نواز شریف کاراستہ ہی بہتر راستہ نہیں تھا
سوال یہ ہے کہ اگر نواز شریف کو امن چین سے حکومت کرنے دی جاتی تو کیا آج یہ مناظر ہمیں دیکھنا پڑتے؟
پاکستان نے بھارتی قیدی پائلٹ (ابھی نندن) کو زندہ سلامت واہگہ بارڈر پر بھارت کے حوالے کیا ہے جب کہ بھارت نے پاکستانی قیدی (شاکر اللہ) کی میت واہگہ بارڈر پر پاکستان کے حوالے کی ہے۔ وحشت و جنوں اورغیظ و غضب کے اِس ماحول میں محترمہ بینظیر بھٹو بھی یاد آ رہی ہیں اور میاں محمد نواز شریف بھی ۔ بھارت سے امن کے حوالے سے ترتیب دی گئیں ہمارے ان دونوں سابق وزرائے اعظم کی پالیسیاں بھی ذہن میں بازگشت بن کر گونج رہی ہیں ۔
محترمہ بینظیر بھٹو کو تو خیر سے ہم نے ''سیکیورٹی رِسک'' بھی کہہ ڈالا تھا، حالانکہ وہ توعالمی سطح پر ہمارا تعارف تھیں ۔نواز شریف کے دو ادوارِ حکومت میں دو بھارتی وزرائے اعظم (اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی) خود چل کر لاہور آئے۔ یہ پاکستان کی سفارتی بالادستی تھی۔ ہمارے ہاں مگر نواز شریف کو مختلف النوع، نامناسب القابات سے نوازا گیا ۔ اس بیانئے کی گونج ابھی تک ہماری فضاؤں میں ہے ۔ نقصان مگرکس کا ہُوا؟
اور اب ہمارے وزیر اعظم جناب عمران خان قومی اسمبلی کے فلور پر ہمیں یہ کہتے ہُوئے سنائی دے رہے ہیں: ''دو بار انڈین پرائم منسٹر کو فون کر چکا ہُوں مگر۔۔۔۔۔'' کچھ عالمی طاقتیں مودی جی کو اس بات پر آمادہ کررہی ہیں کہ وہ مہربانی کرکے پاکستانی وزیر اعظم سے بات کریں ۔پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کے لیے کئی عالمی سفارتی کاوشیں بھی بروئے کار ہیں۔مودی جی مگر راضی نہیں ہو رہے۔ اُن کے اپنے مقاصد اور اہداف ہیں۔ آج ہم بھارت سے کلام کرنا چاہتے ہیں، لیکن ایسی چاہت بھارت کی طرف نہیں ہے۔
بھارتی نخوت اور تکبر تو اِس انتہا پر ہے کہ اُس نے پاکستان کی طرف سے'' بطورِ خیر سگالی'' بھارتی پائلٹ قیدی واپس کیے جانے پر بھی شکریے میں ایک لفظ تک ادا نہیں کیا ۔لاریب بھارت نے پاکستان سے زیادتی بھی کی ہے ، ہمارے ملک پر حملہ بھی کیا ہے لیکن اِس فضائی خلاف ورزی اور زیادتی کے باوجود بدقسمتی سے عالمی برادری کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے ۔یہاں تک کہ عالمِ اسلام کی اپنی تنظیم ''او آئی سی'' نے بھی بھارت کے خلاف پاکستان کے احتجاج پر کان دھرنے سے صاف انکار کر دیا۔ یہ سانحہ ابھی تازہ تازہ یکم مارچ کو سامنے آیا ہے جب او آئی سی میں مسلم وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ ، سشما سوراج ، کو دعوتِ خطاب دی گئی ۔
ہمارے وزیر خارجہ نے احتجاج کرتے ہُوئے کہا: اگر بھارتی وزیر خارجہ وہاں آئیں گی تو ہم نہیں آئیں گے ۔ او آئی سی کے ذمے داروں نے ہماری ناراضی کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی اور اپنے عمل سے ثابت کیا : پاکستان نہیں آتا تو نہ آئے، ہم تو بھارتی وزیر خارجہ کا سواگت کریں گے۔البتہ اچھی خبر یہ ہے کہ اِسی او آئی سی کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کے مظلومین کی حمائت اور ظالم بھارت کی مذمت کی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر نواز شریف کو امن چین سے حکومت کرنے دی جاتی تو کیا آج یہ مناظر ہمیں دیکھنا پڑتے؟ پنجابی زبان کا ایک محاورہ ہے: بزرگوں کی باتوں اور آملے کی لذت کا احساس وقت گزرنے کے بعد ہی ہوتا ہے ۔وقت گزراہے تو شدت سے احساس ستانے لگا ہے کہ میاںمحمد نواز شریف نے بطورِ وزیر اعظم پاکستان ، پائیدار امن کی خاطر، بھارت کی طرف دوستی کے لیے جو ہاتھ اور قدم بڑھائے اور اُٹھائے تھے، اگر اُن ہاتھوں اور قدموں کو مسلسل آگے بڑھنے دیا جاتا تو آج کشیدگی کے یہ دن بھی شائد ہمیں دیکھنا نہ پڑتے ۔ آج ہمیں قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر بھارتی وزیر اعظم سے فون نہ سننے کا گلہ نہ کرنا پڑتا۔ بھارت سے عناد کی جگہ محبت اور دُوری کی جگہ قربت کا جو پیغام نواز شریف نے لاہور میںاین جی او کے ایک جلسے میں دیا تھا، آج اُس کی بازگشت اور یاد ہمیں سنائی دے رہی ہے۔ محض نواز شریف کی مخالفت میں،ہوا کے گھوڑے پر سوار ہم نے نواز شریف کے اس بیانئے کو مسترد کر دیا تھا۔
درست ہے کہ بھارت ہمارا دیرینہ اور ازلی دشمن ہے ۔ وہ ہمارے وجود اور نظرئیے کی تکذیب کرتا ہے ۔ اُس نے ہمارے ساتھ اور ہم نے اُس کے ساتھ کئی جنگیں لڑی ہیں ۔ وہ بھی جوہری طاقت ہے اور ہم بھی۔فائدے کا عالمی پلڑا مگر کس فریق کی جانب جھکا؟ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ نے ہم دونوں میں سے کسے دل و جاں کے قریب جگہ دی ہے؟ محمد نواز شریف یہی توکہتے تھے کہ اِنہی حالات میں ہمیں بھارت سے معاملات طے کرتے ہُوئے آگے قدم بڑھانے ہیں ۔ بصورتِ دیگر ہم بند گلی میں پھنسے رہیں گے اور قافلہ آگے بڑھ جائے گا۔ اُن کی راہ میں مگر بار بار پہاڑ کھڑے کیے گئے ۔ بھارت کے ساتھ قیامِ امن کے لیے جس بیانئے کی اساس پر نواز شریف کو گردن زدنی قرار دیا جاتا تھا ، آج وہی بیانیہ خان صاحب کی حکومت کے لبوں پر ہے اور سبھی اتفاق و اتحاد میں سر ہلا رہے ہیں ۔
آج بھارت سے دوستی ، امن اور بھائی چارہ قائم کرنا ہمارا سب سے بڑا خواب اور قومی و سرکاری ایجنڈہ بن گیا ہے ۔سوال مگر یہ ہے کہ یہی بیانیہ اختیار کیے جانے پر نواز شریف کی مخالفت کیوں کی گئی ؟ وقت کا ضیاع کسے فائدہ پہنچا گیا؟آج ہم قومی سطح پر بھارت کی طرف بار بار دوستی اور شانتی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں تو بھارت یہ ہاتھ جھٹک رہا ہے ۔ رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیرخارجہ ، خواجہ محمد آصف، نے بھی تاسف کے ساتھ کچھ یہی باتیںاسمبلی میں کہی ہیں ۔ یہ مبالغہ ہیں نہ محض نواز شریف کی تعریف ۔ پسِ دیوارِ زنداں پڑے نواز شریف نے بھارت کو انگیج کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کیا تھا، وہی راستہ وطنِ عزیز کے لیے امن ، عدم تصادم اور استحکام کا راستہ تھا۔ اس راستے پر اب دھول اُڑ رہی ہے ۔ وسیع تر قومی مفاد میں نواز شریف اگر پیرول پر رہا کر دیے جائیں تو ممکن ہے یہ راستہ پھر سے آباد ہو سکے ۔
مستحسن امر یہ ہے کہ نواز شریف کی پارٹی نے پوری قوت کے ساتھ، پاکستان کو درپیش حالیہ بحران میں، وزیر اعظم عمران خان کا ساتھ نبھایا ہے ۔ خان صاحب کا رویہ اگرچہ نون لیگ اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مناسب نہیں ہے ۔اس کے باوجود مگر نون لیگ اور پیپلز پارٹی ایسی بڑی سیاسی جماعتوں نے حکومت کا ساتھ نبھایا ہے ۔ بھارتی یلغار کے مقابلے میں صرف وطنِ عزیز کی سلامتی اور عزت زیادہ مطلوب و مقصودہے ۔ حکومت کی مخالفت ہوگی تو ہمارے دشمن کو داؤ اور نقب لگانے کاموقع مل سکتا ہے ۔
شہباز شریف اور آصف زرداری بھی حکومتی زیادتیاں پسِ پشت ڈالتے ہُوئے حکومت کی دست گیری کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ دونوں قومی رہنماؤں کا بڑے جذبوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں خطاب ایک خوش کن اور اطمینان بخش منظر تھا۔ شہباز شریف نے دراصل اپنے قائد کے تتبع میں ہاتھ آگے بڑھایا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ دست گیری اور تعاون حکومت کے لیے نہیں بلکہ ملک کی محبت کی خاطر ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری ، بلاول بھٹو، اختر مینگل وغیرہ کی جانب سے قابلِ تحسین تعاون اور عملی اتحادی مظاہر کے باوجود حکومت اپنے اطوار میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکی ہے ۔
یہ اطوار قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جب وزیر اعظم تشریف لائے تو انھوں نے قومی یکجہتی کی خاطر نہ تو حزبِ اختلاف کے ساتھ بیٹھنا پسند کیا اور نہ ہی اپوزیشن کے کسی رہنما سے مصافحہ ہی کیا۔ وہ قائدِ حزبِ اختلاف کے پاس گئے نہ آصف زرداری کو سلام کیا۔ اپوزیشن نے بجا طور پر خان صاحب کے اس اقدام پر نہائت مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔ ا س سے قبل وہ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو سعودی ولی عہد کی آمد کے موقع پر وزیر اعظم ہاؤس میں دیے گئے ڈِنر پر مدعو نہ کرکے پہلے ہی ناراضیاں مول لے چکے ہیں ۔ پاکستان کے خلاف بھارتی زیادتیوں کے اس موقع پر تو عمران خان کو اپنے روئیے میں جوہری تبدیلی لانی چاہیے تھی۔ ایسا مگر نہیں ہو سکا ہے ۔ !!
محترمہ بینظیر بھٹو کو تو خیر سے ہم نے ''سیکیورٹی رِسک'' بھی کہہ ڈالا تھا، حالانکہ وہ توعالمی سطح پر ہمارا تعارف تھیں ۔نواز شریف کے دو ادوارِ حکومت میں دو بھارتی وزرائے اعظم (اٹل بہاری واجپائی اور نریندر مودی) خود چل کر لاہور آئے۔ یہ پاکستان کی سفارتی بالادستی تھی۔ ہمارے ہاں مگر نواز شریف کو مختلف النوع، نامناسب القابات سے نوازا گیا ۔ اس بیانئے کی گونج ابھی تک ہماری فضاؤں میں ہے ۔ نقصان مگرکس کا ہُوا؟
اور اب ہمارے وزیر اعظم جناب عمران خان قومی اسمبلی کے فلور پر ہمیں یہ کہتے ہُوئے سنائی دے رہے ہیں: ''دو بار انڈین پرائم منسٹر کو فون کر چکا ہُوں مگر۔۔۔۔۔'' کچھ عالمی طاقتیں مودی جی کو اس بات پر آمادہ کررہی ہیں کہ وہ مہربانی کرکے پاکستانی وزیر اعظم سے بات کریں ۔پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کے لیے کئی عالمی سفارتی کاوشیں بھی بروئے کار ہیں۔مودی جی مگر راضی نہیں ہو رہے۔ اُن کے اپنے مقاصد اور اہداف ہیں۔ آج ہم بھارت سے کلام کرنا چاہتے ہیں، لیکن ایسی چاہت بھارت کی طرف نہیں ہے۔
بھارتی نخوت اور تکبر تو اِس انتہا پر ہے کہ اُس نے پاکستان کی طرف سے'' بطورِ خیر سگالی'' بھارتی پائلٹ قیدی واپس کیے جانے پر بھی شکریے میں ایک لفظ تک ادا نہیں کیا ۔لاریب بھارت نے پاکستان سے زیادتی بھی کی ہے ، ہمارے ملک پر حملہ بھی کیا ہے لیکن اِس فضائی خلاف ورزی اور زیادتی کے باوجود بدقسمتی سے عالمی برادری کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے ۔یہاں تک کہ عالمِ اسلام کی اپنی تنظیم ''او آئی سی'' نے بھی بھارت کے خلاف پاکستان کے احتجاج پر کان دھرنے سے صاف انکار کر دیا۔ یہ سانحہ ابھی تازہ تازہ یکم مارچ کو سامنے آیا ہے جب او آئی سی میں مسلم وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ ، سشما سوراج ، کو دعوتِ خطاب دی گئی ۔
ہمارے وزیر خارجہ نے احتجاج کرتے ہُوئے کہا: اگر بھارتی وزیر خارجہ وہاں آئیں گی تو ہم نہیں آئیں گے ۔ او آئی سی کے ذمے داروں نے ہماری ناراضی کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی اور اپنے عمل سے ثابت کیا : پاکستان نہیں آتا تو نہ آئے، ہم تو بھارتی وزیر خارجہ کا سواگت کریں گے۔البتہ اچھی خبر یہ ہے کہ اِسی او آئی سی کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کے مظلومین کی حمائت اور ظالم بھارت کی مذمت کی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر نواز شریف کو امن چین سے حکومت کرنے دی جاتی تو کیا آج یہ مناظر ہمیں دیکھنا پڑتے؟ پنجابی زبان کا ایک محاورہ ہے: بزرگوں کی باتوں اور آملے کی لذت کا احساس وقت گزرنے کے بعد ہی ہوتا ہے ۔وقت گزراہے تو شدت سے احساس ستانے لگا ہے کہ میاںمحمد نواز شریف نے بطورِ وزیر اعظم پاکستان ، پائیدار امن کی خاطر، بھارت کی طرف دوستی کے لیے جو ہاتھ اور قدم بڑھائے اور اُٹھائے تھے، اگر اُن ہاتھوں اور قدموں کو مسلسل آگے بڑھنے دیا جاتا تو آج کشیدگی کے یہ دن بھی شائد ہمیں دیکھنا نہ پڑتے ۔ آج ہمیں قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر بھارتی وزیر اعظم سے فون نہ سننے کا گلہ نہ کرنا پڑتا۔ بھارت سے عناد کی جگہ محبت اور دُوری کی جگہ قربت کا جو پیغام نواز شریف نے لاہور میںاین جی او کے ایک جلسے میں دیا تھا، آج اُس کی بازگشت اور یاد ہمیں سنائی دے رہی ہے۔ محض نواز شریف کی مخالفت میں،ہوا کے گھوڑے پر سوار ہم نے نواز شریف کے اس بیانئے کو مسترد کر دیا تھا۔
درست ہے کہ بھارت ہمارا دیرینہ اور ازلی دشمن ہے ۔ وہ ہمارے وجود اور نظرئیے کی تکذیب کرتا ہے ۔ اُس نے ہمارے ساتھ اور ہم نے اُس کے ساتھ کئی جنگیں لڑی ہیں ۔ وہ بھی جوہری طاقت ہے اور ہم بھی۔فائدے کا عالمی پلڑا مگر کس فریق کی جانب جھکا؟ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ نے ہم دونوں میں سے کسے دل و جاں کے قریب جگہ دی ہے؟ محمد نواز شریف یہی توکہتے تھے کہ اِنہی حالات میں ہمیں بھارت سے معاملات طے کرتے ہُوئے آگے قدم بڑھانے ہیں ۔ بصورتِ دیگر ہم بند گلی میں پھنسے رہیں گے اور قافلہ آگے بڑھ جائے گا۔ اُن کی راہ میں مگر بار بار پہاڑ کھڑے کیے گئے ۔ بھارت کے ساتھ قیامِ امن کے لیے جس بیانئے کی اساس پر نواز شریف کو گردن زدنی قرار دیا جاتا تھا ، آج وہی بیانیہ خان صاحب کی حکومت کے لبوں پر ہے اور سبھی اتفاق و اتحاد میں سر ہلا رہے ہیں ۔
آج بھارت سے دوستی ، امن اور بھائی چارہ قائم کرنا ہمارا سب سے بڑا خواب اور قومی و سرکاری ایجنڈہ بن گیا ہے ۔سوال مگر یہ ہے کہ یہی بیانیہ اختیار کیے جانے پر نواز شریف کی مخالفت کیوں کی گئی ؟ وقت کا ضیاع کسے فائدہ پہنچا گیا؟آج ہم قومی سطح پر بھارت کی طرف بار بار دوستی اور شانتی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں تو بھارت یہ ہاتھ جھٹک رہا ہے ۔ رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیرخارجہ ، خواجہ محمد آصف، نے بھی تاسف کے ساتھ کچھ یہی باتیںاسمبلی میں کہی ہیں ۔ یہ مبالغہ ہیں نہ محض نواز شریف کی تعریف ۔ پسِ دیوارِ زنداں پڑے نواز شریف نے بھارت کو انگیج کرنے کے لیے جو راستہ اختیار کیا تھا، وہی راستہ وطنِ عزیز کے لیے امن ، عدم تصادم اور استحکام کا راستہ تھا۔ اس راستے پر اب دھول اُڑ رہی ہے ۔ وسیع تر قومی مفاد میں نواز شریف اگر پیرول پر رہا کر دیے جائیں تو ممکن ہے یہ راستہ پھر سے آباد ہو سکے ۔
مستحسن امر یہ ہے کہ نواز شریف کی پارٹی نے پوری قوت کے ساتھ، پاکستان کو درپیش حالیہ بحران میں، وزیر اعظم عمران خان کا ساتھ نبھایا ہے ۔ خان صاحب کا رویہ اگرچہ نون لیگ اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ مناسب نہیں ہے ۔اس کے باوجود مگر نون لیگ اور پیپلز پارٹی ایسی بڑی سیاسی جماعتوں نے حکومت کا ساتھ نبھایا ہے ۔ بھارتی یلغار کے مقابلے میں صرف وطنِ عزیز کی سلامتی اور عزت زیادہ مطلوب و مقصودہے ۔ حکومت کی مخالفت ہوگی تو ہمارے دشمن کو داؤ اور نقب لگانے کاموقع مل سکتا ہے ۔
شہباز شریف اور آصف زرداری بھی حکومتی زیادتیاں پسِ پشت ڈالتے ہُوئے حکومت کی دست گیری کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ دونوں قومی رہنماؤں کا بڑے جذبوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں خطاب ایک خوش کن اور اطمینان بخش منظر تھا۔ شہباز شریف نے دراصل اپنے قائد کے تتبع میں ہاتھ آگے بڑھایا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ دست گیری اور تعاون حکومت کے لیے نہیں بلکہ ملک کی محبت کی خاطر ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری ، بلاول بھٹو، اختر مینگل وغیرہ کی جانب سے قابلِ تحسین تعاون اور عملی اتحادی مظاہر کے باوجود حکومت اپنے اطوار میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکی ہے ۔
یہ اطوار قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جب وزیر اعظم تشریف لائے تو انھوں نے قومی یکجہتی کی خاطر نہ تو حزبِ اختلاف کے ساتھ بیٹھنا پسند کیا اور نہ ہی اپوزیشن کے کسی رہنما سے مصافحہ ہی کیا۔ وہ قائدِ حزبِ اختلاف کے پاس گئے نہ آصف زرداری کو سلام کیا۔ اپوزیشن نے بجا طور پر خان صاحب کے اس اقدام پر نہائت مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔ ا س سے قبل وہ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو سعودی ولی عہد کی آمد کے موقع پر وزیر اعظم ہاؤس میں دیے گئے ڈِنر پر مدعو نہ کرکے پہلے ہی ناراضیاں مول لے چکے ہیں ۔ پاکستان کے خلاف بھارتی زیادتیوں کے اس موقع پر تو عمران خان کو اپنے روئیے میں جوہری تبدیلی لانی چاہیے تھی۔ ایسا مگر نہیں ہو سکا ہے ۔ !!