ رہے ہیں۔ دونوں کا بیانیہ اس حد تک مکمل طور پر یکساں ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کا کوئی پُرسانِ حال نہی ہے۔ مگر نریندر مودی ان نوجوانوں سے بات چیت کرنے کے بجائے اس غیرمعروضی لائن کو اپنا رہے ہیں جو پاکستان کے وجود کے خلاف ہے اور جو آر ایس ایس کی اصل سوچ ہے۔ نریندر مودی کسی صورت میں یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ معاملہ ان کی حکومتی زیادتیوں اور ظلم کا ایک قدرتی ردِعمل ہے۔ اس کے بالکل برعکس پوری دنیا میں پاکستان کے خلاف تسلسل سے بیانیہ تشکیل کیا جا چکا ہے کہ انڈیا میں دہشتگردی پاکستان کروا رہا ہے۔
افسوس تو یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی رائے عامہ مکمل طور پر نریندر مودی کے الزامات کو سچ گردانتی ہے۔ چار سال، سابقہ حکومت نے وزیرخارجہ نہ رکھ کر وہ ظلم کیا ہے کہ آج ہماری سفارتی آواز کمزور ہو چکی ہے۔ چار سال کی مجرمانہ غفلت نے دنیا سے ہمیں تقریباً علیحدہ کر دیا ہے۔ اب معاملات آہستہ آہستہ بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ مگر المناک سچ یہ ہے کہ پاکستان امن کے لیے جو مرضی قدم اُٹھا لے، ایک نہیں، انڈیا کے اَن گنت پائلٹ اور سپاہی قید سے آزاد کر دے۔ معاملہ سلجھے گا نہیں۔ نریندر مودی کی سوچ بدلے گی نہیں۔ وہ کسی قیمت پر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش ختم نہیں کرے گا۔ اس بنیادی مسلم دشمن سوچ کی موجودگی میں پائیدار امن قائم کرنا صرف اور صرف خواب ہے!