جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے
ایک اداکارہ سے انٹرویوکرتے ہوئے سوال کیا گیا ’ کیا آپ شراب پیتی ہیں ؟ ‘ ’ بالکل نہیں ‘ اداکارہ نے جواب دیا ۔۔۔
ایک اداکارہ سے انٹرویوکرتے ہوئے سوال کیا گیا ' کیا آپ شراب پیتی ہیں ؟ ' ' بالکل نہیں ' اداکارہ نے جواب دیا ' سگریٹ پیتی ہیں ؟' 'کبھی نہیں پی ' ۔ ' اچھا ! ہم نے سنا ہے کہ آپ جوا کھیلنے کی بڑی شائق ہیں ۔' ' میں نے آج تک نہ تاش کے پتوں کو ہاتھ لگایا اور نہ ہی کبھی جوا کھیلا '' اداکارہ نے مسکرا کر جواب دیا ۔ رپورٹر نے پوچھا ' گوشت تو کھاتی ہوں گی ؟' اداکارہ نے نفی میں سر ہلایا اور بولی 'میں ویجیٹرین ہوں ۔ دراصل یہ سب باتیں میری مخالف لابی نے میڈیا میں پھیلائی ہیں ۔
یہ لابی میرے خلاف کافی عرصے سے سازشیں کر رہی ہے تاکہ میری شہرت کو نقصان پہنچایا جا سکے۔' رپورٹر نے تنگ آکر پوچھا ' میڈم ! آپ میں کوئی نہ کوئی برائی تو ضرورموجود ہوگی ورنہ آپ کے بارے میں اس قسم کی باتیں سننے میں نہ آتیں ۔ سچ سچ بتائیے گا کیا آپ واقعی کسی بھی قسم کی بری عادت میں مبتلا نہیں ہیں ؟ اور اگر ہیں تو آخر وہ بری عادت کونسی ہے ؟' اداکارہ نے ایک ادا کے ساتھ اپنے بالوں کو جھٹکا اور مسکرا کر بولی ''سچ بتاؤں تو میری ایک ہی بری عادت ہے اور وہ یہ کہ میں جھوٹ بہت بولتی ہوں ۔'' اداکارہ کے اس پہلے سچے جواب کے ساتھ ہی یہ انٹرویو ختم ہوگیا ۔
گزشتہ کالم میں ، ہم نے سچ کے بارے میں گفتگو کی تھی کہ سچ بولنا اور سننا تلخ ضرور ہوتا ہے ، اس سے تکلیف بھی پہنچتی ہے لیکن بالاآخر فتح سچ ہی کی ہوتی ہے اور اس کے نتائج ہمیشہ سود مند نکلتے ہیں اس کے برعکس جھوٹ کے چونکہ پاؤں نہیں ہوتے لہذا جھوٹ بولنے والے کو ہمیشہ سوائے رسوائی کے اور کچھ نہیں ملتا ۔ خصوصاً وہ لوگ جو قیادت کے منصب پر فائز ہوں انھیں تو ہرگز جھوٹ نہیں بولنا چاہیے ۔ امریکا اور یورپ کی موجودہ خیرہ کن ترقی کا راز یہی ہے کہ وہ برائیوں کی ماں یعنی جھوٹ کو بڑی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔
خواہ وہ خود جھوٹ بول بھی لیں ، لیکن وہاں کے عوام یہ ہرگز برداشت نہیں کرتے کہ ان کی قیادت میں یہ خامی موجود ہو ۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور مونیکا لیونسکی کا اسکینڈل جب منظر عام پر آیا تو بل کلنٹن نے اس کی تردید کی اور اس اسکینڈل کو جھوٹا اسکینڈل قرار دے دیا ۔ لیکن جب عوام کو یہ معلوم ہوا کہ بل کلنٹن اور مونیکا کے درمیان واقعی تعلقات تھے تو بل کلنٹن کو صرف اس لیے مواخذے کا سامنا کرنا پڑا کہ انھوں نے جھوٹ کیوں بولا ؟اس لیے نہیں کہ ان کے لیونسکی سے تعلقات کیوں تھے ؟ چین کے انقلابی رہنما ماوزے تنگ نے چینی عوام سے صاف صاف کہہ دیا تھا '' میں تمہارے لیے دنیا سے اناج کی بھیک نہیں مانگوں گا لیکن تمہیں زمینیںضرور دے سکتا ہوں ، محنت کرو اور اپنا اناج خود پیدا کرو '' اس سچ کے نتائج آج موجودہ ترقی یافتہ چین کی صورت میں سب کے سامنے ہیں ۔
ہماری سابقہ حکومت کے وزیر بجلی دو سال تک اس جھوٹ کی گردان کرتے رہے کہ 21 دسمبر 2009 تک لوڈ شیڈنگ بالکل ختم کردیں گے ۔ یہ لوڈشیڈنگ ختم تو کیا ہوتی ، اس کا دورانیہ مزید بڑھ گیا ۔نتیجہ ان کی رسوائی اور عوام کی اذیت کی شکل میں آپ کے سامنے ہے ۔ سچی قیادت کا حامل چین ، آج دنیا کو اناج اور پھل برآمد کر رہا ہے ۔ دنیا میں سب سے زیادہ پھلوں کی پیداوار آج چین میں ہوتی ہے اور ہم اناج اور بجلی کے لیے آئی ایم ایف ، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں ۔ لیکن عوام کو جھوٹی تسلیاں دینے سے باز نہیں آتے ۔ قرض کا سود ادا کرنے کے لیے مزید قرضہ لے رہے ہیں اور فرماتے ہیں '' اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔'' سوال یہ ہے کہ جس قرضے کو ادا کرنے کے لیے مزید قرضہ لیا جارہا ہے ۔
وہ قرضہ آخر گیا کہاں ؟ کن مقاصد کے لیے پچھلا قرضہ لیا گیا تھا ۔ اگر ہ مقاصد پورے نہیں ہوئے تو اس کا ذمے دار کون ہے ؟ اس کا احتساب کیوں نہیں کیا جاتا ؟ اگر پچھلا قرض لینے والوں اور اس قرض کو خرچ کرنے والوں کا احتساب نہیں کیا گیا تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ نئے قرض کے ساتھ بھی یہی '' سلوک '' نہیں کیا جائے گا ؟ عوام کے نام پر قرضہ لے کر کھا جانے والے ڈکاریں لے کر بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور عوام پچھلے پچاس برسوں سے ایسے قرضے اتار رہے ہیں جو ان پر واجب بھی نہیں تھے۔ مہنگی بجلی ، مہنگی گیس اور مہنگا پیٹرول عوام کی تقدیر میں لکھنے والے اقتدار میں آنے سے قبل یہ جھوٹا دعوی کرتے نہیں تھکتے تھے کہ '' عوام کی تقدیر بدل دیں گے '' تقدیر تو واقعی بدل گئی ۔ تینوں چیزیں مزید مہنگی ہونے کی خوش خبری عوام کو سنا دی گئی ہے ۔
عوام سے آخر سچ کیوں نہیں بولا جاتا ؟ جھوٹے دعوے اور اعلانات کر کے انھیں بے وقوف کیوں بنایا جاتا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ جب حکمران طبقہ مکافات ِعمل کا شکارہو کر اقتدار سے بے دخل ہوتا ہے تو ایک آواز بھی ان کی حمایت میں نہیں اٹھتی ہے ۔ سابقہ وزیر داخلہ جس دن بھی یہ کہتے تھے کہ '' دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے '' ان کے اس اعلان کے بعد، چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر دہشت گرد بم دھماکا کر کے اور درجنوں معصوم عوام کی جانیں لے کر عملی طور پر اس اعلان کی تردید کر دیا کرتے تھے ۔ تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کی خوش خبریاں پانچ برس تک عوام سنتے رہے اور اس کوئلے سے بجلی بنانے والا سائنسدان ڈاکٹر مبارک ثمر مند اس پروجیکٹ کے لیے مختص کردہ فنڈز حاصل کرنے کے لیے دھکے کھاتا رہا ۔ صرف ایک بیوروکریٹ اس محب وطن سائنسدان کو تگنی کا ناچ نچاتا رہا ۔
ڈاکٹر صاحب کو شیر شاہ کی کباڑی مارکیٹ ( جو کراچی کی سب سے بڑی پرانے اسپیئر پارٹس کی مارکیٹ ہے ) میں ایک پرانا کمپریسر تلاش کرتے ہوئے دیکھا گیا ، جو انھیں اسی پروجیکٹ کے لیے درکار تھا ۔ تھر کا کوئلہ زیر زمین میلوں کی گہرائی میں اب بھی موجود ہے ۔ یہ نکلے گا یا نکالے بغیر ٹیکنالوجی کے ذریعے اسے توانائی میں تبدیل کیا جائے ، تبھی تو بجلی حاصل ہوگی ۔ لیکن پچھلے پانچ برسوں میں ایساکچھ بھی نہیں ہوا ۔ اس وقت بھی صورتحال جوں کی توں ہے ۔
لیکن عوام سے مسلسل یہ کہا جارہا ہے کہ تھر میں اتنا کوئلہ موجود ہے ، تھر کے کوئلے سے اتنے سال تک پچاس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تھر کے کوئلے سے ابھی تک ایک میگا واٹ بجلی بھی نہیں بنائی جاسکی ہے ۔ سارا پروپیگنڈا اس بات کا کیا جارہا ہے کہ گیس کے پاور پلانٹس کوئلے پر کنورٹ کیے جائیں گے ۔ کیونکہ کوئلہ سستا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آج کل مختلف صنعتوں میں جو کوئلہ استعمال کیا جارہا ہے کیا یہ کوئلہ پاکستان میں پیدا ہوتا ہے ؟ ہرگز نہیں! کراچی کی بندرگاہوں پر روزانہ کم سے کم دو سے تین بڑے بحری جہاز یہ کوئلہ باہر سے لے کر آتے ہیں ۔ اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل یہ درآمدی کوئلہ مہنگا نہیں ہوجائے گا ؟ فرنس آئل کی طرح ، جیسے فرنس آئل سے ان پاور پلانٹس کو گیس پر لایا گیا اور اب گیس کی شارٹیج ہوگئی تو کوئلے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ ساری دلچسپی ان پاور پلانٹس کو کوئلے پرمنتقل کرنے والے ٹھیکوں پر مرکوز ہے ۔ اور تھر میں مدفون کوئلے کی قبر پر کوئی فاتحہ پڑھنے کو بھی تیار نہیں ہے ۔
خدارا عوام سے سچ بولیں انھیں اعتماد میںلیں ۔ عوام کو خوشحال نہیں کر سکتے تو عوام کی غربت میں ہی حصہ دار بن جائیں ۔ عوام کی سطح پر خود کو لے آئیں تو کوئی شکایت نہیں کرے گا ۔ ذرا تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھیں ۔ عوام نے بھوک کی شکایت کرتے ہوئے پیٹ سے بندھا ہوا پتھر دکھایا تو قیادت نے جواب میں اپنا کرتا اٹھا کر ، اپنا پیٹ دکھایا جس پر ایک کی جگہ دو پتھر بندھے ہوئے تھے ۔ آپ بھی جھوٹ نہ بولیں سچ بولیں تو عوام آپ کے ساتھ بھی کھڑے ہوجائیں گے ۔ ورنہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے نہ یہ خود کہیں کھڑا ہوتا ہے اور نہ بولنے والے کو کہیں ٹھہرنے دیتا ہے ۔
یہ لابی میرے خلاف کافی عرصے سے سازشیں کر رہی ہے تاکہ میری شہرت کو نقصان پہنچایا جا سکے۔' رپورٹر نے تنگ آکر پوچھا ' میڈم ! آپ میں کوئی نہ کوئی برائی تو ضرورموجود ہوگی ورنہ آپ کے بارے میں اس قسم کی باتیں سننے میں نہ آتیں ۔ سچ سچ بتائیے گا کیا آپ واقعی کسی بھی قسم کی بری عادت میں مبتلا نہیں ہیں ؟ اور اگر ہیں تو آخر وہ بری عادت کونسی ہے ؟' اداکارہ نے ایک ادا کے ساتھ اپنے بالوں کو جھٹکا اور مسکرا کر بولی ''سچ بتاؤں تو میری ایک ہی بری عادت ہے اور وہ یہ کہ میں جھوٹ بہت بولتی ہوں ۔'' اداکارہ کے اس پہلے سچے جواب کے ساتھ ہی یہ انٹرویو ختم ہوگیا ۔
گزشتہ کالم میں ، ہم نے سچ کے بارے میں گفتگو کی تھی کہ سچ بولنا اور سننا تلخ ضرور ہوتا ہے ، اس سے تکلیف بھی پہنچتی ہے لیکن بالاآخر فتح سچ ہی کی ہوتی ہے اور اس کے نتائج ہمیشہ سود مند نکلتے ہیں اس کے برعکس جھوٹ کے چونکہ پاؤں نہیں ہوتے لہذا جھوٹ بولنے والے کو ہمیشہ سوائے رسوائی کے اور کچھ نہیں ملتا ۔ خصوصاً وہ لوگ جو قیادت کے منصب پر فائز ہوں انھیں تو ہرگز جھوٹ نہیں بولنا چاہیے ۔ امریکا اور یورپ کی موجودہ خیرہ کن ترقی کا راز یہی ہے کہ وہ برائیوں کی ماں یعنی جھوٹ کو بڑی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔
خواہ وہ خود جھوٹ بول بھی لیں ، لیکن وہاں کے عوام یہ ہرگز برداشت نہیں کرتے کہ ان کی قیادت میں یہ خامی موجود ہو ۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور مونیکا لیونسکی کا اسکینڈل جب منظر عام پر آیا تو بل کلنٹن نے اس کی تردید کی اور اس اسکینڈل کو جھوٹا اسکینڈل قرار دے دیا ۔ لیکن جب عوام کو یہ معلوم ہوا کہ بل کلنٹن اور مونیکا کے درمیان واقعی تعلقات تھے تو بل کلنٹن کو صرف اس لیے مواخذے کا سامنا کرنا پڑا کہ انھوں نے جھوٹ کیوں بولا ؟اس لیے نہیں کہ ان کے لیونسکی سے تعلقات کیوں تھے ؟ چین کے انقلابی رہنما ماوزے تنگ نے چینی عوام سے صاف صاف کہہ دیا تھا '' میں تمہارے لیے دنیا سے اناج کی بھیک نہیں مانگوں گا لیکن تمہیں زمینیںضرور دے سکتا ہوں ، محنت کرو اور اپنا اناج خود پیدا کرو '' اس سچ کے نتائج آج موجودہ ترقی یافتہ چین کی صورت میں سب کے سامنے ہیں ۔
ہماری سابقہ حکومت کے وزیر بجلی دو سال تک اس جھوٹ کی گردان کرتے رہے کہ 21 دسمبر 2009 تک لوڈ شیڈنگ بالکل ختم کردیں گے ۔ یہ لوڈشیڈنگ ختم تو کیا ہوتی ، اس کا دورانیہ مزید بڑھ گیا ۔نتیجہ ان کی رسوائی اور عوام کی اذیت کی شکل میں آپ کے سامنے ہے ۔ سچی قیادت کا حامل چین ، آج دنیا کو اناج اور پھل برآمد کر رہا ہے ۔ دنیا میں سب سے زیادہ پھلوں کی پیداوار آج چین میں ہوتی ہے اور ہم اناج اور بجلی کے لیے آئی ایم ایف ، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں ۔ لیکن عوام کو جھوٹی تسلیاں دینے سے باز نہیں آتے ۔ قرض کا سود ادا کرنے کے لیے مزید قرضہ لے رہے ہیں اور فرماتے ہیں '' اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔'' سوال یہ ہے کہ جس قرضے کو ادا کرنے کے لیے مزید قرضہ لیا جارہا ہے ۔
وہ قرضہ آخر گیا کہاں ؟ کن مقاصد کے لیے پچھلا قرضہ لیا گیا تھا ۔ اگر ہ مقاصد پورے نہیں ہوئے تو اس کا ذمے دار کون ہے ؟ اس کا احتساب کیوں نہیں کیا جاتا ؟ اگر پچھلا قرض لینے والوں اور اس قرض کو خرچ کرنے والوں کا احتساب نہیں کیا گیا تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ نئے قرض کے ساتھ بھی یہی '' سلوک '' نہیں کیا جائے گا ؟ عوام کے نام پر قرضہ لے کر کھا جانے والے ڈکاریں لے کر بیرون ملک چلے جاتے ہیں اور عوام پچھلے پچاس برسوں سے ایسے قرضے اتار رہے ہیں جو ان پر واجب بھی نہیں تھے۔ مہنگی بجلی ، مہنگی گیس اور مہنگا پیٹرول عوام کی تقدیر میں لکھنے والے اقتدار میں آنے سے قبل یہ جھوٹا دعوی کرتے نہیں تھکتے تھے کہ '' عوام کی تقدیر بدل دیں گے '' تقدیر تو واقعی بدل گئی ۔ تینوں چیزیں مزید مہنگی ہونے کی خوش خبری عوام کو سنا دی گئی ہے ۔
عوام سے آخر سچ کیوں نہیں بولا جاتا ؟ جھوٹے دعوے اور اعلانات کر کے انھیں بے وقوف کیوں بنایا جاتا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ جب حکمران طبقہ مکافات ِعمل کا شکارہو کر اقتدار سے بے دخل ہوتا ہے تو ایک آواز بھی ان کی حمایت میں نہیں اٹھتی ہے ۔ سابقہ وزیر داخلہ جس دن بھی یہ کہتے تھے کہ '' دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے '' ان کے اس اعلان کے بعد، چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر دہشت گرد بم دھماکا کر کے اور درجنوں معصوم عوام کی جانیں لے کر عملی طور پر اس اعلان کی تردید کر دیا کرتے تھے ۔ تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کی خوش خبریاں پانچ برس تک عوام سنتے رہے اور اس کوئلے سے بجلی بنانے والا سائنسدان ڈاکٹر مبارک ثمر مند اس پروجیکٹ کے لیے مختص کردہ فنڈز حاصل کرنے کے لیے دھکے کھاتا رہا ۔ صرف ایک بیوروکریٹ اس محب وطن سائنسدان کو تگنی کا ناچ نچاتا رہا ۔
ڈاکٹر صاحب کو شیر شاہ کی کباڑی مارکیٹ ( جو کراچی کی سب سے بڑی پرانے اسپیئر پارٹس کی مارکیٹ ہے ) میں ایک پرانا کمپریسر تلاش کرتے ہوئے دیکھا گیا ، جو انھیں اسی پروجیکٹ کے لیے درکار تھا ۔ تھر کا کوئلہ زیر زمین میلوں کی گہرائی میں اب بھی موجود ہے ۔ یہ نکلے گا یا نکالے بغیر ٹیکنالوجی کے ذریعے اسے توانائی میں تبدیل کیا جائے ، تبھی تو بجلی حاصل ہوگی ۔ لیکن پچھلے پانچ برسوں میں ایساکچھ بھی نہیں ہوا ۔ اس وقت بھی صورتحال جوں کی توں ہے ۔
لیکن عوام سے مسلسل یہ کہا جارہا ہے کہ تھر میں اتنا کوئلہ موجود ہے ، تھر کے کوئلے سے اتنے سال تک پچاس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تھر کے کوئلے سے ابھی تک ایک میگا واٹ بجلی بھی نہیں بنائی جاسکی ہے ۔ سارا پروپیگنڈا اس بات کا کیا جارہا ہے کہ گیس کے پاور پلانٹس کوئلے پر کنورٹ کیے جائیں گے ۔ کیونکہ کوئلہ سستا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آج کل مختلف صنعتوں میں جو کوئلہ استعمال کیا جارہا ہے کیا یہ کوئلہ پاکستان میں پیدا ہوتا ہے ؟ ہرگز نہیں! کراچی کی بندرگاہوں پر روزانہ کم سے کم دو سے تین بڑے بحری جہاز یہ کوئلہ باہر سے لے کر آتے ہیں ۔ اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل یہ درآمدی کوئلہ مہنگا نہیں ہوجائے گا ؟ فرنس آئل کی طرح ، جیسے فرنس آئل سے ان پاور پلانٹس کو گیس پر لایا گیا اور اب گیس کی شارٹیج ہوگئی تو کوئلے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ ساری دلچسپی ان پاور پلانٹس کو کوئلے پرمنتقل کرنے والے ٹھیکوں پر مرکوز ہے ۔ اور تھر میں مدفون کوئلے کی قبر پر کوئی فاتحہ پڑھنے کو بھی تیار نہیں ہے ۔
خدارا عوام سے سچ بولیں انھیں اعتماد میںلیں ۔ عوام کو خوشحال نہیں کر سکتے تو عوام کی غربت میں ہی حصہ دار بن جائیں ۔ عوام کی سطح پر خود کو لے آئیں تو کوئی شکایت نہیں کرے گا ۔ ذرا تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھیں ۔ عوام نے بھوک کی شکایت کرتے ہوئے پیٹ سے بندھا ہوا پتھر دکھایا تو قیادت نے جواب میں اپنا کرتا اٹھا کر ، اپنا پیٹ دکھایا جس پر ایک کی جگہ دو پتھر بندھے ہوئے تھے ۔ آپ بھی جھوٹ نہ بولیں سچ بولیں تو عوام آپ کے ساتھ بھی کھڑے ہوجائیں گے ۔ ورنہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے نہ یہ خود کہیں کھڑا ہوتا ہے اور نہ بولنے والے کو کہیں ٹھہرنے دیتا ہے ۔