عوامی خدمت اور امداد

موجودہ دور میں مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث عوام کی ایک بڑی تعداد انتہائی نامساعد حالات میں گزر اوقات کررہی ہے۔۔۔

apro_ku@yahoo.com

موجودہ دور میں مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث عوام کی ایک بڑی تعداد انتہائی نامساعد حالات میں گزر اوقات کررہی ہے، پیشہ ور گداگروں کو چھوڑ کر اپنے ارد گرد جائزہ لیں تو بے شمار ایسے لوگ مل جائیں گے کہ جو کسی سے شکوہ نہیں کرتے، سوال نہیں کرتے مگر ان کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست بھی مشکل سے ہی ہوتا ہے، کبھی کسی غریب اور لوئر مڈل کلاس کی بستی میں چلے جایئے یا کسی مسافر بس میں سوار ہوجایئے تو لوگوں کے چہرے ان کی خستہ حالی اور پریشانیوں کی کہانیاں بیان کرتے ہوئے نظر آئیں گے، ایسے میں رمضان اور پھر عید کا موقع آجائے تو ان پریشان خوددار عوام کا کیا حال ہوگا، ایک عام کھاتا پیتا صاحب حیثیت آدمی اندازہ نہیں کرسکتا، سوائے اس کے کہ جس کو خدا توفیق دے۔

رمضان آتے ہی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر مختلف فلاحی اداروں کی جانب سے عطیات، صدقات، خیرات اور زکوٰۃ مانگنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ لوگ بھی میڈیا سے متاثر ہوکر انھی اداروں کو امداد دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اردگرد، پڑوس میں اور رشتہ داروں و احباب میں بھی خستہ حال، مستحق مگر خوددار لوگ موجود ہیں۔ اس جانب ہمارے علماء کو بھی چاہیے کہ وہ توجہ دلائیں۔ کچھ روز قبل ایک نجی ٹی وی چینل پر ہمارے محترم اور جامعہ کراچی کی ہر دلعزیز شخصیت حاجی حنیف طیب جلوہ افروز تھے۔ انھوں نے اس ٹی وی پروگرام میں لوگوں کو اس جانب ترغیب دی اور اسلامی حوالے سے لوگوں کو متوجہ کیا کہ وہ اپنے پڑوس اور عزیزوں کو بھی یاد رکھیں۔ انھوں نے اسلام میں پڑوسیوں کے اور رشتے داروں کے حقوق کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ وہ اپنے صدقات، خیرات اور زکوٰۃ وغیرہ میں پہلے ان کا خیال رکھیں۔ اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق کی طرف بھی توجہ دلائی۔

حاجی حنیف طیب میرے بھی محسن ہیں اور جامعہ کے بھی، ان کی زبان سے یہ بات سن کر بیحد خوشی ہوئی کیونکہ حاجی صاحب خود بھی فلاحی اداروں کے ذریعے عوام کی خدمت انجام دے رہے ہیں مگر انھوں نے اپنے مذکورہ پروگرام میں اپنے ادارے کے لیے چندے یا امداد کی اپیل نہیں کی بلکہ لوگوں کو اس غفلت سے جگانے کی کوشش کی جس کے تحت آج ہم سب یہ جانتے ہی نہیں کہ ہمارا پڑوسی کس حال میں ہے؟ اس کے گھر کا چولہا کس طرح جل رہا ہے۔ اس کے بچوں کے پاس عید پر کپڑے بنانے کے لیے کچھ ہے بھی یا نہیں۔


حاجی حنیف طیب نے ایک فلاحی ادارے کے ذریعے بھی کم آمدن اور غربت کا شکار طبقے کے لیے بھی ایک طویل عرصے سے خدمات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی کے ذریعے 1983 سے کراچی میں عوام الناس کی خدمت کی جارہی ہے۔ اس ادارے میں تعاون کرنیوالے مخیر حضرات میں ڈاکٹرز، انجینئرز، تاجر اور وکلا سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں۔ کراچی کے علاوہ بھی اس ادارے کی شاخیں پاکستان کے مختلف علاقوں سمیت کشمیر میں بھی عوام کی خدمت کررہی ہیں، یوں یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ حاجی صاحب کا یہ پودا پورے ملک میں عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ثمر سے فیض پہنچارہا ہے، اس ادارے کے توسط سے متوسط اور غریب طبقے کو سستا علاج بھی دستیاب ہے اور مستحقین کو مفت علاج بھی دستیاب ہے۔

المصطفیٰ سوسائٹی کے تحت طبی مراکز، دوا خانے، اسکول، مساجد، مدارس، یتیم خانے اور فنی تربیت کے مراکز کے تحت بھی عوام الناس کو فیض حاصل ہورہا ہے۔ راقم نے کئی ماہ قبل اتفاقاً المصطفیٰ میڈیکل سینٹر گلشن اقبال کا دورہ کیا تھا، وہاں جانا تو کسی اور مقصد کے لیے ہوا تھا تاہم وہاں کا منظر بیان کررہا تھا کہ عوام کو سستی طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہے اور اس کے حصول کے لیے عوام کا بے پناہ رش بھی تھا۔ میڈیکل کے شعبے میں حاجی صاحب کے ادارے شہر کے مختلف اداروں میں کام کر رہے ہیں مثلاً المصطفیٰ میڈیکل سینٹر شاہ فیصل کالونی، المصطفیٰ میڈیکل کمپلیکس اورنگی ٹاؤن، محمد آدم جی میاں نور والا میڈیکل سینٹر ملیر ٹاؤن، المصطفیٰ میڈیکل سینٹر دھوراجی اور ایوب میڈیکل سینٹر کورنگی۔ یہ تمام ان علاقوں میں قائم ہیں جہاں کی آبادی مڈل اور لوئر مڈل کلاس میں شمار ہوتی ہے۔ جہاں روزانہ کمانے والوں کی بھی بہت بڑی تعداد آباد ہے، گویا مہنگائی کے دور میں جن طبقات کو صحت کے شعبے میں صحیح معنوں میں سستے علاج کی ضرورت ہے ان کے لیے حاجی صاحب کی خدمات جاری ہیں۔

معروف شخصیت ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک سے زائد مرتبہ یہاں کا دورہ کرچکے ہیں اور انھوں نے بھی حاجی حنیف طیب کی اس خدمات کو سراہا ہے۔ بہرحال راقم کو خوشی اس بات کی ہے کہ حاجی صاحب دوسروں کی طرح اپنے ادارے کے لیے بہت زیادہ امداد لینے کا بار بار اعلان کرتے نظر نہیں آتے۔ راقم کو اس بات پر بھی حیرت اور خوشی ہے کہ حاجی صاحب سے اکثر ملاقات کا شرف حاصل ہوا مگر انھوں نے کبھی اپنے ادارے کے لیے کالم لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا نہ ہی میڈیا کے کسی کام کے لیے کوئی خواہش ظاہر کی۔ دوئم یہ کہ انھوں نے عوام کو پہلے اپنے اردگرد اور قریب کے مستحق لوگوں کا حال جاننے اور ان کی مدد کرنے کی تلقین کی، جب کہ آج کل ایسے ادارے والے ایسا کم ہی کرتے ہیں۔ راقم کا بھی نظریہ یہی ہے اور پڑھنے والوں سے درخواست بھی ہے کہ عید کے موقع پر خاصیت کے ساتھ پہلے اپنے پڑوس، عزیز واقارب اور مستحق افراد کو تلاش کرکے براہ راست مدد کیجیے اس کے بعد حاجی صاحب جیسے باعمل افراد کے زیر انتظام اداروں کی مدد کی جانی چاہیے۔
Load Next Story