برنس روڈ سے ایوان صدر تک
برنس روڈ سے ایوان صدر تک، شریف النفس سیاسی کارکن جناب ممنون حسین کا سفر مکمل ہوا چاہتا ہے۔۔۔
برنس روڈ سے ایوان صدر تک، شریف النفس سیاسی کارکن جناب ممنون حسین کا سفر مکمل ہوا چاہتا ہے۔ وہ277 ووٹ لے کر بھاری اکثر یت سے صدر منتخب ہو چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان کی اشرافیہ کے پندار کو شدید نفسیاتی جھٹکا برادشت کر نا پڑا ہے کہ اب گلی کوچوں سے اٹھنے والے بے نوا کارکن اس منصب جلیلہ پر فائز ہو رہے ہیں۔ جس کا کل اثاثہ وفاداری، کامل وفاداری کے سوا کچھ نہ تھا، اس عمل کو بے وقعت بنانے اور ہنسی مذاق میں اڑانے کے لیے ایسی خبریں شائع ہوئیں جن میں بتایا گیا کہ ممنون حسین کے گھر کا ربڑی دودھ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بہت پسند ہے اور وہ جب کراچی جاتے ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ممنون حسین کے گھر کا ربڑی دودھ انھیں (Serve) کیا جائے ۔
ایسی اطلاعات کا مقصد صدر مملکت کے انتخاب کے لیے جناب نواز شریف کی ٖغیر سنجیدگی کو ثابت کرنا تھا کہ ان کی ترجیحات میں بین الاقومی اور علاقائی امو ر کی بجائے مزیدار کھانے پینے کو ترجیح حاصل ہے۔ جناب ممنون حسین قبل ازیں گورنر سندھ کی حیثیت سے سندھ میں جناب نواز شریف کی نمائندگی کا شرف حاصل کر چکے ہیں۔بظاہر خوش کن تاثر رکھنے والی ایسی خبریں اپنے پس منظر میں صدارتی انتخاب میں جناب ممنو ن حسین کو بے وقعت بنا نے کے کھیل کی ابتداء تھی جس کی حکمت عملی کو بعض انتہائی اہم شہ دماغوں نے تشکیل دیا تھا۔
ویسے اگر واقعی جناب نواز شریف کو ممنون حسین صاحب کے گھر کا دودھ ربڑی پسند ہے تو ایک خا ص موقعے پر ایسی خبریں نمایاں کرنے کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں اور اس میں جناب ممنون حسین کیسے قصور وار قرار پاتے ہیں، اس معاملے میں جناب نواز شریف کی''نگاہ التفات''کو داد دینی چاہیے کہ وہ اپنے ایک عام کارکن کو کس طرح سرفراز فرماتے ہیں۔ پہلے گورنر سندھ کے عہدہ جلیلہ پر بٹھاتے ہیں اور مو قع پاتے ہی صدرمملکت کے عہد ے کے لیے نامزد فرماتے ہیں۔ حقائق جو بھی ہوں لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ بے اختیار اور علامتی صدر مملکت آج بھی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر اور وفاق پاکستان کی علامت ہو تے ہیں۔ ویسے بھی ستم ظریف تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ جناب ممنون حسین اپنے مقابل حریفو ں کے سامنے جچتے نہ ہوں لیکن اپنے پیش رو جناب آصف علی زرداری سے شرافت اور نجابت میں کسی بھی طرح کم نہیں ہیں۔
انگریزی اخبارات نے بھی بظاہر بڑی دلچسپ داستانیں بیان کی ہیں کہ آرام باغ کی اللہ والا مارکیٹ کے علاقے میں بڑا جوش جذبہ محسوس کیا جا سکتا ہے جہاں کا مدتوں پرانا مکین، دوست دکان دار اب صدارتی دوڑ میں سب آگے ہے، ہر دل عزیز "مجو بھا ئی" مرحوم کا چھوٹا بھائی ممنون حسین پاکستان کا 12 واں صدر بننے جا رہا ہے ۔
یہ جناب نواز شریف کا کمال ہے کہ وہ سیاست کے بے رحم کھیل میں اہلیت سے زیادہ وفاداری کو تر جیح دیتے ہیں، سرور محل میں مدتو ں پہلے جلاوطنی کے دوران، عشائیے پر ہو نے والی بلا تکلف اور کھلی ڈھلی گپ شپ کے دوران انہو ں نے بتایا تھا کہ گا ہے گا ہے چھکے مارنے کا مشورہ دینے والے اور کڑاکے نکالنے والے لطیفہ گو فوجی بوٹو ں کی آواز سنتے ہی غائب ہو گئے تھے اور آج کی عملیت پسند سیاست یہی کہانی دہرا رہی ہے۔
عہدۂ صدارت کے لیے ممنون حسین کے چنائو پر 2008میں مسلم لیگ (ن) کے شریف النفس امیدوار جسٹس (ر) سعیدالزمان صدیقی نے عملی حقائق سے قریب تر تبصرہ فرمایا کہ حالات و واقعات کے تناظر میں اصول اور ترجیحات بدل جاتی ہیں۔
ماہرین سیاسیات کا خیال ہے کہ نئے آرمی چیف اور نئے چیف جسٹس کے تقرر کے بعد تبدیلیوں کا یہ عمل دسمبر 2013 میں مکمل ہو گا۔ جس کے بعد جنوبی ایشیاء میں نئے دور کا آغا ز ہو گا ۔کیونکہ جنا ب نو از شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا کا م اپنے نما ئند ہ خصوصی جناب شہر یار ایم خا ن کو بھا رتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے پا س خصوصی پیغا م دے کا بھجوایا تھا۔ جس سے وزیر اعظم کی علاقائی ترجیحا ت کا تعین کیا جا سکتا ہے۔
درج بالا حقا ئق سے واضح ہوتا ہے کہ جناب نواز شریف جنوری 2014 سے اپنے اقتدار کی باضابطہ اننگ کا آغاز کریں گے۔ اس وقت تک اقتدار کی غلا م گردشو ں میں طاقت کا توازن ان کے حق میں واضح طور جھک چکا ہو گا کہ طا قت کے تما م مراکز پر ان کے منتخب کردہ افراد براجمان ہو چکے ہو ں گے۔
حرف آخر یہ ہے کہ جنا ب آصف علی زرداری کا اپنے دور اقتدار میں چین کے بعد ایر ان کی طرف خاصا جھکائو رہا۔ وہ گاہے گاہے احمدی نژاد سے ملتے رہے۔ جناب احمدی نژاد ریٹائرمنٹ کے بعد تہران میں تکینکی یونیورسٹی قائم کریں گے۔ کیا جناب آصف زرداری اپنے درویش صفت ہم منصب کے روشن نقوش پر چلنا پسند کریں گے ۔
ایسی اطلاعات کا مقصد صدر مملکت کے انتخاب کے لیے جناب نواز شریف کی ٖغیر سنجیدگی کو ثابت کرنا تھا کہ ان کی ترجیحات میں بین الاقومی اور علاقائی امو ر کی بجائے مزیدار کھانے پینے کو ترجیح حاصل ہے۔ جناب ممنون حسین قبل ازیں گورنر سندھ کی حیثیت سے سندھ میں جناب نواز شریف کی نمائندگی کا شرف حاصل کر چکے ہیں۔بظاہر خوش کن تاثر رکھنے والی ایسی خبریں اپنے پس منظر میں صدارتی انتخاب میں جناب ممنو ن حسین کو بے وقعت بنا نے کے کھیل کی ابتداء تھی جس کی حکمت عملی کو بعض انتہائی اہم شہ دماغوں نے تشکیل دیا تھا۔
ویسے اگر واقعی جناب نواز شریف کو ممنون حسین صاحب کے گھر کا دودھ ربڑی پسند ہے تو ایک خا ص موقعے پر ایسی خبریں نمایاں کرنے کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں اور اس میں جناب ممنون حسین کیسے قصور وار قرار پاتے ہیں، اس معاملے میں جناب نواز شریف کی''نگاہ التفات''کو داد دینی چاہیے کہ وہ اپنے ایک عام کارکن کو کس طرح سرفراز فرماتے ہیں۔ پہلے گورنر سندھ کے عہدہ جلیلہ پر بٹھاتے ہیں اور مو قع پاتے ہی صدرمملکت کے عہد ے کے لیے نامزد فرماتے ہیں۔ حقائق جو بھی ہوں لیکن یہ تو حقیقت ہے کہ بے اختیار اور علامتی صدر مملکت آج بھی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر اور وفاق پاکستان کی علامت ہو تے ہیں۔ ویسے بھی ستم ظریف تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ جناب ممنون حسین اپنے مقابل حریفو ں کے سامنے جچتے نہ ہوں لیکن اپنے پیش رو جناب آصف علی زرداری سے شرافت اور نجابت میں کسی بھی طرح کم نہیں ہیں۔
انگریزی اخبارات نے بھی بظاہر بڑی دلچسپ داستانیں بیان کی ہیں کہ آرام باغ کی اللہ والا مارکیٹ کے علاقے میں بڑا جوش جذبہ محسوس کیا جا سکتا ہے جہاں کا مدتوں پرانا مکین، دوست دکان دار اب صدارتی دوڑ میں سب آگے ہے، ہر دل عزیز "مجو بھا ئی" مرحوم کا چھوٹا بھائی ممنون حسین پاکستان کا 12 واں صدر بننے جا رہا ہے ۔
یہ جناب نواز شریف کا کمال ہے کہ وہ سیاست کے بے رحم کھیل میں اہلیت سے زیادہ وفاداری کو تر جیح دیتے ہیں، سرور محل میں مدتو ں پہلے جلاوطنی کے دوران، عشائیے پر ہو نے والی بلا تکلف اور کھلی ڈھلی گپ شپ کے دوران انہو ں نے بتایا تھا کہ گا ہے گا ہے چھکے مارنے کا مشورہ دینے والے اور کڑاکے نکالنے والے لطیفہ گو فوجی بوٹو ں کی آواز سنتے ہی غائب ہو گئے تھے اور آج کی عملیت پسند سیاست یہی کہانی دہرا رہی ہے۔
عہدۂ صدارت کے لیے ممنون حسین کے چنائو پر 2008میں مسلم لیگ (ن) کے شریف النفس امیدوار جسٹس (ر) سعیدالزمان صدیقی نے عملی حقائق سے قریب تر تبصرہ فرمایا کہ حالات و واقعات کے تناظر میں اصول اور ترجیحات بدل جاتی ہیں۔
ماہرین سیاسیات کا خیال ہے کہ نئے آرمی چیف اور نئے چیف جسٹس کے تقرر کے بعد تبدیلیوں کا یہ عمل دسمبر 2013 میں مکمل ہو گا۔ جس کے بعد جنوبی ایشیاء میں نئے دور کا آغا ز ہو گا ۔کیونکہ جنا ب نو از شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا کا م اپنے نما ئند ہ خصوصی جناب شہر یار ایم خا ن کو بھا رتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے پا س خصوصی پیغا م دے کا بھجوایا تھا۔ جس سے وزیر اعظم کی علاقائی ترجیحا ت کا تعین کیا جا سکتا ہے۔
درج بالا حقا ئق سے واضح ہوتا ہے کہ جناب نواز شریف جنوری 2014 سے اپنے اقتدار کی باضابطہ اننگ کا آغاز کریں گے۔ اس وقت تک اقتدار کی غلا م گردشو ں میں طاقت کا توازن ان کے حق میں واضح طور جھک چکا ہو گا کہ طا قت کے تما م مراکز پر ان کے منتخب کردہ افراد براجمان ہو چکے ہو ں گے۔
حرف آخر یہ ہے کہ جنا ب آصف علی زرداری کا اپنے دور اقتدار میں چین کے بعد ایر ان کی طرف خاصا جھکائو رہا۔ وہ گاہے گاہے احمدی نژاد سے ملتے رہے۔ جناب احمدی نژاد ریٹائرمنٹ کے بعد تہران میں تکینکی یونیورسٹی قائم کریں گے۔ کیا جناب آصف زرداری اپنے درویش صفت ہم منصب کے روشن نقوش پر چلنا پسند کریں گے ۔