پاک بھارت کشیدگی پر خیبر پختونخوا میں تمام ادارے الرٹ
صوبائی حکومت قبائلی اضلاع کے لیے اقدامات کے حوالے سے یقینی طور پر مصروفیات کا شکار ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی سے خیبرپختونخوا بھی پوری طرح گرم ہے اور ملک کے دیگر حصوں کی طرح کے پی کے باسیوں اور حکومت کی جانب سے بھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے حوالے سے جذباتی ماحول پایا گیا۔
جس کے تناظر میں صوبائی حکومت نے ایک جانب نہ صرف یہ کہ پوری مشینری کو الرٹ کر رکھا ہے بلکہ ساتھ ہی کسی بھی ہنگامی صورت حال کے حوالے سے ہسپتالوں اور دیگر تمام متعلقہ اداروں کو بھی تیاری کی ہدایات جاری کی ہوئی ہیں جن کے تناظر میں ان اداروں نے بھی تیاریاں کی ہوئی ہیں جبکہ دوسری جانب صوبائی کابینہ اور اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی اس سلسلے میں قراردادیں منظور کرتے ہوئے بھارتی جارحیت کی مذمت کی گئی، ملک پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو مرکز اور چاروں صوبوں کو یکساں طور پر حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا جس کے لیے بروقت تیاری ضروری تھی شاید یہی وجہ ہے کہ ان تیاریوں کے ساتھ مذکورہ حالات میں صوبائی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا گیا۔
چونکہ اسمبلی اجلاس پاک، بھارت کشیدگی شروع ہونے سے پہلے سے جاری تھا اس لیے کشیدگی شروع ہونے کے بعد بھی اجلاس کو جاری رکھا گیا تاہم کسی خطرناک صورت حال سے بچنے کے لیے اجلاس کو پہلے ملتوی کیا گیا اور پھر غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا تاکہ صوبائی حکومت اپنی پوری توجہ حالات پر مرکوز رکھ سکے کیونکہ خیبرپختونخوا جو اب قبائلی علاقہ جات کے صوبہ میں شامل ہونے کے بعد براہ راست افغانستان سے جا ملا ہے اسے مشرقی سرحدوں پر کشیدگی کے ساتھ مغربی سرحدوں کے حوالے سے بھی تشویش ہو سکتی ہے۔
چونکہ صوبائی حکومت نے انہی حالات کے تناظر میں پہلے صوبائی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا اور پھر اجلاس کا انعقاد کیے بغیر ہی اسے غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا اس لیے ان حالات میں اب فوری طور پر یہ ممکن نہیں کہ اپوزیشن ریکوزیشن جمع کراتے ہوئے اسمبلی اجلاس بلائے حالانکہ اسمبلی کے حال ہی میں ختم ہونے والے اجلاس کے آغاز ہی میں اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی نے اعلان کیا تھا کہ اپوزیشن نے اسمبلی اجلاس ریکوزٹ کرنے کے لیے ریکوزیشن تیار کرلی ہے ہے اور جونہی حکومت کی جانب سے بلایا گیا اجلاس ختم ہوا تو ساتھ ہی اپوزیشن اپنے ایجنڈے کے مطابق اسمبلی اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کرا دے گی کیونکہ اس سے قبل اپوزیشن کی ریکوزیشن کو تکنیکی بنیادوں پر واپس کرتے ہوئے ان کا ایجنڈا ایوان میں زیر بحث لانے کا امکان ختم کر دیا گیا تھا جبکہ اپوزیشن ترقیاتی فنڈز سمیت دیگر کئی اہم ایشوز ایوان میں زیر بحث لانے کی خواہاں ہے جس کی وجہ سے وہ ریکوزیشن جمع کرانا چاہتی ہے تاہم اب پاک ،بھارت کشیدگی کے موجودہ حالات میں فوری طور پر ایسا ہونا ممکن نہیں۔
صوبائی حکومت قبائلی اضلاع کے لیے اقدامات کے حوالے سے یقینی طور پر مصروفیات کا شکار ہے کیونکہ قبائلی اضلاع کی ترقی اور وہاں عدالتی اور پولیس کے نظام کے ساتھ دیگر محکموں کا نظام قائم کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے وسائل بھی درکار ہیں ۔
تاہم اس وقت تک کی صورت حال یہ ہے کہ صوبائی حکومت مرکز میں اپنی ہی پارٹی کی حکومت اور اپنی ہی پارٹی کے چیئرمین کے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر ہونے کے باوجود مالی مشکلات میں گھری ہوئی ہے کیونکہ مرکز نے اب تک وعدوں ،اعلانات اور یقین دہانیوں کے باوجود خیبرپختونخوا کو بجلی کے خالص منافع کے سالانہ واجبات اور بقایاجات کی مد میں مرکز کے ذمے واجب الادا65 ارب میں سے کسی قسم کی کوئی ادائیگی نہیں کی حالانکہ اگر صوبہ کو مذکورہ واجب الادا رقم میں سے نصف کی ادائیگی ہوچکی ہوتی تو صوبہ نہ صرف یہ کہ مالی طور پر مستحکم پوزیشن میں ہوتا بلکہ وہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری بھی اعدادوشمار کی بجائے زمینی حقائق کی بنیاد پر کر سکتا اور ساتھ ہی قبائلی اضلاع کے لیے بھی کیے جانے والے اقدامات میں تیزی نظر آتی۔
تاہم مرکز کی جانب سے مالی طور پرسپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے اب صوبائی حکومت کی صورت حال یہ ہے کہ وہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان سے اوورڈرافٹ لینے کی راہ دیکھ رہا ہے۔پاک، بھارت کشیدگی کے ان حالات میں بھی سیاسی جماعتیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں،جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی صوبہ میں میدان گرمایا اور جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دینے کے لیے میدان میں موجود ہیں جو ایک مرتبہ پھر نہ صرف یہ کہ مرکز میں مسلم لیگ(ن) اورپیپلزپارٹی کو یکجا کرنے کے مشن پر ہیں بلکہ ساتھ ہی ملین مارچ کے انعقاد کی صورت اپنی سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب ان کا اگلا ملین مارچ وزیرستان میں ہوگا۔
وزیرستان میں جے یو آئی کے ملین مارچ کو اگر خصوصی طور پر وہاں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اپنی پارٹی کے لیے قبائلی اضلاع میں راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان اضلاع سے جے یوآئی جو ایم ایم اے کی بجائے انفرادی طور پر میدان میں اترے گی وہ زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکے تاکہ صوبائی اسمبلی میں اس کی پوزیشن مستحکم ہوسکے اور وہ زیادہ ارکان کی مدد سے پی ٹی آئی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکے۔
جس کے تناظر میں صوبائی حکومت نے ایک جانب نہ صرف یہ کہ پوری مشینری کو الرٹ کر رکھا ہے بلکہ ساتھ ہی کسی بھی ہنگامی صورت حال کے حوالے سے ہسپتالوں اور دیگر تمام متعلقہ اداروں کو بھی تیاری کی ہدایات جاری کی ہوئی ہیں جن کے تناظر میں ان اداروں نے بھی تیاریاں کی ہوئی ہیں جبکہ دوسری جانب صوبائی کابینہ اور اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی اس سلسلے میں قراردادیں منظور کرتے ہوئے بھارتی جارحیت کی مذمت کی گئی، ملک پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو مرکز اور چاروں صوبوں کو یکساں طور پر حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا جس کے لیے بروقت تیاری ضروری تھی شاید یہی وجہ ہے کہ ان تیاریوں کے ساتھ مذکورہ حالات میں صوبائی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا گیا۔
چونکہ اسمبلی اجلاس پاک، بھارت کشیدگی شروع ہونے سے پہلے سے جاری تھا اس لیے کشیدگی شروع ہونے کے بعد بھی اجلاس کو جاری رکھا گیا تاہم کسی خطرناک صورت حال سے بچنے کے لیے اجلاس کو پہلے ملتوی کیا گیا اور پھر غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا تاکہ صوبائی حکومت اپنی پوری توجہ حالات پر مرکوز رکھ سکے کیونکہ خیبرپختونخوا جو اب قبائلی علاقہ جات کے صوبہ میں شامل ہونے کے بعد براہ راست افغانستان سے جا ملا ہے اسے مشرقی سرحدوں پر کشیدگی کے ساتھ مغربی سرحدوں کے حوالے سے بھی تشویش ہو سکتی ہے۔
چونکہ صوبائی حکومت نے انہی حالات کے تناظر میں پہلے صوبائی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا اور پھر اجلاس کا انعقاد کیے بغیر ہی اسے غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا اس لیے ان حالات میں اب فوری طور پر یہ ممکن نہیں کہ اپوزیشن ریکوزیشن جمع کراتے ہوئے اسمبلی اجلاس بلائے حالانکہ اسمبلی کے حال ہی میں ختم ہونے والے اجلاس کے آغاز ہی میں اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی نے اعلان کیا تھا کہ اپوزیشن نے اسمبلی اجلاس ریکوزٹ کرنے کے لیے ریکوزیشن تیار کرلی ہے ہے اور جونہی حکومت کی جانب سے بلایا گیا اجلاس ختم ہوا تو ساتھ ہی اپوزیشن اپنے ایجنڈے کے مطابق اسمبلی اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کرا دے گی کیونکہ اس سے قبل اپوزیشن کی ریکوزیشن کو تکنیکی بنیادوں پر واپس کرتے ہوئے ان کا ایجنڈا ایوان میں زیر بحث لانے کا امکان ختم کر دیا گیا تھا جبکہ اپوزیشن ترقیاتی فنڈز سمیت دیگر کئی اہم ایشوز ایوان میں زیر بحث لانے کی خواہاں ہے جس کی وجہ سے وہ ریکوزیشن جمع کرانا چاہتی ہے تاہم اب پاک ،بھارت کشیدگی کے موجودہ حالات میں فوری طور پر ایسا ہونا ممکن نہیں۔
صوبائی حکومت قبائلی اضلاع کے لیے اقدامات کے حوالے سے یقینی طور پر مصروفیات کا شکار ہے کیونکہ قبائلی اضلاع کی ترقی اور وہاں عدالتی اور پولیس کے نظام کے ساتھ دیگر محکموں کا نظام قائم کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے وسائل بھی درکار ہیں ۔
تاہم اس وقت تک کی صورت حال یہ ہے کہ صوبائی حکومت مرکز میں اپنی ہی پارٹی کی حکومت اور اپنی ہی پارٹی کے چیئرمین کے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر ہونے کے باوجود مالی مشکلات میں گھری ہوئی ہے کیونکہ مرکز نے اب تک وعدوں ،اعلانات اور یقین دہانیوں کے باوجود خیبرپختونخوا کو بجلی کے خالص منافع کے سالانہ واجبات اور بقایاجات کی مد میں مرکز کے ذمے واجب الادا65 ارب میں سے کسی قسم کی کوئی ادائیگی نہیں کی حالانکہ اگر صوبہ کو مذکورہ واجب الادا رقم میں سے نصف کی ادائیگی ہوچکی ہوتی تو صوبہ نہ صرف یہ کہ مالی طور پر مستحکم پوزیشن میں ہوتا بلکہ وہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری بھی اعدادوشمار کی بجائے زمینی حقائق کی بنیاد پر کر سکتا اور ساتھ ہی قبائلی اضلاع کے لیے بھی کیے جانے والے اقدامات میں تیزی نظر آتی۔
تاہم مرکز کی جانب سے مالی طور پرسپورٹ نہ ملنے کی وجہ سے اب صوبائی حکومت کی صورت حال یہ ہے کہ وہ اسٹیٹ بنک آف پاکستان سے اوورڈرافٹ لینے کی راہ دیکھ رہا ہے۔پاک، بھارت کشیدگی کے ان حالات میں بھی سیاسی جماعتیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں،جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی صوبہ میں میدان گرمایا اور جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دینے کے لیے میدان میں موجود ہیں جو ایک مرتبہ پھر نہ صرف یہ کہ مرکز میں مسلم لیگ(ن) اورپیپلزپارٹی کو یکجا کرنے کے مشن پر ہیں بلکہ ساتھ ہی ملین مارچ کے انعقاد کی صورت اپنی سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب ان کا اگلا ملین مارچ وزیرستان میں ہوگا۔
وزیرستان میں جے یو آئی کے ملین مارچ کو اگر خصوصی طور پر وہاں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اپنی پارٹی کے لیے قبائلی اضلاع میں راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان اضلاع سے جے یوآئی جو ایم ایم اے کی بجائے انفرادی طور پر میدان میں اترے گی وہ زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکے تاکہ صوبائی اسمبلی میں اس کی پوزیشن مستحکم ہوسکے اور وہ زیادہ ارکان کی مدد سے پی ٹی آئی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکے۔