خمیری روٹی یا فطیری روٹی

کالم توخیرہمیں اپنےحساب سےلکھناتھااورہمارااپناحساب اس حساب سےبالکل مختلف ہے بلکہ موضوع ہی ان موضوعات سےمختلف ہوتاہے۔۔۔

rmvsyndlcate@gmail.com

کالم تو خیر ہمیں اپنے حساب سے لکھنا تھا اور ہمارا اپنا حساب اس حساب سے بالکل مختلف ہے بلکہ موضوع ہی ان موضوعات سے مختلف ہوتا ہے جس پر ہمارے یاران ادب اور یاران صحافت کالموں میں خامہ فرسائی کرتے رہتے ہیں۔ تو ہم نے سوچا کہ پہلے اپنے دوستوں کے کالم پڑھ لیں۔ وہی جناب ممنون حسین اور وہی لندن سے درآمد شدہ گورنر کا مسئلہ۔ ہر کالم دلچسپ اور خوب اور مرغوب۔ مگر ایک کالم پر آ کر ہم اٹک گئے۔

یہ غازی صلاح الدین کا کالم تھا۔ یہ پیشۂ صحافت سے متعلق ایسا سوال انھوں نے اٹھایا جس کا تھوڑا بہت تجربہ ہمیں بھی ہے۔ انھوں نے یہ سوال اٹھایا کہ جس دن دو بڑے واقعات گزرے، اس سے اگلی صبح کو اخباروں کی لیڈ کی سرخی کیا ہونی چاہیے تھی۔ طالبان نے ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر حملہ کیا، یہ خبر یا یہ خبر کہ ملک کے بارہویں صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے گئے اور اس انتخاب میں ممنون حسین صاحب سرخرو ہوئے۔ اخباروں میں لیڈ کی سرخی بالعموم ثانی الذکر خبر سے عبارت تھی۔

اس پر ہمیں اپنی صحافتی زندگی کے ابتدائی ایام یاد آئے جب ہم سب اڈیٹری کے مرحلہ سے گزر رہے تھے۔ ان دنوں لیڈ کی خبر کا انتخاب نیوز ایڈیٹر کی قوت فیصلہ کا امتحان ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ بڑی خبر جو باقی اخباروں میں لیڈ کی خبر تھی۔ امروز، میں اسے لیڈ کا مرتبہ حاصل نہ ہو سکا۔ اس پر مولانا چراغ حسن حسرت نے آسمان سر پہ اٹھا لیا اور نیوز ایڈیٹر کو لینے کے دینے پڑ گئے۔

غازی صلاح الدین حیران ہیں کہ اتنا سنگین واقعہ کہ ایک گروہ ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر حملہ آور ہوتا ہے، اس کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں ہوتی۔ وہ اطمینان سے اپنے ساتھیوں کو چھڑا کر لے جاتا ہے۔ مگر اگلے دن اخباروں کی شہ سرخی صدر کا انتخاب ہے جس کے متعلق پہلے ہی طے تھا کہ ممنون حسین صاحب کو کامیاب ہونا ہی ہونا ہے۔

اس پر ہمیں علامہ مشرقی کی ایک تحریر یاد آئی۔ وہ بحث یہ کررہے تھے کہ جب قوموں پر زوال آتا ہے تو ان کی ترجیحات کس طرح بدل جاتی ہیں۔ اس کی مثال میں انھوں نے یہ واقعہ نقل کیا کہ جس وقت مسلمانوں کا لشکر قسطنطنیہ کے دروازے پر دستک دے رہا تھا، اس وقت اس شہر کے سب سے بڑے گرجا گھر میں قسطنطنیہ کے جید علمائے دین مسیحیت جمع تھے اور سرگرمی سے اس بحث میں مصروف تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر جو خوان اترا تھا، اس میں روٹی خمیری تھی یا فطیری تھی۔ ادھر قسطنطنیہ کا سقوط ہوگیا۔ واضح ہو کہ یہ سقوط کی اصطلاح ہم نے 'سقوط ڈھاکہ' کے واقعہ سے مستعار لی ہے۔ اس سے پہلے ہم سقوط کے لفظ اور اس کے مفہوم سے نا آشنا چلے آ رہے تھے۔ تو ادھر قسطنطنیہ کا سقوط ہوگیا اور ادھر آخر وقت تک یہ فیصلہ نہ ہو سکا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اترنے والے خوان میں روٹیاں خمیری تھیں یا فطیری۔

پھر علامہ نے لمبی بحث شروع کر دی کہ قوموں پر جب زوال آتا ہے تو علماء و فضلا کی بھی مت ماری جاتی ہے۔ ان کی نظر میں چھوٹے چھوٹے مسئلے بڑے مسئلے بن جاتے ہیں۔ اور بڑے مسئلے پس پشت جا پڑتے ہیں۔

علامہ مشرقی کا استدلال اپنی جگہ اور ہمارے دوست عطاء الحق قاسمی کے کالم کا لطف اپنی جگہ۔ کتنا دلچسپ کالم باندھا ہے۔ دیسی صدر ولایتی گورنر۔ ان دوستوں اور کالم نگاروں کا انھوں نے شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے ان سے اظہار ہمدردی کیا ہے اس باب میں کہ ان سے کتنی نا انصافی ہوئی ہے۔ مگر ایک بات تو ہم نے بھی ان کے گوش گزار کی تھی کہ اے عزیز تو الحمرا آرٹ کونسل کا چیئرمین ہے۔ یہ کوئی چھوٹا عہدہ نہیں ہے۔ ہمیں یاد ہے کتنے زمانے تک جسٹس رحمٰن اس کے چیئرمین رہے۔ اس زمانے میں کتنے گورنر آئے اور رخصت ہو گئے۔ اب ہمیں ٹھیک طرح ان کے نام بھی یاد نہیں ہیں۔ مگر جسٹس رحمٰن کا نام آج بھی بڑے احترام سے لیتے ہیں۔ آدمی کی شخصیت اور آدمی کے کام اسے بڑا یا چھوٹا بناتے ہیں۔ اسی حساب سے اس عہدے کا بھی مرتبہ بڑھتا ہے یا گھٹتا ہے۔ تو برادرم تم الحمرا آرٹ کونسل کے چیئرمین ہو جسٹس رحمٰن کے جانشین۔ اپنے آپ کو چھوٹا مت سمجھو۔


اور صدر کا معاملہ یہ ہے کہ صدر ہر جا کہ نشیند صدر است۔ جب ذاکر حسین صدر ہندوستان نہیں تھے تب بھی اپنے مرتبہ میں کسی صدر سے کم نہیں تھے اور ہاں ڈاکٹر عبدالکلام جب ان کی صدارت کی مدت تمام ہوئی اور انھیں اس عہدے پر متمکن رہنے کی پیش کش کی گئی تو انھوں نے عذر کیا کہ میری لیبارٹری میرا انتظار کر رہی ہے۔ جتنا میں نے یہاں وقت گزار لیا وہ کافی ہے اور لیجیے اس نسبت سے ہمیں اپنا ایک شاعر یاد آ گیا جس کے پاس کوئی عہدہ کوئی مرتبہ نہیں تھا۔ مگر کیا مرتبہ تھا کہ جب امیر تیمور نے سمرقند و بخارا کو فتح کر لیا تو حافظ شیرازی کو طلب کیا اور اس کا کہا ہوا یہ شعر دہرایا؎

اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دلِ مارا

بخال ہندوش بخشم سمر قند و بخارا را

ارے میں نے کتنی مشکل سے سمر قند و بخارا کو فتح کیا تم نے کس بے تکلفی سے معشوق کے ایک کالے تل سے مسحور ہو کر دونوں شہر اسے بھینٹ کر دیے۔ شاعر نے کیا خوب جواب دیا کہ اے امیر ان ہی فضول خرچیوں نے تو ہمارا یہ حال کر رکھا ہے۔ امیر تیمور لاجواب ہو گیا۔

خیر یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی لیکن وہ مسئلہ خمیری اور فطیری روٹی والا تو بیچ میں ہی رہ گیا۔ پھر ہمیں خیال آیا کہ ادھر ہمارے اپنے کتنے مسائل ہیں جنھیں ہم ابھی تک اپنے مذہبی شعور کے باوجود حل نہیں کر سکے ہیں۔

یہی لے لو کہ عید سر پہ کھڑی ہے۔ پھر اس پہ اختلاف رائے ہو گا کہ عید کا چاند ہوا یا نہیں ہوا۔ اور کیا عجب ہے کہ پھر ادھر خیبر پختون خوا میں عید ایک دن منائی جائے اور ادھر لاہور میں عید دوسرے دن منائی جائے۔

مگر اب خمیری اور فطیری کے مسئلہ کو طے کرنے کی ذمے داری بھی ہم ہی پر آ پڑی ہے۔ اہل مغرب تو سیکولرازم کا بہانہ بنا کر اتنے اہم مسئلہ سے بے تعلق ہوچکے ہیں۔ سو سقوط قسطنطنیہ کے وقت جو مسئلہ طے ہونے سے رہ گیا تھا وہ آخر کب تک معرض التوا میں پڑا رہے گا۔ خیر جب ہم نے علامہ مشرقی کے یہاں یہ واقعہ پڑھا تھا تو ہمیں ایک اور پریشانی نے گھیر لیا تھا کہ خمیری روٹی تو ہوئی، فطیری روٹی کیا ہوتی ہے۔ لیکن اب ہم نے لغت دیکھ کر فطیری روٹی کی ماہیت سمجھ لی ہے۔ تازہ گوندھے ہوئے آٹے سے پکنے والی روٹی کو فطیری روٹی کہتے ہیں۔ سو اگر اس مسئلہ پر ووٹنگ کی نوبت آئی تو ہمارا ووٹ فطیری روٹی کے حق میں جائے گا۔
Load Next Story