چائے والے دادا
چالاک لومڑی کی طرح وہ ایک بار پھر دوسرے انداز سے چال چلنے کی سوچ سکتے ہیں
''میرا بوتھ سب سے مضبوط'' یہ نعرہ نریندر مودی نے غلط وقت پر بلند کیا ، ایسے حالات بھی انھوں نے ہی پیدا کیے کہ جس کے تحت پلوامہ میں چالیس سے زائد ان کے اپنے جوان جانوں سے گئے اور انتہائی بھونڈے انداز میں انھوں نے خود کو امریکا جیسی سپرپاور سمجھتے ہوئے ایک احمقانہ چال چلی۔ جس وقت کا انتخاب کیا گیا وہ رات کے ساڑھے تین سے سوا تین بجے (انڈین وقت کے مطابق) کیا گیا کیونکہ دن کی روشنی میں تو شیر ہی نکلا کرتے ہیں اورگیدڑ رات کے سناٹوں میں اپنی چیخیں بلند کرتے ہیں ۔
اس حملے کے نتیجے میں بقول انڈین میڈیا کے پاکستانی افواج کے اسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں، ایک تحریک نہیں تو لہر ضرور چل پڑی ہے بھارت میں پاکستان کے خلاف لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ساری حب الوطنی، وطن کی مٹی کو چومنے والے، مقدس ماں کا درجہ دینے والوں کی ، ایک نقطے پر جاکر دم توڑ دیتی ہے اور وہ عظیم نقطہ ہے الیکشن۔ نریندر مودی نے پوری فلم کی کہانی کاغذ پر تحریر کرکے رکھی ہے جس کی شروعات کے لیے انھوں نے کشمیر میں پلوامہ کے مقام کو چنا کیونکہ اس کشمیر کہانی سے جہاں بھارتی افواج اور سرکار کی ہٹ دھرمی، ظلم و بربریت کی داستان اٹھتی ہے۔
اسے دنیا بھر میں مظلوم دکھانے کے لیے کسی کی قربانی تو دینی ہی تھی اور اس پارٹ میں جو لوگ بکرا بنے ان کے خون کو کیش کروانے کے لیے چائے والے دادا نے ایک بار پھر سے اپنا ہوٹل کھول لیا لیکن اپوزیشن ان کی اس چال کو بخوبی سمجھتی ہے کہ الیکشن سے محض سوا ڈیڑھ مہینے پہلے اتنے بڑے ڈرامے کو کیسے رچایا گیا؟ جس جوش و جذبے کو انڈین میڈیا ابھارنے میں جتا ہوا ہے وہ ہے پاکستان مخالفت کی آڑ میں عظیم نریندر مودی کی الیکشن کی مہم۔ جسے مودی جیسا گھاگ انسان ہر حال میں جیتنا چاہتا ہے۔ یہ اس کے اندر کی شیطانیت ہی ہے، جو اسے ہر طرح کی جنگ سے گزر کر بھی وزارت کی کرسی کی جانب کشش کر رہی ہے گو کہ بزرگوار کی اپنی عمر بھی اب ساتھ چھوڑنے پر مصر ہے پر دادا جی اپنے ہی جوانوں کو قربانی کا بکرا بنانے میں بھی عذر محسوس نہیں کر رہے۔ اس وقت ان کے عوام بھی مقدس گائے کی مانند ان کے پیچھے سر ہلا رہی ہے اور سچ بولنے والے اور سمجھانے والوں کو گدار (غدار) قرار دیا جا رہا ہے جو سوائے الیکشن مہم کے اور کچھ بھی نہیں۔
اپوزیشن والوں کا کہنا بھی غلط نہیں ہے کیونکہ پلوامہ میں جب ان کے فوجی جوانوں کو نشانہ بنایا گیا تو اس کے بعد بھی مودی جی اپنی ووٹ دو کی مہم سے باہر نہیں نکلے تھے اور بقول اپوزیشن کے پاکستان کے حملے کے وقت بھی وہ اپنا الیکشن بوتھ مضبوط کرنے کے چکر میں متحرک تھے۔گویا انھیں اپنی الیکشن مہم کو کامیاب بنانے سے غرض ہے اس کے لیے میڈیا کے اینکر پرسنز کو اس طرح بریفنگ کی گئی ہے کہ وہ مودی جی کو مہاتما گاندھی کی طرح پورٹرے کرنے پر جتے ہوئے ہیں۔
گو پلوامہ حملے کے ذمے دار (ان کے اپنے میڈیا کے مطابق) جس نوجوان نے اقرار کرتے جس دردناک ماضی کو بیان کیا وہ کسی ایک کشمیری بچے یا جوان کا معاملہ نہ تھا۔ شروع میں اس معاملے کی گرم گرم خبریں چلیں اور سارا زور کہانی میں پاکستان میں موجود جیش محمد کے اس دہشتگردی کے اڈے پر آکر ٹوٹا جس میں پاکستانی حکومت بھی انوالو ہے اس کہانی کو سنتے اس طرح خلیجی مناظر بھی دکھائے جاتے رہے کہ بھارتی عوام (جس طرح کے ان کے دماغوں کو فلمی پسندیدگی کے لحاظ سے بنادیا گیا ہے) ان فلمی مناظر کو بھی سچ سمجھتے رہے نہ صرف یہ بلکہ ہمارے سیاسی ماہرین اور سابق حکمرانوں کی ایسی ایسی کلپنگز چلاتے رہے کہ جس سے یہ ہی محسوس ہوتا رہا کہ ہمارے اپنے لوگ پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں بہت بڑی طاقت قرار دے رہے ہیں اور پاکستان کو بھارتی افواج اور ایٹم بمزکے گیتوں سے دھمکا رہے ہیں۔
بقول کچھ بھارتی ماہرین کے جب امریکا پاکستان میں ایبٹ آباد میں چپکے سے گھس کر اسامہ بن لادن کو مار سکتا ہے تو پھر ہم کیوں نہیں۔ ہر طرح سے پاکستان کو زک پہنچا کر اسے نفسیاتی طور پر جنگ کرنے پر آمادہ کیا جا رہا ہے تاکہ مودی کی حکومت میں کہانی میں ایسا ٹرننگ پوائنٹ آئے کہ بھارتی عوام چاہتے یا نہ چاہتے بھی موجودہ سرکار کو کامیاب کرا کر الیکشن میں ایسی صورتحال لے آئے کہ مزید 5سال میں مودی پیسہ پسار کر وقت گزارے اس لیے کہ اس کے آگے کے مزید پانچ سال بھارت کو کس صورتحال میں لے جاکر چھوڑتے ہیں۔
ہماری حکومت کو بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو اپنی حراست میں رکھ کر کیا کرلینا تھا کیونکہ ابھی نے وہی کیا جو اس کے اپنے سینئرز نے کرنے کو کہا ہوگا اور انکارکی صورت میں تو اس کا کورٹ مارشل ہی ہونا تھا ہاں البتہ کلبھوشن کو بھارت کے حوالے کردینا ہماری حکومت کا کیسا عمل تھا یہ ہماری سمجھ سے قاصر ہے جو شخص باقاعدہ جاسوسی کرنے اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں براہ راست دہشتگردی کی وارداتوں میں ملوث تھا جس نے اقرار کیا تھا کہ وہ اسلامی نام رکھ کر یہ سارے گھناؤنے کام کرتا رہا تھا۔
بہرحال یہ سیاسی اٹھک بیٹھک ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی نندن کو رہا کرنے پر جب ساری دنیا کی نظریں پاکستان اور بھارت کے بارڈر پر ٹکی تھیں اس وقت یہی تاثر ابھرتا ہے کہ پاکستان نے فراغ دلی سے ایک در اندازی کرنیوالے دہشتگرد بھارتی پائلٹ کو پرامن حالات کی خاطر اسے رہا کردیا جس سے پاکستان کا امیج واضح ہوا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت اب ابھی نندن کی واپسی کو احمقانہ دلائل سے درست ثابت کرنے کے لیے بڑھکیں مار رہی ہے کہ پاکستانی سرکار ان کی خطرناک فوج اور بھارت کی طاقت سے ڈر کر دنیا میں تنہا ہونے کے خوف سے نکلنے کی خاطر اس اقدام کو اٹھانے پر مجبور ہوئی ہے گو اب یہ کھیر ذرا ٹیڑھی ہوگئی ہے لیکن مودی سرکار کو اسے سیدھا کرنے میں ذرا وقت لگے گا۔
چالاک لومڑی کی طرح وہ ایک بار پھر دوسرے انداز سے چال چلنے کی سوچ سکتے ہیں لیکن اس وقت تک ہمیں صبر و استقلال سے ان کی گیدڑ بھبکیوں کو برداشت کرنا ہوگا کیونکہ اب سے ڈیڑھ ایک مہینے تک الیکشن کی سرگرمیاں بھارت میں عروج پر ہوں گی۔ مودی سرکار کو خوف ہے کہ اپوزیشن ان کی چالوں کو بخوبی جان چکی ہے اگر عوام پر ان کی پاکستان دشمنی کی قلعی اترگئی تو اس کے نتیجے الیکشن کی مہم کے چیتھڑے نظر آنے لگیں گے۔ مودی نے بڑی دقتوں سے پلوامہ کے جان سے گزر جانے والوں کے خون سے اپنے الیکشن بوتھ کو مضبوط بنانے کی کوشش تو کی ہے لیکن خون تو بولتا ہے چائے والے دادا بھول گئے شاید ۔
اس حملے کے نتیجے میں بقول انڈین میڈیا کے پاکستانی افواج کے اسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں، ایک تحریک نہیں تو لہر ضرور چل پڑی ہے بھارت میں پاکستان کے خلاف لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ساری حب الوطنی، وطن کی مٹی کو چومنے والے، مقدس ماں کا درجہ دینے والوں کی ، ایک نقطے پر جاکر دم توڑ دیتی ہے اور وہ عظیم نقطہ ہے الیکشن۔ نریندر مودی نے پوری فلم کی کہانی کاغذ پر تحریر کرکے رکھی ہے جس کی شروعات کے لیے انھوں نے کشمیر میں پلوامہ کے مقام کو چنا کیونکہ اس کشمیر کہانی سے جہاں بھارتی افواج اور سرکار کی ہٹ دھرمی، ظلم و بربریت کی داستان اٹھتی ہے۔
اسے دنیا بھر میں مظلوم دکھانے کے لیے کسی کی قربانی تو دینی ہی تھی اور اس پارٹ میں جو لوگ بکرا بنے ان کے خون کو کیش کروانے کے لیے چائے والے دادا نے ایک بار پھر سے اپنا ہوٹل کھول لیا لیکن اپوزیشن ان کی اس چال کو بخوبی سمجھتی ہے کہ الیکشن سے محض سوا ڈیڑھ مہینے پہلے اتنے بڑے ڈرامے کو کیسے رچایا گیا؟ جس جوش و جذبے کو انڈین میڈیا ابھارنے میں جتا ہوا ہے وہ ہے پاکستان مخالفت کی آڑ میں عظیم نریندر مودی کی الیکشن کی مہم۔ جسے مودی جیسا گھاگ انسان ہر حال میں جیتنا چاہتا ہے۔ یہ اس کے اندر کی شیطانیت ہی ہے، جو اسے ہر طرح کی جنگ سے گزر کر بھی وزارت کی کرسی کی جانب کشش کر رہی ہے گو کہ بزرگوار کی اپنی عمر بھی اب ساتھ چھوڑنے پر مصر ہے پر دادا جی اپنے ہی جوانوں کو قربانی کا بکرا بنانے میں بھی عذر محسوس نہیں کر رہے۔ اس وقت ان کے عوام بھی مقدس گائے کی مانند ان کے پیچھے سر ہلا رہی ہے اور سچ بولنے والے اور سمجھانے والوں کو گدار (غدار) قرار دیا جا رہا ہے جو سوائے الیکشن مہم کے اور کچھ بھی نہیں۔
اپوزیشن والوں کا کہنا بھی غلط نہیں ہے کیونکہ پلوامہ میں جب ان کے فوجی جوانوں کو نشانہ بنایا گیا تو اس کے بعد بھی مودی جی اپنی ووٹ دو کی مہم سے باہر نہیں نکلے تھے اور بقول اپوزیشن کے پاکستان کے حملے کے وقت بھی وہ اپنا الیکشن بوتھ مضبوط کرنے کے چکر میں متحرک تھے۔گویا انھیں اپنی الیکشن مہم کو کامیاب بنانے سے غرض ہے اس کے لیے میڈیا کے اینکر پرسنز کو اس طرح بریفنگ کی گئی ہے کہ وہ مودی جی کو مہاتما گاندھی کی طرح پورٹرے کرنے پر جتے ہوئے ہیں۔
گو پلوامہ حملے کے ذمے دار (ان کے اپنے میڈیا کے مطابق) جس نوجوان نے اقرار کرتے جس دردناک ماضی کو بیان کیا وہ کسی ایک کشمیری بچے یا جوان کا معاملہ نہ تھا۔ شروع میں اس معاملے کی گرم گرم خبریں چلیں اور سارا زور کہانی میں پاکستان میں موجود جیش محمد کے اس دہشتگردی کے اڈے پر آکر ٹوٹا جس میں پاکستانی حکومت بھی انوالو ہے اس کہانی کو سنتے اس طرح خلیجی مناظر بھی دکھائے جاتے رہے کہ بھارتی عوام (جس طرح کے ان کے دماغوں کو فلمی پسندیدگی کے لحاظ سے بنادیا گیا ہے) ان فلمی مناظر کو بھی سچ سمجھتے رہے نہ صرف یہ بلکہ ہمارے سیاسی ماہرین اور سابق حکمرانوں کی ایسی ایسی کلپنگز چلاتے رہے کہ جس سے یہ ہی محسوس ہوتا رہا کہ ہمارے اپنے لوگ پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں بہت بڑی طاقت قرار دے رہے ہیں اور پاکستان کو بھارتی افواج اور ایٹم بمزکے گیتوں سے دھمکا رہے ہیں۔
بقول کچھ بھارتی ماہرین کے جب امریکا پاکستان میں ایبٹ آباد میں چپکے سے گھس کر اسامہ بن لادن کو مار سکتا ہے تو پھر ہم کیوں نہیں۔ ہر طرح سے پاکستان کو زک پہنچا کر اسے نفسیاتی طور پر جنگ کرنے پر آمادہ کیا جا رہا ہے تاکہ مودی کی حکومت میں کہانی میں ایسا ٹرننگ پوائنٹ آئے کہ بھارتی عوام چاہتے یا نہ چاہتے بھی موجودہ سرکار کو کامیاب کرا کر الیکشن میں ایسی صورتحال لے آئے کہ مزید 5سال میں مودی پیسہ پسار کر وقت گزارے اس لیے کہ اس کے آگے کے مزید پانچ سال بھارت کو کس صورتحال میں لے جاکر چھوڑتے ہیں۔
ہماری حکومت کو بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو اپنی حراست میں رکھ کر کیا کرلینا تھا کیونکہ ابھی نے وہی کیا جو اس کے اپنے سینئرز نے کرنے کو کہا ہوگا اور انکارکی صورت میں تو اس کا کورٹ مارشل ہی ہونا تھا ہاں البتہ کلبھوشن کو بھارت کے حوالے کردینا ہماری حکومت کا کیسا عمل تھا یہ ہماری سمجھ سے قاصر ہے جو شخص باقاعدہ جاسوسی کرنے اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں براہ راست دہشتگردی کی وارداتوں میں ملوث تھا جس نے اقرار کیا تھا کہ وہ اسلامی نام رکھ کر یہ سارے گھناؤنے کام کرتا رہا تھا۔
بہرحال یہ سیاسی اٹھک بیٹھک ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی نندن کو رہا کرنے پر جب ساری دنیا کی نظریں پاکستان اور بھارت کے بارڈر پر ٹکی تھیں اس وقت یہی تاثر ابھرتا ہے کہ پاکستان نے فراغ دلی سے ایک در اندازی کرنیوالے دہشتگرد بھارتی پائلٹ کو پرامن حالات کی خاطر اسے رہا کردیا جس سے پاکستان کا امیج واضح ہوا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت اب ابھی نندن کی واپسی کو احمقانہ دلائل سے درست ثابت کرنے کے لیے بڑھکیں مار رہی ہے کہ پاکستانی سرکار ان کی خطرناک فوج اور بھارت کی طاقت سے ڈر کر دنیا میں تنہا ہونے کے خوف سے نکلنے کی خاطر اس اقدام کو اٹھانے پر مجبور ہوئی ہے گو اب یہ کھیر ذرا ٹیڑھی ہوگئی ہے لیکن مودی سرکار کو اسے سیدھا کرنے میں ذرا وقت لگے گا۔
چالاک لومڑی کی طرح وہ ایک بار پھر دوسرے انداز سے چال چلنے کی سوچ سکتے ہیں لیکن اس وقت تک ہمیں صبر و استقلال سے ان کی گیدڑ بھبکیوں کو برداشت کرنا ہوگا کیونکہ اب سے ڈیڑھ ایک مہینے تک الیکشن کی سرگرمیاں بھارت میں عروج پر ہوں گی۔ مودی سرکار کو خوف ہے کہ اپوزیشن ان کی چالوں کو بخوبی جان چکی ہے اگر عوام پر ان کی پاکستان دشمنی کی قلعی اترگئی تو اس کے نتیجے الیکشن کی مہم کے چیتھڑے نظر آنے لگیں گے۔ مودی نے بڑی دقتوں سے پلوامہ کے جان سے گزر جانے والوں کے خون سے اپنے الیکشن بوتھ کو مضبوط بنانے کی کوشش تو کی ہے لیکن خون تو بولتا ہے چائے والے دادا بھول گئے شاید ۔