’’ لاڑکانو ساہ سیبانو‘‘ ایک تاریخی کتاب
ڈاکٹر عبدالمجید میمن جو ایک ادیب اور ماہر تعلیم تھے
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم اپنی تاریخ نہیں لکھ پائے۔ میں نے جب بھی کسی چیز پر لکھنا چاہا ہے تو مجھے تحقیق کے دوران کافی مشکلات کا سامنا رہا ۔ پاکستان بننے سے پہلے یا پھرکچھ وقت بعد تک تعلیم وادب کا ایک معیار قائم تھا۔ میرے شوق نے مجھے سب سے پہلے لاڑکانہ اور پھر سندھ کے ماضی اور حال کی صورتحال پر لکھنے پر مجبورکردیا ہے جس کے لیے میں نے سب سے پہلے اپنے آبائی شہر لاڑکانہ سے شروع کیا تھا مگر افسوس کہ یہ شوق اور جذبہ زندگی کے آخری حصے میں پیدا ہوا ، پھر بھی اپنی ذمے داری نبھانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ۔
تقریباً دو ماہ قبل میرا لاڑکانہ جانا ہوا اور وہاں پر 15 دن گزارنے کے دوران مجھے جو بھی وقت ملا وہ میں نے لوگوں کے دلوں میں دفن تاریخ کو نکالنے میں صرف کیا اور آپ یقین جانیں جب میں ماضی کی باتیں سن رہا تھا تو ایک طرف میرا دل خوش ہو رہا تھا اور دوسری جانب آنسو بھی بہا رہا تھا کہ ہم کتنے بد نصیب ہیں کہ ہم نے اپنے سنہری دور کے قیمتی وقت کوگنوا دیا ہے اور صرف پیسے کمانے کے لیے اپنے ماضی کی یادوں اور تاریخ کا سودا کرتے رہے ہیں جب کہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک دن ہم بھی ماضی کا حصہ بن جائینگے لیکن ہمارا نام تاریخ کے سیاہ اوراق میں بھی شاید لکھا جائے۔
لاڑکانہ میں میری ملاقات گل محمد گاد سے ہوئی، جنھوں نے لاڑکانہ کے بارے میں ایک تاریخی کتاب '' لاڑکانو ساہ سیبانو'' کو لانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ۔گل محمد اس وقت لاڑکانہ میونسپل کمیٹی کی ایمپلائیز یونین کے جنرل سیکریٹری تھے اور وہ کمیٹی کی لائبریری میں بھی کام کرتے رہے ہیں، لائبریرین کا کورس کر چکے تھے۔
اس وجہ سے ان میں ادب اور علم سے محبت پیدا ہوئی اور انھوں نے لاڑکانہ کی تاریخ کو کتابی صورت میں قلم بند کرنا شروع کیا اور اپنے دوست افضل عباسی سے مل کر ایمپلائیز یونین کے پلیٹ فارم سے یہ بیڑا اٹھایا۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے اس وقت کے چیئرمین میونسپل کمیٹی عبدالخالق بھٹو سے مدد چاہی۔ افضل عباسی جو یونین کے صدر تھے انھوں نے اورگل محمد نے مل کر عبدالغفور بھرگڑی کی صدارت میں میونسپل کمیٹی کے ہال میں ایک اجلاس منعقد کیا، جس میں نامور ادیب وشعراء، صحافیوں، شہریوں اور سیاستدانوں سمیت سوشل ورکرز نے شرکت کی۔
ڈاکٹر عبدالمجید میمن جو ایک ادیب اور ماہر تعلیم تھے انھیں اس کام کا نگران بنایا گیا اور لاڑکانہ کے ادیبوں اور صحافیوں سے مضامین لکھنے کوکہا گیا۔ سب جانتے ہیں کہ لکھنے کا کام بڑا اہم ہوتا ہے،ادیبوں کی طرف سے مضامین بھیجنے میں بڑی تاخیر ہوئی لیکن کام اسی تندہی سے جاری ر ہا، مواد آتا رہا، کتابت ہوتی رہی اور تاریخی تصویریں بھی جمع ہوتی رہیں۔ اس زمانے میں چھپائی کا نظام پرانا تھا جو تاخیر کا سبب بنا ۔ اس کے ساتھ ساتھ مالی وسائل کی عدم دستیابی بھی آڑے آئی ۔ بہرحال کتاب 1984 کے آخر میں چھپائی کے لیے تیار ہوگی اور کئی مراحل اور مسائل سے گزرتے ہوئے 6 اپریل 1985 میں چھپ کر سامنے آگئی جب کہ اس کا کام 1979 سے شروع ہوا تھا۔ اس دوران چیئرمین میونسپل کمیٹی عبدالخالق کا دور پورا ہوچکا تھا اور ان کی جگہ قربان عباسی نئے چیئرمین بن گئے تھے، انھوں نے بھی اس علمی اور تاریخی کام میں بھرپور تعاون کیا۔
'' لاڑکانو ساہ سیبانو'' تین حصوں پر مشتمل تھی جس میں بڑا حصہ سندھی زبان میں، باقی اردو اور انگریزی میں تھا جس میں اردو بولنے والوں نے گہری دلچسپی لی تھی ۔ اس کتاب کی ایک ہزارکاپیاں چھپوائی گئی تھیں، جو ''ہاٹ کیک'' کی طرح ختم ہوگئیں ۔ یہ کتاب اب نایاب ہوچکی ہے، مگر افسوس کسی نے بھی اس اشاعت کا دوسرا ایڈیشن چھاپنے کے لیے کوشش نہیں کی ۔
کتاب کی اشاعت تک جو مسائل درپیش آئے، ان کے بارے میں بتانا بہت ضروری ہے، اگر اس وقت لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر محمد ہاشم میمن نہ ہوتے تو شاید یہ کتاب شایع نہ ہو پاتی ،کیونکہ وہ دور جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کا تھا اور سب محتاط تھے، خاص طور پر جب ذوالفقارعلی بھٹوکے بارے میں مضمون لکھنے کا وقت آیا، تو لاڑکانہ میں موجود تاریخ دان اور ماہر تعلیم قربان بگٹی سے کہا گیا تو انھوں نے انتہائی محتاط انداز میں ایک مضمون لکھا، مگر پھر بھی وہ کافی پریشان تھے کیونکہ وہ سرکاری کالج میں لیکچرار تھے اور انھیں اپنی نوکری خطرے میں نظر آرہی تھی۔ اس کی وجہ سے احتیاطاً ایک اور مضمون لکھنے کے لیے سید دیدار حسین شاہ جو چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ ریٹائرڈ تھے اور حال ہی میں وہ وفات پاچکے ہیں لیکن اس وقت وہ وکیل تھے اور پی پی پی کے لیڈر تھے۔ انھوں نے کہا جو بھی لکھو وہ اس پر دستخط کرنے کو تیار ہیں ۔ بہرحال قربان بگٹی کا مضمون شامل کیا گیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مارشل لا نہ ہوتا یا پھر وہ سرکاری ملازم نہ ہوتے تو وہ بھٹوکی شخصیت پر بہت اعلیٰ مضمون لکھتے۔
اس کتاب کے لیے سب کا اپنے اپنے طور پر بڑا اہم کردار رہا ، مگر محمد ہاشم کا دلیرانہ کام ہمیشہ تاریخ میں یاد رہے گا، کیونکہ جب کتاب کی رونمائی کا وقت آیا اور اس کے لیے دعوت نامے ارسال کرنے کا کام شروع ہوا تو لاڑکانہ کے شاعر عبدالحق سومرو جس کو زیب عاقلی کہتے تھے وہ کسی کام سے اسلام آباد گئے ہوئے تھے تو انھوں نے سوچا کیوں نہ محمد خان جونیجو جو اس وقت وزیر اعظم تھے ان کو دعوت دی جائے۔ جب زیب نے دعوت نامہ انھیں دیا تو ایجنسیوں کو پتا چل گیا اور ڈی سی لاڑکانہ سے رابطہ کیا کہ وہ کتاب کے بارے میں رپورٹ دیں۔ ہاشم نے بڑے اعتماد سے یہ کہہ کر انھیں ٹال دیا کہ کتاب ادبی ہے اور اس کا تعلق سیاست سے نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ مطمئن ہوگئے ۔ اس کے علاوہ جب بائنڈنگ کے لیے 70 ہزار روپے کی ضرورت پڑی تو وہ مسئلہ بھی میمن صاحب نے حل کردیا۔ ان خدمات پر لاڑکانہ کے شہری آج بھی مرحوم میمن صاحب کو سلام پیش کرتے ہیں اور ان کا نام عقیدت و احترام سے لیتے ہیں۔
کتاب کے مرتب گل محمد گاد سے میں نے کچھ تاریخی تصاویر بھی حاصل کی ہیں جو اس وقت رونمائی کے موقعے پر لی گئی تھیں جب کہ کافی لوگ یہ جہاں چھوڑ چکے ہیں مگر ان کی خدمات تاریخ میں اب بھی موجود ہیں ، ان میں ڈاکٹر عبدالکریم سندیلو بھی ہیں جنھوں نے کتاب کا پیش لفظ لکھا تھا۔ باقی لوگوں میں غلام تقی جعفری جن کی وجہ سے یہ کتاب چھپوانے کا خیال گاد کے ذہن میں ابھرا۔ اس دوران سندھ کے محقق نبی بخش بلوچ نے ہاشم صاحب سے لاڑکانہ پر ایک سیمینارکروانے کے لیے کہا ہوا تھا اور جب انھیں کتاب کی رونمائی کے لیے کہا گیا تو وہ راضی ہوگئے۔ جب دعوت نامے تیار ہوگئے تو وہ کئی شخصیات کے علاوہ پی کے شاہانی، حمیدہ کھوڑو، مہتاب اکبر راشدی کو بھی ارسال کیے گئے۔
جس دن کتاب کی رونمائی ہو رہی تھی اس وقت معین الدین حیدر سندھ کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے اور وہ لاڑکانہ کے دورے پر آئے ہوئے تھے انکو محمد ہاشم میمن اپنے ساتھ سرشاہنواز بھٹو میموریل لائبریری لے آئے اور پروگرام میں شرکت کروائی۔ میمن صاحب کی سادگی دیکھیں کہ وہ خود اسٹیج پر نہیں بیٹھے اور مہمانوں کو موقع دیا۔ کتاب کی رونمائی سندھ کے دانشور اور محقق علی محمد راشدی کے ہاتھوں ہوئی جو اپنی بیگم ممتاز راشدی کے ساتھ آئے تھے۔ اس موقعے پر پیر حسام الدین راشدی کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا کیونکہ وہ اللہ کو پیارے ہو چکے تھے اور یہ پیغام وہ مرنے سے پہلے لکھ گئے تھے، تقاریر کے بعد مشاعرہ ہوا اور اس کے بعد رات کو سمبارا موسیقی کا پروگرام منعقد ہوا جس میں عابدہ پروین، محمد یوسف کے علاوہ سندھ کے نامور گلوکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس موقعے پرکھانے کا انتظام گدا حسین میہر نے کیا تھا جب کہ باقی اخراجات اور مالی معاملات کی ذمے داری بدر عباسی کے حوالے تھی جن پر ہاشم میمن بڑا اعتماد کرتا تھا۔
یہ کتاب اب نایاب ہے جسے دوبارہ چھپوانے کی سخت ضرورت ہے ۔ مجھے امید ہے اگرکلچرڈ ڈپارٹمنٹ سے رابطہ کیا جائے تو وہ راضی ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری ،کمشنر لاڑکانہ، چیمبر آف کامرس کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
تقریباً دو ماہ قبل میرا لاڑکانہ جانا ہوا اور وہاں پر 15 دن گزارنے کے دوران مجھے جو بھی وقت ملا وہ میں نے لوگوں کے دلوں میں دفن تاریخ کو نکالنے میں صرف کیا اور آپ یقین جانیں جب میں ماضی کی باتیں سن رہا تھا تو ایک طرف میرا دل خوش ہو رہا تھا اور دوسری جانب آنسو بھی بہا رہا تھا کہ ہم کتنے بد نصیب ہیں کہ ہم نے اپنے سنہری دور کے قیمتی وقت کوگنوا دیا ہے اور صرف پیسے کمانے کے لیے اپنے ماضی کی یادوں اور تاریخ کا سودا کرتے رہے ہیں جب کہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک دن ہم بھی ماضی کا حصہ بن جائینگے لیکن ہمارا نام تاریخ کے سیاہ اوراق میں بھی شاید لکھا جائے۔
لاڑکانہ میں میری ملاقات گل محمد گاد سے ہوئی، جنھوں نے لاڑکانہ کے بارے میں ایک تاریخی کتاب '' لاڑکانو ساہ سیبانو'' کو لانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ۔گل محمد اس وقت لاڑکانہ میونسپل کمیٹی کی ایمپلائیز یونین کے جنرل سیکریٹری تھے اور وہ کمیٹی کی لائبریری میں بھی کام کرتے رہے ہیں، لائبریرین کا کورس کر چکے تھے۔
اس وجہ سے ان میں ادب اور علم سے محبت پیدا ہوئی اور انھوں نے لاڑکانہ کی تاریخ کو کتابی صورت میں قلم بند کرنا شروع کیا اور اپنے دوست افضل عباسی سے مل کر ایمپلائیز یونین کے پلیٹ فارم سے یہ بیڑا اٹھایا۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے اس وقت کے چیئرمین میونسپل کمیٹی عبدالخالق بھٹو سے مدد چاہی۔ افضل عباسی جو یونین کے صدر تھے انھوں نے اورگل محمد نے مل کر عبدالغفور بھرگڑی کی صدارت میں میونسپل کمیٹی کے ہال میں ایک اجلاس منعقد کیا، جس میں نامور ادیب وشعراء، صحافیوں، شہریوں اور سیاستدانوں سمیت سوشل ورکرز نے شرکت کی۔
ڈاکٹر عبدالمجید میمن جو ایک ادیب اور ماہر تعلیم تھے انھیں اس کام کا نگران بنایا گیا اور لاڑکانہ کے ادیبوں اور صحافیوں سے مضامین لکھنے کوکہا گیا۔ سب جانتے ہیں کہ لکھنے کا کام بڑا اہم ہوتا ہے،ادیبوں کی طرف سے مضامین بھیجنے میں بڑی تاخیر ہوئی لیکن کام اسی تندہی سے جاری ر ہا، مواد آتا رہا، کتابت ہوتی رہی اور تاریخی تصویریں بھی جمع ہوتی رہیں۔ اس زمانے میں چھپائی کا نظام پرانا تھا جو تاخیر کا سبب بنا ۔ اس کے ساتھ ساتھ مالی وسائل کی عدم دستیابی بھی آڑے آئی ۔ بہرحال کتاب 1984 کے آخر میں چھپائی کے لیے تیار ہوگی اور کئی مراحل اور مسائل سے گزرتے ہوئے 6 اپریل 1985 میں چھپ کر سامنے آگئی جب کہ اس کا کام 1979 سے شروع ہوا تھا۔ اس دوران چیئرمین میونسپل کمیٹی عبدالخالق کا دور پورا ہوچکا تھا اور ان کی جگہ قربان عباسی نئے چیئرمین بن گئے تھے، انھوں نے بھی اس علمی اور تاریخی کام میں بھرپور تعاون کیا۔
'' لاڑکانو ساہ سیبانو'' تین حصوں پر مشتمل تھی جس میں بڑا حصہ سندھی زبان میں، باقی اردو اور انگریزی میں تھا جس میں اردو بولنے والوں نے گہری دلچسپی لی تھی ۔ اس کتاب کی ایک ہزارکاپیاں چھپوائی گئی تھیں، جو ''ہاٹ کیک'' کی طرح ختم ہوگئیں ۔ یہ کتاب اب نایاب ہوچکی ہے، مگر افسوس کسی نے بھی اس اشاعت کا دوسرا ایڈیشن چھاپنے کے لیے کوشش نہیں کی ۔
کتاب کی اشاعت تک جو مسائل درپیش آئے، ان کے بارے میں بتانا بہت ضروری ہے، اگر اس وقت لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر محمد ہاشم میمن نہ ہوتے تو شاید یہ کتاب شایع نہ ہو پاتی ،کیونکہ وہ دور جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کا تھا اور سب محتاط تھے، خاص طور پر جب ذوالفقارعلی بھٹوکے بارے میں مضمون لکھنے کا وقت آیا، تو لاڑکانہ میں موجود تاریخ دان اور ماہر تعلیم قربان بگٹی سے کہا گیا تو انھوں نے انتہائی محتاط انداز میں ایک مضمون لکھا، مگر پھر بھی وہ کافی پریشان تھے کیونکہ وہ سرکاری کالج میں لیکچرار تھے اور انھیں اپنی نوکری خطرے میں نظر آرہی تھی۔ اس کی وجہ سے احتیاطاً ایک اور مضمون لکھنے کے لیے سید دیدار حسین شاہ جو چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ ریٹائرڈ تھے اور حال ہی میں وہ وفات پاچکے ہیں لیکن اس وقت وہ وکیل تھے اور پی پی پی کے لیڈر تھے۔ انھوں نے کہا جو بھی لکھو وہ اس پر دستخط کرنے کو تیار ہیں ۔ بہرحال قربان بگٹی کا مضمون شامل کیا گیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مارشل لا نہ ہوتا یا پھر وہ سرکاری ملازم نہ ہوتے تو وہ بھٹوکی شخصیت پر بہت اعلیٰ مضمون لکھتے۔
اس کتاب کے لیے سب کا اپنے اپنے طور پر بڑا اہم کردار رہا ، مگر محمد ہاشم کا دلیرانہ کام ہمیشہ تاریخ میں یاد رہے گا، کیونکہ جب کتاب کی رونمائی کا وقت آیا اور اس کے لیے دعوت نامے ارسال کرنے کا کام شروع ہوا تو لاڑکانہ کے شاعر عبدالحق سومرو جس کو زیب عاقلی کہتے تھے وہ کسی کام سے اسلام آباد گئے ہوئے تھے تو انھوں نے سوچا کیوں نہ محمد خان جونیجو جو اس وقت وزیر اعظم تھے ان کو دعوت دی جائے۔ جب زیب نے دعوت نامہ انھیں دیا تو ایجنسیوں کو پتا چل گیا اور ڈی سی لاڑکانہ سے رابطہ کیا کہ وہ کتاب کے بارے میں رپورٹ دیں۔ ہاشم نے بڑے اعتماد سے یہ کہہ کر انھیں ٹال دیا کہ کتاب ادبی ہے اور اس کا تعلق سیاست سے نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ مطمئن ہوگئے ۔ اس کے علاوہ جب بائنڈنگ کے لیے 70 ہزار روپے کی ضرورت پڑی تو وہ مسئلہ بھی میمن صاحب نے حل کردیا۔ ان خدمات پر لاڑکانہ کے شہری آج بھی مرحوم میمن صاحب کو سلام پیش کرتے ہیں اور ان کا نام عقیدت و احترام سے لیتے ہیں۔
کتاب کے مرتب گل محمد گاد سے میں نے کچھ تاریخی تصاویر بھی حاصل کی ہیں جو اس وقت رونمائی کے موقعے پر لی گئی تھیں جب کہ کافی لوگ یہ جہاں چھوڑ چکے ہیں مگر ان کی خدمات تاریخ میں اب بھی موجود ہیں ، ان میں ڈاکٹر عبدالکریم سندیلو بھی ہیں جنھوں نے کتاب کا پیش لفظ لکھا تھا۔ باقی لوگوں میں غلام تقی جعفری جن کی وجہ سے یہ کتاب چھپوانے کا خیال گاد کے ذہن میں ابھرا۔ اس دوران سندھ کے محقق نبی بخش بلوچ نے ہاشم صاحب سے لاڑکانہ پر ایک سیمینارکروانے کے لیے کہا ہوا تھا اور جب انھیں کتاب کی رونمائی کے لیے کہا گیا تو وہ راضی ہوگئے۔ جب دعوت نامے تیار ہوگئے تو وہ کئی شخصیات کے علاوہ پی کے شاہانی، حمیدہ کھوڑو، مہتاب اکبر راشدی کو بھی ارسال کیے گئے۔
جس دن کتاب کی رونمائی ہو رہی تھی اس وقت معین الدین حیدر سندھ کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے اور وہ لاڑکانہ کے دورے پر آئے ہوئے تھے انکو محمد ہاشم میمن اپنے ساتھ سرشاہنواز بھٹو میموریل لائبریری لے آئے اور پروگرام میں شرکت کروائی۔ میمن صاحب کی سادگی دیکھیں کہ وہ خود اسٹیج پر نہیں بیٹھے اور مہمانوں کو موقع دیا۔ کتاب کی رونمائی سندھ کے دانشور اور محقق علی محمد راشدی کے ہاتھوں ہوئی جو اپنی بیگم ممتاز راشدی کے ساتھ آئے تھے۔ اس موقعے پر پیر حسام الدین راشدی کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا کیونکہ وہ اللہ کو پیارے ہو چکے تھے اور یہ پیغام وہ مرنے سے پہلے لکھ گئے تھے، تقاریر کے بعد مشاعرہ ہوا اور اس کے بعد رات کو سمبارا موسیقی کا پروگرام منعقد ہوا جس میں عابدہ پروین، محمد یوسف کے علاوہ سندھ کے نامور گلوکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس موقعے پرکھانے کا انتظام گدا حسین میہر نے کیا تھا جب کہ باقی اخراجات اور مالی معاملات کی ذمے داری بدر عباسی کے حوالے تھی جن پر ہاشم میمن بڑا اعتماد کرتا تھا۔
یہ کتاب اب نایاب ہے جسے دوبارہ چھپوانے کی سخت ضرورت ہے ۔ مجھے امید ہے اگرکلچرڈ ڈپارٹمنٹ سے رابطہ کیا جائے تو وہ راضی ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری ،کمشنر لاڑکانہ، چیمبر آف کامرس کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔