جمہوریت میں خواتین کا کردار اہم
ہمیں عورت کو پہلے مرحلے میں انسان سمجھنا ہوگا اور دوسرے مرحلے میں برابرکا انسان۔
خواتین کا عالمی دن ، دنیا بھر میں منایا گیا، صنف نازک کی صلاحیتوں اور خدمات کا اعتراف اور معاشرے میں ان کی اہمیت کو اجاگرکرنے کے لیے یہ دن منایا جاتا ہے۔
گوگل نے خواتین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ڈوڈل پر ''عورت'' لفظ کو11 مختلف زبانوں میں لکھ کر ڈیزائن کیا ، جن میں اردو، عربی، ہندی اور فارسی بھی شامل ہے۔ دنیا بھر میں صنفی امتیاز کے خاتمے اور خواتین کے مساوی حقوق کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔اس برس کا موضوع ہے ''بہتری کے لیے توازن۔''
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریز نے اپنے ایک پیغام میں خواتین کے حقوق، احترام اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے فروغ اور تحفظ کے لیے کوششیں دگنا کرنے پر زور دیا ، جب کہ صدرپاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں خواتین کا کردار بے حد اہم ہے اور اسلام میں خواتین کو وراثت میں ہرطرح کے حقوق حاصل ہیں،وراثت میں جائیداد میں حصہ ملنا ان کا حق ہے۔
یہ بات ہوئی عالمی دن منانے کے مقاصد اور بیانات کی، لیکن ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آیا پاکستان میں خواتین کو وہ حقوق حاصل ہیں جن کا ذکر مندرجہ بالا سطور میں کیا گیا ہے تو زمینی حقائق اس کی نفی کرتے نظرآتے ہیں،کیونکہ حقوق ِ نسواں بل کو پاس ہوئے توکئی برس گزرگئے، مگر اس کے باوجود پاکستان کی80 فیصد عورتیں اب بھی کسی نہ کسی شکل میں تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں ۔ پنجاب میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ پانچ سالوں کے دوران صوبے کے مختلف شہروں میں سیکڑوں خواتین غیرت کے نام پر قتل جب کہ درجنوں کو تیزاب گردی کا نشانہ بنایا گیا۔سال دو ہزار اٹھارہ کی بات کی جائے تو آٹھ ہزار سے زائد خواتین پر تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے، 16خواتین نے گھریلو حالات سے تنگ آکر خودکشی کی ۔
اگر صوبہ بلوچستان کی بات کی جائے تو ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال غیرت کے نام پر تشدد کے 145 واقعات ریکارڈ ہوئے۔ غیرت کے نام پر 35 خواتین قتل ہوئیں، 16خواتین نے گھریلو حالات سے تنگ آکر خودکشی کی، تیرہ خواتین اغوا ہوئیں، چار خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور دو خواتین پر تیزاب پھینک کر ان کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے تکلیف دہ بنادیا گیا، بلوچستان میں خواتین کے ساتھ پرتشدد واقعات میں اضافے کی ایک وجہ یہاں کا نیم قبائلی معاشرتی نظام اورصوبے کی دورافتادہ علاقوں میں پھیلی ہوئی آبادی بھی ہے جہاں خواتین پر تشدد کے واقعات عام ہیں۔
اسی طرح کی بھیانک صورتحال صوبہ سندھ اور سرحد میں بھی ہے۔ سندھ میں کاروکاری کی رسم اس وقت ہوتی ہے، جب فصلیں پک کر تیار ہوجاتی ہیں تو یوں سمجھ لیں فصلوں کی کٹائی کے ساتھ ساتھ یہ عورتوں کی گردنیں کٹنے کا موسم ہوتا ہے۔
غیرت کے نام پر قتل ہمارے مردانہ سماج کا انتہائی سفاکانہ اور بے رحم عمل ہے جو جائیداد اور عورت پر مکمل کنٹرول کے لیے کیا جاتا ہے۔ خواتین کے خلاف پرتشدد واقعات کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر ہی اس طرح کے واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ہمیں عورت کو پہلے مرحلے میں انسان سمجھنا ہوگا اور دوسرے مرحلے میں برابرکا انسان، جیسے تمام حقوق اللہ تعالیٰ اور اس کے دین نے عطا کیے ہیں ۔تبھی یہ دن منانے کا مقصد پورا ہوسکے گا۔
گوگل نے خواتین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ڈوڈل پر ''عورت'' لفظ کو11 مختلف زبانوں میں لکھ کر ڈیزائن کیا ، جن میں اردو، عربی، ہندی اور فارسی بھی شامل ہے۔ دنیا بھر میں صنفی امتیاز کے خاتمے اور خواتین کے مساوی حقوق کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔اس برس کا موضوع ہے ''بہتری کے لیے توازن۔''
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریز نے اپنے ایک پیغام میں خواتین کے حقوق، احترام اور ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے فروغ اور تحفظ کے لیے کوششیں دگنا کرنے پر زور دیا ، جب کہ صدرپاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں خواتین کا کردار بے حد اہم ہے اور اسلام میں خواتین کو وراثت میں ہرطرح کے حقوق حاصل ہیں،وراثت میں جائیداد میں حصہ ملنا ان کا حق ہے۔
یہ بات ہوئی عالمی دن منانے کے مقاصد اور بیانات کی، لیکن ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آیا پاکستان میں خواتین کو وہ حقوق حاصل ہیں جن کا ذکر مندرجہ بالا سطور میں کیا گیا ہے تو زمینی حقائق اس کی نفی کرتے نظرآتے ہیں،کیونکہ حقوق ِ نسواں بل کو پاس ہوئے توکئی برس گزرگئے، مگر اس کے باوجود پاکستان کی80 فیصد عورتیں اب بھی کسی نہ کسی شکل میں تشدد کا نشانہ بن رہی ہیں ۔ پنجاب میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ پانچ سالوں کے دوران صوبے کے مختلف شہروں میں سیکڑوں خواتین غیرت کے نام پر قتل جب کہ درجنوں کو تیزاب گردی کا نشانہ بنایا گیا۔سال دو ہزار اٹھارہ کی بات کی جائے تو آٹھ ہزار سے زائد خواتین پر تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے، 16خواتین نے گھریلو حالات سے تنگ آکر خودکشی کی ۔
اگر صوبہ بلوچستان کی بات کی جائے تو ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال غیرت کے نام پر تشدد کے 145 واقعات ریکارڈ ہوئے۔ غیرت کے نام پر 35 خواتین قتل ہوئیں، 16خواتین نے گھریلو حالات سے تنگ آکر خودکشی کی، تیرہ خواتین اغوا ہوئیں، چار خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور دو خواتین پر تیزاب پھینک کر ان کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے تکلیف دہ بنادیا گیا، بلوچستان میں خواتین کے ساتھ پرتشدد واقعات میں اضافے کی ایک وجہ یہاں کا نیم قبائلی معاشرتی نظام اورصوبے کی دورافتادہ علاقوں میں پھیلی ہوئی آبادی بھی ہے جہاں خواتین پر تشدد کے واقعات عام ہیں۔
اسی طرح کی بھیانک صورتحال صوبہ سندھ اور سرحد میں بھی ہے۔ سندھ میں کاروکاری کی رسم اس وقت ہوتی ہے، جب فصلیں پک کر تیار ہوجاتی ہیں تو یوں سمجھ لیں فصلوں کی کٹائی کے ساتھ ساتھ یہ عورتوں کی گردنیں کٹنے کا موسم ہوتا ہے۔
غیرت کے نام پر قتل ہمارے مردانہ سماج کا انتہائی سفاکانہ اور بے رحم عمل ہے جو جائیداد اور عورت پر مکمل کنٹرول کے لیے کیا جاتا ہے۔ خواتین کے خلاف پرتشدد واقعات کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر ہی اس طرح کے واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ہمیں عورت کو پہلے مرحلے میں انسان سمجھنا ہوگا اور دوسرے مرحلے میں برابرکا انسان، جیسے تمام حقوق اللہ تعالیٰ اور اس کے دین نے عطا کیے ہیں ۔تبھی یہ دن منانے کا مقصد پورا ہوسکے گا۔