معاشی چیلنجز قابل توجہ ہیں
ٹاسک فورس نے پاکستان پر مزید 3شرائط عائد کی ہیں جب کہ بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے 15 شرائط تھیں۔
پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں قوم کو سر ِآئینہ ملکی دفاع کے ناقابل تسخیر ہونے کے ٹھوس شواہد مہیا کیے، بھارت کو فضائی اور بھری محاذوں پر ہزیمت اٹھانا پڑی، اور دنیا نے پاکستان کے امن پسندی کی پیش رفت اور عملی پیغام کو نہ صرف سراہا بلکہ بھارت نے برصغیر کی معاصرانہ تاریخ میں پہلی بار اپنی جنجگویانہ پالیسیوں کے باب میں پاکستان کے مقابلہ میں سیاسی عسکری اور سفارتی سطح پر نہ صرف شکست کھائی بلکہ اب کشیدگی کے خاتمہ کی اولین ذمے داری بھی اس پر عائد ہونے لگی ہے۔
تاہم پسِ ِآئینہ بنیادی پیراڈائم شفٹ کی جب بات کی جائے تو ملکی معیشت کو بھی دوطرفہ کشیدگی کے منفی اثرات ومضمرات سے محفوظ رکھنے کی حکمت عملی کامیاب رہی، حکومت بلاشبہ مختلف النوع مسائل سے دوچار رہی اور عوام کو کوئی واضح اور شفاف اقتصادی روڈ میپ نہیں دیا جا سکا جسے پاک بھارت ممکنہ جنگ کے سنگین خطرات یا بعد از جنگ پیدا ہونیوالے معاشی مصائب اور عوامی مشکلات کے پیش نظر اسپیڈ بریکر کے طور پر کام میں لایا جا سکے، حقیقت میں یہ وہ معاشی پہلو تھا جسے بھارت جاری کشیدگی میں بطور لیور استعمال کرنے کی انتہائی کوشش میں مصروف رہا ہو گا کیونکہ جنگ کسی بھی ملکی معیشت کا پہیہ جام کر سکتی ہے۔
یہ خوش آیند بات ہے کہ پاکستان کو چند روزہ عسکری آزمائشں میں کسی بڑے معاشی بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑا مگر یہ انتباہ ملا ہے کہ اس سمت ارباب اختیار اپنی توجہ مرکوز رکھیں ۔ایک کمزور اوراستقامت کی ضرورت سے دوچار معیشت جنگی دباؤ کا زیادہ دیر تک سامنا نہیں کر سکتی۔ لہذا حکومت کو اپنی کامیابیوں کے سیاق و سباق میں ملکی معیشت کو در پیش چیلنجوں سے نمٹنے میں بھی اسی سطح کی جنگی، مالیاتی اور سفارتی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا پڑیگا۔
وزیراعظم عمران خان نے کچھ روز قبل کہا تھا کہ حکومت ملک میں سرمایہ کاروں کے لیے سازگار اور کاروبار دوست ماحول فراہم کرنے کو اولین ترجیح دیتی ہے، وزیراعظم عمران خان نے ملک کی پہلی قومی ٹیرف پالیسی کی اصولی منظوری دیدی، پالیسی کا مقصد ٹیرف نظام کے پورے ڈھانچے میں شفافیت، پیشگوئی کو یقینی بنانا اور اسے ادارہ جاتی شکل دینا ہے، وزیراعظم کا منظور کردہ مسودہ پالیسی غور کے لیے وفاقی کابینہ کے روبرو پیش کیا جائے گا۔
وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں سیکریٹری تجارت محمد یونس ڈھاگہ نے پالیسی کے نمایاں خدوخال پر روشنی ڈالی جب کہ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ معیشت بالخصوص تجارت اور صنعتی ترقی کو ماضی میں ایڈہاک ازم اور ٹیرف ڈھانچے کی پیشگوئی نہ ہونے کی وجہ سے بہت نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں معیشت کو مفاد پرست عناصر اور بڑے پیمانے پر بدعنوانی نے جکڑ لیا۔
اسی دوران وزیراعظم نے تاجر برادری سے رابطے تیز کیے اور معیشت کی بحالی، سرمایہ کاری، بیروزگاری کے خاتمہ اور صنعتی ترقی و برآمدات میں اضافہ کی تجاویز مانگیں، وزیراعظم نے ٹیکس وصولی میں اہم متعلقہ ادارے میں اصلاحات کے نکات پر گفتگو کی اور متبادل کے طور پر ایک نئی ریونیوجنریشن اتھارٹی کے قیام کا عندیہ بھی دیا۔ اس اقدام کی اہمیت وزیراعظم کے اس استدلال پر تھی کہ بغیر ٹیکس وصولی کے کون سی ریاست قائم رہ سکتی یا امور مملکت انجام دے سکتی ہے۔
گذشتہ جمعرات کو راولپنڈی چیمرز صدور کے ساتھ اپنی نشست میں وزیراعظم معیشت ، تجارت اور ٹیکس دہندگان سے دوستانہ ماحول میں ریکوری میں بحران پر افسردہ تھے، یہی مسئلہ کراچی چیمبر کے اراکین سے بھی انھوں نے شیئر کیا جس کے جواب میں کراچی چیمبر کے صدر جنید اسماعیل ماکڈا نے انھیں ٹیکس سسٹم میں تاجر دوست اصلاحات کی تجاویز دیں ، میڈیا کے مطابق حکومت چیمبر کی جانب سے ایک نئی ایمنسٹی اسکیم پر بھی غور کرنے کے لیے تیار ہے، تاجر برادی لفظ ''ایمنسٹی'' کی جگہ کوئی دوسری مناسب اصطلاح متعارف کرانا چاہتی ہے۔
اگر حکومت صنعتکار اور تاجر برادری کی قابل عمل سفارشات کی روشنی میں پیش رفت کرتی ہے اور پیداشدہ سیمابی صورتحال میں معاشی ترجیحات اور عوام کو ملنے والی مراعات اور جمہوری ثمرات کی فراہمی کا میکانزم تیار کرنے کا پختہ ارادہ رکھتی ہے تو پھر یقین کیا جاسکتا ہے کہ ملک کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت کا مظاہرہ کریگی۔ حکومت کے سامنے دوسرا اہم مرحلہ فنانشل ایکش ٹاسک فورس کا ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق ٹاسک فورس نے پاکستان پر مزید 3شرائط عائد کی ہیں جب کہ بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے 15 شرائط تھیں،ان شرائط میں دہشتگردوں کی مالی معاونت سے متعلق پاکستان کے اقدامات پر نظر ثانی، کرنسی اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالہ سے نقدی لانے اور لے جانے والوں پر بہتر ہوتی ہوئی ایف آئی اے کی کسٹمز رپورٹ اوروفاقی و صوبائی سطح پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان باہمی روابط کا جائزہ لینے کے نکات شامل ہیں۔
معاشی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو 19 مئی تک فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائظ پر مکمل عملدرآمد کرتے ہوئے انھیں قائل کرنا پڑیگا تاکہ پاکستان بلیک لسٹ سے بچ سکے ۔
تاہم پسِ ِآئینہ بنیادی پیراڈائم شفٹ کی جب بات کی جائے تو ملکی معیشت کو بھی دوطرفہ کشیدگی کے منفی اثرات ومضمرات سے محفوظ رکھنے کی حکمت عملی کامیاب رہی، حکومت بلاشبہ مختلف النوع مسائل سے دوچار رہی اور عوام کو کوئی واضح اور شفاف اقتصادی روڈ میپ نہیں دیا جا سکا جسے پاک بھارت ممکنہ جنگ کے سنگین خطرات یا بعد از جنگ پیدا ہونیوالے معاشی مصائب اور عوامی مشکلات کے پیش نظر اسپیڈ بریکر کے طور پر کام میں لایا جا سکے، حقیقت میں یہ وہ معاشی پہلو تھا جسے بھارت جاری کشیدگی میں بطور لیور استعمال کرنے کی انتہائی کوشش میں مصروف رہا ہو گا کیونکہ جنگ کسی بھی ملکی معیشت کا پہیہ جام کر سکتی ہے۔
یہ خوش آیند بات ہے کہ پاکستان کو چند روزہ عسکری آزمائشں میں کسی بڑے معاشی بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑا مگر یہ انتباہ ملا ہے کہ اس سمت ارباب اختیار اپنی توجہ مرکوز رکھیں ۔ایک کمزور اوراستقامت کی ضرورت سے دوچار معیشت جنگی دباؤ کا زیادہ دیر تک سامنا نہیں کر سکتی۔ لہذا حکومت کو اپنی کامیابیوں کے سیاق و سباق میں ملکی معیشت کو در پیش چیلنجوں سے نمٹنے میں بھی اسی سطح کی جنگی، مالیاتی اور سفارتی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا پڑیگا۔
وزیراعظم عمران خان نے کچھ روز قبل کہا تھا کہ حکومت ملک میں سرمایہ کاروں کے لیے سازگار اور کاروبار دوست ماحول فراہم کرنے کو اولین ترجیح دیتی ہے، وزیراعظم عمران خان نے ملک کی پہلی قومی ٹیرف پالیسی کی اصولی منظوری دیدی، پالیسی کا مقصد ٹیرف نظام کے پورے ڈھانچے میں شفافیت، پیشگوئی کو یقینی بنانا اور اسے ادارہ جاتی شکل دینا ہے، وزیراعظم کا منظور کردہ مسودہ پالیسی غور کے لیے وفاقی کابینہ کے روبرو پیش کیا جائے گا۔
وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں سیکریٹری تجارت محمد یونس ڈھاگہ نے پالیسی کے نمایاں خدوخال پر روشنی ڈالی جب کہ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ معیشت بالخصوص تجارت اور صنعتی ترقی کو ماضی میں ایڈہاک ازم اور ٹیرف ڈھانچے کی پیشگوئی نہ ہونے کی وجہ سے بہت نقصان پہنچا جس کے نتیجے میں معیشت کو مفاد پرست عناصر اور بڑے پیمانے پر بدعنوانی نے جکڑ لیا۔
اسی دوران وزیراعظم نے تاجر برادری سے رابطے تیز کیے اور معیشت کی بحالی، سرمایہ کاری، بیروزگاری کے خاتمہ اور صنعتی ترقی و برآمدات میں اضافہ کی تجاویز مانگیں، وزیراعظم نے ٹیکس وصولی میں اہم متعلقہ ادارے میں اصلاحات کے نکات پر گفتگو کی اور متبادل کے طور پر ایک نئی ریونیوجنریشن اتھارٹی کے قیام کا عندیہ بھی دیا۔ اس اقدام کی اہمیت وزیراعظم کے اس استدلال پر تھی کہ بغیر ٹیکس وصولی کے کون سی ریاست قائم رہ سکتی یا امور مملکت انجام دے سکتی ہے۔
گذشتہ جمعرات کو راولپنڈی چیمرز صدور کے ساتھ اپنی نشست میں وزیراعظم معیشت ، تجارت اور ٹیکس دہندگان سے دوستانہ ماحول میں ریکوری میں بحران پر افسردہ تھے، یہی مسئلہ کراچی چیمبر کے اراکین سے بھی انھوں نے شیئر کیا جس کے جواب میں کراچی چیمبر کے صدر جنید اسماعیل ماکڈا نے انھیں ٹیکس سسٹم میں تاجر دوست اصلاحات کی تجاویز دیں ، میڈیا کے مطابق حکومت چیمبر کی جانب سے ایک نئی ایمنسٹی اسکیم پر بھی غور کرنے کے لیے تیار ہے، تاجر برادی لفظ ''ایمنسٹی'' کی جگہ کوئی دوسری مناسب اصطلاح متعارف کرانا چاہتی ہے۔
اگر حکومت صنعتکار اور تاجر برادری کی قابل عمل سفارشات کی روشنی میں پیش رفت کرتی ہے اور پیداشدہ سیمابی صورتحال میں معاشی ترجیحات اور عوام کو ملنے والی مراعات اور جمہوری ثمرات کی فراہمی کا میکانزم تیار کرنے کا پختہ ارادہ رکھتی ہے تو پھر یقین کیا جاسکتا ہے کہ ملک کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت کا مظاہرہ کریگی۔ حکومت کے سامنے دوسرا اہم مرحلہ فنانشل ایکش ٹاسک فورس کا ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق ٹاسک فورس نے پاکستان پر مزید 3شرائط عائد کی ہیں جب کہ بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے 15 شرائط تھیں،ان شرائط میں دہشتگردوں کی مالی معاونت سے متعلق پاکستان کے اقدامات پر نظر ثانی، کرنسی اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالہ سے نقدی لانے اور لے جانے والوں پر بہتر ہوتی ہوئی ایف آئی اے کی کسٹمز رپورٹ اوروفاقی و صوبائی سطح پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان باہمی روابط کا جائزہ لینے کے نکات شامل ہیں۔
معاشی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو 19 مئی تک فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائظ پر مکمل عملدرآمد کرتے ہوئے انھیں قائل کرنا پڑیگا تاکہ پاکستان بلیک لسٹ سے بچ سکے ۔