پاکستان اور بھارت کے درمیان ساہیوال نسل کی گائے پر عالمی جنگ

بھارت کی مقامی گائے کو پاکستانی گائے کے مقابلے میں عالمی سطح پر رجسٹر کرانے کے لیے درخواست

ساہیوال نسل کی گائے کی افزائش 1915 میں شروع ہوا تھا فوٹو: فائل

پاکستان اوربھارت کے مابین جہاں سرحدی اورسیاسی کشیدگی چل رہی ہے وہیں دونوں ملک پنجاب کی دھرتی سے تعلق رکھنی والی مخصوص گائے کی عالمی ادارے میں اپنے نام سے رجسٹریشن کروانے کے لئے بھی ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔

محکمہ لائیو اسٹاک پنجاب کئی برسوں کی محنت اور تحقیق کے بعد ساہیوال نسل کی گائے کی افزائش میں کامیاب ہوا ہے لیکن ابھی تک پاکستان میں سب سے زیادہ ددوھ دینے اور اپنی خوبصورتی کی بنا پر منفرد مقام رکھنے والی اس گائے کو عالمی سطح پر رجسٹرڈ نہیں کروایا جاسکا ہے۔ بھارت نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سرخ رنگت کی اپنی مقامی گائے کو پاکستانی گائے کے مقابلے میں رجسٹریشن کے لئے درخواست دی تھی جو مسترد کردی گئی ہے۔

لائیو اسٹاک پنجاب کے ترجمان ڈاکٹر آصف کے مطابق وہ یہ تو نہیں جانتے کہ بھارتی درخواست کو آئی پی او نے کن وجوہات کی بنا پرمسترد کیا تاہم یہ ضرور ہے کہ بھارتی گائے میں وہ خوبیاں نہیں تھیں جو پاکستان کی ساہیوال نسل کی گائے میں ہیں۔


ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر آصف نے کہا پاکستان اور بھارت میں پائی جانے والی سرخ رنگت والی ہر گائے ساہیوال نسل سے تعلق نہیں رکھتی۔ ساہیوال نسل کی گائے کی مخصوص خوبیاں ہیں اور 40 صفحات پر مشتمل یہ خوبیاں اور اس گائے کی خاص پہچان کی علامتیں ہیں جن کو کیٹل فارمنگ ایسوسی ایشن کی مشاورت سے منظور کرلیا گیا ہے اوراب یہ فہرست آئی پی او کو بھیجی جائے گی تاکہ عالمی سطح پر اس گائے کو رجسٹرڈ کروایا جاسکے۔

ساہیوال نسل کی گائے کی افزائش کا کام 1915 میں برطانوی دور حکومت میں شروع ہوا تھا، اس وقت کی برطانوی حکومت نے اس مقصد کے لئے ساہیوال کے علاقہ جسے اس وقت منٹگمری کا نام دیا گیا تھا وہاں کیٹل فارم بنایا اور مقامی زمیندار سردار جہانگیر خان وٹو کی خدمات حاصل کیں۔ مخصوص بریڈ کی تیاری کے لئے مقامی علاقوں سے گائیں حاصل کی گئیں اوران کے سیمنز میں تبدیلی کے بعد ایک نئی نسل کی گائے حاصل کی گئی جسے ساہیوال نسل کہا جاتا ہے۔

محکمہ لائیو اسٹاک پنجاب پرامید ہے کہ وہ ساہیوال نسل کی مخصوص گائے کو عالمی ادارے میں رجسٹرڈ کروانے میں کامیاب ہوجائے گا جس کے بعد اس گائے کی اہمیت اور بھی بڑھ جائیگی۔

واضح رہے کہ ماضی میں کئی ایسی مصنوعات ہیں جن کی کوالٹی اور بہترین پیداوار میں پاکستان بھارت سے بہت آگے ہیں لیکن سرکاری اداروں کی سستی اور نااہلی کی وجہ سے پاکستان اپنے اس سرمائے کو عالمی سطح پر رجسٹرڈ کروانے میں ناکام رہا ہے، سپر باسمتی چاول اس کی ایک بڑی مثال ہیں۔ پاکستان بہترین قسم کا سپر باسمتی چاول پیدا کرتا ہے لیکن بھارت نے عالمی سطح پر اس چاول کو اپنی پراڈکٹ کے طور پر رجسٹرڈ کروا رکھا ہے۔
Load Next Story