جالب اور ان کی بیٹی کی برسی
سال 2013میں عجیب اتفاق ہوا ہے کہ ایک ہی دن حبیب جالب اور ان کی جواں مرگ بیٹی جمیلہ نور افشاں ۔۔۔
سال 2013میں عجیب اتفاق ہوا ہے کہ ایک ہی دن حبیب جالب اور ان کی جواں مرگ بیٹی جمیلہ نور افشاں کی برسی آئی ہے حبیب جالب کا انتقال13مارچ 1993کے دن ہوا تھا اور اس دن اسلامی تاریخ 18رمضان تھی۔ جالب صاحب کی بیٹی کا انتقال 28جولائی 2009کے دن ہوا تھا اب کے سال 18رمضان اور 28جولائی ایک ساتھ آئے ہیں۔
حبیب جالب کو دنیا سے رخصت ہوئے20سال ہوگئے اور جمیلہ نور افشاں کی یہ چوتھی برسی ہے۔
مجھے خوب یاد ہے 1993میں رمضان شروع ہونے سے پہلے میں لاہور میں تھا، بھائی جالب شیخ زید اسپتال میں داخل تھے۔ بھائی چراغ سحری کی طرح کبھی بجھنے لگتے، کبھی جل اٹھتے، چند ماہ سے یہی کیفیت چل رہی تھی۔ میں بھائی کو اس کیفیت میں چھوڑ کر واپس کراچی آگیا، امید تھی کہ بھائی رمضان کا مہینہ گزارلیں گے اور میں عید کراچی میں گزار کر واپس لاہور آجاؤںگا۔ مگر میں کم عقل، میں کیا جانوں قدرت کے فیصلے کیا ہیں،
اﷲ تعالیٰ تو خود اپنے نیک بندے حبیب جالب کو اپنے پاس بلانے کے لیے رمضان شریف کے مہینے کو چنا تھا کہ جس مہینے میں اﷲ کے نیک بندے ہی آخری سفر اختیار کرتے ہیں اور سیدھے جنت میں داخل ہوجاتے ہیں، کیونکہ اس ماہ مبارک میں جنت کے تمام دروازے کھلے ہوتے ہیں، اور جہنم مکمل بند ہوتی ہے، حضرت علامہ شاہ احمد نورانی رحمۃ اﷲ علیہ نے جالب صاحب کے انتقال پر کہا تھا ''حبیب جالب کی وفات رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں جمعہ کی رات ہوئی اور ان مقدس ایام میں صرف اﷲ کے محبوب بندے ہی آخری سفر کرتے ہیں'' جالب بھائی کے انتقال کی اطلاع رات ڈھائی بجے ٹیلی فون پر ملی تھی، میرا بھتیجا مقصود (بھائی مشتاق مبارک کا منجلا بیٹا) بول رہا تھا ''چچا سعید! چچا جالب کا انتقال ہوگیاہے۔''
یہ خبر سننے کے لیے میں ڈیڑھ دو ماہ پہلے سے ہی خود کو تیار کرچکا تھا۔ میں نے کوشش کی کہ حوصلہ قائم رکھوں مگر نہیں رکھ سکا۔
خیر، جب میں، بھائی عبدالحمید خان اور محمود الحسن مرحوم (بھائی مشتاق مبارک کا بڑا بیٹا) صبح چھ بجے جہاز میں لاہور جانے کے لیے بیٹھے تو اخبارات ہمارے سامنے تھے، بھائی حبیب جالب کے انتقال کی خبر تمام اخباروں میں نمایاں شایع کی گئی تھی۔ لاہور پہنچے، اب ہم ٹیکسی میں سوار مانوس رستوں سے گزر رہے تھے ، رستے اداس تھے ، ویران تھے، مجھے ناصر کاظمی یاد آئے تھے۔
دل تو اپنا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
جالب بھائی کی تدفین والے دن آسمان بھی جی بھر کے رویا تھا۔ اس واقعے کو شاعر اسلم گورداسپوری نے یوں بیان کیا تھا۔
فرط غم حبیب سے ہر سوگوار کی
آنکھوں سے آنسوؤں کی روانی نہ تھم سکی
لپٹی کفن میں میت جالب کو دیکھ کر
کل آسماں کی اشک فشانی نہ تھم سکی
اب جالب بھائی کو آہوں اور سسکیوں کے ساتھ قبر میں اتارا جارہا تھا۔ آسماں بھی کھل کر برس چکا تھا اور اب پھوار پڑرہی تھی، شہر کے ادبا، وکلاء جج صاحبان، سیاسی رہنما، کارکن، مزدور اور عوام شدید بارش کے باوجود کثیر تعداد میں موجود تھے۔ شاعر حبیب جالب کو سپرد خاک کرنے کے منظر کو امجد اسلام امجد نے یوں قلم بند کیا ہے۔
جس آوارہ ، دیوانے کو جالب کہتے تھے
ہستی کی اس راہ گزر سے اب وہ جاتا ہے
اے مٹی، اے ارض وطن، لے اپنی بانہیں کھول
تیری جانب لوٹ کے تیرا شاعر آتا ہے
جمیلہ نور افشاں، بھائی حبیب جالب کی بڑی بیٹی، جالب بھائی کو اپنی اس بیٹی سے بہت پیار تھا، حبیب جالب کو بڑا شاعر تسلیم کروانے میں اس بچی کا بھی حصہ ہے یہ واقعہ ہے 1967کا۔ بھائی جالب کی شہرہ آفاق کتاب ''سر مقتل'' شایع ہوچکی تھی۔ اکتوبر1966میں اس کتاب کا پہلا ایڈیشن چھپا۔ پھر پونے دوماہ میں اس کتاب کے سات ایڈیشن شایع ہوئے، نومبر1966کے آخری ہفتے میں جنرل ایوب خان کی حکومت نے کتاب پر پابندی لگادی، کتاب کے پبلیشر مکتبہ کارواں کے چوہدری عبدالحمید کو گرفتار کرلیا، پریس میں موجود زیر طبع ایڈیشن ضبط کرلیے اور پریس کو سیل کردیا۔ جنرل کے مخالفوں اور آزادی کے متوالوں نے پورے ملک میں سر مقتل کو خفیہ چھاپہ خانوں میں چھاپ چھاپ کر پھیلادیا۔ خیر چند دنوں بعد جالب صاحب کو بھی ''یوم حمید نظامی'' پر نظم ''چھ ستمبر'' سنانے پر گرفتار کرلیا گیا، اس جلسے کی صدارت ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی اور اسٹیج سیکریٹری شورش کاشمیری تھے۔
جالب صاحب پولیس کی گرفت میں تھے اور انھیں ہتھکڑی لگا کر پولیس ان کے گھر لے آئی، پولیس کا کہنا تھا کہ ضبط شدہ کتاب گھر میں موجود ہے اور مخبر نے بڑی پکی خبر پولیس کو دی تھی۔ کیونکہ پولیس اسی الماری کی طرف لپکی جہاں کتابیں پڑی تھیں، ہماری بھابی نے پولیس کو آتا دیکھ کر کتابوں کا بنڈل نیچے مالک مکان کے صحن میں پھینک دیا، اور انھوں نے کتابوں کو کہیں اور منتقل کردیا۔ جمیلہ نورافشاں اس وقت دو سال کی بچی تھی۔ وہ ماں کی گود سے باپ کی گود میں جانے کے لیے بے قرار ہورہی تھی۔ شاعر نے اپنی بچی کو اٹھالیا اور بچی نے باپ کے ہاتھوں میں بندھی ہتھکڑی سے کھیلنا شروع کردیا۔ بچی ہتھکڑی سے کھیل رہی تھی اور باب کو دیکھ دیکھ کر ہنس رہی تھی اور یوں شاعر نے ایک چھوٹی سی مگر بہت بڑی نظم کہہ ڈالی ،تین اشعار کی نظم دیکھئے۔
میری بچی
اس کو شاید کھلونا لگی ہتھکڑی
میری بچی مجھے دیکھ کر ہنس پڑی
یہ ہنسی تھی، سحر کی بشارت مجھے
یہ ہنسی دے گئی کتنی طاقت مجھے
کس قدر زندگی کو سہارا ملا
ایک تابندہ کل کا اشارا ملا
ابراہیم جلیس نے کہا تھا ''ہم اس نظم کو بین الاقوامی سطح پر فخریہ پیش کرسکتے ہیں۔''
حبیب جالب کو دنیا سے رخصت ہوئے20سال ہوگئے اور جمیلہ نور افشاں کی یہ چوتھی برسی ہے۔
مجھے خوب یاد ہے 1993میں رمضان شروع ہونے سے پہلے میں لاہور میں تھا، بھائی جالب شیخ زید اسپتال میں داخل تھے۔ بھائی چراغ سحری کی طرح کبھی بجھنے لگتے، کبھی جل اٹھتے، چند ماہ سے یہی کیفیت چل رہی تھی۔ میں بھائی کو اس کیفیت میں چھوڑ کر واپس کراچی آگیا، امید تھی کہ بھائی رمضان کا مہینہ گزارلیں گے اور میں عید کراچی میں گزار کر واپس لاہور آجاؤںگا۔ مگر میں کم عقل، میں کیا جانوں قدرت کے فیصلے کیا ہیں،
اﷲ تعالیٰ تو خود اپنے نیک بندے حبیب جالب کو اپنے پاس بلانے کے لیے رمضان شریف کے مہینے کو چنا تھا کہ جس مہینے میں اﷲ کے نیک بندے ہی آخری سفر اختیار کرتے ہیں اور سیدھے جنت میں داخل ہوجاتے ہیں، کیونکہ اس ماہ مبارک میں جنت کے تمام دروازے کھلے ہوتے ہیں، اور جہنم مکمل بند ہوتی ہے، حضرت علامہ شاہ احمد نورانی رحمۃ اﷲ علیہ نے جالب صاحب کے انتقال پر کہا تھا ''حبیب جالب کی وفات رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں جمعہ کی رات ہوئی اور ان مقدس ایام میں صرف اﷲ کے محبوب بندے ہی آخری سفر کرتے ہیں'' جالب بھائی کے انتقال کی اطلاع رات ڈھائی بجے ٹیلی فون پر ملی تھی، میرا بھتیجا مقصود (بھائی مشتاق مبارک کا منجلا بیٹا) بول رہا تھا ''چچا سعید! چچا جالب کا انتقال ہوگیاہے۔''
یہ خبر سننے کے لیے میں ڈیڑھ دو ماہ پہلے سے ہی خود کو تیار کرچکا تھا۔ میں نے کوشش کی کہ حوصلہ قائم رکھوں مگر نہیں رکھ سکا۔
خیر، جب میں، بھائی عبدالحمید خان اور محمود الحسن مرحوم (بھائی مشتاق مبارک کا بڑا بیٹا) صبح چھ بجے جہاز میں لاہور جانے کے لیے بیٹھے تو اخبارات ہمارے سامنے تھے، بھائی حبیب جالب کے انتقال کی خبر تمام اخباروں میں نمایاں شایع کی گئی تھی۔ لاہور پہنچے، اب ہم ٹیکسی میں سوار مانوس رستوں سے گزر رہے تھے ، رستے اداس تھے ، ویران تھے، مجھے ناصر کاظمی یاد آئے تھے۔
دل تو اپنا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
جالب بھائی کی تدفین والے دن آسمان بھی جی بھر کے رویا تھا۔ اس واقعے کو شاعر اسلم گورداسپوری نے یوں بیان کیا تھا۔
فرط غم حبیب سے ہر سوگوار کی
آنکھوں سے آنسوؤں کی روانی نہ تھم سکی
لپٹی کفن میں میت جالب کو دیکھ کر
کل آسماں کی اشک فشانی نہ تھم سکی
اب جالب بھائی کو آہوں اور سسکیوں کے ساتھ قبر میں اتارا جارہا تھا۔ آسماں بھی کھل کر برس چکا تھا اور اب پھوار پڑرہی تھی، شہر کے ادبا، وکلاء جج صاحبان، سیاسی رہنما، کارکن، مزدور اور عوام شدید بارش کے باوجود کثیر تعداد میں موجود تھے۔ شاعر حبیب جالب کو سپرد خاک کرنے کے منظر کو امجد اسلام امجد نے یوں قلم بند کیا ہے۔
جس آوارہ ، دیوانے کو جالب کہتے تھے
ہستی کی اس راہ گزر سے اب وہ جاتا ہے
اے مٹی، اے ارض وطن، لے اپنی بانہیں کھول
تیری جانب لوٹ کے تیرا شاعر آتا ہے
جمیلہ نور افشاں، بھائی حبیب جالب کی بڑی بیٹی، جالب بھائی کو اپنی اس بیٹی سے بہت پیار تھا، حبیب جالب کو بڑا شاعر تسلیم کروانے میں اس بچی کا بھی حصہ ہے یہ واقعہ ہے 1967کا۔ بھائی جالب کی شہرہ آفاق کتاب ''سر مقتل'' شایع ہوچکی تھی۔ اکتوبر1966میں اس کتاب کا پہلا ایڈیشن چھپا۔ پھر پونے دوماہ میں اس کتاب کے سات ایڈیشن شایع ہوئے، نومبر1966کے آخری ہفتے میں جنرل ایوب خان کی حکومت نے کتاب پر پابندی لگادی، کتاب کے پبلیشر مکتبہ کارواں کے چوہدری عبدالحمید کو گرفتار کرلیا، پریس میں موجود زیر طبع ایڈیشن ضبط کرلیے اور پریس کو سیل کردیا۔ جنرل کے مخالفوں اور آزادی کے متوالوں نے پورے ملک میں سر مقتل کو خفیہ چھاپہ خانوں میں چھاپ چھاپ کر پھیلادیا۔ خیر چند دنوں بعد جالب صاحب کو بھی ''یوم حمید نظامی'' پر نظم ''چھ ستمبر'' سنانے پر گرفتار کرلیا گیا، اس جلسے کی صدارت ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی اور اسٹیج سیکریٹری شورش کاشمیری تھے۔
جالب صاحب پولیس کی گرفت میں تھے اور انھیں ہتھکڑی لگا کر پولیس ان کے گھر لے آئی، پولیس کا کہنا تھا کہ ضبط شدہ کتاب گھر میں موجود ہے اور مخبر نے بڑی پکی خبر پولیس کو دی تھی۔ کیونکہ پولیس اسی الماری کی طرف لپکی جہاں کتابیں پڑی تھیں، ہماری بھابی نے پولیس کو آتا دیکھ کر کتابوں کا بنڈل نیچے مالک مکان کے صحن میں پھینک دیا، اور انھوں نے کتابوں کو کہیں اور منتقل کردیا۔ جمیلہ نورافشاں اس وقت دو سال کی بچی تھی۔ وہ ماں کی گود سے باپ کی گود میں جانے کے لیے بے قرار ہورہی تھی۔ شاعر نے اپنی بچی کو اٹھالیا اور بچی نے باپ کے ہاتھوں میں بندھی ہتھکڑی سے کھیلنا شروع کردیا۔ بچی ہتھکڑی سے کھیل رہی تھی اور باب کو دیکھ دیکھ کر ہنس رہی تھی اور یوں شاعر نے ایک چھوٹی سی مگر بہت بڑی نظم کہہ ڈالی ،تین اشعار کی نظم دیکھئے۔
میری بچی
اس کو شاید کھلونا لگی ہتھکڑی
میری بچی مجھے دیکھ کر ہنس پڑی
یہ ہنسی تھی، سحر کی بشارت مجھے
یہ ہنسی دے گئی کتنی طاقت مجھے
کس قدر زندگی کو سہارا ملا
ایک تابندہ کل کا اشارا ملا
ابراہیم جلیس نے کہا تھا ''ہم اس نظم کو بین الاقوامی سطح پر فخریہ پیش کرسکتے ہیں۔''