آپ کیوں تھکتے ہیں
تھکنے کی وجوہ جانیے اور تازہ دم ہوجائیے۔
ڈیئر کرنیں فرینڈز! آپ سب کیسے ہیں؟ امید ہے ہمارا نیا سلسلہ ''ہماری صحت'' آپ کو پسند آرہا ہوگا۔ ہمیں تھکن کیوں ہوتی ہے؟ ہم اتنی جلدی کیوں تھک جاتے ہیں؟ آج ہم آپ کو اس بارے میں بتائیں گے۔
دوستو! جب آپ کسی پکنک یا اسکول، کالج کے دوستوں اور اساتذہ کے ساتھ کہیں جاتے ہیں جہاں کئی میل پیدل چلنا پڑے تو تھکن ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ گھر آکر بہت سے بچے اتنے تھک کر سوتے ہیں کہ رات کا کھانا کھانے کے لیے جگانے پر بھی نہیں اٹھتے۔ اس کی وجہ تھکن ہوتی ہے جو بہت زیادہ پیدل چلنے یا زیادہ مشقت سے ہوتی ہے۔ لیکن بعض اوقات محنت مشقت کیے بغیر بھی بہت تھکن محسوس ہوتی ہے۔ در حقیقت تھکن کی ایک وجہ نہیں کئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔
آج کل ڈاکٹروں کے پاس آدھے سے زیادہ مریض، تھکن ہی کی شکایت لے کر آتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو احساس ہی نہیں کہ اس تھکن کا سبب وہ خود ہیں۔
یقیناً آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ ایسا کیوں ہے؟ ماہرین نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ تھکن کی بعض وجوہ تو عام ہیں یعنی زیادہ کام کرنا اور آرام نہ کرنا، لیکن کچھ ایسی وجوہ کا بھی علم ہوا ہے جن کی طرف پہلے کبھی کسی نے نہیں سوچا ہوگا۔ ان میں سے ایک بہت اہم وجہ ''نفرت'' ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کھیتوں میں کام کرنے سے اتنی تھکن نہیں ہوتی جتنی ایسے افراد کے ساتھ رہنے یا ساتھ کام کرنے سے ہوتی ہے جن سے آپ نفرت کرتے ہیں یا جن سے آپ کا مزاج نہیں ملتا اور روز روز جھگڑا ہوتا ہے یا دل میں ان کے خلاف سوچ ہوتی ہے۔
شاید آپ کو یہ بہت عجیب بات لگے، مگر یہ حقیقت ہے۔ دوستو! ہمارے دین نے آپس میں نفرت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ایک دوسرے کی ٹوہ میں رہنے ، دوسروں سے حسد کرنے، ان کے خلاف دل میں کینہ رکھنے سے بھی روکا ہے۔ ہم یہی کچھ کرکے ایک طرف تو بھاری گناہوں سے اپنا اعمال نامہ بھرتے ہیں اور دوسرے خود کو بھی تھکن میں مبتلا کرلیتے ہیں۔ دراصل اس تھکن کا تعلق اعصاب سے ہے۔ لہٰذا اپنے دوستوں اور ہم جماعتوں کے متعلق ہمیشہ اچھا سوچیں۔ شاید آپ میں سے کوئی دوست یہ سوچ رہا ہو کہ ''ہوائی جہاز کا سفر تو بہت آرام دہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی تھکن ہوجاتی ہے۔''
اس کی دو وجوہ ہیں۔ ہوائی جہاز کی اندرونی ہوا خشک ہوتی ہے۔ طویل فضائی سفر کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے۔ پھر لوگ اپنی سیٹوں پر جم کر بیٹھے رہتے ہیں۔ اس سے بھی عضلات تھک جاتے ہیں اور ان میں دوران خون معمول کے مطابق نہیں رہتا، سست ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے ایک تو پانی خوب پیا جائے اور دوران سفر سیٹ سے اٹھ کر چہل قدمی کرتے رہیں۔ لیکن یہ سب وجوہ تو ایک طرف، اگر کوئی شخص ناامیدی کا شکار ہوجائے یا اداس اور رنجیدہ رہنے لگے تو اس کو بھی تھکن محسوس ہونے لگے گی۔
دراصل تھکن چاہے محنت مشقت کی وجہ سے ہو یا پریشانی کی وجہ سے، دونوں صورتوں میں ہمارے جسم کا ردعمل یکساں ہوتا ہے۔ یہ دراصل خدا کی طرف سے ہماری حفاظت کا بہترین انتظام ہے بلکہ خود تھکن بھی خدا کی طرف سے ہمارے لیے ایک نعمت ہے۔ اگر ہمیں تھکن کا احساس نہ ہوتو ہمارے جسم میں شکر اور توانائی کے ذخیرے ختم ہوجائیں اور ہمیں پتا بھی نہ چلے۔ اس طرح تو جسم کے اہم حصوں مثلاً دماغ کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ہمارے جسمانی وزن کے لحاظ سے دماغ کا وزن صرف دو فی صد ہے۔ لیکن پورے جسم کو جتنا خون درکار ہوتا ہے، اس کا 14 فی صد دماغ کو مطلوب ہوتا ہے اور آکسیجن کی جو مقدار دماغ کو درکار ہوتی ہے وہ پورے جسم کو درکار آکسیجن کا 30فی صد ہوتی ہے، اسی لیے جب جسم میں شکر اور آکسیجن میں کمی ہونے لگے تو اس کمی کو سب سے پہلے دماغ محسوس کرتا ہے اور وہ فوراً پورے جسم میں یہ پیغام بھیج دیتا ہے کہ شکر اور آکسیجن کے ذخیرے میں کمی ہو رہی ہے۔
اعضا اپنا خرچ کم کرکے دماغ کی طرف شکر اور آکسیجن جانے دیں۔ چنانچہ اعضا میں شکر اور آکسیجن کی مقدار معمول سے کم ہوجائے تو جسم دکھنے لگتا ہے اور تھکن محسوس ہونے لگتی ہے۔ دراصل دماغ بے حد اہم عضو ہے۔ یہی تو سارے جسم کو ہدایات دے رہا ہے۔ اگر اسے مناسب مقدار میں شکر اور آکسیجن نہ ملتی رہے تو اسے مزید نقصان پہنچ جائے گا۔ اگر یہ سلسلہ آٹھ منٹ تک رک جائے تو دماغ کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لہٰذا ہر کام میں اعتدال ضروری ہے۔ کسی بھی چیز کی انتہا اچھی نہیں ہوتی۔
ہمارے دین کی یہی ہدایت ہے۔ جو لوگ غیر ضروری طور پر سوتے رہتے ہیں، وہ بھی تھکن کی شکایت کرتے ہیں۔ یہ تھکن، بے کاری، کاہلی اور بے مقصد زندگی گزارنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اسی طرح سخت محنت مشقت بھی ضرورت کے بغیر کرنا درست نہیں۔ موبائل یا کمپیوٹر پر زیادہ وقت گزارنے سے بھی ذہنی تھکن ہوجاتی ہے۔ دراصل آرام کی حالت میں ہمارے جسم کو فی منٹ ایک پیالی آکسیجن کی ضرورت پڑتی ہے۔
سخت محنت میں یہ ضرورت بڑھ کر23 لیٹر فی منٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ لیکن ہمارا جسم ایک وقت میں صرف 30 لیٹر فی منٹ آکسیجن ذخیرہ کرسکتا ہے، اسی لیے تھکن ہوجاتی ہے۔ گویا ہم اسی وقت تک محنت کرسکتے ہیں جب تک ہمارے جسم میں آکسیجن کا ذخیرہ ساتھ دے۔ متوازن و متناسب صحت بخش غذا کھانے والے جلد تھکن کا شکار نہیں ہوتے۔
دوستو! جب آپ کسی پکنک یا اسکول، کالج کے دوستوں اور اساتذہ کے ساتھ کہیں جاتے ہیں جہاں کئی میل پیدل چلنا پڑے تو تھکن ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ گھر آکر بہت سے بچے اتنے تھک کر سوتے ہیں کہ رات کا کھانا کھانے کے لیے جگانے پر بھی نہیں اٹھتے۔ اس کی وجہ تھکن ہوتی ہے جو بہت زیادہ پیدل چلنے یا زیادہ مشقت سے ہوتی ہے۔ لیکن بعض اوقات محنت مشقت کیے بغیر بھی بہت تھکن محسوس ہوتی ہے۔ در حقیقت تھکن کی ایک وجہ نہیں کئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔
آج کل ڈاکٹروں کے پاس آدھے سے زیادہ مریض، تھکن ہی کی شکایت لے کر آتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو احساس ہی نہیں کہ اس تھکن کا سبب وہ خود ہیں۔
یقیناً آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ ایسا کیوں ہے؟ ماہرین نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ تھکن کی بعض وجوہ تو عام ہیں یعنی زیادہ کام کرنا اور آرام نہ کرنا، لیکن کچھ ایسی وجوہ کا بھی علم ہوا ہے جن کی طرف پہلے کبھی کسی نے نہیں سوچا ہوگا۔ ان میں سے ایک بہت اہم وجہ ''نفرت'' ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کھیتوں میں کام کرنے سے اتنی تھکن نہیں ہوتی جتنی ایسے افراد کے ساتھ رہنے یا ساتھ کام کرنے سے ہوتی ہے جن سے آپ نفرت کرتے ہیں یا جن سے آپ کا مزاج نہیں ملتا اور روز روز جھگڑا ہوتا ہے یا دل میں ان کے خلاف سوچ ہوتی ہے۔
شاید آپ کو یہ بہت عجیب بات لگے، مگر یہ حقیقت ہے۔ دوستو! ہمارے دین نے آپس میں نفرت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ایک دوسرے کی ٹوہ میں رہنے ، دوسروں سے حسد کرنے، ان کے خلاف دل میں کینہ رکھنے سے بھی روکا ہے۔ ہم یہی کچھ کرکے ایک طرف تو بھاری گناہوں سے اپنا اعمال نامہ بھرتے ہیں اور دوسرے خود کو بھی تھکن میں مبتلا کرلیتے ہیں۔ دراصل اس تھکن کا تعلق اعصاب سے ہے۔ لہٰذا اپنے دوستوں اور ہم جماعتوں کے متعلق ہمیشہ اچھا سوچیں۔ شاید آپ میں سے کوئی دوست یہ سوچ رہا ہو کہ ''ہوائی جہاز کا سفر تو بہت آرام دہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی تھکن ہوجاتی ہے۔''
اس کی دو وجوہ ہیں۔ ہوائی جہاز کی اندرونی ہوا خشک ہوتی ہے۔ طویل فضائی سفر کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے۔ پھر لوگ اپنی سیٹوں پر جم کر بیٹھے رہتے ہیں۔ اس سے بھی عضلات تھک جاتے ہیں اور ان میں دوران خون معمول کے مطابق نہیں رہتا، سست ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے ایک تو پانی خوب پیا جائے اور دوران سفر سیٹ سے اٹھ کر چہل قدمی کرتے رہیں۔ لیکن یہ سب وجوہ تو ایک طرف، اگر کوئی شخص ناامیدی کا شکار ہوجائے یا اداس اور رنجیدہ رہنے لگے تو اس کو بھی تھکن محسوس ہونے لگے گی۔
دراصل تھکن چاہے محنت مشقت کی وجہ سے ہو یا پریشانی کی وجہ سے، دونوں صورتوں میں ہمارے جسم کا ردعمل یکساں ہوتا ہے۔ یہ دراصل خدا کی طرف سے ہماری حفاظت کا بہترین انتظام ہے بلکہ خود تھکن بھی خدا کی طرف سے ہمارے لیے ایک نعمت ہے۔ اگر ہمیں تھکن کا احساس نہ ہوتو ہمارے جسم میں شکر اور توانائی کے ذخیرے ختم ہوجائیں اور ہمیں پتا بھی نہ چلے۔ اس طرح تو جسم کے اہم حصوں مثلاً دماغ کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ہمارے جسمانی وزن کے لحاظ سے دماغ کا وزن صرف دو فی صد ہے۔ لیکن پورے جسم کو جتنا خون درکار ہوتا ہے، اس کا 14 فی صد دماغ کو مطلوب ہوتا ہے اور آکسیجن کی جو مقدار دماغ کو درکار ہوتی ہے وہ پورے جسم کو درکار آکسیجن کا 30فی صد ہوتی ہے، اسی لیے جب جسم میں شکر اور آکسیجن میں کمی ہونے لگے تو اس کمی کو سب سے پہلے دماغ محسوس کرتا ہے اور وہ فوراً پورے جسم میں یہ پیغام بھیج دیتا ہے کہ شکر اور آکسیجن کے ذخیرے میں کمی ہو رہی ہے۔
اعضا اپنا خرچ کم کرکے دماغ کی طرف شکر اور آکسیجن جانے دیں۔ چنانچہ اعضا میں شکر اور آکسیجن کی مقدار معمول سے کم ہوجائے تو جسم دکھنے لگتا ہے اور تھکن محسوس ہونے لگتی ہے۔ دراصل دماغ بے حد اہم عضو ہے۔ یہی تو سارے جسم کو ہدایات دے رہا ہے۔ اگر اسے مناسب مقدار میں شکر اور آکسیجن نہ ملتی رہے تو اسے مزید نقصان پہنچ جائے گا۔ اگر یہ سلسلہ آٹھ منٹ تک رک جائے تو دماغ کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لہٰذا ہر کام میں اعتدال ضروری ہے۔ کسی بھی چیز کی انتہا اچھی نہیں ہوتی۔
ہمارے دین کی یہی ہدایت ہے۔ جو لوگ غیر ضروری طور پر سوتے رہتے ہیں، وہ بھی تھکن کی شکایت کرتے ہیں۔ یہ تھکن، بے کاری، کاہلی اور بے مقصد زندگی گزارنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اسی طرح سخت محنت مشقت بھی ضرورت کے بغیر کرنا درست نہیں۔ موبائل یا کمپیوٹر پر زیادہ وقت گزارنے سے بھی ذہنی تھکن ہوجاتی ہے۔ دراصل آرام کی حالت میں ہمارے جسم کو فی منٹ ایک پیالی آکسیجن کی ضرورت پڑتی ہے۔
سخت محنت میں یہ ضرورت بڑھ کر23 لیٹر فی منٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ لیکن ہمارا جسم ایک وقت میں صرف 30 لیٹر فی منٹ آکسیجن ذخیرہ کرسکتا ہے، اسی لیے تھکن ہوجاتی ہے۔ گویا ہم اسی وقت تک محنت کرسکتے ہیں جب تک ہمارے جسم میں آکسیجن کا ذخیرہ ساتھ دے۔ متوازن و متناسب صحت بخش غذا کھانے والے جلد تھکن کا شکار نہیں ہوتے۔