وزیراعظم پاکستان کی صائب تجویز
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جدہ میں اپنے صاحبزادے حسین نواز شریف کی رہائش گاہ ’’شریف ولا‘‘ میں پاکستان جرنلسٹس۔۔۔
ISLAMABAD:
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جدہ میں اپنے صاحبزادے حسین نواز شریف کی رہائش گاہ ''شریف ولا'' میں پاکستان جرنلسٹس فورم کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت جب تک اسلحے کی دوڑ میں توازن پیدا نہیں کرتے، اس وقت تک علاقائی امن کو خطرہ رہے گا' دونوں ممالک کو دفاعی بجٹ میں کمی کر کے سماجی' معاشی و تعلیمی ترقی پر توجہ دینا ہو گی' دونوں ممالک امریکا اور روس کی طرز پر دفاعی بجٹ میں کمی لا سکتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت اپنے قیام ہی سے ایک دوسرے کے حریف چلے آ رہے ہیں۔ ان کے درمیان کشمیر کا خطہ وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے۔ اس مسئلے کو جنگ کے ذریعے حل کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر جب جنگ سے سوائے تباہی اور بربادی کے کچھ ہاتھ نہ آیا تو دونوں ممالک مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور ہوگئے۔ جہاں اعلیٰ سطح کے مذاکرات اور بیک ڈور ڈپلومیسی کے نام پر دشمنی ختم کرنے اور دوستانہ تعلقات بڑھانے پر زور دیا جاتا رہا وہاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اسلحے کی دوڑ کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔
اب دونوں ممالک ایٹمی اور میزائلی قوت بن چکے ہیں۔ ذرا سی غلطی اور جنگی جنون اس خطے کی آبادی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹا سکتی ہے۔ پھر نہ کوئی فاتح ہو گا اور نہ مفتوح۔ ایک طرف جنگی جنون ہے تو دوسری جانب دونوں ممالک میں کروڑوں افراد اب تک خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ اس خطے کے کروڑوں لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی' مناسب غذا' تعلیم اور صحت کی سہولتیں تک میسر نہیں۔ بھارت میں اب بھی کروڑوں افراد رہائش نہ ہونے کے باعث فٹ پاتھوں پر سونے پر مجبور ہیں۔
پاکستان اس وقت توانائی کی شدید بحرانی کیفیت سے دوچارہے۔ ملک پر قرضوں کا پہاڑ ہے'دہشت گردی اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال کا سامنا الگ سے ہے۔ ان حالات میں اربوں ڈالر ملکی ترقی کے بجائے تباہ کن ہتھیاروں کے جمع کرنے پر خرچ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔اس تناظر میں وزیراعظم نوازشریف کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ دونوں ممالک اسلحے کی دوڑ ختم کرکے اپنے مسائل بات چیت سے حل کریں۔ روس اور امریکا نے بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کھربوں ڈالر تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری پر خرچ کیے بالآخر دونوں کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا کہ ان ہتھیاروں کا استعمال انھیں صفحہ ہستی سے مٹا دے گا لہٰذا وہ ان کی کمی کے معاہدے پر مجبور ہو گئے۔ اب پاکستان اور بھارت بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں، دونوں تباہ کن ہتھیاروں کے انبار لگا رہے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف کا کہنا بالکل صائب ہے کہ دونوں ممالک اپنے فوجی بجٹ کی کوئی حد مقرر کریں، گزشتہ جنگوں سے عوام ہی کو نقصان پہنچا ۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں اپنی معاشی ترقی پر سرمایہ خرچ کریں نہ کہ ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے ارادے رکھیں۔ انھوں نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ ہماری معاشی صورتحال بہتر ہو گی تو پھر کوئی دھونس دکھائے گا' نہ دہشت گردی ہو گی اور نہ بیرونی حملے یا ڈکٹیشن ہو گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لیے ہتھیاروں کی دوڑ ختم کر کے اپنے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں۔
میاں نواز شریف نے ملک کے اندرونی اور بیرونی مسائل حل کرنے کے لیے محاذ آرائی کے بجائے مصالحانہ اور مفاہمانہ راہ اپنائی ہے۔ ہمسایہ ممالک سے الجھنے کے بجائے وہ عدم مداخلت کی پالیسی اپناتے ہوئے دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نواز شریف نے اندرون اور بیرون ملک تمام قوتوں پر واضح کر دیا ہے کہ وہ لڑنے جھگڑنے کے بجائے مذاکرات کی راہ اپنائیں۔ وزیراعظم نواز شریف کی مفاہمانہ پالیسی اس امر کی عکاس ہے کہ وہ خطے میں تنازعات کے خاتمے اور امن و خوشحالی لانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جدہ میں اپنے صاحبزادے حسین نواز شریف کی رہائش گاہ ''شریف ولا'' میں پاکستان جرنلسٹس فورم کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت جب تک اسلحے کی دوڑ میں توازن پیدا نہیں کرتے، اس وقت تک علاقائی امن کو خطرہ رہے گا' دونوں ممالک کو دفاعی بجٹ میں کمی کر کے سماجی' معاشی و تعلیمی ترقی پر توجہ دینا ہو گی' دونوں ممالک امریکا اور روس کی طرز پر دفاعی بجٹ میں کمی لا سکتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت اپنے قیام ہی سے ایک دوسرے کے حریف چلے آ رہے ہیں۔ ان کے درمیان کشمیر کا خطہ وجہ تنازعہ بنا ہوا ہے۔ اس مسئلے کو جنگ کے ذریعے حل کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر جب جنگ سے سوائے تباہی اور بربادی کے کچھ ہاتھ نہ آیا تو دونوں ممالک مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور ہوگئے۔ جہاں اعلیٰ سطح کے مذاکرات اور بیک ڈور ڈپلومیسی کے نام پر دشمنی ختم کرنے اور دوستانہ تعلقات بڑھانے پر زور دیا جاتا رہا وہاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اسلحے کی دوڑ کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔
اب دونوں ممالک ایٹمی اور میزائلی قوت بن چکے ہیں۔ ذرا سی غلطی اور جنگی جنون اس خطے کی آبادی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹا سکتی ہے۔ پھر نہ کوئی فاتح ہو گا اور نہ مفتوح۔ ایک طرف جنگی جنون ہے تو دوسری جانب دونوں ممالک میں کروڑوں افراد اب تک خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ اس خطے کے کروڑوں لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی' مناسب غذا' تعلیم اور صحت کی سہولتیں تک میسر نہیں۔ بھارت میں اب بھی کروڑوں افراد رہائش نہ ہونے کے باعث فٹ پاتھوں پر سونے پر مجبور ہیں۔
پاکستان اس وقت توانائی کی شدید بحرانی کیفیت سے دوچارہے۔ ملک پر قرضوں کا پہاڑ ہے'دہشت گردی اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال کا سامنا الگ سے ہے۔ ان حالات میں اربوں ڈالر ملکی ترقی کے بجائے تباہ کن ہتھیاروں کے جمع کرنے پر خرچ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔اس تناظر میں وزیراعظم نوازشریف کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ دونوں ممالک اسلحے کی دوڑ ختم کرکے اپنے مسائل بات چیت سے حل کریں۔ روس اور امریکا نے بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کھربوں ڈالر تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری پر خرچ کیے بالآخر دونوں کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا کہ ان ہتھیاروں کا استعمال انھیں صفحہ ہستی سے مٹا دے گا لہٰذا وہ ان کی کمی کے معاہدے پر مجبور ہو گئے۔ اب پاکستان اور بھارت بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں، دونوں تباہ کن ہتھیاروں کے انبار لگا رہے ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف کا کہنا بالکل صائب ہے کہ دونوں ممالک اپنے فوجی بجٹ کی کوئی حد مقرر کریں، گزشتہ جنگوں سے عوام ہی کو نقصان پہنچا ۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں اپنی معاشی ترقی پر سرمایہ خرچ کریں نہ کہ ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے ارادے رکھیں۔ انھوں نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ ہماری معاشی صورتحال بہتر ہو گی تو پھر کوئی دھونس دکھائے گا' نہ دہشت گردی ہو گی اور نہ بیرونی حملے یا ڈکٹیشن ہو گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لیے ہتھیاروں کی دوڑ ختم کر کے اپنے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں۔
میاں نواز شریف نے ملک کے اندرونی اور بیرونی مسائل حل کرنے کے لیے محاذ آرائی کے بجائے مصالحانہ اور مفاہمانہ راہ اپنائی ہے۔ ہمسایہ ممالک سے الجھنے کے بجائے وہ عدم مداخلت کی پالیسی اپناتے ہوئے دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نواز شریف نے اندرون اور بیرون ملک تمام قوتوں پر واضح کر دیا ہے کہ وہ لڑنے جھگڑنے کے بجائے مذاکرات کی راہ اپنائیں۔ وزیراعظم نواز شریف کی مفاہمانہ پالیسی اس امر کی عکاس ہے کہ وہ خطے میں تنازعات کے خاتمے اور امن و خوشحالی لانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔