متاثرین بارش کے لیے ریلیف اہم ٹاسک
اس وقت پوری دنیا موسمیاتی اور کرہ ارض کی تحیر خیز تبدیلیوں کی گونج سے لر ز رہی ہے، کہیں۔۔۔
اس وقت پوری دنیا موسمیاتی اور کرہ ارض کی تحیر خیز تبدیلیوں کی گونج سے لر ز رہی ہے، کہیں عالمی جنگ کی نئی فہرست میں پینے کے پانی کا نمبر آتا ہے تو کبھی موسلا دھار اور طوفانی بارشوں اورگلیشیئرز کے پگھلنے کے نتیجے میں سیلابوں کی تلاطم خیز آمد نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی قوم کو خبردار کرتی رہتی ہے اور کبھی بارشیں جب سر پر پہنچ جائیں تو متعلقہ محکمے سر جوڑ کر فلڈ کنٹرول اور بارش سے ہونے والی ممکنہ تباہ کاریوں کی روک تھام کے حوالے سے روایتی انتظامات کے سرکلر جاری کرتے ہیں تاہم باد و باراں اور سیلاب بلا خیز کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ ایسے تمام انتظامات اور ہنگامی اقدامات کے دعوے ایک طرف سیلاب کے ریلے میں خس و خاشاک کی طرح تودوسری طرف بارش و سیلاب سے متاثرین کے ارماں آنسوؤں میں بہہ جاتے ہیں ۔
مون سون بارشوں کی روایت کے مطابق اس بار بھی ملک کے مختلف علاقوں میں بارش اور سیلابی ریلوں کے باعث ہونے والی تباہ کاریوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ چھتیں، دیواریں گرنے، کرنٹ لگنے سمیت دیگر حادثات اور سیلابی ریلوں سے متعدد افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوگئے، یہ ہلاکتیں مزید بڑھیں گی اور سیلاب کے باعث بے گھر ہونے والے لاکھوں خاندان چاروں صوبوں میں حکومتی اور اقوام متحدہ ،ریڈ کراس، سمیت دیگر بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے دست نگر بن جائیں گے۔
متاثرین کی فوری نہ سہی طویل المیعاد بحالی کا کام حکمرانوں کی تدبیر و حکمت کی آزمائش کے لیے ٹیسٹ کیس بنے گا، مگر درد انگیز حقیقت یہ ہے کہ 66 برسوں میں ہمارے حکمرانوں اور قوم کے ماہرین نے قدرتی آفات، بارش، سیلاب ، مہلک بیماریوں اوراندوہ ناک حوادث و تجربات سے نمٹنے کے لیے ایسا کوئی میکنزم ، انفرا اسٹرکچر اور شفاف و مستحکم سسٹم وضع نہیں کیا جو دیگر ترقی یافتہ ممالک کے اقدامات،انتظامات اور عملی ماڈلز کے متوازی دنیا کے سامنے لایا جاسکے۔
اکثر ایسا ہوتا آیا ہے کہ بارش اور سیلاب کے بعد حکومتی سطح پر ایک ناقابل یقین انتظامی سرنڈر کی صورتحال دکھائی دیتی ہے، سب کچھ بہہ بھی جاتا ہے اور لٹ بھی جاتا ہے ، جیسا کراچی کے سعدی ٹاؤن اور دیگر علاقوں میں ہوا کہ لوگ پریشان حال متاثرین کے گھر کاسامان لوٹ کر لے گئے ۔عوام ہر مون سون بارشوں کے ساتھ ہی دربدر ہوجاتے ہیں ۔کیوں؟گزشتہ دنوں صرف ایک دن کی بارش نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو تباہ کر دیا جب کہ مضافات میں کئی علاقے ڈوب گئے ۔
کراچی میں موسلادھار بارش کے بعد شہر میں رین ایمرجنسی نافذ کر دی گئی، ادھر ندی نالوں میں طغیانی سے جنوبی پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں متعدد علاقے زیرآب آگئے اور فصلوں کو نقصان پہنچا جب کہ کئی مکان، رابطہ پل اور سڑکیں بھی تباہ ہو گئیں، پنجاب کے بیشتر علاقوں میں بھی سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں، فصلوں کو نقصان پہنچا جب کہ کئی مکان، رابطہ پل اور سڑکیں بھی تباہ ہو گئیں، صدر آصف زرداری نے بارشوں سے ہونے والے نقصانات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متاثرین کی فوری امداد کے احکام جاری کیے، جب کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے بارشوں اور سیلاب کے باعث ہونیوالے جانی ومالی نقصان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو عوام کی مدد کے لیے صوبائی حکومتوں کو ہر ممکن امداد فراہم کرنیکی ہدایت کر دی، وزیراعظم میاں نواز شریف نے اعلیٰ حکام کو ہدایت کی کہ مجھے سیلاب کی صورتحال سے متعلق پل پل باخبر رکھا جائے ۔ادھر بالائی سندھ کے مختلف علاقوں سے دادو شہرکا رابطہ منقطع ہوگیا ، بجلی کی فراہمی16گھنٹے سے معطل ہے۔
کراچی کے مختلف علاقوں میں کرنٹ لگنے سمیت دیگر حادثات میں 18 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جب کہ بارش کا پانی سول اور جناح اسپتال کے علاوہ گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس، سپریم کورٹ کراچی رجسٹری، رینجرز ہیڈکوارٹر سمیت کئی اہم سرکاری عمارتوں میں جمع ہوگیا ، اس کے علاوہ ایم اے جناح روڈ، نشتر روڈ، شاہراہ پاکستان، سر آغا خان روڈ اور کورنگی روڈ پر کئی کئی فٹ کھڑے پانی نے آمدورفت کو بری طرح متاثر کیا ، لیاری ندی میں طغیانی کے باعث 50سے زائد جھونپڑیاں بہہ گئیں جب کہ 10بچوں سمیت 25سے زائد افراد لاپتہ ہو گئے، سندھ کے وزیر بلدیات اویس مظفر نے ایڈمنسٹریٹر کراچی ہاشم رضا زیدی کو عہدے سے ہٹا دیا جب کہ ڈائریکٹر میونسپل سروس مسعود عالم کو معطل کرنے کے علاوہ کئی افسروں کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کیے ہیں، کراچی میں 36سے 126ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، کراچی کے شہریوں کو مضر صحت گدلے پانی کی فراہمی تشویش ناک ہے ۔
ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں رود کوہی نالوں نے تباہی پھیلائی ہے جس سے بیسیوں دیہات زیرآب اور ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے، تونسہ بیراج سے بلوچستان جانیوالی کچھی کینال ٹوٹنے سے سیلابی پانی فرید ایئر بیس میں داخل ہو گیا،ضلع انتظامیہ راجن پور نے محکموں کے افسروں کی چھٹیاں منسوخ کر کے ضلع میں ایمرجنسی نافذ کر دی، لعل گڑھ میں 70 فیصد مکانات زمیں بوس ہو چکے ہیں،دریائے چناب میں سیلاب کے باعث حافظ آباد میں کٹاؤ شروع ہو گیا،بلوچستان کے مختلف شہروں میں تیسرے روز بھی طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری رہا ، بارشوں کے باعث متعدد کچے مکانات منہدم ہوگئے ، طوفانی بارشوں کے باعث پٹ فیڈر،کیرتھراور شاہی کینالوں سمیت دیگر اہم نہروں میں بھی پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہوا ہے جس سے سیلاب آنے کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے، محکمہ موسمیات کے مطابق آیندہ 24گھنٹوں میں سندھ، بلوچستان سمیت ملک کے بیشتر علاقوں میں بارش کا امکان ہے جب کہ پی ڈی ایم اے کے مطابق پشاور میں ورسک کے مقام پر55000 کیوسک سیلابی ریلہ پہنچنے والا ہے ۔
ملک بھر میں مون سون کی پہلی بارش نے بلاشبہ جہاں گرمی کا زور توڑ دیا وہیں حکومتی غفلت اور متعلقہ اداروں کی بے بسی قابل افسوس ہے جس نے ابر رحمت کو زحمت میں تبدیل کردیا، یہ درست ہے کہ قدرتی آفات اور سیلابوںکے سامنے انسانی بے بسی فطری ہے مگر جہاں ترقی یافتہ ممالک نے فطرت کی تسخیر کی ہے ، دریاؤں کے رخ موڑے ہیں، پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کیا ہے،فولادی دیواریں سمندر کے قلب پر گاڑدی ہیں، سرنگیں تعمیر کی ہیں، سیلاب کی تباہ کاروں کی شدت کم کرنے کے موثر اقدام کیے ہیں، وہاں ہماری اپنی قوم نے 2008 ء کے زلزلے کے بعد حیران کن امدادی کام کرکے دنیا سے داد پائی تھی مگرنہ معلوم کیوںبارش اور سیلاب میں ذمے داران خود کو حالات کے دھارے پر بہنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں ۔ اس پر ارباب بست وکشاد کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
مون سون بارشوں کی روایت کے مطابق اس بار بھی ملک کے مختلف علاقوں میں بارش اور سیلابی ریلوں کے باعث ہونے والی تباہ کاریوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ چھتیں، دیواریں گرنے، کرنٹ لگنے سمیت دیگر حادثات اور سیلابی ریلوں سے متعدد افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوگئے، یہ ہلاکتیں مزید بڑھیں گی اور سیلاب کے باعث بے گھر ہونے والے لاکھوں خاندان چاروں صوبوں میں حکومتی اور اقوام متحدہ ،ریڈ کراس، سمیت دیگر بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے دست نگر بن جائیں گے۔
متاثرین کی فوری نہ سہی طویل المیعاد بحالی کا کام حکمرانوں کی تدبیر و حکمت کی آزمائش کے لیے ٹیسٹ کیس بنے گا، مگر درد انگیز حقیقت یہ ہے کہ 66 برسوں میں ہمارے حکمرانوں اور قوم کے ماہرین نے قدرتی آفات، بارش، سیلاب ، مہلک بیماریوں اوراندوہ ناک حوادث و تجربات سے نمٹنے کے لیے ایسا کوئی میکنزم ، انفرا اسٹرکچر اور شفاف و مستحکم سسٹم وضع نہیں کیا جو دیگر ترقی یافتہ ممالک کے اقدامات،انتظامات اور عملی ماڈلز کے متوازی دنیا کے سامنے لایا جاسکے۔
اکثر ایسا ہوتا آیا ہے کہ بارش اور سیلاب کے بعد حکومتی سطح پر ایک ناقابل یقین انتظامی سرنڈر کی صورتحال دکھائی دیتی ہے، سب کچھ بہہ بھی جاتا ہے اور لٹ بھی جاتا ہے ، جیسا کراچی کے سعدی ٹاؤن اور دیگر علاقوں میں ہوا کہ لوگ پریشان حال متاثرین کے گھر کاسامان لوٹ کر لے گئے ۔عوام ہر مون سون بارشوں کے ساتھ ہی دربدر ہوجاتے ہیں ۔کیوں؟گزشتہ دنوں صرف ایک دن کی بارش نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو تباہ کر دیا جب کہ مضافات میں کئی علاقے ڈوب گئے ۔
کراچی میں موسلادھار بارش کے بعد شہر میں رین ایمرجنسی نافذ کر دی گئی، ادھر ندی نالوں میں طغیانی سے جنوبی پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں متعدد علاقے زیرآب آگئے اور فصلوں کو نقصان پہنچا جب کہ کئی مکان، رابطہ پل اور سڑکیں بھی تباہ ہو گئیں، پنجاب کے بیشتر علاقوں میں بھی سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں، فصلوں کو نقصان پہنچا جب کہ کئی مکان، رابطہ پل اور سڑکیں بھی تباہ ہو گئیں، صدر آصف زرداری نے بارشوں سے ہونے والے نقصانات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متاثرین کی فوری امداد کے احکام جاری کیے، جب کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے بارشوں اور سیلاب کے باعث ہونیوالے جانی ومالی نقصان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو عوام کی مدد کے لیے صوبائی حکومتوں کو ہر ممکن امداد فراہم کرنیکی ہدایت کر دی، وزیراعظم میاں نواز شریف نے اعلیٰ حکام کو ہدایت کی کہ مجھے سیلاب کی صورتحال سے متعلق پل پل باخبر رکھا جائے ۔ادھر بالائی سندھ کے مختلف علاقوں سے دادو شہرکا رابطہ منقطع ہوگیا ، بجلی کی فراہمی16گھنٹے سے معطل ہے۔
کراچی کے مختلف علاقوں میں کرنٹ لگنے سمیت دیگر حادثات میں 18 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جب کہ بارش کا پانی سول اور جناح اسپتال کے علاوہ گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس، سپریم کورٹ کراچی رجسٹری، رینجرز ہیڈکوارٹر سمیت کئی اہم سرکاری عمارتوں میں جمع ہوگیا ، اس کے علاوہ ایم اے جناح روڈ، نشتر روڈ، شاہراہ پاکستان، سر آغا خان روڈ اور کورنگی روڈ پر کئی کئی فٹ کھڑے پانی نے آمدورفت کو بری طرح متاثر کیا ، لیاری ندی میں طغیانی کے باعث 50سے زائد جھونپڑیاں بہہ گئیں جب کہ 10بچوں سمیت 25سے زائد افراد لاپتہ ہو گئے، سندھ کے وزیر بلدیات اویس مظفر نے ایڈمنسٹریٹر کراچی ہاشم رضا زیدی کو عہدے سے ہٹا دیا جب کہ ڈائریکٹر میونسپل سروس مسعود عالم کو معطل کرنے کے علاوہ کئی افسروں کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کیے ہیں، کراچی میں 36سے 126ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، کراچی کے شہریوں کو مضر صحت گدلے پانی کی فراہمی تشویش ناک ہے ۔
ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں رود کوہی نالوں نے تباہی پھیلائی ہے جس سے بیسیوں دیہات زیرآب اور ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے، تونسہ بیراج سے بلوچستان جانیوالی کچھی کینال ٹوٹنے سے سیلابی پانی فرید ایئر بیس میں داخل ہو گیا،ضلع انتظامیہ راجن پور نے محکموں کے افسروں کی چھٹیاں منسوخ کر کے ضلع میں ایمرجنسی نافذ کر دی، لعل گڑھ میں 70 فیصد مکانات زمیں بوس ہو چکے ہیں،دریائے چناب میں سیلاب کے باعث حافظ آباد میں کٹاؤ شروع ہو گیا،بلوچستان کے مختلف شہروں میں تیسرے روز بھی طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری رہا ، بارشوں کے باعث متعدد کچے مکانات منہدم ہوگئے ، طوفانی بارشوں کے باعث پٹ فیڈر،کیرتھراور شاہی کینالوں سمیت دیگر اہم نہروں میں بھی پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہوا ہے جس سے سیلاب آنے کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے، محکمہ موسمیات کے مطابق آیندہ 24گھنٹوں میں سندھ، بلوچستان سمیت ملک کے بیشتر علاقوں میں بارش کا امکان ہے جب کہ پی ڈی ایم اے کے مطابق پشاور میں ورسک کے مقام پر55000 کیوسک سیلابی ریلہ پہنچنے والا ہے ۔
ملک بھر میں مون سون کی پہلی بارش نے بلاشبہ جہاں گرمی کا زور توڑ دیا وہیں حکومتی غفلت اور متعلقہ اداروں کی بے بسی قابل افسوس ہے جس نے ابر رحمت کو زحمت میں تبدیل کردیا، یہ درست ہے کہ قدرتی آفات اور سیلابوںکے سامنے انسانی بے بسی فطری ہے مگر جہاں ترقی یافتہ ممالک نے فطرت کی تسخیر کی ہے ، دریاؤں کے رخ موڑے ہیں، پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کیا ہے،فولادی دیواریں سمندر کے قلب پر گاڑدی ہیں، سرنگیں تعمیر کی ہیں، سیلاب کی تباہ کاروں کی شدت کم کرنے کے موثر اقدام کیے ہیں، وہاں ہماری اپنی قوم نے 2008 ء کے زلزلے کے بعد حیران کن امدادی کام کرکے دنیا سے داد پائی تھی مگرنہ معلوم کیوںبارش اور سیلاب میں ذمے داران خود کو حالات کے دھارے پر بہنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں ۔ اس پر ارباب بست وکشاد کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔