ڈاکٹر فرمان فتح پوری

فرمان بھائی ( میں بھی بے شمار دوسرے احباب کی طرح انھیں فرمان بھائی ہی کہا کرتا تھا ) کی وفا ت کی خبر ا س اعتبار سے ۔۔۔

Amjadislam@gmail.com

فرمان بھائی ( میں بھی بے شمار دوسرے احباب کی طرح انھیں فرمان بھائی ہی کہا کرتا تھا ) کی وفا ت کی خبر ا س اعتبار سے غیر متوقع نہیں کہ وہ عمر کے جس حصے میں تھے اور جتنے عرصے سے بیمار چلے آرہے تھے، یہ ''ہونی'' کسی وقت بھی رُونما ہو سکتی تھی لیکن جس طرح کسی خاندان کے بزرگوں کی عمر نہیں ان کے حوالے سے اﷲ کی رحمت اور برکت کا شکر ادا کیا جاتا ہے، اسی طرح جب ادیبوں کی برادری سے بھی فرمان بھائی جیسا کوئی سراپا محبت بزرگ رخصت ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی رحمت اور برکت کا ایک استعارہ بھی اس فانی دنیا سے پردہ کر لیتا ہے۔

اُن سے میری آخری ملاقات چند ماہ قبل کراچی آرٹ کونسل کی ادبی کانفرنس کے ایک ایسے سیشن میں ہوئی جس میں برادرم احمد شاہ نے خاص طور پر چند ایسے بزرگوں کو اسٹیج پر جمع کیا تھا جو بلاشبہ کراچی شہر اور اُردو ادب کے روشن اور بزرگ ترین ستارے تھے (ان میں سے ایک یعنی لطف اﷲ خان بھی اس دوران میں ہم سے جُدا ہوچکے ہیں) یقین جانیے، ان سب جسمانی طور پر کمزور ، علیل اور بعض صورتوں میں چلنے پھرنے سے بھی معذور سینئرز کو ایک ساتھ دیکھ کر جو خوشی ہوئی اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا کہ جس قوم اور زبان کے پاس ایسے زندہ اور بھر پور خزانے ہوں، وہ یقیناً ہر طرح کی خراب صورتِ حال کا مقابلہ کر سکتی ہے۔

فرمان بھائی ایک سیلف میڈ انسان تھے ، انھوں نے بھی ڈپٹی نذیر احمد، پریم چند، شریف کنجاہی، انور مسعود اور دیگر کئی نامور ادبی شخصیات کی طرح عملی زندگی کا آغاز اسکول ماسٹری سے کیا اور بے شمار دنیاوی ترقیوں کے باوجود زندگی بھر اپنے اس ''اختصاص'' پر فخر کرتے رہے، ان کے نام اور کام سے میرا تعارف اگرچہ میری طالب علمی کے زمانے سے ہی ہوگیا تھا لیکن ان سے بالمشافہ ملاقات ستّر کی دہائی کے آخری برسوں میں ہوئی، یہ بات میرے لیے باعثِ فخر اور ان کی عظمت اور بے تعصبی کا ایک زندہ ثبوت ہے کہ اُنہوں نے کسی قسم کے تعارف اور ذاتی تعلق کی عدم موجودگی کے باوجود 1975 ء میں قاسمی صاحب کے ''فنون ''میں میرے پہلے شعری مجموعے ''برزخ'' پر ایک تفصیلی اور تعریفی مضمون لکھا جس کی ایک اضافی خوبی یہ ہے کہ یہ کسی بھی مستند نقاد کی طرف سے میرے بارے میں لکھا گیا پہلا باقاعدہ مضمون ہے، اس ذاتی حوالے کا ذکر اس لیے بیچ میں آگیا کہ اب ایسے ''فرخندہ طبع لوگ'' خواب و خیال ہوتے جارہے ہیں۔

مجھے یا د ہے اُن دنوں وہ اپنے ادبی مرشد نیاز فتح پوری مرحوم کا جاری کردہ رسالہ ''نگار'' بڑی پابندی اور سلیقے سے شایع کیا کرتے تھے، وقت کے ساتھ ساتھ بوجوہ اس کی باقاعدگی میں تو فرق آگیا مگر وہ اپنی آخری سانس تک اس تعلق کو نبھاتے رہے اور دیکھا جائے تو ان کی شخصیت کا سب سے اہم اور روشن پہلو بھی اُن کی یہی ''وضع داری'' تھی اور غالب کے مصرعے کو اگر ذرا سی تعریف کے ساتھ پڑھا جائے تو فرمان بھائی ''وضع داری'' بشرطِ استواری ، اصلِ ایماں ہے ''کی ایک جیتی جاگتی تصویر تھے، اگر چہ میرا اِن کا تعلق کم و بیش چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے لیکن بالوں کی بڑھتی ہوئی سفیدی سے قطع نظر وہ مجھے ہمیشہ ایک جیسے لگے کہ اُن کی آنکھوں اور ہونٹوں پر پھیلتی محبت بھری مسکراہٹ کا جادو کم از کم مجھے تو کچھ اور دیکھنے ہی نہیں دیتا تھا، بطور نقاد، محقق، مدرّس اور ماہر لسانیات ان کا مقام ایسا تھا جس میں میری تعریف اور وضاحت کوئی اضافہ نہیںکرسکتی البتہ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ وہ ان چند مستند اور غیر معمولی ادبی صلاحیت کے حامل بزرگوں میں سے تھے جو تقریر اور اظہارِ خیال کی خوب صورتی ، معنویت اور دلچسپی کے حوالے سے بھی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے ۔ بھلے ہی ان کے یہاں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ جیسی بے ساختگی اور رنگا رنگی نہ ہو مگر جب وہ بولتے تھے تو مولا نا حالی کے اس مصرعے کی سی فضا قائم ہوجاتی تھی کہ ''ہر خورد و کلاں تیری فصاحت پہ فدا ہے ''

یوں تو ان کے ساتھ کئی بار بیرون ملک سفر کا موقع ملا لیکن عوامی جمہوریہ چین اور پاکستانی ادیبوں کے درمیان ثقافتی تبادلے کے تحت کیا ہوا بیس برس قبل کا ایک سفر مجھے خصوصیت سے یاد ہے جو پندرہ دن پر مشتمل تھا اور یہ سارا وقت ہم نے ایک ساتھ گزارا(افسوس کہ اب اس کے آٹھ ہم سفروں میں سے وفد کے سربراہ اجمل خٹک سمیت منیر نیازی ، علی احمد بروہی ، حسن رضوی اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری ہماری آپ کی اس دنیا میں نہیں رہے) اس سفر کی مفصل رُوداد اگرچہ میں اپنے سفرنامہ چین ''ریشم ریشم'' میں قلم بند کر چکا ہوں لیکن اس وقت فرمان بھائی کے حوالے سے اس وقت کی یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو ان کی شخصیت کے کئی دلآویز رُوپ نظروں کے سامنے گھوم جاتے ہیں، اُن میں حضرت علیؓ کے بقول اعلیٰ ترین مجاہدوں والی ایک صفت بدرجہ اتم موجود تھی کہ جو جہا د کے وقت سب سے اگلی صف میں سینہ سپر ہوتے ہیں اور مال غنیمت کی تقسیم کے موقع پر پچھلی صفوں میں چھپتے پھرتے ہیں، وہ ایک مثالی ہم سفر تھے کہ میں نے پورے سفر کے دوران انھیں ساتھیوں کی مدد کے جذبے سے ہی سرشار پایا جب کہ اپنی ذات کے لیے وہ کسی رعائت کے طلب گار نہیں تھے۔

ان کے داماد ڈاکٹر سلمان امریکی ڈاکٹروں کی تنظیم ''اپنا '' کی ادبی کمیٹی کے ایک سرگرم رکن ہیں لیکن فرمان بھائی اپنی تمام تر غیر مشروط علمی وجاہت اور استحقاق کے باوجو د ''اپنا'' کی محفلوں میں شمولیت سے ہمیشہ گریزاں رہے البتہ وہاں کے دیگر ادبی پروگراموں میں بخوشی شریک ہوتے رہے اور میری ان سے امریکا میں جتنی بھی ملاقاتیں ہوئیں ان میں سے ایک بھی ''اپنا ''کے زیر اہتمام نہیں تھی ۔ ایسے خوددار اور پاکیزہ صفت لوگ یقیناً کسی بھی معاشرے کے لیے باعثِ فخر ہوتے ہیں۔

فرمان بھائی 87 برس پر محیط ایک شاندار اننگز کھیل کر اب اُس ''ورلڈ کپ'' میں شرکت کے لیے جارہے ہیں جہاں کے دستور نئے بھی ہیں اور نرالے بھی لیکن مجھے یقین ہے کہ وہاں بھی ان کا شمار ''ٹاپ ٹین '' سے ملتی جلتی کسی کیٹیگری ہی میں ہوگا۔


ان کی قبر پر اس دنیا کے باغوں سے چُنے ہوئے پھول چڑھانے بھی میں ضرور جاؤں گا لیکن فی الوقت ایک پرانی غزل کے چند اشعار جو شائد فرمان بھائی کے لیے ہی لکھے گئے تھے، الفاظ کے پھولوں کی شکل میں حاضر ہیں۔

یوں گھر میں رہیں جیسے ہوں مہمان، یہی لوگ
ہوتے ہیں کسی دَور کی پہچان، یہی لوگ
...............
جو ہاتھ میں ہو بانٹ کے اُٹھتے ہیں سرِ شام
اُس قادرِ مطلق کا ہیں احسان، یہی لوگ
..................
لوگوں کے سہیں درد،بَسیں ان کے دِلوں میں
اِس رات میں میں صبح کا امکان ، یہی لوگ
..................
جینے کے لیے موت سے لیتے ہیں گواہی
دیکھو تو حقیقت میں ہیں انسان، یہی لوگ
Load Next Story