میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
حکومت صرف شہر لاہور میں روزانہ 400 ٹن پھل اور سبزیوں کے فضلے سے کھاد بنا سکتی ہے
آزادی چوک فلائی اوور کا افتتاح ہوا، مینار پاکستان کے بالکل سامنے بین الاقوامی معیار کا فلائی اوور جس کے نیچے خوبصورت باغیچے، جن میں رنگ برنگے پھول کھل رہے تھے۔ افتتاح کے ساتھ ہی لاہوری اس خوبصورت فلائی اوور کے اوپر کھڑے ہوکر نیچے تھوکنے کا مقابلہ کرنے لگے، انتظامیہ کو مجبوراً فلائی اوور پر ''تھوکنا منع ہے'' کا بورڈ لگانا پڑا۔ چند ماہ بعد گریٹر اقبال پارک کا افتتاح کیا گیا، جس میں تمام تاریخی عمارات کو ایک ساتھ ملا دیا گیا۔ پی ایچ اے نے ایک خوبصورت نوٹ پارک کے مختلف مقامات پر لکھ کر لگا دیا، نوٹسز پر ''جس بیگ میں کھانے پینے کی اشیاء لے کر آئے ہیں، اسی بیگ میں بچ جانے والا سامان رکھنے میں شرم کیسی؟'' کی عبارت درج تھی۔ لاہوریوں نے بھی اس نصیحت پر خوب عمل کیا۔ مجال ہے کہ شہر میں آپ کو کہیں بھی پان کے نشانات یا گرد کی علامات نظر آئیں۔ لاہور اتنا خوبصورت ہوگیا کہ حقیقت میں پیرس کا گمان ہونے لگا۔ لیکن گزشتہ ایک ماہ سے میرے شہر کو تو نظر سی لگ گئی ہے۔ پوش علاقوں سے لے کر اندرون شہر تک، جہاں پان کے داغ دیکھنے کو آنکھیں ترس جاتیں تھیں، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر نظر آئے۔
پہلے تو میں پاک بھارت بدلتی صورتحال ہی کو دیکھ رہا تھا، سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ گندگی کے ڈھیر یہاں پر کیوں ہیں؟ بالآخر جب بدبو کے بھبھکے چھٹی منزل پر موجود میرے فلیٹ تک پہنچنا شروع ہوئے تو قصہ جاننے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ فلیٹ کے باہر پڑی ٹرالی گندگی سے بھر چکی تھی، جبکہ ٹرالی سے کئی گنا زیادہ کچرا اس کے اطراف میں پڑا ہوا تھا۔ چوکیدار سے پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ 20 دنوں سے کچرا اٹھانے کےلیے گاڑی نہیں آئی۔ اس دوران لوکل گورنمنٹ کے بیٹ رپورٹر سے رابطہ کیا، جن سے معلوم ہوا کہ یہ صرف میرے محلے کا حال ہی نہیں بلکہ پورے لاہور کا یہی منظر ہے۔ لاہور سے کچرا اٹھانے والی لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی دیوالیہ ہوگئی، شہر کا 60 فیصد حصہ کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہا ہے کیوں کہ ترک کمپنی البیراک کے ورکرز نے ہڑتال کرکے آپریشنل ورک بند کر رکھا ہے جس سے ساڑھے چار سو گاڑیوں کا پہیہ جام ہو گیا ہے جبکہ ڈرائیورز نے گاڑیاں چلانے سے معذرت کر لی ہے کیوں کہ ترک کمپنیوں البیراک اور اوزپاک کے ورکرز کو دو ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں۔
محکمہ فنانس پنجاب سے کمپنیز کو دو ارب روپے کی ادائیگیاں نہ کی جاسکیں۔
ورکرز کی جانب سے 20 فروری کو ہڑتال کا الٹی میٹم دیا گیا تھا۔ ترک کنٹریکٹرز البیراک اور اوزپاک کی ڈیڑھ ارب کی ادائیگیاں بھی روک دی گئیں۔ البیراک کے پاس 180 جبکہ اوزپاک کے پاس 100 یونین کونسلز ہیں۔
لاہور کی گندگی پر مزید بات کرنے سے قبل شہر میں صفائی کے نظام کو سمجھنا ضروری ہے۔ لاہور کی مقامی حکومت نے شہر میں صفائی کا نظام بہتر بنانے کےلیے 19 مارچ 2010 کو کمپنی آرڈیننس 1984 کے سیکشن 42 کے تحت لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی بنیاد رکھی، جس کے ذمے 274 یونین کونسلز کی صفائی کا نظام تھا۔ کمپنی کے قیام سے قبل صفائی کی ذمہ داری سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور کے پاس تھی۔ 10600ملازمین، 500 گاڑیاں اور 6 ورکشاپس تھیں، 50 سیکنڈری کلیکشن پوائنٹس اور تین ڈمپنگ سائٹس تھیں۔ 90 لاکھ نفوس کی آبادی کے شہر سے روزانہ 4 ہزار ٹن کچرا اٹھایا جاتا تھا۔ لیکن اس نظام میں صرف ایک کمی تھی، اور وہ تھی مربوط سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کی۔ یعنی وہ نظام نہ تھا جس کے تحت زیرو ویسٹ اور زیرو انوائرمینٹل امپیکٹ کو یقینی بنایا جائے۔ اس مقصد کےلیے مارچ 2008 میں پہلا تجربہ، پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ بنا کر کیا گیا۔
40 ماہرین کی خدمات لی گئیں مگر 2010 میں اس یونٹ کو نامکمل چھوڑ کر لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی سمری وزیرِاعلیٰ کو بھیجی گئی، جنہوں نے چیف سیکرٹری، اسپیشل سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری قانون کی مخالفت کے باوجود سمری منظور کرلی۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے 26 دسمبر 2010 کو غیر ملکی کمپنی آئیس ٹیک کو کروڑوں روپے کے عوض 18 ماہ کےلیے کنسلٹنٹ مقرر کرلیا۔ 25 جون 2011 کو ساما نامی معاہدے کے تحت اربوں روپے کے وسائل سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے حوالے کردیئے۔ اسی دوران مزید دو کمپنیز کو شہر کا کوڑا اٹھانے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ ان کمپنیز کو 32 کروڑ ڈالر میں 7 سال کےلیے شہر کا کوڑا اٹھانے اور ٹھکانے لگا کر کوڑے کی ری سائیکلنگ سے پیسہ، کھاد اور بجلی بنانے کا ٹھیکہ دیا گیا مگر ان کمپنیوں نے ذمہ داریاں نباہنے کے بجائے وسائل اور افرادی قوت کی ذمہ داری بھی لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی پر ڈال دی۔
غیر ملکی کمپنیوں کے ذریعے قومی خزانے کو اس قدر لوٹا گیا کہ دو ارب میں ہونے والی صفائی 18 ارب روپے میں پڑنے لگی۔ اس ساری صورتحال کے باوجود لاہور شہر میں صفائی کا ایک مربوط نظام تھا، لیکن موجودہ حکومت نے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو فنڈز روک دیئے، جس کے باعث ترک کمپنیز اور دیگر اداروں کو بروقت ادائیگیاں نہیں ہوسکیں۔ کمپنیز نے اپنے ملازمین کوتنخواہیں نہیں دیں اور یوں پیرس کی گلیاں کچرے کے ڈھیرے میں بدل گئیں۔
شہر لاہور کی گلیاں کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہی ہیں لیکن پنجاب حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے مقامی حکومتوں کو اختیارات دینے کے بجائے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے، جس کے باعث میئر لاہور ہاتھ ملتے ہی رہے۔ موجودہ حکومت بھی خادم اعلیٰ کے نقش قدم پر گامزن ہے۔ میئر لاہور بڑے عہدے والا بے اختیار انسان ہے جو چپکے چپکے بزدار سرکار پر تنقید تو کررہے ہیں لیکن شاید انہیں علم نہیں کہ یہ ان ہی کے چہیتے خادم اعلیٰ کا کیا دھرا ہے جس کا خمیازہ اہل لاہور بھگت رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں پنجاب کے وزیر بلدیات عبدالعلیم خان نے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو دیئے گئے منصوبوں کے آڈٹ کا اعلان کیا تھا لیکن وہ خود ہی نیب کو پیارے ہوگئے۔ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ لاہور کی صفائی کا ٹھیکہ ایک کمپنی کودیا گیا اور ٹینڈرنگ نہیں کی گئی۔ اگر ٹینڈرنگ کی گئی ہوتی تو پھر یہ نہیں مانا جاسکتا کہ پوری دنیا سے صرف ایک ہی کمپنی آئی۔ اس منصوبے میں ٹینڈر غیر شفاف تھا، پنجاب حکومت صرف کوڑا اٹھانے کےلیے سالانہ اٹھارہ ارب روپے دیتی رہی۔ اس دوران انہوں نے جو مشینری بھی منگوائی یا خریدی، معاہدہ ختم ہوجانے کے بعد وہ ساری مشینری بھی لے جائیں گے۔ علیم خان کے مطابق ترکی کی من پسند کمپنی کو لاہور کی صفائی کا ٹھیکہ من پسند ریٹ پر دیا گیا اور ایک ہی من پسند کمپنی کا انتخاب کیا گیا۔
کچرے کو ری سائیکل کرکے پیسہ بچایا جاسکتا تھا لیکن ہر سال سارا بوجھ قومی خزانے پر ڈال دیا گیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر پوری دنیا میں سے صرف ایک کمپنی آئی تھی تو پھر یہ معاہدہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا، ہم سب سے پہلے اس منصوبے کا آڈٹ کروائیں گے۔
بزدار سرکار جس منصوبے کا آڈٹ کرانا چاہے ضرور کرائے، لیکن خدارا اپنے دعووں اور وعدوں کے مطابق مقامی حکومتوں کو بھی بااختیار بنائے۔ ملک بھر میں صفائی کا نظام قابل توجہ ہے، لیکن شہر لاہور جو پورے ملک کےلیے ایک مثال تھا، اس کے حال پر تو رحم کھائیے۔
یاد رکھیے کہ کوڑا جو بظاہر فالتو ہے، ہمارے لیے فائدہ مند بھی ہوسکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کچرا فروخت کرتے ہیں اور کوڑا اٹھانے والی کمپنیوں سے آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ نیویارک اور بیجنگ میں مقامی حکومتوں نے بالترتیب 412 ارب اور 1250 ارب روپے میں کچرا بیچا، مگر پاکستان میں غیر ملکی کمپنیوں نے 16 لاکھ ٹن کچرا تو اٹھایا مگر حکومت کو ایک پیسہ نہیں دیا۔ الٹا 5500 ٹن کوڑے کو 7500 ٹن ظاہر کرکے روزانہ 35 لاکھ روپے کا ٹیکہ بھی لگایا۔ 2007 میں کوڑا اٹھانے کے اخراجات یومیہ 40 لاکھ تھے جو اب 4 کروڑ سے تجاوز کر چکے ہیں۔
حکومت صرف شہر لاہور میں روزانہ 400 ٹن پھل اور سبزیوں کے فضلے سے کھاد بنا سکتی ہے۔ کوڑے سے بڑے پیمانے پر بجلی بھی تیار کی جاسکتی ہے۔ لیکن ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے کے مصداق، میں تو اپنے لاہور کو دوبار چھ ماہ پہلے والا شہر دیکھنے کو بے تاب ہوں مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پہلے تو میں پاک بھارت بدلتی صورتحال ہی کو دیکھ رہا تھا، سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ گندگی کے ڈھیر یہاں پر کیوں ہیں؟ بالآخر جب بدبو کے بھبھکے چھٹی منزل پر موجود میرے فلیٹ تک پہنچنا شروع ہوئے تو قصہ جاننے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ فلیٹ کے باہر پڑی ٹرالی گندگی سے بھر چکی تھی، جبکہ ٹرالی سے کئی گنا زیادہ کچرا اس کے اطراف میں پڑا ہوا تھا۔ چوکیدار سے پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ 20 دنوں سے کچرا اٹھانے کےلیے گاڑی نہیں آئی۔ اس دوران لوکل گورنمنٹ کے بیٹ رپورٹر سے رابطہ کیا، جن سے معلوم ہوا کہ یہ صرف میرے محلے کا حال ہی نہیں بلکہ پورے لاہور کا یہی منظر ہے۔ لاہور سے کچرا اٹھانے والی لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی دیوالیہ ہوگئی، شہر کا 60 فیصد حصہ کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہا ہے کیوں کہ ترک کمپنی البیراک کے ورکرز نے ہڑتال کرکے آپریشنل ورک بند کر رکھا ہے جس سے ساڑھے چار سو گاڑیوں کا پہیہ جام ہو گیا ہے جبکہ ڈرائیورز نے گاڑیاں چلانے سے معذرت کر لی ہے کیوں کہ ترک کمپنیوں البیراک اور اوزپاک کے ورکرز کو دو ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں۔
محکمہ فنانس پنجاب سے کمپنیز کو دو ارب روپے کی ادائیگیاں نہ کی جاسکیں۔
ورکرز کی جانب سے 20 فروری کو ہڑتال کا الٹی میٹم دیا گیا تھا۔ ترک کنٹریکٹرز البیراک اور اوزپاک کی ڈیڑھ ارب کی ادائیگیاں بھی روک دی گئیں۔ البیراک کے پاس 180 جبکہ اوزپاک کے پاس 100 یونین کونسلز ہیں۔
لاہور کی گندگی پر مزید بات کرنے سے قبل شہر میں صفائی کے نظام کو سمجھنا ضروری ہے۔ لاہور کی مقامی حکومت نے شہر میں صفائی کا نظام بہتر بنانے کےلیے 19 مارچ 2010 کو کمپنی آرڈیننس 1984 کے سیکشن 42 کے تحت لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی بنیاد رکھی، جس کے ذمے 274 یونین کونسلز کی صفائی کا نظام تھا۔ کمپنی کے قیام سے قبل صفائی کی ذمہ داری سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور کے پاس تھی۔ 10600ملازمین، 500 گاڑیاں اور 6 ورکشاپس تھیں، 50 سیکنڈری کلیکشن پوائنٹس اور تین ڈمپنگ سائٹس تھیں۔ 90 لاکھ نفوس کی آبادی کے شہر سے روزانہ 4 ہزار ٹن کچرا اٹھایا جاتا تھا۔ لیکن اس نظام میں صرف ایک کمی تھی، اور وہ تھی مربوط سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کی۔ یعنی وہ نظام نہ تھا جس کے تحت زیرو ویسٹ اور زیرو انوائرمینٹل امپیکٹ کو یقینی بنایا جائے۔ اس مقصد کےلیے مارچ 2008 میں پہلا تجربہ، پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ بنا کر کیا گیا۔
40 ماہرین کی خدمات لی گئیں مگر 2010 میں اس یونٹ کو نامکمل چھوڑ کر لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کی سمری وزیرِاعلیٰ کو بھیجی گئی، جنہوں نے چیف سیکرٹری، اسپیشل سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری قانون کی مخالفت کے باوجود سمری منظور کرلی۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے 26 دسمبر 2010 کو غیر ملکی کمپنی آئیس ٹیک کو کروڑوں روپے کے عوض 18 ماہ کےلیے کنسلٹنٹ مقرر کرلیا۔ 25 جون 2011 کو ساما نامی معاہدے کے تحت اربوں روپے کے وسائل سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے حوالے کردیئے۔ اسی دوران مزید دو کمپنیز کو شہر کا کوڑا اٹھانے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ ان کمپنیز کو 32 کروڑ ڈالر میں 7 سال کےلیے شہر کا کوڑا اٹھانے اور ٹھکانے لگا کر کوڑے کی ری سائیکلنگ سے پیسہ، کھاد اور بجلی بنانے کا ٹھیکہ دیا گیا مگر ان کمپنیوں نے ذمہ داریاں نباہنے کے بجائے وسائل اور افرادی قوت کی ذمہ داری بھی لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی پر ڈال دی۔
غیر ملکی کمپنیوں کے ذریعے قومی خزانے کو اس قدر لوٹا گیا کہ دو ارب میں ہونے والی صفائی 18 ارب روپے میں پڑنے لگی۔ اس ساری صورتحال کے باوجود لاہور شہر میں صفائی کا ایک مربوط نظام تھا، لیکن موجودہ حکومت نے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو فنڈز روک دیئے، جس کے باعث ترک کمپنیز اور دیگر اداروں کو بروقت ادائیگیاں نہیں ہوسکیں۔ کمپنیز نے اپنے ملازمین کوتنخواہیں نہیں دیں اور یوں پیرس کی گلیاں کچرے کے ڈھیرے میں بدل گئیں۔
شہر لاہور کی گلیاں کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہی ہیں لیکن پنجاب حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے مقامی حکومتوں کو اختیارات دینے کے بجائے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے، جس کے باعث میئر لاہور ہاتھ ملتے ہی رہے۔ موجودہ حکومت بھی خادم اعلیٰ کے نقش قدم پر گامزن ہے۔ میئر لاہور بڑے عہدے والا بے اختیار انسان ہے جو چپکے چپکے بزدار سرکار پر تنقید تو کررہے ہیں لیکن شاید انہیں علم نہیں کہ یہ ان ہی کے چہیتے خادم اعلیٰ کا کیا دھرا ہے جس کا خمیازہ اہل لاہور بھگت رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں پنجاب کے وزیر بلدیات عبدالعلیم خان نے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو دیئے گئے منصوبوں کے آڈٹ کا اعلان کیا تھا لیکن وہ خود ہی نیب کو پیارے ہوگئے۔ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ لاہور کی صفائی کا ٹھیکہ ایک کمپنی کودیا گیا اور ٹینڈرنگ نہیں کی گئی۔ اگر ٹینڈرنگ کی گئی ہوتی تو پھر یہ نہیں مانا جاسکتا کہ پوری دنیا سے صرف ایک ہی کمپنی آئی۔ اس منصوبے میں ٹینڈر غیر شفاف تھا، پنجاب حکومت صرف کوڑا اٹھانے کےلیے سالانہ اٹھارہ ارب روپے دیتی رہی۔ اس دوران انہوں نے جو مشینری بھی منگوائی یا خریدی، معاہدہ ختم ہوجانے کے بعد وہ ساری مشینری بھی لے جائیں گے۔ علیم خان کے مطابق ترکی کی من پسند کمپنی کو لاہور کی صفائی کا ٹھیکہ من پسند ریٹ پر دیا گیا اور ایک ہی من پسند کمپنی کا انتخاب کیا گیا۔
کچرے کو ری سائیکل کرکے پیسہ بچایا جاسکتا تھا لیکن ہر سال سارا بوجھ قومی خزانے پر ڈال دیا گیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر پوری دنیا میں سے صرف ایک کمپنی آئی تھی تو پھر یہ معاہدہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا، ہم سب سے پہلے اس منصوبے کا آڈٹ کروائیں گے۔
بزدار سرکار جس منصوبے کا آڈٹ کرانا چاہے ضرور کرائے، لیکن خدارا اپنے دعووں اور وعدوں کے مطابق مقامی حکومتوں کو بھی بااختیار بنائے۔ ملک بھر میں صفائی کا نظام قابل توجہ ہے، لیکن شہر لاہور جو پورے ملک کےلیے ایک مثال تھا، اس کے حال پر تو رحم کھائیے۔
یاد رکھیے کہ کوڑا جو بظاہر فالتو ہے، ہمارے لیے فائدہ مند بھی ہوسکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کچرا فروخت کرتے ہیں اور کوڑا اٹھانے والی کمپنیوں سے آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ نیویارک اور بیجنگ میں مقامی حکومتوں نے بالترتیب 412 ارب اور 1250 ارب روپے میں کچرا بیچا، مگر پاکستان میں غیر ملکی کمپنیوں نے 16 لاکھ ٹن کچرا تو اٹھایا مگر حکومت کو ایک پیسہ نہیں دیا۔ الٹا 5500 ٹن کوڑے کو 7500 ٹن ظاہر کرکے روزانہ 35 لاکھ روپے کا ٹیکہ بھی لگایا۔ 2007 میں کوڑا اٹھانے کے اخراجات یومیہ 40 لاکھ تھے جو اب 4 کروڑ سے تجاوز کر چکے ہیں۔
حکومت صرف شہر لاہور میں روزانہ 400 ٹن پھل اور سبزیوں کے فضلے سے کھاد بنا سکتی ہے۔ کوڑے سے بڑے پیمانے پر بجلی بھی تیار کی جاسکتی ہے۔ لیکن ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے کے مصداق، میں تو اپنے لاہور کو دوبار چھ ماہ پہلے والا شہر دیکھنے کو بے تاب ہوں مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔