نائن الیون کے بعد ملا عمر کبھی پاکستان نہیں آئے ڈچ صحافی کا انکشاف
ملا عمر افغانستان میں امریکی فوجی اڈے سے صرف تین میل دور روپوش تھے، دی سیکریٹ لائف آف ملا عمر میں انکشاف
طالبان کے بانی رہنما ملا محمد عمر کے بارے میں ایک نئی کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ نائن الیون کے بعد کبھی پاکستان نہیں آئے بلکہ افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کے بہت قریب روپوش تھے جو امریکی انٹیلی جنس کی واضح ناکامی ہے۔
ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی صحافی بیٹے ڈیم کی نئی کتاب دی سیکریٹ لائف آف ملا عمر میں کہا گیا ہے کہ عمومی طور پر امریکا سمیت ہر کوئی یہ سمجھتا رہا کہ ملاعمر پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا، بلکہ وہ افغانستان میں اپنے آبائی صوبے زابل میں امریکہ کے فارورڈ آپریٹنگ بیس ولورین سے صرف تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے اور ان کی گرفتاری میں ناکامی امریکی انٹیلی جنس ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
امریکی فوجیوں نے ایک موقع پر ملا عمر کو پناہ دی جانے والی جگہ کا معائنہ بھی کیا تھا لیکن وہ انھیں تلاش نہ کر سکے، گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ کئی بار کھیتی باڑی کے لیے بنائی گئی سرنگوں میں چھپ جاتے تھے۔
صحافی بیٹے ڈیم کے مطابق ملا عمر اپنی تنظیم کو اپنی جائے پناہ سے چلانے میں کامیاب نہ تھے تاہم انہی کی منظوری سے قطر کے دارالحکومت دوحا میں طالبان کے دفتر کا قیام ہوا، دسمبر 2001 میں ملا عمر نے طالبان کے انتظامی امور کی ذمہ داری اپنے وزیر دفاع ملا عبید اللہ کو سونپ دی تھی، اگلے روز ملا عبیداللہ نے حامد کرزئی سے ملاقات کی اور ہتھیار ڈالنے کے معاہدہ کرلیا جو شاہ ولی کوٹ معاہدے کے نام سے مشہور ہوا۔
حامد کرزئی نے پریس کانفرنس میں طالبان کو اپنا بھائی جبکہ القاعدہ کو دشمن قرار دیا، بظاہر اس وقت جنگ ختم ہوگئی، لیکن امریکا نے حامد کرزئی سے اپنا بیان واپس لینے اور ملا عمر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا، امریکا نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن کی کوششیں ناکام بنائیں، سابق طالبان کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی جس کے نتیجے میں بہت سے جنگجو پاکستان فرار ہوگئے۔
بیٹے ڈیم نے لکھا کہ ملا عمر نے پاکستان جانے سے اس لیے انکار کردیا کیونکہ وہ اس پر بھروسہ نہیں کرتے تھے، عسکریت پسندی میں ان کا کردار کم تھا لیکن انہیں طالبان کے مذہبی رہنما و مرشد کی حیثیت حاصل تھی، امریکا نے ملا عمر کو عالمی دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی تھی۔
بیٹے ڈیم کے مطابق ملا عمر اور سرکردہ طالبان رہنماؤں نے زابل میں پناہ لی کیونکہ وہ وہاں خود کو محفوظ تصور کرتے تھے، تقریبا تمام طالبان رہنماؤں نے سرنڈر کردیا لیکن کرزئی کے پاس مکمل اختیارات نہ ہونے پر انہیں مایوسی ہوئی اور انہوں نے شکایت کی کہ حامد کرزئی اپنے وعدے پورا کرتے۔
زابل میں امریکی حمایت یافتہ نئے گورنر حمیداللہ توخی کے آنے کے بعد صورتحال بدل گئی، حمیداللہ توخی حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کا قریبی ساتھی تھا۔ اس نے آتے ہی طالبان کے خلاف سخت کارروائیاں شروع کردیں۔
بیٹے ڈیم نے اس کتاب کو لکھنے کے لیے تحقیق میں پانچ سال صرف کیے جس کے دوران متعدد طالبان رہنماؤں اور ارکان سے بھی گفتگو کی ہے جن میں ملا عمر کے ذاتی محافظ جبار عمری بھی شامل ہیں۔ جبار عمری کے مطابق انھوں نے 2013 میں ملا عمر کے انتقال تک ان کی حفاظت کی۔
ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی صحافی بیٹے ڈیم کی نئی کتاب دی سیکریٹ لائف آف ملا عمر میں کہا گیا ہے کہ عمومی طور پر امریکا سمیت ہر کوئی یہ سمجھتا رہا کہ ملاعمر پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا، بلکہ وہ افغانستان میں اپنے آبائی صوبے زابل میں امریکہ کے فارورڈ آپریٹنگ بیس ولورین سے صرف تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے اور ان کی گرفتاری میں ناکامی امریکی انٹیلی جنس ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
امریکی فوجیوں نے ایک موقع پر ملا عمر کو پناہ دی جانے والی جگہ کا معائنہ بھی کیا تھا لیکن وہ انھیں تلاش نہ کر سکے، گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ کئی بار کھیتی باڑی کے لیے بنائی گئی سرنگوں میں چھپ جاتے تھے۔
صحافی بیٹے ڈیم کے مطابق ملا عمر اپنی تنظیم کو اپنی جائے پناہ سے چلانے میں کامیاب نہ تھے تاہم انہی کی منظوری سے قطر کے دارالحکومت دوحا میں طالبان کے دفتر کا قیام ہوا، دسمبر 2001 میں ملا عمر نے طالبان کے انتظامی امور کی ذمہ داری اپنے وزیر دفاع ملا عبید اللہ کو سونپ دی تھی، اگلے روز ملا عبیداللہ نے حامد کرزئی سے ملاقات کی اور ہتھیار ڈالنے کے معاہدہ کرلیا جو شاہ ولی کوٹ معاہدے کے نام سے مشہور ہوا۔
حامد کرزئی نے پریس کانفرنس میں طالبان کو اپنا بھائی جبکہ القاعدہ کو دشمن قرار دیا، بظاہر اس وقت جنگ ختم ہوگئی، لیکن امریکا نے حامد کرزئی سے اپنا بیان واپس لینے اور ملا عمر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا، امریکا نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن کی کوششیں ناکام بنائیں، سابق طالبان کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی جس کے نتیجے میں بہت سے جنگجو پاکستان فرار ہوگئے۔
بیٹے ڈیم نے لکھا کہ ملا عمر نے پاکستان جانے سے اس لیے انکار کردیا کیونکہ وہ اس پر بھروسہ نہیں کرتے تھے، عسکریت پسندی میں ان کا کردار کم تھا لیکن انہیں طالبان کے مذہبی رہنما و مرشد کی حیثیت حاصل تھی، امریکا نے ملا عمر کو عالمی دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کی تھی۔
بیٹے ڈیم کے مطابق ملا عمر اور سرکردہ طالبان رہنماؤں نے زابل میں پناہ لی کیونکہ وہ وہاں خود کو محفوظ تصور کرتے تھے، تقریبا تمام طالبان رہنماؤں نے سرنڈر کردیا لیکن کرزئی کے پاس مکمل اختیارات نہ ہونے پر انہیں مایوسی ہوئی اور انہوں نے شکایت کی کہ حامد کرزئی اپنے وعدے پورا کرتے۔
زابل میں امریکی حمایت یافتہ نئے گورنر حمیداللہ توخی کے آنے کے بعد صورتحال بدل گئی، حمیداللہ توخی حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کا قریبی ساتھی تھا۔ اس نے آتے ہی طالبان کے خلاف سخت کارروائیاں شروع کردیں۔
بیٹے ڈیم نے اس کتاب کو لکھنے کے لیے تحقیق میں پانچ سال صرف کیے جس کے دوران متعدد طالبان رہنماؤں اور ارکان سے بھی گفتگو کی ہے جن میں ملا عمر کے ذاتی محافظ جبار عمری بھی شامل ہیں۔ جبار عمری کے مطابق انھوں نے 2013 میں ملا عمر کے انتقال تک ان کی حفاظت کی۔