حقوق نسواں اور ہماری ذمے داریاں
کسی خاتون یا کسی لڑکی سے شادی کے سلسلے میں اس کی رضامندی لینا گویا توہین تصور کیا جاتا ہے
DENVER, COLORADO, US:
گوکہ خواتین کے حقوق کی بابت قوانین موجود ہیں مگر اس کے باوجود ان پر تمام قسم کا جبر آج بھی نہ صرف جاری ہے بلکہ ہر آنے والا دن گویا ان کے لیے جبرکے حوالے اضافہ ہی لے کر آتا ہے۔ کم عمری کی شادی کا قانون موجود ہے مگر کم عمری کی شادیاں ہو رہی ہیں ،گویا سر عام اس قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ۔کسی خاتون یا لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتی، قانون موجود ہے مگر پاکستان کے سماج میں اکثر یہی ہو رہا ہے کہ شادی سے قبل کسی خاتون یا کسی لڑکی سے شادی کے سلسلے میں اس کی رضامندی لینا گویا توہین تصور کیا جاتا ہے ۔
یہ قانون بھی گویا قانون کی کتاب میں درج کرنے کے لیے بنایا گیا تھا ۔ عمل درآمد کے لیے نہیں خواتین کے حقوق کی پامالی کی بابت بات کریں تو اعداد و شمار کچھ یوں سامنے آتے ہیں کہ 2016 میں انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان مانیٹرنگ کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں خواتین کے خلاف تشدد کے 2500 کیس درج ہوئے جن میں 1003 کیس جنسی تشدد کے تھے جب کہ گھریلو تشدد کے 138 کیس درج ہوئے۔ گھریلو تشدد سے مراد یہ کہ کسی بھی خاتون پر اس کے سسرال میں تشدد کیا جائے، یہ تشدد شوہر کرے ، ساس، سسرکریں ، نند یا شوہر کی بھاوجیں کریں یا کوئی اور سسرالی رشتے دار یہ تشدد کرے جب کہ کسی بھی خاتون پر اس کے والدین بھائی چاچا وغیرہ تشدد کریں ۔
اس قسم کا تشدد اس وقت جنم لیتا ہے جب اکثر جائیداد کی تقسیم کا معاملہ درپیش ہوتا ہے یوں بھی پاکستانی سماج میں خواتین کے وراثت میں حصے کا تصور نہیں پایا جاتا یہ بھی صداقت ہے کہ 2016 میں خواتین پر تیزاب گردی کا نشانہ بنانے اور نذر آتش کرنے کے کوئی ایک ہزارکیس رجسٹرڈ ہوئے جب کہ اغوا ہونے والی خواتین کی تعداد بھی ایک ہزار کے لگ بھگ تھی ۔
صرف سندھ صوبے میں غیرت کے نام پر بھی گویا یومیہ ایک خاتون کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ اس عمل کو'' کارو کاری'' کا نام دیا جاتا ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ اس طریقے سے قتل ہونے والی خواتین کے لیے نہ توکوئی اظہار افسوس کرتا ہے اور نہ ہی ایسی خواتین کے لیے دعائے خیر کی جاتی ہے۔
البتہ اس قسم کے قتل میں شریک افراد کو ضرور تھپکی دی جاتی ہے کہ واہ کیا غیرت کا کام کیا ہے۔ کاروکاری کا خود ساختہ قانون کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب کسی مرد و خاتون پر کاری کا الزام لگایا جاتا ہے اور ان حالات میں نام نہاد جرگہ تشکیل دیا جاتا ہے اور اس جرگے کے فیصلے سے دونوں افراد کو قتل کردیا جاتا ہے اور اگر فریقین کسی تصفیے کی جانب آتے ہیں تو اس کیفیت میں وہ مرد جس پر بدکاری کا الزام ہوتا ہے وہ مرد ایک مخصوص رقم جرمانے کی شکل میں اس خاتون کے شوہر یا اہل خانہ کو ادا کرتا ہے۔ یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ مختلف قبائل نے جرمانے کی رقم مختلف مقرر کر رکھی ہے۔
دو نامور قبائل جن میں ایک قبیلہ جوکہ سندھ و پنجاب تک پھیلا ہوا ہے جب کہ دوسرا نامور ترین قبیلہ مکمل طور پر بلوچستان میں آباد ہے وہ خاتون جس پر بدکاری کا الزام ہے اس خاتون کا تعلق اگر ان دونوں قبائل سے ہو تو پھر اس خاتون کے اہل خانہ کو چھ لاکھ پچاس ہزار روپے ادا کرنا ہوں گے۔ ایک اور نامور قبیلے نے ایسی کیفیت میں اگر خاتون کا تعلق اس قبیلے سے ہوتو پھر جرمانے کی رقم ایک لاکھ روپے ہے البتہ ایک مالی طور پر کمزور ترین برادری کی کسی خاتون کا معاملہ ہو تو جرمانے کی رقم ایک گدھی کی قیمت کے مساوی ہوتی ہے۔ بات اگر ذاتیات کی نہ ہوتی تو ہم ان قبائل کے نام بھی تحریر کردیتے مگر کسی کی ذاتیات پر گفتگو کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ جب کہ موجودہ وقت میں اس قسم کے جرائم میں 46.8 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے چنانچہ لازم ہے کہ خواتین کی بابت جو قوانین موجود ہیں ان قوانین پر مکمل عمل درآمد کرایا جائے۔
عمل درآمد ان قوانین پر بھی ضروری ہے جن میں خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق دینے کی ضمانت دی گئی ہے ،کیونکہ خواتین سماج میں عدم مساوات کا شکار ہیں، بالخصوص وہ خواتین جوکہ ملازمت پیشہ ہیں۔ ایسی خواتین سے کام تو پورے آٹھ گھنٹے لیا جاتا ہے اور مردوں کے مساوی سخت کام کروایا جاتا ہے مگر پوری اجرت نہیں دی جاتی جب کہ 80 فیصد گھریلو ملازمین خواتین پر مشتمل ہیں ۔ یہ وہ خواتین ہیں جوکہ تمام قسم کے حقوق سے محروم ہوتی ہیں اور ان گھریلو خواتین کے کام کے اوقات بھی لامحدود ہوتے ہیں۔ لازم ہے ایسے گھریلو ملازمین کو محنت کش تسلیم کیا جائے اور ان کے کام کے اوقات کار کا تعین کیا جائے تاکہ یہ گھریلو ملازمین اپنے کام کے لامحدود اوقات کار سے نجات پاسکیں۔ کثیر تعداد ان خواتین پر بھی مشتمل ہے جوکہ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں یہ خواتین بھی تمام حقوق سے محروم ہیں چنانچہ لازم ہے نہ صرف ہاری خواتین کے لیے بلکہ تمام ان محنت کشوں کے لیے ہاری عدالتیں قائم کی جائیں جیسے کہ مزدوروں کے لیے عدالتیں قائم ہیں کیونکہ افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ کوئی چار سے پانچ لاکھ خواتین نجی جیلوں میں اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ قید ہیں۔
چند ماہ قبل جرمنی سے تشریف لانے والی دو خواتین جوکہ سماجی کارکن تھیں اور مریم وکیتھران نے بتایا کہ جہاں تک کم اجرت کا سوال ہے تو جرمنی تک میں خواتین سے مردوں کے مساوی کام لیا جاتا ہے مگر اجرت پوری نہیں دی جاتی حالانکہ جرمنی میں ایک خاتون حکمران ہے، مگر خواتین کے خلاف اجرت میں عدم مساوات کو وہ بھی ختم نہ کروا سکیں ، جب جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک میں یہ کیفیت ہے تو پھر افریقہ، انڈیا، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا جیسے ممالک کی خواتین کے حقوق کے حوالے سے ذکر ہی کیا جب کہ یورپ وامریکا تک میں خواتین سے عدم مساوات کا یہ عالم ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین جس قدر سخت محنت کرکے جب گھر آئے تو کھانا تیار کرنے سے لے کر گھر کی صفائی و بچوں کی تعلیم و تربیت و دیگر تمام امور خاتون خانہ ہی کو ادا کرنے ہوتے ہیں چنانچہ ان حالات میں لازم ہے کہ خواتین بیدار ہوں اپنے حقوق و فرائض کی شناخت کریں، عملی طور پر پوری دنیا میں ایک مربوط تحریک کا آغاز کریں اور اپنے حقوق کے حصول تک جدوجہد جاری رکھیں۔
خوش آیند بات یہ ہے کہ خواتین کا ایک طبقہ بیدار ہو رہا ہے چنانچہ 8 مارچ 2019 کو یوں تو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ترقی نسواں کے طور پر منایا گیا اور پاکستانی خواتین اس دن کو اپنے حقوق کے حوالے سے منانے کی تیاریوں میں مصروف رہیں مگر اس سلسلے کی سب سے اہم تقریب ہشت نگر خیبر پختون خواہ میں منائی گئی، یہ پہلا موقع ہے کہ خیبر پختونخوا میں خواتین نے اپنے حقوق کے حوالے سے اس قسم کا اجتماع یا جلسہ کیا کیونکہ حقائق کے برعکس عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ پختون قوم خواتین کے معاملات میں تنگ نظر ہے البتہ ہشت نگر کے اس جلسہ نے ثابت کیا کہ پختون قوم تنگ نظر نہیں بلکہ کشادہ دل ہے ۔ اس جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ اس جلسے کے تمام انتظامی امور خواتین کے ہاتھوں میں رہے ، اس جلسے میں کثیر تعداد میں خواتین شریک ہوئیں اور خواتین مقررین کی تقاریر سماعت کیں۔ ہمارے خیال میں یہ تقریب خواتین میں بیداری کے حوالے سے ایک پرعزم آغاز ثابت ہوگی۔
گوکہ خواتین کے حقوق کی بابت قوانین موجود ہیں مگر اس کے باوجود ان پر تمام قسم کا جبر آج بھی نہ صرف جاری ہے بلکہ ہر آنے والا دن گویا ان کے لیے جبرکے حوالے اضافہ ہی لے کر آتا ہے۔ کم عمری کی شادی کا قانون موجود ہے مگر کم عمری کی شادیاں ہو رہی ہیں ،گویا سر عام اس قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ۔کسی خاتون یا لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتی، قانون موجود ہے مگر پاکستان کے سماج میں اکثر یہی ہو رہا ہے کہ شادی سے قبل کسی خاتون یا کسی لڑکی سے شادی کے سلسلے میں اس کی رضامندی لینا گویا توہین تصور کیا جاتا ہے ۔
یہ قانون بھی گویا قانون کی کتاب میں درج کرنے کے لیے بنایا گیا تھا ۔ عمل درآمد کے لیے نہیں خواتین کے حقوق کی پامالی کی بابت بات کریں تو اعداد و شمار کچھ یوں سامنے آتے ہیں کہ 2016 میں انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان مانیٹرنگ کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں خواتین کے خلاف تشدد کے 2500 کیس درج ہوئے جن میں 1003 کیس جنسی تشدد کے تھے جب کہ گھریلو تشدد کے 138 کیس درج ہوئے۔ گھریلو تشدد سے مراد یہ کہ کسی بھی خاتون پر اس کے سسرال میں تشدد کیا جائے، یہ تشدد شوہر کرے ، ساس، سسرکریں ، نند یا شوہر کی بھاوجیں کریں یا کوئی اور سسرالی رشتے دار یہ تشدد کرے جب کہ کسی بھی خاتون پر اس کے والدین بھائی چاچا وغیرہ تشدد کریں ۔
اس قسم کا تشدد اس وقت جنم لیتا ہے جب اکثر جائیداد کی تقسیم کا معاملہ درپیش ہوتا ہے یوں بھی پاکستانی سماج میں خواتین کے وراثت میں حصے کا تصور نہیں پایا جاتا یہ بھی صداقت ہے کہ 2016 میں خواتین پر تیزاب گردی کا نشانہ بنانے اور نذر آتش کرنے کے کوئی ایک ہزارکیس رجسٹرڈ ہوئے جب کہ اغوا ہونے والی خواتین کی تعداد بھی ایک ہزار کے لگ بھگ تھی ۔
صرف سندھ صوبے میں غیرت کے نام پر بھی گویا یومیہ ایک خاتون کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ اس عمل کو'' کارو کاری'' کا نام دیا جاتا ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ اس طریقے سے قتل ہونے والی خواتین کے لیے نہ توکوئی اظہار افسوس کرتا ہے اور نہ ہی ایسی خواتین کے لیے دعائے خیر کی جاتی ہے۔
البتہ اس قسم کے قتل میں شریک افراد کو ضرور تھپکی دی جاتی ہے کہ واہ کیا غیرت کا کام کیا ہے۔ کاروکاری کا خود ساختہ قانون کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب کسی مرد و خاتون پر کاری کا الزام لگایا جاتا ہے اور ان حالات میں نام نہاد جرگہ تشکیل دیا جاتا ہے اور اس جرگے کے فیصلے سے دونوں افراد کو قتل کردیا جاتا ہے اور اگر فریقین کسی تصفیے کی جانب آتے ہیں تو اس کیفیت میں وہ مرد جس پر بدکاری کا الزام ہوتا ہے وہ مرد ایک مخصوص رقم جرمانے کی شکل میں اس خاتون کے شوہر یا اہل خانہ کو ادا کرتا ہے۔ یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ مختلف قبائل نے جرمانے کی رقم مختلف مقرر کر رکھی ہے۔
دو نامور قبائل جن میں ایک قبیلہ جوکہ سندھ و پنجاب تک پھیلا ہوا ہے جب کہ دوسرا نامور ترین قبیلہ مکمل طور پر بلوچستان میں آباد ہے وہ خاتون جس پر بدکاری کا الزام ہے اس خاتون کا تعلق اگر ان دونوں قبائل سے ہو تو پھر اس خاتون کے اہل خانہ کو چھ لاکھ پچاس ہزار روپے ادا کرنا ہوں گے۔ ایک اور نامور قبیلے نے ایسی کیفیت میں اگر خاتون کا تعلق اس قبیلے سے ہوتو پھر جرمانے کی رقم ایک لاکھ روپے ہے البتہ ایک مالی طور پر کمزور ترین برادری کی کسی خاتون کا معاملہ ہو تو جرمانے کی رقم ایک گدھی کی قیمت کے مساوی ہوتی ہے۔ بات اگر ذاتیات کی نہ ہوتی تو ہم ان قبائل کے نام بھی تحریر کردیتے مگر کسی کی ذاتیات پر گفتگو کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ جب کہ موجودہ وقت میں اس قسم کے جرائم میں 46.8 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے چنانچہ لازم ہے کہ خواتین کی بابت جو قوانین موجود ہیں ان قوانین پر مکمل عمل درآمد کرایا جائے۔
عمل درآمد ان قوانین پر بھی ضروری ہے جن میں خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق دینے کی ضمانت دی گئی ہے ،کیونکہ خواتین سماج میں عدم مساوات کا شکار ہیں، بالخصوص وہ خواتین جوکہ ملازمت پیشہ ہیں۔ ایسی خواتین سے کام تو پورے آٹھ گھنٹے لیا جاتا ہے اور مردوں کے مساوی سخت کام کروایا جاتا ہے مگر پوری اجرت نہیں دی جاتی جب کہ 80 فیصد گھریلو ملازمین خواتین پر مشتمل ہیں ۔ یہ وہ خواتین ہیں جوکہ تمام قسم کے حقوق سے محروم ہوتی ہیں اور ان گھریلو خواتین کے کام کے اوقات بھی لامحدود ہوتے ہیں۔ لازم ہے ایسے گھریلو ملازمین کو محنت کش تسلیم کیا جائے اور ان کے کام کے اوقات کار کا تعین کیا جائے تاکہ یہ گھریلو ملازمین اپنے کام کے لامحدود اوقات کار سے نجات پاسکیں۔ کثیر تعداد ان خواتین پر بھی مشتمل ہے جوکہ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں یہ خواتین بھی تمام حقوق سے محروم ہیں چنانچہ لازم ہے نہ صرف ہاری خواتین کے لیے بلکہ تمام ان محنت کشوں کے لیے ہاری عدالتیں قائم کی جائیں جیسے کہ مزدوروں کے لیے عدالتیں قائم ہیں کیونکہ افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ کوئی چار سے پانچ لاکھ خواتین نجی جیلوں میں اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ قید ہیں۔
چند ماہ قبل جرمنی سے تشریف لانے والی دو خواتین جوکہ سماجی کارکن تھیں اور مریم وکیتھران نے بتایا کہ جہاں تک کم اجرت کا سوال ہے تو جرمنی تک میں خواتین سے مردوں کے مساوی کام لیا جاتا ہے مگر اجرت پوری نہیں دی جاتی حالانکہ جرمنی میں ایک خاتون حکمران ہے، مگر خواتین کے خلاف اجرت میں عدم مساوات کو وہ بھی ختم نہ کروا سکیں ، جب جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک میں یہ کیفیت ہے تو پھر افریقہ، انڈیا، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا جیسے ممالک کی خواتین کے حقوق کے حوالے سے ذکر ہی کیا جب کہ یورپ وامریکا تک میں خواتین سے عدم مساوات کا یہ عالم ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین جس قدر سخت محنت کرکے جب گھر آئے تو کھانا تیار کرنے سے لے کر گھر کی صفائی و بچوں کی تعلیم و تربیت و دیگر تمام امور خاتون خانہ ہی کو ادا کرنے ہوتے ہیں چنانچہ ان حالات میں لازم ہے کہ خواتین بیدار ہوں اپنے حقوق و فرائض کی شناخت کریں، عملی طور پر پوری دنیا میں ایک مربوط تحریک کا آغاز کریں اور اپنے حقوق کے حصول تک جدوجہد جاری رکھیں۔
خوش آیند بات یہ ہے کہ خواتین کا ایک طبقہ بیدار ہو رہا ہے چنانچہ 8 مارچ 2019 کو یوں تو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ترقی نسواں کے طور پر منایا گیا اور پاکستانی خواتین اس دن کو اپنے حقوق کے حوالے سے منانے کی تیاریوں میں مصروف رہیں مگر اس سلسلے کی سب سے اہم تقریب ہشت نگر خیبر پختون خواہ میں منائی گئی، یہ پہلا موقع ہے کہ خیبر پختونخوا میں خواتین نے اپنے حقوق کے حوالے سے اس قسم کا اجتماع یا جلسہ کیا کیونکہ حقائق کے برعکس عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ پختون قوم خواتین کے معاملات میں تنگ نظر ہے البتہ ہشت نگر کے اس جلسہ نے ثابت کیا کہ پختون قوم تنگ نظر نہیں بلکہ کشادہ دل ہے ۔ اس جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ اس جلسے کے تمام انتظامی امور خواتین کے ہاتھوں میں رہے ، اس جلسے میں کثیر تعداد میں خواتین شریک ہوئیں اور خواتین مقررین کی تقاریر سماعت کیں۔ ہمارے خیال میں یہ تقریب خواتین میں بیداری کے حوالے سے ایک پرعزم آغاز ثابت ہوگی۔