وزیراعظم پیر کو عدالت نہ جائیں اٹارنی جنرل کا مشورہ ایوان صدر میں اہم اجلاس

وزارت عظمیٰ کا منصب جج سے بڑا ہوتا ہے، وزیراعظم عدالت کو جوابدہ...

وزارت عظمیٰ کا منصب جج سے بڑا ہوتا ہے، وزیراعظم عدالت کو جوابدہ ہیں نہ انہیں حکم دیا جاسکتا ہے،سپریم کورٹ سوئس حکام کو خود خط کیوں نہیں لکھ دیتی۔ فوٹو: اے ایف پی

KARACHI:
اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا ہے کہ وزیراعظم کو 27اگست کوسپریم کورٹ میں پیش نہ ہونے کا مشورہ دیا ہے،وزیر اعظم کا منصب جج کے منصب سے بڑا ہوتاہے، صدر مملکت کے بعد ملک کا سب سے بڑا عہدہ وزیر اعظم کا ہوتا ہے،آئین کے تحت وزیر اعظم کسی عدالت کو جواب دہ نہیں اورنہ ہی کوئی عدالت وزیراعظم سے ان کی آئینی ذمے داریوں سے متعلق پوچھ سکتی ہے، اگر وزیراعظم سوئس حکام کو خط نہیں لکھتے تو سپریم کورٹ خود کیوں نہیں لکھ دیتی۔

سپریم کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم سپریم کورٹ میں حاضری کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں گے تاہم وہ ذاتی طور پر وزیراعظم کو عدالت میںپیش نہ ہونے کا مشورہ دیں گے،27 اگست کو کیا ہوگا یہ اسی دن دیکھیں گے۔ وزیراعظم کو استثنیٰ آئین نے دیا ہے اس کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں،این آر او کیس کا فیصلہ ناقابل عمل تھا اس لیے اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا،عدالتوں کو ایسے فیصلے نہیں کرنے چاہئیں جن پر عملدرآمد نہ ہوسکے۔


ایک سوال کے جواب پر اٹارنی جنرل نے کہا اگر وہ وزیراعظم ہوتے توعدالت کے بلانے پرپیش نہ ہوتے، انھوں نے کہا کہ سوئس عدالتوں کو خط لکھنا ضروری ہے تو عدالت خود کیوں نہیں لکھتی، وزیراعظم کا عہدہ ججز سے بہت اوپرہے، وہ عدالتوں کو جوابدہ نہیں ہیں، خط لکھنا وزیراعظم کا کام نہیں،عدالت اس معاملے میں انہیں کوئی حکم نہیں دے سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے پیش ہونے یا نہ ہونے سے متعلق فیصلہ ایک دوروزمیں ہوجائے گا تاہم وہ وزیراعظم کو عدالت میںپیش نہ ہونے کا مشورہ دیں گے،قانون کی نظرمیں سب برابرہیں توپھرسب کوعدالتوں میں بلایا جائے۔

آن لائن کے مطابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتیں جو کہتی ہیں کہتی رہیں حکومت نے خط لکھنے سے متعلق آئین کے مطابق عمل کرنا ہے ،وزیراعظم عدالت کو جوابدہ نہیں اور نہ ہی عدالتیں انہیں کوئی حکم دے سکتی ہیں۔واضح رہے کہ این آر او عملدر آمد کیس میں توہین عدالت کے الزام میں سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو 27اگست کو طلب کر رکھا ہے۔
Load Next Story