کھیل ہی کھیل میں تعلیم
طلبہ میں اعتماد سازی کے لئے چار سی ز(4 C's) بہت اہم ہیں
لاہور:
اعتماد ذہن کی ایک حالت کا نام ہے، اس سے آپ کے بچے پر گہرا اثر پڑتا ہے کہ دنیا آپ کے بچے کو کس انداز میں دیکھ رہی ہے؟
بچے کھیل ہی کھیل میں ایک بڑا ذخیرہ الفاظ جمع کر لیتے ہیں۔ ان میں سے ایک کھیل ایکٹنگ کا ہے۔ بچے ویسے بھی بلی بن کر دکھاتے ہیں، دادا ابو یا نانی اماں بن کر چلتے ہیں۔ اس پہلو پر توجہ دی جائے تو اساتذہ اور والدین ایسی بہت سی سرگرمیاں ڈیزائن کرسکتے ہیں جن سے وہ لیڈر شپ، پری زنٹیشن اور کمیونی کیشن سکلز کو پروان چڑھاتے ہیں اور یہ مہارتیں زندگی بھر ان کے کام آتی ہیں۔ دوسری طرف شرمیلے بچوں کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے والدین یا ٹیچرز کے ساتھ محفوظ اور با اعتماد ماحول میں اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکیں۔ بچوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لئے چار سی ز (4C's) بہت مشہور اور اہمیت کے حامل ہیں۔
1۔ Concentration کن سن ٹریشن یا توجہ
2۔ Cordination کوآرڈی نیشن یا باہمی ربط
3۔ Communication کمیونکیشن یا دوسروں تک اپنی بات پہنچانے کی صلاحیت
4۔ CreativeThinking کری ایٹوتھنکنگ یا تخلیقی سوچ
توجہ دینا یا کن سن ٹریشن ایک ایسی صلاحیت ہے جو جتنی جلدی بڑھائی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ ٹنگ ٹوئسٹرز(tongue-twisters) چھوٹی چھوٹی نظمیں، کہانی سنانے کے مزے لینا جیسی سرگرمیوں سے بچے کی توجہ بڑھانے پر آسانی سے توجہ دی جاسکتی ہے۔کھیل ہی کھیل میں سیکھنے کے عمل (Edutainment) میں بچے ٹوائے شاپ، رائمنگ وغیرہ کے ذریعے نہ صرف اپنی لسننگ سکل (سننے کی مہارت) بڑھاتے ہیں بلکہ ان کی سوچ کی صلاحیت بھی بڑھتی ہے، باڈی لینگویج یا رقص کے ذریعے نظموں کی پرفارمنس کو بچے اسی لئے پسند کرتے ہیں کیونکہ اس کے لئے بھرپور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں بیک گرائونڈ میوزک انہیں حقیقی مزا دیتا ہے ۔کئی تجربہ کار اساتذہ سے بات کرنے پر علم ہوا کہ اس قسم کی سرگرمی کے بعد بچے نہ صرف فریش (تازہ دم) ہوجاتے ہیں بلکہ آپ کی بات بہتر توجہ سے سننے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔
کوآرڈی نیشن کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کھیل اور ایکشن کے سا تھ پرفارمنس اور باڈی کو بیلنس کرنے کی سرگرمیوں سے ہی روزمرہ کی ایکسر سائز میں بھی رقص اور ایکسرسائز کو ملایا جائے تو بچے سیلف ایکسپریشن جلدی سیکھتے ہیں۔ بعض اوقات بچے اپنے منہ سے بھی میوزک بجا کر(خصوصاً سپیشل چائلڈ) سب کو حیران کردیتے ہیں۔ ایکسرسائز میں مزے مزے کی چیزیں شامل کرکے بھی یہ رنگ زیادہ گہرا کیا جاسکتا ہے۔ چند تعلیمی اداروں میں طلباء کو یوگا کی کلاس میں شریک کیا جاتا ہے، ہمارے مدرسوںیعنی دینی تعلیم اداروں میں بھی چھوٹے بچوں کو نماز باجماعت کی مشق کے علاوہ اور دیگر کھیلوں میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔
کمیونکیشن سکلز کو انسانی تعلقات کا دل کہاجاتا ہے۔ مغربی ممالک میں ایکٹنگ، ڈانس اور گنگنانے کے ذریعے بچوںکی بہت سی صلاحیتوں کو سامنے لایا جاتا ہے۔ اس طرح کھی کھی، ہی ہی کے ماحول میں بچوں کو نغمے اور کہانیوں کے ذریعے سوشل اور لینگویج سکلز سکھائی جاتی ہیں۔ ایسی کہانیاں، نظمیں اور ٹنگ ٹوئسٹرز کی پرفارمنس (اف یو ہیپی اینڈ یو نو اٹ کلین یور ہینڈز) خاص طور پر تخلیق کرائی جاتی ہیں جن سے بچوں میں سوشل، ایموشنل اور تھنکنگ سکلز پروان چڑھیںکیوں کہ الفاظ کو مزے ہی مزے میں سیکھنا اوران کے ساتھ مزاحیہ اپروچ لے لینا سیلف کانفیڈینس (خود اعتمادی) کو پروان چڑھانے کا اہم زینہ ہے، ان سے شرمیلے بچوں کو چمکنے کے مواقع ملتے ہیں۔ اس میں الفاظ کی ادائیگی، لہجے کی صفائی کھیل ہی کھیل میں سکھا دی جاتی ہے۔انہی سکلز (مہارتوں) کی وجہ سے بچوں میں مختلف سوشل سچوئیشن (معاشرتی حالات) میں اعتماد بڑھتا ہے۔ اسی طرح بلند خوانی (لائوڈ ریڈنگ)کی وجہ سے زیادہ اعتماد کے ساتھ بولنے میں آسانی رہتی ہے۔
بچہ سکول میں پڑھنے اورلکھنے کی صلاحیتوں پر زیادہ وقت لگاتا ہے۔ ہماری اپنی زندگی میں بھی ہمارا انٹر ایکشن بہترسننے اور بولنے میں صرف ہوتا ہے۔ زبانی کمیونیکیشن کے لئے سکول کو اسی لئے بہتر سمجھا جاتا ہے جہاں دوستوں کی تلاش زیادہ آسانی اور کامیابی کے ساتھ کی جاسکتی ہے۔ بچہ جتنی زیادہ توجہ سے سنے گا اتنا ہی اس کا ذخیرہ الفاظ بڑھے گا۔ اگر بچہ ڈرامے اور رقص یا نغمگی کی سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے تواس کی ریڈنگ اور رائٹنگ کی صلاحیتیں بہتر سامنے آسکتی ہیں، اس سرگرمی میں بچہ اپنے ذہن میں تخلیقی تصویر بنا لیتا ہے جس سے اس کی تخلیقی نگارش بہتر ہوجاتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی اچھے تعلیمی اداروں میں اردو اور انگلش کی کلاسوں میں کری ایٹو رائٹنگ (CreativeWriting)کرائی جاتی ہے۔ اس موضوع پر بے انتہا مواد کتابوں اور ورک شیٹس کی صورت میں مارکیٹ اور انٹر نیٹ پر موجود ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے اساتذہ اور والدین کمپیوٹر استعمال کرنے اور ریسرچ کرنے کی عادت ڈالیں۔ اسی پس منظر میں ڈرامے کو لٹریسی سکلز سکھانے میں اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے، اس سے بچوں میں کتابوں اور زبان و بیان سے محبت نکھر کر پروان چڑھتی ہے۔ ایک تحقیق کے دوران طلباء کو تھیٹر میں ڈرامہ سیریز دکھائی گئی جس کے بعد ان کے امتحان میں زیادہ اچھی کارکردگی ریکارڈ کی گئی۔ آج کی کارکردگی دیکھنے والی دنیا میں اگر بچہ اپنے خیالات کی پرواز کا مزا لینا جانتا ہے تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہوگی جس کی مدد سے وہ روزمرہ کے ان گنت مسائل اور احساسات سے نبرد آزما ہوسکتا ہے۔ اگر بچے کو جن بھوت سے ڈر لگتا ہے تو اس کے لیے جن بھوت یا چڑیل کے شکار پر مبنی کہانی یا ڈرامہ بنایا جا سکتا ہے۔اس سے اُسے اس خوف سے نجات کا راستہ آسانی سے مل سکتا ہے۔ اسی سے سوشل سکلز کے پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے جس میں دوست بنانا ان کی کمپنی انجوائے کرنا، ٹیم ورک، ٹرم بریک میں پروگرام بنا کر پکنک اور ہائیکنگ پر جانا شامل ہیں۔ اگر ہم اپنے بچے کو اپنے دوست کے ساتھ ایسے رویے سکھادیتے ہیں جو مثبت سوچ اور انداز پر مبنی ہیں تو یہ اس کے مستقبل کے حوالے سے بہت بڑا تحفہ ہوگا۔
اعتماد ذہن کی ایک حالت کا نام ہے، اس سے آپ کے بچے پر گہرا اثر پڑتا ہے کہ دنیا آپ کے بچے کو کس انداز میں دیکھ رہی ہے؟
بچے کھیل ہی کھیل میں ایک بڑا ذخیرہ الفاظ جمع کر لیتے ہیں۔ ان میں سے ایک کھیل ایکٹنگ کا ہے۔ بچے ویسے بھی بلی بن کر دکھاتے ہیں، دادا ابو یا نانی اماں بن کر چلتے ہیں۔ اس پہلو پر توجہ دی جائے تو اساتذہ اور والدین ایسی بہت سی سرگرمیاں ڈیزائن کرسکتے ہیں جن سے وہ لیڈر شپ، پری زنٹیشن اور کمیونی کیشن سکلز کو پروان چڑھاتے ہیں اور یہ مہارتیں زندگی بھر ان کے کام آتی ہیں۔ دوسری طرف شرمیلے بچوں کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنے والدین یا ٹیچرز کے ساتھ محفوظ اور با اعتماد ماحول میں اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکیں۔ بچوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لئے چار سی ز (4C's) بہت مشہور اور اہمیت کے حامل ہیں۔
1۔ Concentration کن سن ٹریشن یا توجہ
2۔ Cordination کوآرڈی نیشن یا باہمی ربط
3۔ Communication کمیونکیشن یا دوسروں تک اپنی بات پہنچانے کی صلاحیت
4۔ CreativeThinking کری ایٹوتھنکنگ یا تخلیقی سوچ
توجہ دینا یا کن سن ٹریشن ایک ایسی صلاحیت ہے جو جتنی جلدی بڑھائی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ ٹنگ ٹوئسٹرز(tongue-twisters) چھوٹی چھوٹی نظمیں، کہانی سنانے کے مزے لینا جیسی سرگرمیوں سے بچے کی توجہ بڑھانے پر آسانی سے توجہ دی جاسکتی ہے۔کھیل ہی کھیل میں سیکھنے کے عمل (Edutainment) میں بچے ٹوائے شاپ، رائمنگ وغیرہ کے ذریعے نہ صرف اپنی لسننگ سکل (سننے کی مہارت) بڑھاتے ہیں بلکہ ان کی سوچ کی صلاحیت بھی بڑھتی ہے، باڈی لینگویج یا رقص کے ذریعے نظموں کی پرفارمنس کو بچے اسی لئے پسند کرتے ہیں کیونکہ اس کے لئے بھرپور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں بیک گرائونڈ میوزک انہیں حقیقی مزا دیتا ہے ۔کئی تجربہ کار اساتذہ سے بات کرنے پر علم ہوا کہ اس قسم کی سرگرمی کے بعد بچے نہ صرف فریش (تازہ دم) ہوجاتے ہیں بلکہ آپ کی بات بہتر توجہ سے سننے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔
کوآرڈی نیشن کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کھیل اور ایکشن کے سا تھ پرفارمنس اور باڈی کو بیلنس کرنے کی سرگرمیوں سے ہی روزمرہ کی ایکسر سائز میں بھی رقص اور ایکسرسائز کو ملایا جائے تو بچے سیلف ایکسپریشن جلدی سیکھتے ہیں۔ بعض اوقات بچے اپنے منہ سے بھی میوزک بجا کر(خصوصاً سپیشل چائلڈ) سب کو حیران کردیتے ہیں۔ ایکسرسائز میں مزے مزے کی چیزیں شامل کرکے بھی یہ رنگ زیادہ گہرا کیا جاسکتا ہے۔ چند تعلیمی اداروں میں طلباء کو یوگا کی کلاس میں شریک کیا جاتا ہے، ہمارے مدرسوںیعنی دینی تعلیم اداروں میں بھی چھوٹے بچوں کو نماز باجماعت کی مشق کے علاوہ اور دیگر کھیلوں میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔
کمیونکیشن سکلز کو انسانی تعلقات کا دل کہاجاتا ہے۔ مغربی ممالک میں ایکٹنگ، ڈانس اور گنگنانے کے ذریعے بچوںکی بہت سی صلاحیتوں کو سامنے لایا جاتا ہے۔ اس طرح کھی کھی، ہی ہی کے ماحول میں بچوں کو نغمے اور کہانیوں کے ذریعے سوشل اور لینگویج سکلز سکھائی جاتی ہیں۔ ایسی کہانیاں، نظمیں اور ٹنگ ٹوئسٹرز کی پرفارمنس (اف یو ہیپی اینڈ یو نو اٹ کلین یور ہینڈز) خاص طور پر تخلیق کرائی جاتی ہیں جن سے بچوں میں سوشل، ایموشنل اور تھنکنگ سکلز پروان چڑھیںکیوں کہ الفاظ کو مزے ہی مزے میں سیکھنا اوران کے ساتھ مزاحیہ اپروچ لے لینا سیلف کانفیڈینس (خود اعتمادی) کو پروان چڑھانے کا اہم زینہ ہے، ان سے شرمیلے بچوں کو چمکنے کے مواقع ملتے ہیں۔ اس میں الفاظ کی ادائیگی، لہجے کی صفائی کھیل ہی کھیل میں سکھا دی جاتی ہے۔انہی سکلز (مہارتوں) کی وجہ سے بچوں میں مختلف سوشل سچوئیشن (معاشرتی حالات) میں اعتماد بڑھتا ہے۔ اسی طرح بلند خوانی (لائوڈ ریڈنگ)کی وجہ سے زیادہ اعتماد کے ساتھ بولنے میں آسانی رہتی ہے۔
بچہ سکول میں پڑھنے اورلکھنے کی صلاحیتوں پر زیادہ وقت لگاتا ہے۔ ہماری اپنی زندگی میں بھی ہمارا انٹر ایکشن بہترسننے اور بولنے میں صرف ہوتا ہے۔ زبانی کمیونیکیشن کے لئے سکول کو اسی لئے بہتر سمجھا جاتا ہے جہاں دوستوں کی تلاش زیادہ آسانی اور کامیابی کے ساتھ کی جاسکتی ہے۔ بچہ جتنی زیادہ توجہ سے سنے گا اتنا ہی اس کا ذخیرہ الفاظ بڑھے گا۔ اگر بچہ ڈرامے اور رقص یا نغمگی کی سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے تواس کی ریڈنگ اور رائٹنگ کی صلاحیتیں بہتر سامنے آسکتی ہیں، اس سرگرمی میں بچہ اپنے ذہن میں تخلیقی تصویر بنا لیتا ہے جس سے اس کی تخلیقی نگارش بہتر ہوجاتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی اچھے تعلیمی اداروں میں اردو اور انگلش کی کلاسوں میں کری ایٹو رائٹنگ (CreativeWriting)کرائی جاتی ہے۔ اس موضوع پر بے انتہا مواد کتابوں اور ورک شیٹس کی صورت میں مارکیٹ اور انٹر نیٹ پر موجود ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے اساتذہ اور والدین کمپیوٹر استعمال کرنے اور ریسرچ کرنے کی عادت ڈالیں۔ اسی پس منظر میں ڈرامے کو لٹریسی سکلز سکھانے میں اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے، اس سے بچوں میں کتابوں اور زبان و بیان سے محبت نکھر کر پروان چڑھتی ہے۔ ایک تحقیق کے دوران طلباء کو تھیٹر میں ڈرامہ سیریز دکھائی گئی جس کے بعد ان کے امتحان میں زیادہ اچھی کارکردگی ریکارڈ کی گئی۔ آج کی کارکردگی دیکھنے والی دنیا میں اگر بچہ اپنے خیالات کی پرواز کا مزا لینا جانتا ہے تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہوگی جس کی مدد سے وہ روزمرہ کے ان گنت مسائل اور احساسات سے نبرد آزما ہوسکتا ہے۔ اگر بچے کو جن بھوت سے ڈر لگتا ہے تو اس کے لیے جن بھوت یا چڑیل کے شکار پر مبنی کہانی یا ڈرامہ بنایا جا سکتا ہے۔اس سے اُسے اس خوف سے نجات کا راستہ آسانی سے مل سکتا ہے۔ اسی سے سوشل سکلز کے پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے جس میں دوست بنانا ان کی کمپنی انجوائے کرنا، ٹیم ورک، ٹرم بریک میں پروگرام بنا کر پکنک اور ہائیکنگ پر جانا شامل ہیں۔ اگر ہم اپنے بچے کو اپنے دوست کے ساتھ ایسے رویے سکھادیتے ہیں جو مثبت سوچ اور انداز پر مبنی ہیں تو یہ اس کے مستقبل کے حوالے سے بہت بڑا تحفہ ہوگا۔