وزن گھٹائیں سونا پائیں

رمضان المبارک میں استعمال کی جانے والی عہد حاضر کی ایک نادر ترکیب کا احوال

رمضان المبارک میں استعمال کی جانے والی عہد حاضر کی ایک نادر ترکیب کا احوال۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
آپ اگر متحدہ عرب امارات کے شہری ہیں، موٹاپے کا شکار ہیں اور اپنا وزن کم کرنے میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں توفوراً دبئی واپس جائیے ۔ وہاں جا کر جب آپ جوں جوں اسمارٹ ہوتے جائیں گے توں توں آپ امیر بھی ہوتے چلے جائیں گے۔ ایک کلو گرام وزن کم کرنے پرآپ سرکار سے حاصل کریں گے ایک گرام خالص سونا۔

دبئی حکومت نے ملک میں موٹاپے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھ کر اپنے شہریوں کو وزن گھٹانے کے بدلے میں سونا دینے کی جو پیش کش کی ہے، وہ اب بہت مقبول ہو چکی ہے۔ پیش کش کچھ یوں ہے ''ایک کلو گرام وزن کم کریں اور پائیں ایک گرام سونا''۔

دبئی ایک چھوٹا سا شہر ہے مگر دنیا بھر میںاسراف ، فضول خرچی اور دولت کی نمائش کے لیے اب یہ سب سے زیادہ مشہور ہو چکا ہے ، وہاں کی حکومت نے آج کل ایک نئی اسکیم متعارف کی ہے جس کا چرچا ہر جانب ہو چکا ہے۔ بے تحاشا موٹاپے کا شکار دبئی کے عربی اب یہ حکمت عملی ترتیب دینے میں مگن ہیں کہ کیسے ایک ماہ میں زیادہ سے زیادہ وزن کم کر کے زیادہ سے زیادہ سونا حاصل کیا جاسکتا ہے؟۔ فربہ خواتین خصوصاً اس اسکیم میں حصہ لینے کے لیے بہت بے تاب نظر آتی ہیں۔ بہت سی'' عربی آنٹیوں'' نے تو ڈاکٹروں اور پرائیویٹ Gym Instructors سے اس سلسلے میں خصوصی ہدایات بھی حاصل کر لی ہیں۔کہنے کو تو مرد بھی اس کار خیر میں حصہ لینے کے لیے بے تاب ہیں مگر لگتا یوں ہے کہ مال دار اوراسمارٹ ہونے کے لالچ میں عربی عورتیں یقیناً بازی لے جائیں گی۔

اقوام متحدہ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق مشرق وسطی کے ممالک میں موٹے افراد کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے اور اس میں مسلسل اضافہ بھی ہورہا ہے۔گھروں میں نوکروں کی فوج ظفر موج ، دٖفاتر میں کام سنبھالنے کے لیے تیسری دنیا سے امپورٹ شدہ پروفیشنلز،گویا کھانے پینے کے سوا اور آرام کرنے کے علاوہ عربوں کا اور کوئی خاص شغل نہیں ۔ ایسے میں عربوں کی اکثریت کا موٹا ہوجانا کوئی اچنبے کی بات نہیں۔

اس سروے کے مطابق موٹاپے میں اضافے کی شرح کویت میں ۴۲ فی صد، سعودی عرب میں ۳۵ فی صد، متحدہ عرب امارات میں ۳۳ فی صداور قطر میں ۳۳ فی صد ہو چکی ہے۔ اس کے مقابلے میں یہی شرح امریکا میں۳۵ فی صد ہے۔گویا موٹاپے میں اضافے کے حوالے سے عرب ممالک نہ صرف امریکا کے برابر ہیں بل کہ تیزی سے اس سے آگے بھی نکلتے جا رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اس وقت دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہو چکا ہے جہاں کے لوگوں میں موٹاپے کی وباء تیزی سے پھیل رہی ہے۔

اسی حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی نگرانی میں ہونے والی ایک اور تحقیق کے مطابق متحدہ عرب امارات میں ۳۰ فی صد مرد اور ۴۳ فی صد خواتین موٹاپے کا شکار ہیں۔ دبئی میں کیے جانے اس سروے کے مطابق اسکول جانے والا ہر تیسرا بچہ موٹاپے کا شکار ہے جو کہ کسی بھی ملک کے لیے ایک انتہائی خطرناک بات سمجھی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں مختلف ڈاکٹروں اور صحت عامہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں بڑھتے ہوئے موٹاپے کی وجوہات میں آرام طلبی، فاسٹ فوڈ کا بے جاء استعمال اور دولت کی فراوانی شامل ہے۔




صرف پچاس سال قبل متحدہ عرب امارات کی تقریباً تمام آبادی ریگستانوں میں اونٹ چرانے والے بدوئوں یا پھر مچھلیاں پکڑنے والے مچھیروں پر مشتمل تھی اور خال خال ہی کوئی شخص موٹا نظر آتا تھا۔ ۱۹۶۰ کی دہائی میں جیسے ہی وہاں سے تیل نکلا اور مقامی باشندے راتوں رات امیر ہوئے تو سہل پسندی بھی ان کے مزاج کا حصہ بنتی چلی گئی۔ دولت کی اس فراوانی کی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے تیسری دنیا کے غریب ممالک خصوصاً انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، انڈونیشیا، فلپائین، ملائشیا کے بہت سے مزدور پیشہ اور پڑھے لکھے افراد نے متحدہ عرب امارات کا رخ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس عمل سے مقامی عرب خواتین کو جہاں گھروں میں کام کرنے والی نوکرانیاں نصیب ہو گئیں تو دوسری جانب گھر سے باہر ان کے شوہروں کو اپنا کاروبار چلانے کے لیے ہر قسم کا اسٹاف میسر آ گیا۔ ایسے میں اب وہاں کون عربی باشندہ محنت مزدوری کرتا؟ سو اس طرح آغاز ہوا متحدہ عرب امارات میں سہل پسندی اور موٹاپے کے رجحان کا، جو اب رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا جس کا حل حکومت نے اس ترکیب کے ذریعے نکالا ہے وہ اب خاصی کامیاب نظر آ رہی ہے ۔

موٹاپا اب عرب ممالک میںوبا ء کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ پانچ عرب ممالک دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہو چکے ہیںجن کی آبادی میں ذیابیطس کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ یہ سب اعداد و شمار سامنے رکھتے ہوئے ہی دبئی کی میونسپل کارپوریشن نے سوچا کہ دبئی کے باسیوں کو وزن گھٹانے پر کس طرح آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی سلسلے میں انہوں نے یہ اسکیم بنائی کہ جو شخص جتنا وزن گھٹائے گا وہ اتنا ہی سونا پائے گا۔ یعنی ایک موٹا عربی ایک کلو گرام وزن کم کرنے کے بدلے ایک گرام سونے کا حقدار قرار ہو جائے گا۔

اب ایک طرف سونا ہے جو انسان کو اپنی طرف بلا رہا ہے تو دوسری طرف خوش شکل اور صحت مند دکھائی دینے کی خواہش بھی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ مقامی عربی مرد و زن نے اس اسکیم کا خو ش دلی سے استقبال کیا ہے اور خصوصاً خواتین میں اس کو بہت پزیرائی حاصل ہوئی ہے۔اس کے علاوہ سب سے زیادہ وزن کم کرنے والے تین افراد کو قرہ اندازی میں حصہ لینے کا موقع بھی دیا جائے گا جس میں جیتنے والے کو ایک سونے کا خصوصی سکہ انعام میں دیا جائے گا جس کی مالیت ۵۵۴۵ امریکی ڈالر بتائی جاتی ہے۔ وزن کم کرنے کا یہ مقا بلہ ۱۶- اگست تک جاری رہے گا۔

دبئی کی میونسپلٹی کے ڈائرکٹر جنرل حسین لوطح کہتے ہیں اس اسکیم کو خصوصی طور پر ماہ مبارک رمضان میں اس لیے لانچ کیا گیا ، تاکہ لوگوں کو وزن کم کرنے میںکے آسانی رہے۔ لوگ چوں کہ پہلے ہی روزے سے ہوں گے تو ان کو اچھی عادات اپنانے میںزیادہ دشواری محسوس نہیں ہو گی۔ گو یہ موٹاپے کے خلاف پہلی کوشش نہیں ہے، اس سے قبل بھی دبئی والوںکو ورزش کرنے اور اپنا وزن کم کرنے کی ترغیب دی گئی تھی۔۲۰۱۱ میں بھی ایسی ہی ایک اسکیم عوام کے لیے بنائی گئی تھی جس میں انہیں دبئی میں جابجا پائے جانے والی عوامی سیرگاہوں میں گھومنے پھرنے اور سیر کر نے کو کہا گیا تھا اور مقابلے میں جیتنے والوں کو نئی کاریں انعام میں دی گئی تھیںمگر یہ اسکیم زیادہ کارگر ثابت ہوئی ہے۔

وزن کے مطابق سونا دینے کی حالیہ اسکیم میں البتہ یہ شرط ضرور رکھی گئی ہے کہ حصہ لینے والے افراد کم از کم۲ کلو وزن کم کریں گے ۔ جو اس شرط پر پورا نہیں اترے گا اس کو انعام کا حق دار نہیں سمجھا جائے گا اوروہ مقابلے سے باہر ہو جائے گا لیکن اس کڑی شرط کے باوجود لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کا وزن گھٹانے کے اس دلچپ مقابلے میں حصہ لینے کا امکان پیدا ہو چکاہے۔
Load Next Story