فیمینیزم کس آفت کا نام ہے
فیمنِسٹ ہونے میں کوئی قباحت نہیں... انہیں مرد کے شانہ بشانہ چلنا ہوتا ہے
اعتقاد کے سُتون سے لپٹے ہر انسان کو سوال کرنے کا حق ہے تاکہ وہ ہر زوایئے سے حقائق کو جان کر صحيح غلط میں تفریق کرسکے۔ معاشرے کے ابتدائی ارتقاء سے لے کر اب تک، مَرد و زن میں دوریاں ویسے ہی موجود ہیں۔ اِن دوریوں کی بنا پر عورت پر مرد کو فوقیت دی گئی؛ اور جسے دور حاضر میں اجاگر کرکے "فیمینِیزم" کی بنیاد بنایا گیا اور اس بات پر زور دیا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو منصفانہ حقوق نہیں ملتے۔ اب چلیے یہ جان لیتے ہیں کہ "فیمینِیزم" کس آفت کا نام ہے؟
بنیادی طور پر فیمینِیزم ایک نظریئے کا نام ہے کہ خواتین کو بھی وہ ہی حقوق ملیں جو مردوں کو ملتے ہیں۔ وہ حقوق تعلیمی، معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے ہوں، غرض کہ حقوق کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ فیمینِیزم کے بعد اس بات کو بھی جاننا اہم ہے کہ آخر یہ فیمِنسٹ خواتین ہوتی کیسی ہیں۔ آپ کے ذہن میں اس وقت یہ خیال آرہا ہوگا کہ یہ وہ خواتین ہوتی ہیں جو چُست کپڑے پہنتی ہیں اور ہر وقت دستیاب ہوتی ہیں، جن سے غیر ذمہ درانہ رشتے قائم کرکے کج روی میں ہر طرح کی اخلاقی حدود کو پار کیا جاسکتا ہے۔ یہ گالم گلوچ بھی کرتی ہوں گی، سگريٹ، شراب بھی پیتی ہوں گی۔ مردوں کو اپنے سے کم تر سمجھ کر ان کی طرح معاشرتی طور پر وہ تمام کام کرتی ہوں گی، جو مرد کرتے ہیں۔
اگر اب اصل "فیمنِسٹ" خواتین کی بات کی جائے تو وہ شراب، سگريٹ اور گالم گلوچ کے بغیر، اعتماد کے ساتھ، خود کو فیمنِسٹ کہہ سکتی ہیں۔ انہیں وہ تمام حقوق ملنے چاہیں جو مرد کو دیئے جاتے ہیں۔ فیمنِسٹ ہونے میں کوئی قباحت نہیں؛ اور ان کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ وہ مرد کو نیچا دکھائیں یا اس کے خلاف ہوں بلکہ انہیں مرد کے شانہ بشانہ چلنا ہوتا ہے۔
لیکن ہم نے خودساختہ طور پر ایک اپنا نظریہ بنا لیا ہے۔ فیمنِسٹ عورتيں سگريٹ، شراب نوشی کرتی ہوں گی، چُست کپڑے پہنتی ہوں گی۔ جبکہ سگريٹ، شراب نوشی اور کسی بھی طرح کے کپڑے زیب تن کرنا کسی بھی فردِ واحد کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ سوچ بالکل اس کے برعکس ہے کہ یہ کام صرف مرد ہی کر سکتے ہیں۔ محض کپڑوں کی بنا پر کسی کو پرکھنے کے بجائے اس کی سوچ کو سمجھا جائے۔ ترقی پسندی انسان کے کپڑوں میں نہیں، سوچ ہونا بے حد ضروری ہے۔ خواتین کے حقوق، شخصی آزادی، ان کا نظریہ وغیرہ! آزادی اظہار رائے کا سب کو حق حاصل ہے، لیکن اسے غلط سمت میں لے جانا بالکل غلط ہے۔
افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین نے فیمینِیزم کو نیا چہرہ دے دیا ہے۔ اگر خواتین کو حقوق نہیں مل رہے، تو اس حوالے سے قانون سازی کی جائے۔ مگر افسوس انہوں نے تمام مردوں کو ایک صف میں کھڑا کرکے تہمتوں کی بارش کردی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بنیادی طور پر فیمینِیزم ایک نظریئے کا نام ہے کہ خواتین کو بھی وہ ہی حقوق ملیں جو مردوں کو ملتے ہیں۔ وہ حقوق تعلیمی، معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے ہوں، غرض کہ حقوق کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ فیمینِیزم کے بعد اس بات کو بھی جاننا اہم ہے کہ آخر یہ فیمِنسٹ خواتین ہوتی کیسی ہیں۔ آپ کے ذہن میں اس وقت یہ خیال آرہا ہوگا کہ یہ وہ خواتین ہوتی ہیں جو چُست کپڑے پہنتی ہیں اور ہر وقت دستیاب ہوتی ہیں، جن سے غیر ذمہ درانہ رشتے قائم کرکے کج روی میں ہر طرح کی اخلاقی حدود کو پار کیا جاسکتا ہے۔ یہ گالم گلوچ بھی کرتی ہوں گی، سگريٹ، شراب بھی پیتی ہوں گی۔ مردوں کو اپنے سے کم تر سمجھ کر ان کی طرح معاشرتی طور پر وہ تمام کام کرتی ہوں گی، جو مرد کرتے ہیں۔
اگر اب اصل "فیمنِسٹ" خواتین کی بات کی جائے تو وہ شراب، سگريٹ اور گالم گلوچ کے بغیر، اعتماد کے ساتھ، خود کو فیمنِسٹ کہہ سکتی ہیں۔ انہیں وہ تمام حقوق ملنے چاہیں جو مرد کو دیئے جاتے ہیں۔ فیمنِسٹ ہونے میں کوئی قباحت نہیں؛ اور ان کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ وہ مرد کو نیچا دکھائیں یا اس کے خلاف ہوں بلکہ انہیں مرد کے شانہ بشانہ چلنا ہوتا ہے۔
لیکن ہم نے خودساختہ طور پر ایک اپنا نظریہ بنا لیا ہے۔ فیمنِسٹ عورتيں سگريٹ، شراب نوشی کرتی ہوں گی، چُست کپڑے پہنتی ہوں گی۔ جبکہ سگريٹ، شراب نوشی اور کسی بھی طرح کے کپڑے زیب تن کرنا کسی بھی فردِ واحد کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ سوچ بالکل اس کے برعکس ہے کہ یہ کام صرف مرد ہی کر سکتے ہیں۔ محض کپڑوں کی بنا پر کسی کو پرکھنے کے بجائے اس کی سوچ کو سمجھا جائے۔ ترقی پسندی انسان کے کپڑوں میں نہیں، سوچ ہونا بے حد ضروری ہے۔ خواتین کے حقوق، شخصی آزادی، ان کا نظریہ وغیرہ! آزادی اظہار رائے کا سب کو حق حاصل ہے، لیکن اسے غلط سمت میں لے جانا بالکل غلط ہے۔
افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین نے فیمینِیزم کو نیا چہرہ دے دیا ہے۔ اگر خواتین کو حقوق نہیں مل رہے، تو اس حوالے سے قانون سازی کی جائے۔ مگر افسوس انہوں نے تمام مردوں کو ایک صف میں کھڑا کرکے تہمتوں کی بارش کردی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔