سینیٹ کمیٹی کی ابراہیم ارمان لونی کی ہلاکت کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت
ارمان لونی پر تشدد ثابت ہوا تو اہلکاروں کیخلاف کارروائی ہوگی، بلوچستان پولیس
سینیٹ کمیٹی انسانی حقوق نے بلوچستان پولیس کو ابراہیم ارمان لونی کی ہلاکت کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کردی۔
اسلام آباد میں سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا جس میں بلوچستان میں پی ٹی ایم کے رہنما پروفیسر ارمان لونی کی ہلاکت کے واقعے پر بریفنگ دی گئی۔
ڈی آئی جی لورالائی نے کہا کہ لورالائی میں ستمبر 2018 میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونا شروع ہوئی، یکم جنوری کو کینٹ پر چار خود کش حملہ آوروں نے حملہ کیا، 13 جنوری کو ایف سی پر حملہ کیا گیا، 29 جنوری کو ریکروٹمنٹس سنٹر پر حملہ کیا گیا جن میں متعدد افراد شہید ہوگئے۔
ڈی آئی جی لورالائی نے کہا کہ صوبائی حکومت نے صورتحال کے باعث احتجاج اور جلسے جلوسوں پر پابندی لگا دی، 13 جنوری کو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حمایت میں ریلی نکالی گئی اور پشتون تحفظ موومنٹ نے دھرنا دے دیا، لیکن پی ٹی ایم کے خلاف دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر کارروائی کی گئی، پولیس نے دھرنا ختم کرنے کا مطالبہ کیا تو مظاہرین نے دھرنا ختم کردیا، ایمل خان طوخی کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو پی ٹی ایم کے لوگوں نے دوبارہ احتجاج شروع کیا۔
ڈی آئی جی لورالائی نے بتایا کہ ایمل خان کی گرفتاری پر مزاحمت کی گئی جس پر پولیس واپس آگئی، اس دوران پروفیسر ابراہیم لونی گر گئے تو انہیں اسپتال لے جایا گیا جہاں دل کے دورے کی وجہ سے ان کی ہلاکت ہوئی، ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا جس کی رپورٹ کے مطابق ان پر کوئی تشدد نہیں ہوا، اب ان کی لاش کے اجزاء کا فرانزک تجزیہ کیا جا رہا ہے، تجزیاتی رپورٹ کا انتظار ہے، اگر رپورٹ میں پولیس تشدد ثابت ہوجائے تو ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیری مزاری نے کہا کہ حکومت کا پی ٹی ایم سے کافی رابطہ رہا ہے اور اب بھی ہے، ارمان لونی کی ہلاکت کی ایف آئی آر درج ہونی چاہئے تھی، پی ٹی ایم کارکنان کی گاڑی پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہیں۔
پی پی پی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کچھ قوتیں ایسی ہیں جو پی ٹی ایم کو برداشت نہیں کررہی ہیں، اس کیس میں گواہان موجود ہیں مگر ایف آئی آر درج نہیں ہوئی، لاہور سے رپورٹ تاحال نہیں بھیجی گئی، دونوں میڈیکل رپورٹس میں ہارٹ اٹیک کا ذکر نہیں، پولیس کو کس نے کہا کہ ارمان لونی کی رپورٹ میں ہارٹ اٹیک لکھو، اس طرح کے واقعات میں جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، گواہان اور فیملی تحقیقات کے لیے بھی جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کررہے ہیں۔
ارمان لونی کی بہن نے کہا کہ بھائی کو بروقت اسپتال نہیں لے جایا گیا، پولیس اہلکاروں نے ارمان لونی کو اسپتال جانے سے روکا، 40 روز ہوگئے لیکن ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں دی جارہی۔
بلوچستان کے پولیس حکام نے کہا کہ ہم پی ٹی ایم کے خلاف نہیں بلکہ عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، پی ٹی ایم کی جانب سے ریاستی اداروں کے خلاف نعرے بازی کی گئی، ہمیں پالیسی بتائیں کہ ہم کیا کریں؟، ریاست کے خلاف نعری بازی ہو تو کیا ہم خاموش بیٹھیں؟۔ عثمان کاکڑ نے کہا کہ تو کیا آپ لوگوں کو قتل کردیں گے؟۔
سینیٹ کمیٹی نے متعلقہ پولیس کو ابراہیم ارمان لونی کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کردی۔
اسلام آباد میں سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس ہوا جس میں بلوچستان میں پی ٹی ایم کے رہنما پروفیسر ارمان لونی کی ہلاکت کے واقعے پر بریفنگ دی گئی۔
ڈی آئی جی لورالائی نے کہا کہ لورالائی میں ستمبر 2018 میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونا شروع ہوئی، یکم جنوری کو کینٹ پر چار خود کش حملہ آوروں نے حملہ کیا، 13 جنوری کو ایف سی پر حملہ کیا گیا، 29 جنوری کو ریکروٹمنٹس سنٹر پر حملہ کیا گیا جن میں متعدد افراد شہید ہوگئے۔
ڈی آئی جی لورالائی نے کہا کہ صوبائی حکومت نے صورتحال کے باعث احتجاج اور جلسے جلوسوں پر پابندی لگا دی، 13 جنوری کو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حمایت میں ریلی نکالی گئی اور پشتون تحفظ موومنٹ نے دھرنا دے دیا، لیکن پی ٹی ایم کے خلاف دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر کارروائی کی گئی، پولیس نے دھرنا ختم کرنے کا مطالبہ کیا تو مظاہرین نے دھرنا ختم کردیا، ایمل خان طوخی کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو پی ٹی ایم کے لوگوں نے دوبارہ احتجاج شروع کیا۔
ڈی آئی جی لورالائی نے بتایا کہ ایمل خان کی گرفتاری پر مزاحمت کی گئی جس پر پولیس واپس آگئی، اس دوران پروفیسر ابراہیم لونی گر گئے تو انہیں اسپتال لے جایا گیا جہاں دل کے دورے کی وجہ سے ان کی ہلاکت ہوئی، ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا جس کی رپورٹ کے مطابق ان پر کوئی تشدد نہیں ہوا، اب ان کی لاش کے اجزاء کا فرانزک تجزیہ کیا جا رہا ہے، تجزیاتی رپورٹ کا انتظار ہے، اگر رپورٹ میں پولیس تشدد ثابت ہوجائے تو ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق شیری مزاری نے کہا کہ حکومت کا پی ٹی ایم سے کافی رابطہ رہا ہے اور اب بھی ہے، ارمان لونی کی ہلاکت کی ایف آئی آر درج ہونی چاہئے تھی، پی ٹی ایم کارکنان کی گاڑی پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہیں۔
پی پی پی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کچھ قوتیں ایسی ہیں جو پی ٹی ایم کو برداشت نہیں کررہی ہیں، اس کیس میں گواہان موجود ہیں مگر ایف آئی آر درج نہیں ہوئی، لاہور سے رپورٹ تاحال نہیں بھیجی گئی، دونوں میڈیکل رپورٹس میں ہارٹ اٹیک کا ذکر نہیں، پولیس کو کس نے کہا کہ ارمان لونی کی رپورٹ میں ہارٹ اٹیک لکھو، اس طرح کے واقعات میں جوڈیشل کمیشن بنایا جائے، گواہان اور فیملی تحقیقات کے لیے بھی جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کررہے ہیں۔
ارمان لونی کی بہن نے کہا کہ بھائی کو بروقت اسپتال نہیں لے جایا گیا، پولیس اہلکاروں نے ارمان لونی کو اسپتال جانے سے روکا، 40 روز ہوگئے لیکن ان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں دی جارہی۔
بلوچستان کے پولیس حکام نے کہا کہ ہم پی ٹی ایم کے خلاف نہیں بلکہ عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، پی ٹی ایم کی جانب سے ریاستی اداروں کے خلاف نعرے بازی کی گئی، ہمیں پالیسی بتائیں کہ ہم کیا کریں؟، ریاست کے خلاف نعری بازی ہو تو کیا ہم خاموش بیٹھیں؟۔ عثمان کاکڑ نے کہا کہ تو کیا آپ لوگوں کو قتل کردیں گے؟۔
سینیٹ کمیٹی نے متعلقہ پولیس کو ابراہیم ارمان لونی کے قتل کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کردی۔