نواز شریف کی جیل میں بیماری
اگر نواز شریف کو جیل میں کچھ ہو گیا تو کیا ہوگا۔ یہ سوچنا بھی خطرناک لگ رہا ہے۔
لاہور:
نواز شریف کی بیماری ایک انسانی سے زیادہ سیاسی ایشو بن گیا ہے۔ فریقین نے اس انسانی مسئلے کو سیاسی مسئلہ بنا دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب دونوں فریق بند گلی میں پہنچ گئے ہیں۔مریم نواز شہباز شریف اور دیگر مسلم لیگی قیادت کے ٹوئٹ اور بیانات بتا رہے ہیں کہ نواز شریف بیمار ہیں لیکن انھوں نے اسپتال سے علاج کروانے سے انکار کر دیا ہے۔
مریم نواز کے مطابق وہ اپنے ساتھ اپنی دادی اماں کو بھی جیل لے کر گئی ہیں تا کہ نواز شریف کو جیل سے اسپتال جانے پر قائل کیا جا سکے ۔ تاہم نواز شریف کی والدہ بھی انھیں جیل سے اسپتال جانے پر قائل کرنے پر ناکام ہوگئی ہیں۔ خبریں یہی ہیں کہ نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ علاج کے نام پر ان کی تضحیک کی جا رہی ہے۔ اس لیے وہ علاج ہی نہیں کروائیں گے۔
دوسری طرف حکومت نواز شریف سے زیادہ ابہام کا شکار ہے۔ حکومت نے بلا شبہ نواز شریف کی بیماری کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کیا ہے۔ پہلے یہ بیانیہ لیا گیا کہ نواز شریف اس ملک کے تین دفعہ وزیر اعظم رہے ہیں۔ دو دفعہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ اس کے باوجود وہ پنجاب میں ایک بھی ایسا اسپتال نہیں بنا سکے ہیں جہاں ان کا علاج ان کی مرضی کے مطابق ہو سکے۔وہ ایک بھی معیاری ہستپال بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس لیے انھیں کسی معیاری اسپتال سے علاج کروانے کا استحقاق نہیں ہے۔یہ بھی موقف لیا گیا کہ نواز شریف بیماری کا بہانہ بنا کر لندن جانے کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ بیمار نہیں ہیں بلکہ بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے فرار کی راہ تلاش کر رہے ہیں۔ حکومت نے دو ٹوک اعلان کیا ہے کہ بیماری کے نام پر این آر او نہیں دیا جائے گا۔
ن لیگ نے بھی واضح اعلان نہیں کیا کہ نواز شریف لندن نہیں جانا چاہتے بلکہ یہ کہا گیا کہ چونکہ نواز شریف نے پہلے اپنے دل کا علاج لندن سے کروایا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جس ڈاکٹر نے پہلے ان کا لندن میں علاج کیا ہے وہیں سے اب ان کا علاج ہو۔ اس ڈاکٹر کو ان کی تمام میڈیکل ہسٹری پتہ ہے۔ اس لیے وہی بہتر علاج کر سکتا ہے۔ دوسری طرف حکومت نے اس بیانیہ کا بھی مذاق ہی بنایا کہ اگر وہ ڈاکٹر موجود نہ ہو تو کیا پھر نواز شریف کسی بھی ڈاکٹر سے علاج نہیں کروائیں گے۔ یہ کیسا علاج ہے جو دنیامیں صرف وہی ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں کوئی بھی یہ علاج نہیں کر سکتا ہے۔اس بیانیہ نے بھی بیماری کو انسانی سے سیاسی ایشو بنا دیا۔
تحریک انصاف کی حکومت نے انتخابات میں دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لگایا تھا۔ ان کا قوم سے وعدہ تھا کہ وہ ملک میں دو نہیں ایک قانون لے کر آئیں گے۔ کوئی وی آئی پی کلچر نہیں ہو گا۔ سب کے لیے ایک ہی قانون ہو گا۔ میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ اس نعرہ پر کس قدر عمل ہوا ہے۔ لیکن نواز شریف کی بیماری کے معاملے پر اس پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے ایسے اعداد و شمار پیش کیے گئے جن میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ جیل میں قید ہزاروں قیدی نواز شریف کی طرح بیمار ہیں۔
اگر نواز شریف کو کوئی وی آئی پی علاج کی سہولت دی جانی ہے تو پھر ان سب قیدیوں کو کیوں نہ دی جائے۔ تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ نواز شریف ایک عام قیدی ہیں۔ اس لیے انھیں ایک عام قیدی جیسی علاج کی سہولیات ہی میسر کی جائیں گی۔ یہی دو نہیں ایک پاکستان کی پہچان ہے۔ یہیں سے دو نہیں ایک پاکستان کا شاندار آغاز ہوگا۔
لیکن اس کشمکش میں اب تحریک انصاف کی حکومت کے اعصاب جواب دیتے نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ چوبیس گھنٹے میں جیسے ہی ن لیگ کی جانب سے سیاسی دباؤ بڑھایا گیا ہے۔ نواز شریف کی بیماری پر آواز اٹھائی گئی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اپنے موقف اور بیانیہ سے پیچھے ہٹنا شروع ہو گئی ہے۔ عمران خان نے یک دم ایک اور یوٹرن لیتے ہوئے نواز شریف کو علاج کی بہترین سہولیات دینے کی ہدایات جا ری کر دی ہیں۔ وہی وزیر موصوف جو پہلے نواز شریف کے علاج کا مذاق اڑاتے تھے۔ ان کی بیماری کا مذاق اڑاتے ۔ وہی اب کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کو ان کی مرضی کا علاج دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔
یک دم پنجاب حکومت میں وزیر اعلیٰ کے ترجمان نواز شریف سے جیل ملنے جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ وہ ڈاکٹر بھی اپنے ساتھ لے کر جانے کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ یہ اعلان بھی سامنے آگیا ہے کہ نواز شریف کو ان کی مرضی کے ڈاکٹر اور اسپتال سے علاج کی سہولت دی جائے گی۔ بیرون ملک علاج کی سہولت دینے کا اعلان نہیں کیا گیا ہے البتہ بیرون ملک سے ڈاکٹر لانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
ایک تنقید یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ نواز شریف ایک ایسی جماعت کے قائد ہیں جو قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت ہے۔ سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت ہے۔ پنجاب میں ایک بڑی جماعت ہے۔ جماعت نے حالیہ انتخابات میں برے سے برے حالات میں بھی ریکارڈ ووٹ لیے ہیں۔ پھر بھی یہ جماعت اتنی لاغر اور مجبور ہے کہ اپنے قائد کے بہترین علاج کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتی۔کوئی احتجاج نہیں ہے۔ کوئی دھرنا نہیں ہے۔ کوئی کنٹینر نہیں ہے۔ کوئی جلسہ نہیں کوئی جلوس نہیں۔ اگر سب منتخب ارکان دس دس لوگ بھی لائیں تو بہت بڑا جلسہ ہو جائے گا۔
تاہم اطلاعات یہی ہیں کہ ابھی تک تا دم تحریر نواز شریف نے اس حکومت سے علاج نہ کروانے کا اعلان کر دیا ہے۔ وہ جیل میں رہنے کے لیے تیار ہیں۔ مصدقہ اطلاعات یہی ہیں کہ انھیں انجائنہ کا اٹیک ہوا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اس علاج سے مرنے کو ترجیح دیں گے۔
اگر نواز شریف کو جیل میں کچھ ہو گیا تو کیا ہوگا۔ یہ سوچنا بھی خطرناک لگ رہا ہے۔ شاید حکومت کو بھی اسی سوچ نے پریشان کر دیا ہے۔ اسی لیے حکومت نے بھی یوٹرن لے لیا ہے۔ ایسی صورت حال عمران خان کے لیے سیاسی طور پر خطرناک ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد منظر نامہ بدل جائے گا۔ عوام کی رائے بدل جائے گی۔ سوچ بدل جائے گی ۔جیسے کلثوم نواز کی بیماری پر بیان دینے والے اعتزاز احسن کے پاس بھی معافی مانگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ زندہ نواز شریف کو قید میں رکھ کر سیاسی کریڈٹ لینے اور احتساب کا بول بالا کرنے والوں کے پاس بھی کوئی جواب نہیں ہوگا۔ ایسا کچھ ہوا تویہ احتساب کی تحریک کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا۔
نواز شریف کی بیماری ایک انسانی سے زیادہ سیاسی ایشو بن گیا ہے۔ فریقین نے اس انسانی مسئلے کو سیاسی مسئلہ بنا دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب دونوں فریق بند گلی میں پہنچ گئے ہیں۔مریم نواز شہباز شریف اور دیگر مسلم لیگی قیادت کے ٹوئٹ اور بیانات بتا رہے ہیں کہ نواز شریف بیمار ہیں لیکن انھوں نے اسپتال سے علاج کروانے سے انکار کر دیا ہے۔
مریم نواز کے مطابق وہ اپنے ساتھ اپنی دادی اماں کو بھی جیل لے کر گئی ہیں تا کہ نواز شریف کو جیل سے اسپتال جانے پر قائل کیا جا سکے ۔ تاہم نواز شریف کی والدہ بھی انھیں جیل سے اسپتال جانے پر قائل کرنے پر ناکام ہوگئی ہیں۔ خبریں یہی ہیں کہ نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ علاج کے نام پر ان کی تضحیک کی جا رہی ہے۔ اس لیے وہ علاج ہی نہیں کروائیں گے۔
دوسری طرف حکومت نواز شریف سے زیادہ ابہام کا شکار ہے۔ حکومت نے بلا شبہ نواز شریف کی بیماری کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کیا ہے۔ پہلے یہ بیانیہ لیا گیا کہ نواز شریف اس ملک کے تین دفعہ وزیر اعظم رہے ہیں۔ دو دفعہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ اس کے باوجود وہ پنجاب میں ایک بھی ایسا اسپتال نہیں بنا سکے ہیں جہاں ان کا علاج ان کی مرضی کے مطابق ہو سکے۔وہ ایک بھی معیاری ہستپال بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس لیے انھیں کسی معیاری اسپتال سے علاج کروانے کا استحقاق نہیں ہے۔یہ بھی موقف لیا گیا کہ نواز شریف بیماری کا بہانہ بنا کر لندن جانے کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ بیمار نہیں ہیں بلکہ بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے فرار کی راہ تلاش کر رہے ہیں۔ حکومت نے دو ٹوک اعلان کیا ہے کہ بیماری کے نام پر این آر او نہیں دیا جائے گا۔
ن لیگ نے بھی واضح اعلان نہیں کیا کہ نواز شریف لندن نہیں جانا چاہتے بلکہ یہ کہا گیا کہ چونکہ نواز شریف نے پہلے اپنے دل کا علاج لندن سے کروایا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جس ڈاکٹر نے پہلے ان کا لندن میں علاج کیا ہے وہیں سے اب ان کا علاج ہو۔ اس ڈاکٹر کو ان کی تمام میڈیکل ہسٹری پتہ ہے۔ اس لیے وہی بہتر علاج کر سکتا ہے۔ دوسری طرف حکومت نے اس بیانیہ کا بھی مذاق ہی بنایا کہ اگر وہ ڈاکٹر موجود نہ ہو تو کیا پھر نواز شریف کسی بھی ڈاکٹر سے علاج نہیں کروائیں گے۔ یہ کیسا علاج ہے جو دنیامیں صرف وہی ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں کوئی بھی یہ علاج نہیں کر سکتا ہے۔اس بیانیہ نے بھی بیماری کو انسانی سے سیاسی ایشو بنا دیا۔
تحریک انصاف کی حکومت نے انتخابات میں دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لگایا تھا۔ ان کا قوم سے وعدہ تھا کہ وہ ملک میں دو نہیں ایک قانون لے کر آئیں گے۔ کوئی وی آئی پی کلچر نہیں ہو گا۔ سب کے لیے ایک ہی قانون ہو گا۔ میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ اس نعرہ پر کس قدر عمل ہوا ہے۔ لیکن نواز شریف کی بیماری کے معاملے پر اس پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے ایسے اعداد و شمار پیش کیے گئے جن میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ جیل میں قید ہزاروں قیدی نواز شریف کی طرح بیمار ہیں۔
اگر نواز شریف کو کوئی وی آئی پی علاج کی سہولت دی جانی ہے تو پھر ان سب قیدیوں کو کیوں نہ دی جائے۔ تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ نواز شریف ایک عام قیدی ہیں۔ اس لیے انھیں ایک عام قیدی جیسی علاج کی سہولیات ہی میسر کی جائیں گی۔ یہی دو نہیں ایک پاکستان کی پہچان ہے۔ یہیں سے دو نہیں ایک پاکستان کا شاندار آغاز ہوگا۔
لیکن اس کشمکش میں اب تحریک انصاف کی حکومت کے اعصاب جواب دیتے نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ چوبیس گھنٹے میں جیسے ہی ن لیگ کی جانب سے سیاسی دباؤ بڑھایا گیا ہے۔ نواز شریف کی بیماری پر آواز اٹھائی گئی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اپنے موقف اور بیانیہ سے پیچھے ہٹنا شروع ہو گئی ہے۔ عمران خان نے یک دم ایک اور یوٹرن لیتے ہوئے نواز شریف کو علاج کی بہترین سہولیات دینے کی ہدایات جا ری کر دی ہیں۔ وہی وزیر موصوف جو پہلے نواز شریف کے علاج کا مذاق اڑاتے تھے۔ ان کی بیماری کا مذاق اڑاتے ۔ وہی اب کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کو ان کی مرضی کا علاج دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔
یک دم پنجاب حکومت میں وزیر اعلیٰ کے ترجمان نواز شریف سے جیل ملنے جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ وہ ڈاکٹر بھی اپنے ساتھ لے کر جانے کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ یہ اعلان بھی سامنے آگیا ہے کہ نواز شریف کو ان کی مرضی کے ڈاکٹر اور اسپتال سے علاج کی سہولت دی جائے گی۔ بیرون ملک علاج کی سہولت دینے کا اعلان نہیں کیا گیا ہے البتہ بیرون ملک سے ڈاکٹر لانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
ایک تنقید یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ نواز شریف ایک ایسی جماعت کے قائد ہیں جو قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت ہے۔ سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت ہے۔ پنجاب میں ایک بڑی جماعت ہے۔ جماعت نے حالیہ انتخابات میں برے سے برے حالات میں بھی ریکارڈ ووٹ لیے ہیں۔ پھر بھی یہ جماعت اتنی لاغر اور مجبور ہے کہ اپنے قائد کے بہترین علاج کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتی۔کوئی احتجاج نہیں ہے۔ کوئی دھرنا نہیں ہے۔ کوئی کنٹینر نہیں ہے۔ کوئی جلسہ نہیں کوئی جلوس نہیں۔ اگر سب منتخب ارکان دس دس لوگ بھی لائیں تو بہت بڑا جلسہ ہو جائے گا۔
تاہم اطلاعات یہی ہیں کہ ابھی تک تا دم تحریر نواز شریف نے اس حکومت سے علاج نہ کروانے کا اعلان کر دیا ہے۔ وہ جیل میں رہنے کے لیے تیار ہیں۔ مصدقہ اطلاعات یہی ہیں کہ انھیں انجائنہ کا اٹیک ہوا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اس علاج سے مرنے کو ترجیح دیں گے۔
اگر نواز شریف کو جیل میں کچھ ہو گیا تو کیا ہوگا۔ یہ سوچنا بھی خطرناک لگ رہا ہے۔ شاید حکومت کو بھی اسی سوچ نے پریشان کر دیا ہے۔ اسی لیے حکومت نے بھی یوٹرن لے لیا ہے۔ ایسی صورت حال عمران خان کے لیے سیاسی طور پر خطرناک ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد منظر نامہ بدل جائے گا۔ عوام کی رائے بدل جائے گی۔ سوچ بدل جائے گی ۔جیسے کلثوم نواز کی بیماری پر بیان دینے والے اعتزاز احسن کے پاس بھی معافی مانگنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ زندہ نواز شریف کو قید میں رکھ کر سیاسی کریڈٹ لینے اور احتساب کا بول بالا کرنے والوں کے پاس بھی کوئی جواب نہیں ہوگا۔ ایسا کچھ ہوا تویہ احتساب کی تحریک کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا۔