پاکستان ’’ہب‘‘ بننے والا ہے
آخر وہی کرنا پڑا جو ہم اکثر ایسے سنگین حالات آزمائش کی گھڑی اور نازک دور میں کرتے ہیں۔
معاملہ اتنا گھمبیر بھی نہیں، ٹیڑھی لے کر بھی نہیں لیکن ''سیدھی لکیر'' بھی نہیں ہے۔ وہی ہماری نالائقی کا معاملہ ہے کہ آج کل پھر ایک نئے لفظ نے ہمیں پریشان کیا ہوا ہے، بلکہ حیران بھی اور خامہ سربگریباں بھی۔ آپ تو جانتے ہیں کہ ہم خود تو بس یونہی سے ہیں اس لیے دوسرے دانا دانشوروں سے کچھ خوشہ چینی کر کے اپنی روٹی ہانڈی چلاتے ہیں۔جب ایسے میں کوئی مشکل لفظ آ جاتا ہے تو ہمارے پسینے چھوٹ جاتے ہیں اور پھر ادھر ادھر سے پوچھ کر اسے سمجھ دانی میں اتار لیتے ہیں ۔
سب سے پہلے تو ہمیں ''نازک دور'' اور ''آزمائش کی گھڑی'' جیسے الفاظ نے بہت پریشان کرکے رکھا ہوا تھا لیکن اب وہ ہماری سمجھ میں آگئی کہ ستر سال سے یہ آزمائش کی گھڑی اور اس کا جڑواں بھائی ''نازک دور'' ہمارے مستقل مہمان بنے ہیں پھر ایک لفظ''ڈاکٹرائن'' کا آیا، اس سے بھی گزر کر آنا مشکل تھا لیکن اسے ''ایک پیچ'' پر ہیں نے دفع کر دیا۔ وہ ایک پیچ پر ہیں اور وہ ایک پیچ پر نہیں ہیں۔ پھر ''ڈومور'' ابھی چل رہا تھا کہ اس کم بخت لفظ ''بیانیہ'' نے ہلہ بول دیا۔جہاں دیکھو بیانیہ، جہاں سنو بیانیہ، جہاں پڑھو بیانیہ۔یا اللہ یہ بیانیہ ہے کہ شیطان کی ''اماجانیہ'' اور ابلیس کی ''نانی جانیہ'' ہے اور اب کے جو تازہ پریشانی نازل ہوئی ہے وہ''ہب'' ہے۔ آپ بھی پڑھیے۔
''چین کے بعد سعودی عرب کی کثیر سرمایہ کاری سے پاکستان علاقے کا معاشی ہب بن جائے گا''
اور یہ ایک بہت ہی''دانا دانشور'' کی تحریر دل پزیر تھی۔ ادھر ادھر ڈکشنریاں دستیاب تھیں، اس میں دیکھا لیکن نپولین کے ''ناممکن'' کی طرح کسی بھی ڈکشنری میں ''ہب'' نہیں ملا جس طرح پچھلے دنوں پڑوسی ملک کی ایک ممثلہ نے کہاتھا کہ مجھے ''سسیریبرم'' پسند ہے تو ایک دنیا ڈکشنریوں میں ''سسیریبرم'' تلاش کرنے لگی تھی۔ ڈکشنریوں سے مایوس ہوکر غور کے حوض میں ڈبکی لگائی تو خیال آیا کہ اس میں کتابت یعنی کمپوزنگ کی غلطی بھی ہوسکتی۔
ایک خیال ''ہب'' کی طرف گیا اور جس طرح شہزادہ معظم ولی عہد مکرم اور''ریال مجسم'' کی تشریف سے لوگ خوش ہورہے تھے ہو سکتاہے کہ اس ضمن میں کہیں ''ہپ ہپ ہُرے'' کے مواقع بھی آئے ہوں یا آنے والے ہوں لیکن پھر اس خیال کو ترک کرنا پڑا کہ لفظ کے نیچے صرف ایک نقطہ صاف صاف نظر آرہاتھا۔ اچانک ایک اور امکان دکھائی دیااور یہ قرین قیاس بھی تھا۔شاید کمپوزر سے ہب کے ساتھ''مذ'' کا لفظ چھوٹ گیاہو۔ ہم فِل ان دی بلینک کرکے کمپوزنگ کی غلطی درست کرنے ہی والے تھے کہ اچانک خیال آیا کہ ممکن ہے غلطی (ح) اور (ھ) میں ہوئی ہو یعنی یہ لفظ ہب نہ ہو بلکہ ''حُب' اور''معاشی حبُ'' کا ایک قرینہ بھی بنتاہے جیسا کہ سعودی عرب کو ہمارے ساتھ ہے اور ہمارا چین کے ساتھ ہے۔ایسے گرم جوشانہ،جاں نثارانہ اور سرفروشانہ تعلقات ''حبُ'' میں ممکن ہیں اور اس بات میں بھی''لاجک'' ہے کہ اگر چین اور سعودی عرب کا حبُ یونہی ہمارے ساتھ شامل رہا تو ہمیں''عزیزجہاں شوی'' سے کوئی نہیں روک سکتا، مودی کا باپ بھی نہیں، ٹرمپ کا بیٹا بھی نہیں اور آئی ایم ایف کی خالہ بھی نہیں۔لیکن یہ دل ظالم ہمارا بھی دنیا جہاں کا منحوس ہے کہیں نہ کہیں سے تو کوئی شوشہ لاکر چھوڑ دیتاہے
ہرخوشی میں کوئی غم یاد دلادیتا ہے
دل کا یہ رخ میری نظروں سے نہاں تھا پہلے
شوشہ یہ تھا کہ اگر ہب نہیں ''حبُ'' ہے اور پاکستان کے ''معاشی حب'' کا معاملہ ہے تو پھر گرامر کے لحاظ سے ''محبوب'' ہونا چاہیے، بات تو وہی ہے لیکن فعل فاعل اور مفعول کے پیش نظر ''محبوب'' زیادہ فصیح ہے بلکہ ''بلیغ'' بھی اگر ''فعل معاش'' فاعل چین اور سعودی عرب ہیں تو پاکستان کو معاشی مفعول یعنی محبوب ہونا چاہیے نہ کہ''حب'' کیونکہ ''حبُ'' تو دوسروں کے پاس ہے۔سو اس خیال کو بھی مسترد کرنا پڑا، بادل نخواستہ ہی سہی۔اور ابھی ہم کش مکش میں تھے کہ ایک اور لفظ حب ُ(hub) کا خیال آیا اور اس کے ساتھ تو لفظ ڈیم بھی تھا اور''ڈیم'' تو آپ جانتے ہیں کہ حضرت باباجی کی دعا سے آج کل بیسٹ سیلر لفظ ہے اور ڈیم کا مطلب تو فول سے فول آدمی بھی جانتاہے اور شاید''حب'' میں بجلی کا بھی کوئی معاملہ ہے لیکن اس کباب بلکہ ''حباب'' میں بھی ہڈی نکل آئی کہ ''حب'' تو صرف کراچی تک محدود ہے اور یہاں بات ''علاقے'' کی ہو رہی ہے۔
آخر وہی کرنا پڑا جو ہم اکثر ایسے سنگین حالات آزمائش کی گھڑی اور نازک دور میں کرتے ہیں یعنی ایک ''آئینہ جہاں نما'' یعنی انٹرنیٹ کے ماہر سے پوچھ لیا اور اس نے چٹکی بلکہ ایک انگلی سے معاملہ حل کردیا۔بولا یہ ہب نہ حبُ ہے نہ خب ہے نہ خبط ہے اور نہ ہی کچھ اور بلکہ یہ انٹرنیٹ کی دنیا کا لفظ ہے اور دھنی ہیں سنگم چوراہا یا مجمع البحرین۔چلیے ہم کہاں کہاں ڈھونڈ رہے تھے اور بچہ بغل میں بیٹھا ہوا تھا۔بزرگوں کی اس بات پر دوبارہ یقین تازہ ہوا کہ اگر کچھ سمجھ میں نہ آرہا ہو تو فضول دھینگا مشتی اپنی سمجھ دانی سے نہیں کرنا چاہیے اور کسی سے پوچھ لینا چاہیے لیکن بزرگوں نے یہ بھی تو کہا ہے نا کہ
ہر چہ''دانا کند۔کند نادان
لیک بعد از خرابیٔ بسیار
اب پوری بات بلکہ پورا ہب ہماری سمجھ دانی میں آگیا ہے اور اسے اگر کچھ خبروں کے ساتھ ملا کر دیکھ لیاجائے تو مذکورہ دانا دانشور کو داد دینا پڑے گی کہ کیا دور کی کوڑی لایاہے اتنی دور کی کوڑی تو حضرت علامہ شیخ ''شیخ چلی'' بھی نہیں لایا ہوگا،کہاں ایک انڈا اور کہاں پورا''ہب'' اور وہ بھی علاقے بھر کا۔یہ کچھ خبریں ملاحظہ فرمائے۔
سعودی عرب تیل کا سب سے بڑا دکاندار ہے اور امریکا اس کا سب سے بڑا خریدار۔دوسری خبر۔امریکا میں تیل کے اتنے ذخائر نکل آئے ہیں کہ وہ تیل میں خود کفیل ہوجائے گا۔تیسری خبر۔چین کو تیل کی ترسیل وایا پاکستان ہی ہوسکتی ہے اور امریکا سے بھی بڑا خریدار بن سکتاہے۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک اتنا بڑا موضوع بلکہ ''ہب'' ہو اور کوئی کہانی ہمیں ''دُم'' نہ ہلائے۔ہمارا ایک عزیز تھا جو چھوٹی موٹی تجارت کرتا تھا اور زیادہ تر پنجاب میں پھرتا تھا لیکن تجارت سے زیادہ وہ''مارلینے'' میں ماہر تھا۔
لوگوں سے تعلقات جوڑتا تھا اور پھر کچھ پیسے یا ''چیزمار''آتا تھا۔ اس ہنر کی وجہ سے اس کا نام ہی''مارو'' پڑگیاتھا۔ ایک دن اچانک ہمارے پاس آیا کہ میرے کچھ مہمان آئے ہیں، ان کو قبائلی علاقے میں کچھ کام ہے، میں نے تمہارا نام لے دیا ہے، جاکر دیکھا تو وہ دونوں بہت بڑے آدمی نکلے۔ ایک تو اس وقت کے ریاستی عہدے دار کا بھتیجا یا بھانجا یا ایسا کچھ تھا اور دوسرا ایک پروفیسر تھا جو پاکستان کے بہت بڑے عہدوں پر بعد میں رہا۔وہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے علاقے کے تھے جن سے عقیدت کی بنا پر ہم نے اپنا تخلص بھی برق رکھا ہوا ہے۔ بات چیت سے پتہ چلا کہ وہ روسی ٹیلی وژن سیٹوں کی بڑے پیمانے پر تجارت یا اسمگلنگ کرنا چاہتے ہیں اور ان کو قبائلی علاقے میں کوئی قابل اعتماد جگہ چاہیے جہاں ''مال'' اتارا جا سکے۔اور پھر آگے بڑھایا جاسکے۔ ہمارے تعلقات تو بہت تھے۔
ان کو تسلی دے کر رخصت کردیا۔ہم نے اپنے اس ''مارو'' رشتے دار سے کہا کہ یہ بڑے شریف اور اونچے لوگ ہیں اور بہت اونچا کاروبار لانچ کررہے ہیں، ان کے ساتھ کچھ ایسی ویسی حرکت مت کرنا۔بولا ،کیوں کروں گا، میرا بھی فائدہ ہے، ایک ٹی وی سیٹ تو مار لوں گا۔ہم نے اسے گالیوں پر رکھ لیا کہ اتنا بڑا کاروبار اور تم ایک ٹی وی سیٹ کی سوچ رہے ہو۔لیکن وہ لوگ جب پھر کبھی نہیں آئے تو ہم سمجھ گئے کہ اس نے ان سے کچھ''مار'' لیاہوگا۔
سب سے پہلے تو ہمیں ''نازک دور'' اور ''آزمائش کی گھڑی'' جیسے الفاظ نے بہت پریشان کرکے رکھا ہوا تھا لیکن اب وہ ہماری سمجھ میں آگئی کہ ستر سال سے یہ آزمائش کی گھڑی اور اس کا جڑواں بھائی ''نازک دور'' ہمارے مستقل مہمان بنے ہیں پھر ایک لفظ''ڈاکٹرائن'' کا آیا، اس سے بھی گزر کر آنا مشکل تھا لیکن اسے ''ایک پیچ'' پر ہیں نے دفع کر دیا۔ وہ ایک پیچ پر ہیں اور وہ ایک پیچ پر نہیں ہیں۔ پھر ''ڈومور'' ابھی چل رہا تھا کہ اس کم بخت لفظ ''بیانیہ'' نے ہلہ بول دیا۔جہاں دیکھو بیانیہ، جہاں سنو بیانیہ، جہاں پڑھو بیانیہ۔یا اللہ یہ بیانیہ ہے کہ شیطان کی ''اماجانیہ'' اور ابلیس کی ''نانی جانیہ'' ہے اور اب کے جو تازہ پریشانی نازل ہوئی ہے وہ''ہب'' ہے۔ آپ بھی پڑھیے۔
''چین کے بعد سعودی عرب کی کثیر سرمایہ کاری سے پاکستان علاقے کا معاشی ہب بن جائے گا''
اور یہ ایک بہت ہی''دانا دانشور'' کی تحریر دل پزیر تھی۔ ادھر ادھر ڈکشنریاں دستیاب تھیں، اس میں دیکھا لیکن نپولین کے ''ناممکن'' کی طرح کسی بھی ڈکشنری میں ''ہب'' نہیں ملا جس طرح پچھلے دنوں پڑوسی ملک کی ایک ممثلہ نے کہاتھا کہ مجھے ''سسیریبرم'' پسند ہے تو ایک دنیا ڈکشنریوں میں ''سسیریبرم'' تلاش کرنے لگی تھی۔ ڈکشنریوں سے مایوس ہوکر غور کے حوض میں ڈبکی لگائی تو خیال آیا کہ اس میں کتابت یعنی کمپوزنگ کی غلطی بھی ہوسکتی۔
ایک خیال ''ہب'' کی طرف گیا اور جس طرح شہزادہ معظم ولی عہد مکرم اور''ریال مجسم'' کی تشریف سے لوگ خوش ہورہے تھے ہو سکتاہے کہ اس ضمن میں کہیں ''ہپ ہپ ہُرے'' کے مواقع بھی آئے ہوں یا آنے والے ہوں لیکن پھر اس خیال کو ترک کرنا پڑا کہ لفظ کے نیچے صرف ایک نقطہ صاف صاف نظر آرہاتھا۔ اچانک ایک اور امکان دکھائی دیااور یہ قرین قیاس بھی تھا۔شاید کمپوزر سے ہب کے ساتھ''مذ'' کا لفظ چھوٹ گیاہو۔ ہم فِل ان دی بلینک کرکے کمپوزنگ کی غلطی درست کرنے ہی والے تھے کہ اچانک خیال آیا کہ ممکن ہے غلطی (ح) اور (ھ) میں ہوئی ہو یعنی یہ لفظ ہب نہ ہو بلکہ ''حُب' اور''معاشی حبُ'' کا ایک قرینہ بھی بنتاہے جیسا کہ سعودی عرب کو ہمارے ساتھ ہے اور ہمارا چین کے ساتھ ہے۔ایسے گرم جوشانہ،جاں نثارانہ اور سرفروشانہ تعلقات ''حبُ'' میں ممکن ہیں اور اس بات میں بھی''لاجک'' ہے کہ اگر چین اور سعودی عرب کا حبُ یونہی ہمارے ساتھ شامل رہا تو ہمیں''عزیزجہاں شوی'' سے کوئی نہیں روک سکتا، مودی کا باپ بھی نہیں، ٹرمپ کا بیٹا بھی نہیں اور آئی ایم ایف کی خالہ بھی نہیں۔لیکن یہ دل ظالم ہمارا بھی دنیا جہاں کا منحوس ہے کہیں نہ کہیں سے تو کوئی شوشہ لاکر چھوڑ دیتاہے
ہرخوشی میں کوئی غم یاد دلادیتا ہے
دل کا یہ رخ میری نظروں سے نہاں تھا پہلے
شوشہ یہ تھا کہ اگر ہب نہیں ''حبُ'' ہے اور پاکستان کے ''معاشی حب'' کا معاملہ ہے تو پھر گرامر کے لحاظ سے ''محبوب'' ہونا چاہیے، بات تو وہی ہے لیکن فعل فاعل اور مفعول کے پیش نظر ''محبوب'' زیادہ فصیح ہے بلکہ ''بلیغ'' بھی اگر ''فعل معاش'' فاعل چین اور سعودی عرب ہیں تو پاکستان کو معاشی مفعول یعنی محبوب ہونا چاہیے نہ کہ''حب'' کیونکہ ''حبُ'' تو دوسروں کے پاس ہے۔سو اس خیال کو بھی مسترد کرنا پڑا، بادل نخواستہ ہی سہی۔اور ابھی ہم کش مکش میں تھے کہ ایک اور لفظ حب ُ(hub) کا خیال آیا اور اس کے ساتھ تو لفظ ڈیم بھی تھا اور''ڈیم'' تو آپ جانتے ہیں کہ حضرت باباجی کی دعا سے آج کل بیسٹ سیلر لفظ ہے اور ڈیم کا مطلب تو فول سے فول آدمی بھی جانتاہے اور شاید''حب'' میں بجلی کا بھی کوئی معاملہ ہے لیکن اس کباب بلکہ ''حباب'' میں بھی ہڈی نکل آئی کہ ''حب'' تو صرف کراچی تک محدود ہے اور یہاں بات ''علاقے'' کی ہو رہی ہے۔
آخر وہی کرنا پڑا جو ہم اکثر ایسے سنگین حالات آزمائش کی گھڑی اور نازک دور میں کرتے ہیں یعنی ایک ''آئینہ جہاں نما'' یعنی انٹرنیٹ کے ماہر سے پوچھ لیا اور اس نے چٹکی بلکہ ایک انگلی سے معاملہ حل کردیا۔بولا یہ ہب نہ حبُ ہے نہ خب ہے نہ خبط ہے اور نہ ہی کچھ اور بلکہ یہ انٹرنیٹ کی دنیا کا لفظ ہے اور دھنی ہیں سنگم چوراہا یا مجمع البحرین۔چلیے ہم کہاں کہاں ڈھونڈ رہے تھے اور بچہ بغل میں بیٹھا ہوا تھا۔بزرگوں کی اس بات پر دوبارہ یقین تازہ ہوا کہ اگر کچھ سمجھ میں نہ آرہا ہو تو فضول دھینگا مشتی اپنی سمجھ دانی سے نہیں کرنا چاہیے اور کسی سے پوچھ لینا چاہیے لیکن بزرگوں نے یہ بھی تو کہا ہے نا کہ
ہر چہ''دانا کند۔کند نادان
لیک بعد از خرابیٔ بسیار
اب پوری بات بلکہ پورا ہب ہماری سمجھ دانی میں آگیا ہے اور اسے اگر کچھ خبروں کے ساتھ ملا کر دیکھ لیاجائے تو مذکورہ دانا دانشور کو داد دینا پڑے گی کہ کیا دور کی کوڑی لایاہے اتنی دور کی کوڑی تو حضرت علامہ شیخ ''شیخ چلی'' بھی نہیں لایا ہوگا،کہاں ایک انڈا اور کہاں پورا''ہب'' اور وہ بھی علاقے بھر کا۔یہ کچھ خبریں ملاحظہ فرمائے۔
سعودی عرب تیل کا سب سے بڑا دکاندار ہے اور امریکا اس کا سب سے بڑا خریدار۔دوسری خبر۔امریکا میں تیل کے اتنے ذخائر نکل آئے ہیں کہ وہ تیل میں خود کفیل ہوجائے گا۔تیسری خبر۔چین کو تیل کی ترسیل وایا پاکستان ہی ہوسکتی ہے اور امریکا سے بھی بڑا خریدار بن سکتاہے۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک اتنا بڑا موضوع بلکہ ''ہب'' ہو اور کوئی کہانی ہمیں ''دُم'' نہ ہلائے۔ہمارا ایک عزیز تھا جو چھوٹی موٹی تجارت کرتا تھا اور زیادہ تر پنجاب میں پھرتا تھا لیکن تجارت سے زیادہ وہ''مارلینے'' میں ماہر تھا۔
لوگوں سے تعلقات جوڑتا تھا اور پھر کچھ پیسے یا ''چیزمار''آتا تھا۔ اس ہنر کی وجہ سے اس کا نام ہی''مارو'' پڑگیاتھا۔ ایک دن اچانک ہمارے پاس آیا کہ میرے کچھ مہمان آئے ہیں، ان کو قبائلی علاقے میں کچھ کام ہے، میں نے تمہارا نام لے دیا ہے، جاکر دیکھا تو وہ دونوں بہت بڑے آدمی نکلے۔ ایک تو اس وقت کے ریاستی عہدے دار کا بھتیجا یا بھانجا یا ایسا کچھ تھا اور دوسرا ایک پروفیسر تھا جو پاکستان کے بہت بڑے عہدوں پر بعد میں رہا۔وہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے علاقے کے تھے جن سے عقیدت کی بنا پر ہم نے اپنا تخلص بھی برق رکھا ہوا ہے۔ بات چیت سے پتہ چلا کہ وہ روسی ٹیلی وژن سیٹوں کی بڑے پیمانے پر تجارت یا اسمگلنگ کرنا چاہتے ہیں اور ان کو قبائلی علاقے میں کوئی قابل اعتماد جگہ چاہیے جہاں ''مال'' اتارا جا سکے۔اور پھر آگے بڑھایا جاسکے۔ ہمارے تعلقات تو بہت تھے۔
ان کو تسلی دے کر رخصت کردیا۔ہم نے اپنے اس ''مارو'' رشتے دار سے کہا کہ یہ بڑے شریف اور اونچے لوگ ہیں اور بہت اونچا کاروبار لانچ کررہے ہیں، ان کے ساتھ کچھ ایسی ویسی حرکت مت کرنا۔بولا ،کیوں کروں گا، میرا بھی فائدہ ہے، ایک ٹی وی سیٹ تو مار لوں گا۔ہم نے اسے گالیوں پر رکھ لیا کہ اتنا بڑا کاروبار اور تم ایک ٹی وی سیٹ کی سوچ رہے ہو۔لیکن وہ لوگ جب پھر کبھی نہیں آئے تو ہم سمجھ گئے کہ اس نے ان سے کچھ''مار'' لیاہوگا۔