اولادِ صالح
نیک اولادبچپن میں والدین کے لیے دل کا سُرور،جوانی میں آنکھوں کا نُور اور والدین کے بوڑھے ہوجانے پران کا سہارا بنتی ہے
نیک اولاد اللہ تعالیٰ کا عظیم انعام ہے۔ اولاد صالح کے لیے اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی حضرت زکریاؑ نے بھی دعا کی، چناں چہ قرآن پاک میں ہے، مفہوم: '' اے میرے رب مجھے پاک اولاد عطا فرما۔'' (ال عمران) اور خلیل اللہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی آنے والی نسلوں کو نیک بنانے کی یوں دعا مانگی، مفہوم: '' اے میرے رب مجھے نماز قائم کرنے والا رکھ اور میری اولاد کو۔'' (سورۂ ابراہیم) یہی وہ نیک اولاد ہے جو دنیا میں اپنے والدین کے لیے راحتِ جان اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان بنتی ہے۔
نیک اولاد بچپن میں اپنے والدین کے لیے دل کا سرور، جوانی میں آنکھوں کا نور اور والدین کے بوڑھے ہوجانے پر ان کا سہارا بنتی ہے۔ پھر جب یہ والدین دنیا سے گزر جاتے ہیں تو یہ سعادت مند اولاد اپنے والدین کے لیے بخشش کا سامان بنتی ہے۔ جیسا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین کاموں کہ ان کا سلسلہ جاری رہتا ہے، صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور نیک اولاد جو اس کے حق میں دعائے خیر کرے۔'' (مسلم)
وہی اولاد اخروی طور پر نفع بخش ثابت ہوگی جو نیک اور صالح ہو اور یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اولاد نیک یا بد بنانے میں والدین کی تربیت کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں اخلاقی قدروں کی پامالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ نیکیاں کرنا بے حد دشوار اور ارتکاب گناہ بہت آسان ہو چکا ہے۔ تکمیل ضروریات اور حصولِ سہولیات کی جدوجہد نے انسان کو فکرِ آخرت سے یک سر غافل کردیا ہے۔ ان نامساعد حالات کا ایک بڑا سبب والدین کا اپنی اولاد کی تربیت سے یک سر غافل ہونا ہے۔
کیوں کہ فرد سے افراد اور افراد سے معاشرہ بنتا ہے تو جب فرد کی تربیت صحیح خطوط پر نہیں ہوگی تو اس کے مجموعے سے تشکیل پانے والا معاشرہ زبوں حالی سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے۔ جب والدین کا مقصدِ حیات حصولِ دولت، آرام طلبی، وقت گزاری اور عیش کرنا بن جائے تو وہ اپنی اولاد کی کیا تربیت کریں گے اور جب تربیت اولاد سے لاپروائی کے اثرات سامنے آتے ہیں تو والدین ہر کس و ناکس کے سامنے اپنی اولاد کے بگڑنے کا رونا روتے ہیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ بگڑی ہوئی اولاد کے والدین اس کی ذمے داری ایک دوسرے پر عاید کرکے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ مگر یاد رکھیے اولاد کی تربیت صرف ماں یا محض باپ کی نہیں بل کہ دونوں کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
اللہتعالیٰ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: '' اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اس پر سخت طاقت ور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کا حکم نہیں ٹالتے اور جو انہیں حکم ہو وہی کرتے ہیں۔'' (سورہ تحریم)
جب نبی کریم ﷺ نے یہ آیت مبارکہ صحابہ کرامؓ کے سامنے تلاوت فرمائی تو وہ عرض گزار ہوئے! یا رسول اللہ ﷺ ہم اپنے اہل و عیال کو آتش جہنم سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟ سرکار ِمدینہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا! تم اپنے اہل و عیال کو ان چیزوں کا حکم دو جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں اور ان کاموں سے روکو جو رب تعالیٰ کو ناپسند ہیں۔ (الدرالمنشور)
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: '' مرد اپنے گھر کا رکھوالا ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں بازپرس ہوگی اور عورت اپنے شوہر کے گھرکی رکھوالی ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہوگا۔'' (بخاری )
قرآن کریم کی ان توجیہات اور ارشاد نبویؐ کی راہ نمائی کی وجہ سے ہر دور میں تربیت کرنے والے حضرات نے بچوں کی تربیت کا خوب اہتمام کیا اور ان کی تعلیم و راہ نمائی اور کج روی کو دور کرنے کا خیال رکھا، بل کہ والدین اور ذمے دار لوگ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایسے اساتذہ و معلمین کا انتخاب کیا کرتے تھے جو علم و ادب کے لحاظ سے بلند و ارفع ہوں، تاکہ وہ بچے کو صحیح عقیدہ و اخلاق سکھائیں اور اسلام کی تعلیم کے فریضے کو بحسن خوبی ادا کرسکیں، اور اسی طرح بچوں کو رسول اللہ ﷺ کے غزوات اور صحابہ کرامؓ کی سیرت اور عظیم مسلمان قائدین کی سوانح اور تاریخ میں رقم بہادری کے عظیم کارناموں کی بھی تعلیم دی جائے، اور اس کا راز یہ ہے کہ بچہ پہلے زمانے کے لوگوں کی پیروی کرے، ان کی جدوجہد و بہادری کے کارناموں میں ان کے نقش قدم پر چلے اور شعور اور عزت و افتخار کے اعتبار سے ان بچوں کا اپنی تاریخ سے تعلق ہو۔
امام غزالیؒ نے ''احیاء العلوم'' میں یہ وصیت کی ہے کہ بچے کو قرآن کریم اور احادیث نبویؐ اور نیک لوگوں کے واقعات اور دینی احکام کی تعلیم دی جائے۔
بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو فطرتاً توحید اور ایمان باللہ پر پیدا ہوتا ہے اور اصل اعتبار سے اس میں طہارت و پاکیزگی اور برائیوں سے دوری ہوتی ہے اور اس کے بعد اس کو اگر گھر میں اچھی اور عمدہ تربیت اور معاشرے میں اچھے نیک ساتھی اور صحیح اسلامی تعلیمی ماحول میسر آجائے تو وہ بلاشبہ راسخ الایمان ہوتا ہے اور اعلیٰ اخلاق اور بہترین تربیت میں بڑھتا پلتا ہے۔
نیک اولاد بچپن میں اپنے والدین کے لیے دل کا سرور، جوانی میں آنکھوں کا نور اور والدین کے بوڑھے ہوجانے پر ان کا سہارا بنتی ہے۔ پھر جب یہ والدین دنیا سے گزر جاتے ہیں تو یہ سعادت مند اولاد اپنے والدین کے لیے بخشش کا سامان بنتی ہے۔ جیسا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین کاموں کہ ان کا سلسلہ جاری رہتا ہے، صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور نیک اولاد جو اس کے حق میں دعائے خیر کرے۔'' (مسلم)
وہی اولاد اخروی طور پر نفع بخش ثابت ہوگی جو نیک اور صالح ہو اور یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اولاد نیک یا بد بنانے میں والدین کی تربیت کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں اخلاقی قدروں کی پامالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ نیکیاں کرنا بے حد دشوار اور ارتکاب گناہ بہت آسان ہو چکا ہے۔ تکمیل ضروریات اور حصولِ سہولیات کی جدوجہد نے انسان کو فکرِ آخرت سے یک سر غافل کردیا ہے۔ ان نامساعد حالات کا ایک بڑا سبب والدین کا اپنی اولاد کی تربیت سے یک سر غافل ہونا ہے۔
کیوں کہ فرد سے افراد اور افراد سے معاشرہ بنتا ہے تو جب فرد کی تربیت صحیح خطوط پر نہیں ہوگی تو اس کے مجموعے سے تشکیل پانے والا معاشرہ زبوں حالی سے کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے۔ جب والدین کا مقصدِ حیات حصولِ دولت، آرام طلبی، وقت گزاری اور عیش کرنا بن جائے تو وہ اپنی اولاد کی کیا تربیت کریں گے اور جب تربیت اولاد سے لاپروائی کے اثرات سامنے آتے ہیں تو والدین ہر کس و ناکس کے سامنے اپنی اولاد کے بگڑنے کا رونا روتے ہیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ بگڑی ہوئی اولاد کے والدین اس کی ذمے داری ایک دوسرے پر عاید کرکے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ مگر یاد رکھیے اولاد کی تربیت صرف ماں یا محض باپ کی نہیں بل کہ دونوں کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
اللہتعالیٰ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: '' اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اس پر سخت طاقت ور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کا حکم نہیں ٹالتے اور جو انہیں حکم ہو وہی کرتے ہیں۔'' (سورہ تحریم)
جب نبی کریم ﷺ نے یہ آیت مبارکہ صحابہ کرامؓ کے سامنے تلاوت فرمائی تو وہ عرض گزار ہوئے! یا رسول اللہ ﷺ ہم اپنے اہل و عیال کو آتش جہنم سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟ سرکار ِمدینہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا! تم اپنے اہل و عیال کو ان چیزوں کا حکم دو جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں اور ان کاموں سے روکو جو رب تعالیٰ کو ناپسند ہیں۔ (الدرالمنشور)
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: '' مرد اپنے گھر کا رکھوالا ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں بازپرس ہوگی اور عورت اپنے شوہر کے گھرکی رکھوالی ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہوگا۔'' (بخاری )
قرآن کریم کی ان توجیہات اور ارشاد نبویؐ کی راہ نمائی کی وجہ سے ہر دور میں تربیت کرنے والے حضرات نے بچوں کی تربیت کا خوب اہتمام کیا اور ان کی تعلیم و راہ نمائی اور کج روی کو دور کرنے کا خیال رکھا، بل کہ والدین اور ذمے دار لوگ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایسے اساتذہ و معلمین کا انتخاب کیا کرتے تھے جو علم و ادب کے لحاظ سے بلند و ارفع ہوں، تاکہ وہ بچے کو صحیح عقیدہ و اخلاق سکھائیں اور اسلام کی تعلیم کے فریضے کو بحسن خوبی ادا کرسکیں، اور اسی طرح بچوں کو رسول اللہ ﷺ کے غزوات اور صحابہ کرامؓ کی سیرت اور عظیم مسلمان قائدین کی سوانح اور تاریخ میں رقم بہادری کے عظیم کارناموں کی بھی تعلیم دی جائے، اور اس کا راز یہ ہے کہ بچہ پہلے زمانے کے لوگوں کی پیروی کرے، ان کی جدوجہد و بہادری کے کارناموں میں ان کے نقش قدم پر چلے اور شعور اور عزت و افتخار کے اعتبار سے ان بچوں کا اپنی تاریخ سے تعلق ہو۔
امام غزالیؒ نے ''احیاء العلوم'' میں یہ وصیت کی ہے کہ بچے کو قرآن کریم اور احادیث نبویؐ اور نیک لوگوں کے واقعات اور دینی احکام کی تعلیم دی جائے۔
بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو فطرتاً توحید اور ایمان باللہ پر پیدا ہوتا ہے اور اصل اعتبار سے اس میں طہارت و پاکیزگی اور برائیوں سے دوری ہوتی ہے اور اس کے بعد اس کو اگر گھر میں اچھی اور عمدہ تربیت اور معاشرے میں اچھے نیک ساتھی اور صحیح اسلامی تعلیمی ماحول میسر آجائے تو وہ بلاشبہ راسخ الایمان ہوتا ہے اور اعلیٰ اخلاق اور بہترین تربیت میں بڑھتا پلتا ہے۔