مستعد زیادہ ذمہ دار اور پُراعتماد
عورت کا روایتی تصور بدل رہا ہے۔
خواتین کا عالمی دن حوصلے، عزم و ہمّت اور انفرادی و اجتماعی جدوجہد کی چمک دمک کو تازہ کرتا ہے جسے دنیا کے مختلف خطوں اور علاقوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں نے تاریخ کے صفحات پر رقم کیا۔
اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد میں جہاں ان عورتوں نے دکھ اٹھائے، جبر برداشت کیا اور طرح طرح کی اذیتیں برداشت کیں وہاں اپنی مسلسل جدوجہد سے یہ بھی ثابت کیا کہ معاشرے عورت کو محکوم، زیردست اور پابند رکھ کر کبھی ترقی نہیں کر سکتے بلکہ ہر دور میں ہر مذہب، رنگ و نسل اور قومیت سے تعلق رکھنے والی عورت نے ترقی و خوش حالی، انفرادی اور اجتماعی حالت بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ تاہم صنفی امتیاز اور برتری کے زعم میں اسے نظر انداز کر دیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر عہد میں عورت نے مرد کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے گھر سے لے کر سماج تک خدمت اور ایثار کی داستانیں رقم کی ہیں۔ اگرچہ ایک طویل جدوجہد کے بعد اب دنیا اور مہذب معاشرے عورتوں کے حقوق، سماج میں ان کے کردار کا اعتراف کرنے کے ساتھ صنفی مساوات کا نعرہ بلند کررہے ہیں، مگر اب بھی پسماندہ سوچ اور برتری کا احساس اس راستے میں کسی نہ کسی طور رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
خاص طور پر ترقی پزیر ملکوں اور تعلیم و نظریہ سے محروم ذہنوں میں عورت کم تر، ناقص العقل اور محض خدمت گار کی حیثیت رکھتی ہے۔ آج جب کہ انسان مریخ پر آباد ہونے کے جتن کر رہا ہے اور دنیا اس کی انگلیوں کی پوروں تک سمٹ آئی ہے تو ایسی سوچ ایک المیہ اور پستی کے سوا کیا ہو سکتی ہے۔ دنیا بھر میں خواتین کی عمومی حالت کا جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ گزشتہ صدی کی ابتدائی دہائیوں تک عورت کسی بھی معاشرے کا سب سے زیادہ پسا ہوا طبقہ تھی۔ تیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک سے لے کر یورپ اور امریکا جیسے ملکوں میں بھی خواتین اپنے جائز سماجی مقام اور مرتبے کے علاوہ تعلیم و معاش کے حوالے سے بھی حقوق سے محروم تھیں۔ تاہم آج کی عورت اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر جو خدمات انجام دے رہی ہے اور جس مقام و مرتبے تک پہنچی ہے اس کے پیچھے جدوجہد کی ایک طویل داستان ہے۔
آج کی جدید ترقی یافتہ دنیا میں زیرِ زمین، تہِ آب ہی نہیں خلا کی لامحدود وسعتوں میں عورت بھی مردوں کے شانہ بشانہ علمی و تحقیقی کاموں میں آگے نظر آتی ہے اور دنیا اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہی عورت مختلف معاشروں میں گھر گرہستی کے ساتھ معاشی میدان میں بھی مردوں کا ہاتھ بٹا رہی ہے۔ آج اس عورت کا وجود تسلیم تو کر لیا گیا ہے، لیکن اب بھی اس کی صلاحیتیں اور ذہانت مشکوک ہے۔ اسے اب بھی کئی محاذوں پر اسی پسماندہ سوچ کا سامنا ہے جو دہائیوں قبل اس کے لیے اذیت اور کرب کا باعث تھی۔
دورِ جدید میں پاکستانی خواتین کی عملی زندگی اور مختلف شعبوں میں ان کی پیشہ ورانہ مہارت پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ عورتوں نے حالات کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالا اور اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد میں اپنی حیثیت اور بساط کے مطابق حصّہ لیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہمارے معاشرے کی عورت بھی مردوں کے شانہ بشانہ خوش اسلوبی سے اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب عورتیں گھر کی چار دیواری تک محدود تھیں اور وہ امور خانہ داری اور بچوں کی پرورش میں زندگی کاٹ دیتی تھیں۔گھر سے باہر نکل کر مردوں کے ساتھ کام کرنے کا تو کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ تعلیم کے دروازے ان پر بند تھے یا گھر ہی پر ضروری تعلیم کا انتظام کر دیا جاتا تھا۔
اسکول اور دوسرے اداروں میں رسمی تعلیم یا ہنر سیکھنے کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ دوسری طرف اسے بوجھ بھی سمجھا جاتا تھا۔ تعلیم تو دور کی بات بیماری کی صورت میں اس کے علاج معالجے کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ اسپتال لے جانے اور باقاعدہ علاج کروانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی اور ایک عورت اس وقت گھر سے باہر نہیں جاسکتی تھی جب تک مرد اجازت نہ دے۔ سماجی اور مذہبی اقدار اپنی جگہ بہت اہم ہیں، مگر عورت کے لیے میل جول اور کسی سے ضروری بات چیت بھی ایک مسئلہ رہا۔ آج بھی اگرچہ دیہی علاقوں میں صورتِ حال اس سے مختلف نہیں مگر انہی حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ گھروں میں جلسے منعقد کیے اور ضرورت پڑی تو سڑکوں پر بھی نظر آئیں۔
محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان اور دیگر خواتین نے عملی میدان میں ایک بڑے مقصد کے حصول کی لازوال جدوجہد کی۔ ان کے بعد بھی سیاست، تعلیم، صحت، صنعت و حرفت اور اسی طرح سماج کے مختلف شعبوں میں نام کمایا جس نے نہ صرف عورت سے متعلق روایتی اور فرسودہ تصور کو بدلنے میں مدد دی بلکہ پاکستانی عورتوں کو حقوق دلوانے اور ان کا وقار اور مقام و مرتبہ بلند کرنے کا سبب بنا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ماضی کی شان دار روایات کو نبھاتے ہوئے خواتین نے ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کا لوہا منوایا۔ پاکستان کے لیے جدوجہد کے بعد ہمیں بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، بیگم عابدہ حسین، بیگم نسیم ولی، مسز اشرف عباسی، ڈاکٹر کشور نازلی محمود، اینا مولکا، شرمین عبید چنائے، نگہت داد سمیت دیگر خواتین نے پاکستان کے لیے مثالی خدمات انجام دیں اور ملک میں خواتین کے لیے رول ماڈل بنیں۔ ہوا بازی کا شعبہ ہو یا عسکری میدان، ادب اور فنونِ لطیفہ کی مختلف شاخوں کا ذکر کیا جائے تو خواتین نے کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔
چند دہائیوں کے دوران پاکستان میں عورت نے اپنے روایتی تصور کے خلاف عملی میدان میں اپنی خدمات اور کردار کو نہایت مثبت اور قابلِ ستائش انداز میں پیش کیا ہے۔ آج کی عورت جہاں سیاست میں کردار ادا کر رہی ہے، وہیں وکالت، تعلیم، صحت اور آرٹ کے حوالے سے بھی نام کما رہی ہے۔ اگر ہم ان روایتی شعبوں سے ہٹ کر دیکھیں تو عورت پولیس، فوج میں اہم عہدوں پر فائز ہے۔ آج کی عورت بم ڈسپوزل اسکواڈ کا حصہ بھی ہے اور جنگی طیارہ اڑانا بھی جانتی ہے۔ یہ معاش کی خاطر ٹرک بھی چلا رہی ہے اور دوسری گاڑیوں کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اسے باعزت روزگار کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ آن لائن کاروبار، سائنس اور زراعت کے شعبے ہوں یا عام ملازمتیں خواتین اب مردوں کے ساتھ سماج کا کارآمد فرد نظر آتی ہیں اور ترقی و خوش حالی کا سفر طے کر رہی ہیں۔
انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی بات کریں تو دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے۔ آج کا انسان جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے امور کو بہتر طریقے سے انجام دے رہا ہے۔ موجودہ دور میں جب سائنس اور ٹیکنالوجی انسان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے تو صرف وہی ممالک اور اقوام کام یاب ہیں جو اس کے مطابق خود کو ڈھال رہی ہیں۔ پاکستان میں اسی طرز کا بدلاؤ اور ترقی کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ دورِ جدید میں پاکستانی عورت کے کردار کی بات کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی کی طرح آج کی عورت صرف نرسنگ یا سلائی کڑھائی اور کھیتوں میں فصل بوتی اور کاٹتی ہی نظر آتی بلکہ کم تعلیم یافتہ عورت بھی کسی نہ کسی طرح جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی خواہش رکھتی ہے اور اسے اپنا رہی ہے۔ تعلیم یافتہ عورتیں تو اب یقینا غیر روایتی شعبوں میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں اور عزت و وقار کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ وہ شعبے جہاں چند دہائیوں پہلے تک مردوں کی اجارہ داری تھی اب خواتین بھی ان میں کام کرتی نظر آتی ہیں۔
خاتون سائنس داں نرگس ماول والا امریکا میں فزکس کے شعبے میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ کششِ ثقل اور لہروں کے حوالے سے ان کا تحقیقی مقالہ اور دریافت دنیا بھر میں ان کی شہرت کا سبب بنا۔ ارفع کریم ہماری سنہری یادوں کا حصّہ ہیں اور ان کا نام آج بھی دنیا میں کمپیوٹر مہارت کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔گزشتہ دنوں امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا نے کراچی کی رادیہ عامر کو انٹرن شپ آفر کی جو پاکستانی عورت اور طالبات کا ایک اور اعزاز ہے۔
ایک طرف تعلیم یافتہ پاکستانی عورت زمین سے خلا کی جانب پرواز کر رہی ہے تو دوسری جانب وہ خواتین جو دیہات میں بستی ہیں وہ بھی اس دور کے تقاضوں کو سمجھ رہی ہیں۔ اگرچہ ان کی زندگی مشکلات اور سہولیات کے اعتبار سے افسوس ناک ہے، مگر زراعت، دست کاری اور دوسرے شعبوں میں ان کا کردار نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ تاہم ان کا معیارِ زندگی بلند کرنے اور تعلیم و صحت کے حوالے سے ان کو سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت آج بھی محسوس کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے بھرپور اقدامات اور فیصلوں کی ضرورت ہے جس کا معاشرے پر مثبت اثر پڑے گا۔
بحیثیت مجموعی ہم پاکستانی خواتین کا جدید دور میں جائزہ لیں تو وہ گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ معاشرے کے لیے مفید اور کارآمد ثابت ہو رہی ہیں۔ آج کے دور کی تعلیم یافتہ عورت نہ صرف اپنے گھر میں مختلف رشتوں اور حیثیتوں سے اپنے فرائض احسن طریقے سے ادا کر رہی ہے بلکہ وہ دورِ جدید کی ایجادات اور نظریات سے بھی استفادہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ اگرچہ پاکستان جیسے ملک میں ابھی خواتین کی اکثریت اپنے حقوق سے محروم ہے اور معاشرے میں اپنی حیثیت اور مرتبے کے لیے اسے بڑی محنت کرنا ہو گی، مگر آج کی عورت گزشتہ صدی کی عورت کے مقابلے میں زیادہ باہمت، ذمہ دار اور پُر اعتماد ہے۔
اپنے حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد میں جہاں ان عورتوں نے دکھ اٹھائے، جبر برداشت کیا اور طرح طرح کی اذیتیں برداشت کیں وہاں اپنی مسلسل جدوجہد سے یہ بھی ثابت کیا کہ معاشرے عورت کو محکوم، زیردست اور پابند رکھ کر کبھی ترقی نہیں کر سکتے بلکہ ہر دور میں ہر مذہب، رنگ و نسل اور قومیت سے تعلق رکھنے والی عورت نے ترقی و خوش حالی، انفرادی اور اجتماعی حالت بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ تاہم صنفی امتیاز اور برتری کے زعم میں اسے نظر انداز کر دیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر عہد میں عورت نے مرد کے شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے گھر سے لے کر سماج تک خدمت اور ایثار کی داستانیں رقم کی ہیں۔ اگرچہ ایک طویل جدوجہد کے بعد اب دنیا اور مہذب معاشرے عورتوں کے حقوق، سماج میں ان کے کردار کا اعتراف کرنے کے ساتھ صنفی مساوات کا نعرہ بلند کررہے ہیں، مگر اب بھی پسماندہ سوچ اور برتری کا احساس اس راستے میں کسی نہ کسی طور رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
خاص طور پر ترقی پزیر ملکوں اور تعلیم و نظریہ سے محروم ذہنوں میں عورت کم تر، ناقص العقل اور محض خدمت گار کی حیثیت رکھتی ہے۔ آج جب کہ انسان مریخ پر آباد ہونے کے جتن کر رہا ہے اور دنیا اس کی انگلیوں کی پوروں تک سمٹ آئی ہے تو ایسی سوچ ایک المیہ اور پستی کے سوا کیا ہو سکتی ہے۔ دنیا بھر میں خواتین کی عمومی حالت کا جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ گزشتہ صدی کی ابتدائی دہائیوں تک عورت کسی بھی معاشرے کا سب سے زیادہ پسا ہوا طبقہ تھی۔ تیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک سے لے کر یورپ اور امریکا جیسے ملکوں میں بھی خواتین اپنے جائز سماجی مقام اور مرتبے کے علاوہ تعلیم و معاش کے حوالے سے بھی حقوق سے محروم تھیں۔ تاہم آج کی عورت اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر جو خدمات انجام دے رہی ہے اور جس مقام و مرتبے تک پہنچی ہے اس کے پیچھے جدوجہد کی ایک طویل داستان ہے۔
آج کی جدید ترقی یافتہ دنیا میں زیرِ زمین، تہِ آب ہی نہیں خلا کی لامحدود وسعتوں میں عورت بھی مردوں کے شانہ بشانہ علمی و تحقیقی کاموں میں آگے نظر آتی ہے اور دنیا اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہی عورت مختلف معاشروں میں گھر گرہستی کے ساتھ معاشی میدان میں بھی مردوں کا ہاتھ بٹا رہی ہے۔ آج اس عورت کا وجود تسلیم تو کر لیا گیا ہے، لیکن اب بھی اس کی صلاحیتیں اور ذہانت مشکوک ہے۔ اسے اب بھی کئی محاذوں پر اسی پسماندہ سوچ کا سامنا ہے جو دہائیوں قبل اس کے لیے اذیت اور کرب کا باعث تھی۔
دورِ جدید میں پاکستانی خواتین کی عملی زندگی اور مختلف شعبوں میں ان کی پیشہ ورانہ مہارت پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ عورتوں نے حالات کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالا اور اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد میں اپنی حیثیت اور بساط کے مطابق حصّہ لیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہمارے معاشرے کی عورت بھی مردوں کے شانہ بشانہ خوش اسلوبی سے اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب عورتیں گھر کی چار دیواری تک محدود تھیں اور وہ امور خانہ داری اور بچوں کی پرورش میں زندگی کاٹ دیتی تھیں۔گھر سے باہر نکل کر مردوں کے ساتھ کام کرنے کا تو کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ تعلیم کے دروازے ان پر بند تھے یا گھر ہی پر ضروری تعلیم کا انتظام کر دیا جاتا تھا۔
اسکول اور دوسرے اداروں میں رسمی تعلیم یا ہنر سیکھنے کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ دوسری طرف اسے بوجھ بھی سمجھا جاتا تھا۔ تعلیم تو دور کی بات بیماری کی صورت میں اس کے علاج معالجے کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ اسپتال لے جانے اور باقاعدہ علاج کروانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی اور ایک عورت اس وقت گھر سے باہر نہیں جاسکتی تھی جب تک مرد اجازت نہ دے۔ سماجی اور مذہبی اقدار اپنی جگہ بہت اہم ہیں، مگر عورت کے لیے میل جول اور کسی سے ضروری بات چیت بھی ایک مسئلہ رہا۔ آج بھی اگرچہ دیہی علاقوں میں صورتِ حال اس سے مختلف نہیں مگر انہی حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ گھروں میں جلسے منعقد کیے اور ضرورت پڑی تو سڑکوں پر بھی نظر آئیں۔
محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان اور دیگر خواتین نے عملی میدان میں ایک بڑے مقصد کے حصول کی لازوال جدوجہد کی۔ ان کے بعد بھی سیاست، تعلیم، صحت، صنعت و حرفت اور اسی طرح سماج کے مختلف شعبوں میں نام کمایا جس نے نہ صرف عورت سے متعلق روایتی اور فرسودہ تصور کو بدلنے میں مدد دی بلکہ پاکستانی عورتوں کو حقوق دلوانے اور ان کا وقار اور مقام و مرتبہ بلند کرنے کا سبب بنا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ماضی کی شان دار روایات کو نبھاتے ہوئے خواتین نے ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کا لوہا منوایا۔ پاکستان کے لیے جدوجہد کے بعد ہمیں بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، بیگم عابدہ حسین، بیگم نسیم ولی، مسز اشرف عباسی، ڈاکٹر کشور نازلی محمود، اینا مولکا، شرمین عبید چنائے، نگہت داد سمیت دیگر خواتین نے پاکستان کے لیے مثالی خدمات انجام دیں اور ملک میں خواتین کے لیے رول ماڈل بنیں۔ ہوا بازی کا شعبہ ہو یا عسکری میدان، ادب اور فنونِ لطیفہ کی مختلف شاخوں کا ذکر کیا جائے تو خواتین نے کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔
چند دہائیوں کے دوران پاکستان میں عورت نے اپنے روایتی تصور کے خلاف عملی میدان میں اپنی خدمات اور کردار کو نہایت مثبت اور قابلِ ستائش انداز میں پیش کیا ہے۔ آج کی عورت جہاں سیاست میں کردار ادا کر رہی ہے، وہیں وکالت، تعلیم، صحت اور آرٹ کے حوالے سے بھی نام کما رہی ہے۔ اگر ہم ان روایتی شعبوں سے ہٹ کر دیکھیں تو عورت پولیس، فوج میں اہم عہدوں پر فائز ہے۔ آج کی عورت بم ڈسپوزل اسکواڈ کا حصہ بھی ہے اور جنگی طیارہ اڑانا بھی جانتی ہے۔ یہ معاش کی خاطر ٹرک بھی چلا رہی ہے اور دوسری گاڑیوں کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اسے باعزت روزگار کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ آن لائن کاروبار، سائنس اور زراعت کے شعبے ہوں یا عام ملازمتیں خواتین اب مردوں کے ساتھ سماج کا کارآمد فرد نظر آتی ہیں اور ترقی و خوش حالی کا سفر طے کر رہی ہیں۔
انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی بات کریں تو دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے۔ آج کا انسان جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے امور کو بہتر طریقے سے انجام دے رہا ہے۔ موجودہ دور میں جب سائنس اور ٹیکنالوجی انسان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے تو صرف وہی ممالک اور اقوام کام یاب ہیں جو اس کے مطابق خود کو ڈھال رہی ہیں۔ پاکستان میں اسی طرز کا بدلاؤ اور ترقی کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ دورِ جدید میں پاکستانی عورت کے کردار کی بات کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی کی طرح آج کی عورت صرف نرسنگ یا سلائی کڑھائی اور کھیتوں میں فصل بوتی اور کاٹتی ہی نظر آتی بلکہ کم تعلیم یافتہ عورت بھی کسی نہ کسی طرح جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی خواہش رکھتی ہے اور اسے اپنا رہی ہے۔ تعلیم یافتہ عورتیں تو اب یقینا غیر روایتی شعبوں میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں اور عزت و وقار کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ وہ شعبے جہاں چند دہائیوں پہلے تک مردوں کی اجارہ داری تھی اب خواتین بھی ان میں کام کرتی نظر آتی ہیں۔
خاتون سائنس داں نرگس ماول والا امریکا میں فزکس کے شعبے میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ کششِ ثقل اور لہروں کے حوالے سے ان کا تحقیقی مقالہ اور دریافت دنیا بھر میں ان کی شہرت کا سبب بنا۔ ارفع کریم ہماری سنہری یادوں کا حصّہ ہیں اور ان کا نام آج بھی دنیا میں کمپیوٹر مہارت کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔گزشتہ دنوں امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا نے کراچی کی رادیہ عامر کو انٹرن شپ آفر کی جو پاکستانی عورت اور طالبات کا ایک اور اعزاز ہے۔
ایک طرف تعلیم یافتہ پاکستانی عورت زمین سے خلا کی جانب پرواز کر رہی ہے تو دوسری جانب وہ خواتین جو دیہات میں بستی ہیں وہ بھی اس دور کے تقاضوں کو سمجھ رہی ہیں۔ اگرچہ ان کی زندگی مشکلات اور سہولیات کے اعتبار سے افسوس ناک ہے، مگر زراعت، دست کاری اور دوسرے شعبوں میں ان کا کردار نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ تاہم ان کا معیارِ زندگی بلند کرنے اور تعلیم و صحت کے حوالے سے ان کو سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت آج بھی محسوس کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے بھرپور اقدامات اور فیصلوں کی ضرورت ہے جس کا معاشرے پر مثبت اثر پڑے گا۔
بحیثیت مجموعی ہم پاکستانی خواتین کا جدید دور میں جائزہ لیں تو وہ گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ معاشرے کے لیے مفید اور کارآمد ثابت ہو رہی ہیں۔ آج کے دور کی تعلیم یافتہ عورت نہ صرف اپنے گھر میں مختلف رشتوں اور حیثیتوں سے اپنے فرائض احسن طریقے سے ادا کر رہی ہے بلکہ وہ دورِ جدید کی ایجادات اور نظریات سے بھی استفادہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ اگرچہ پاکستان جیسے ملک میں ابھی خواتین کی اکثریت اپنے حقوق سے محروم ہے اور معاشرے میں اپنی حیثیت اور مرتبے کے لیے اسے بڑی محنت کرنا ہو گی، مگر آج کی عورت گزشتہ صدی کی عورت کے مقابلے میں زیادہ باہمت، ذمہ دار اور پُر اعتماد ہے۔