بیٹیاں ماں باپ کی عزت بھائیوں کا مان
رشتوں کا احترام کریں، اعتماد اور ان کا بھرم قائم رکھیں
بہن، بیوی اور ماں جیسے پاکیزہ رشتے اور عظیم مقام تو عورت بعد میں پاتی ہے، سب سے پہلے تو اسے بیٹی کی پہچان ملتی ہے۔ اس کارخانۂ قدرت میں آنکھ کھولتے ہی وہ بیٹی کا مقام و مرتبہ اور درجہ پا لیتی ہے۔ وہ رحمت بن کر گھر میں آتی ہے۔ بیٹی ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا قرار ہوتی ہے۔ یہی بیٹیاں ہوتی ہیں باپ کی شہزادی اور بھائیوں کی پیاری ہوتی ہیں۔ اگر باپ یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی کی ہر خواہش پوری ہو تو بھائیوں کی بھی یہی تمنا ہوتی ہے کہ وہ اسے خوش رکھیں اور اس کا بہت خیال رکھیں۔ غرض بیٹیاں سبھی کو پیاری ہوتی ہیں اور یہ رشتہ نہایت عزت و وقار اور تکریم کا متقاضی ہوتا ہے۔ لڑکیاں اپنے باپ کا فخر، بھائیوں کا مان ہوتی ہیں۔
پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب ماں باپ بڑی چاہ سے اپنی بچیوں کو پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں، اس موقع پر وہ اپنی بیٹیوں کو یہ تاکید اور نصیحت کرتے ہیں: ''بیٹی! اپنی اور ہماری عزت کا مان رکھنا۔''
بیٹیاں اس نصیحت کو پلے سے باندھ لیتی ہیں، مگر زندگی کے سفر میں ناسمجھی، شعور اور آگاہی نہ ہونے یا کسی کے بہکاوے میں آجانے سے وہ ماں باپ کی نافرمانی کر سکتی ہیں۔ وہ راستے سے بھٹک سکتی ہیں اور ماں باپ کا مان اور بھروسا توڑ دیتی ہیں۔ یہی بیٹیاں اپنے ماں باپ کے لیے دکھ اور افسوس کا باعث بھی بن سکتی ہیں اور اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ موجودہ دور میں جب دنیا ترقی کی انتہا کو چھو رہی ہے اور ہم جدید آلات کے استعمال میں آگے بڑھ گئے ہیں تو فکر و نظر کا زاویہ بدلتے ہوئے، نئی دنیا کے تقاضوں کو سمجھنا ہو گا اور تربیت و کردار سازی کے حوالے سے ماں باپ کو اپنی اولاد پر زیادہ توجہ دینا ہو گی۔ ضروری ہے کہ وہ اپنی نازک کلیوں کا پہلے سے بڑھ کر خیال رکھیں۔ خاص طور پر مائیں اس حوالے سے اپنا کردار بخوبی نبھائیں۔
لڑکیوں کو بے جا روک ٹوک کر کے خود سے دور نہ کریں بلکہ ان کو اعتبار بخشیں اور اپنی دوست بنا لیں۔ ان کے دل کی بات سنیں اور ان سے قریب رہیں۔ ٹیلی ویژن سے لے کر موبائل فونز تک کے استعمال پر ماں باپ نظر رکھیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ کس قسم کی سرگرمیوں میں دل چسپی لے رہی ہیں۔ ان کا انٹرنیٹ کے ذریعے کس سے رابطہ ہے اور وہ مثبت تفریح اور معلوماتی موضوعات سے ہٹ کر غیرمعیاری اور فضول ناول اور کہانیاں تو نہیں پڑھ رہیں۔ انہیں پیار سے سمجھائیں کہ یہ ان کے وقت کا ضیاع ہے اور کسی طرح ان کے لیے مفید بھی نہیں۔ اس کے بجائے وہ کسی مفید اور تعمیری سوچ پیدا کرنے والی کتاب کا مطالعہ کریں۔ کم عمری سے ہی بچیوں سے قریبی اور دوستانہ تعلق قائم رکھیں۔
یہ جانیں کہ ان کی سہیلیاں کون ہیں، کس کے ساتھ آپ کی بیٹی زیادہ وقت گزارتی اور بات کرنا پسند کرتی ہے، اپنی بیٹی کی سہیلیوں کے عام حالات اور کوائف کا علم رکھیں۔ بچیاں اگر کسی نئی سہیلی کے گھر جانا چاہیں تو یہ معلوم کریں کہ ان کی سہیلی کے گھر میں کون کون رہتا ہے، ان کے والدین کون ہیں۔ جب بھی بیٹی اسکول یا کالج سے واپس گھر آئے تو ان سے یہ جانیں کہ آج کیسا وقت گزرا، کس سے ملیں اور کیا کچھ کیا۔ یہ سب نہایت دوستانہ اور پیار بھرے انداز میں ممکن ہے۔ اگر آپ اس کی سہیلی جیسی ماں ہیں تو بچی کو یہ احساس بھی نہیں ہو گا کہ آپ اسے کھوج رہی ہیں۔
شروع سے ہی آپ یہ عادت اپنالیں گی تو بچیاں آپ سے کوئی بات نہیں چھپائیں گی، بلکہ اپنا ہر مسئلہ، ہر پریشانی اور عام باتیں آپ سے شیئر کریں گی۔ بیٹیوں کو اتنا مان دیں کہ وہ خود کو کبھی کم زور یا تنہا محسوس نہ کریں۔ کوشش کریں تو یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنی بیٹی کی جتنی بھی سہیلیاں ہیں، ان سے ذاتی طور پر رابطے میں رہیں۔ اپنی بیٹیوں کے موبائل فون بھی وقتاً فوقتاً چیک کرتی رہیں۔ ان کو بچپن سے صحیح اور غلط کی پہچان کرنا سکھائیں، تاکہ وہ کسی غلطی اور کم زوری کا مظاہرہ کرنے سے باز رہیں۔
ان کو شعور کی عمر تک پہنچنے پر یہ سمجھائیں کہ فلموں اور ڈراموں کی زندگی نمائشی ہے اور حقیقی زندگی اس سے بالکل الگ ہے۔ کسی فریب اور دھوکے میں نہ آجانا۔ بچیوں کو بتائیے کہ کبھی کوئی آپ کو گھر سے باہر راستے میں یا تعلیمی ادارے میں تنگ کرے یا موبائل فون پر آپ کو پریشان کرے تو سب سے پہلے اپنی والدہ کو بتائیں یا کسی بھی بڑے سے تذکرہ کریں اور تمام بات تفصیل سے بتائیں۔ ماں باپ کا مان رکھنا سیکھیں اور کسی قسم کی کم زوری کا مظاہرہ نہ کریں۔ والدین اور اپنے بزرگوں کے آپ پر اعتبار اور بھروسے کو ٹھیس نہ پہنچنے دیں۔ ہر معاشرہ والدین کی فرماں برداری، احترام کا تقاضا کرتا ہے، عورت کو اپنی عزت اور وقار کی حفاظت کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اسی طرح اسلام میں سب سے پہلے تو عورت کے مقام کا اور اس کی حیثیت کا تعین کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کے حقوق پر بات کی گئی ہے اور پھر اسے والدین اور اپنے شوہر کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی فرماں برداری کی ہدایت کی ہے۔
پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب ماں باپ بڑی چاہ سے اپنی بچیوں کو پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں، اس موقع پر وہ اپنی بیٹیوں کو یہ تاکید اور نصیحت کرتے ہیں: ''بیٹی! اپنی اور ہماری عزت کا مان رکھنا۔''
بیٹیاں اس نصیحت کو پلے سے باندھ لیتی ہیں، مگر زندگی کے سفر میں ناسمجھی، شعور اور آگاہی نہ ہونے یا کسی کے بہکاوے میں آجانے سے وہ ماں باپ کی نافرمانی کر سکتی ہیں۔ وہ راستے سے بھٹک سکتی ہیں اور ماں باپ کا مان اور بھروسا توڑ دیتی ہیں۔ یہی بیٹیاں اپنے ماں باپ کے لیے دکھ اور افسوس کا باعث بھی بن سکتی ہیں اور اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ موجودہ دور میں جب دنیا ترقی کی انتہا کو چھو رہی ہے اور ہم جدید آلات کے استعمال میں آگے بڑھ گئے ہیں تو فکر و نظر کا زاویہ بدلتے ہوئے، نئی دنیا کے تقاضوں کو سمجھنا ہو گا اور تربیت و کردار سازی کے حوالے سے ماں باپ کو اپنی اولاد پر زیادہ توجہ دینا ہو گی۔ ضروری ہے کہ وہ اپنی نازک کلیوں کا پہلے سے بڑھ کر خیال رکھیں۔ خاص طور پر مائیں اس حوالے سے اپنا کردار بخوبی نبھائیں۔
لڑکیوں کو بے جا روک ٹوک کر کے خود سے دور نہ کریں بلکہ ان کو اعتبار بخشیں اور اپنی دوست بنا لیں۔ ان کے دل کی بات سنیں اور ان سے قریب رہیں۔ ٹیلی ویژن سے لے کر موبائل فونز تک کے استعمال پر ماں باپ نظر رکھیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ کس قسم کی سرگرمیوں میں دل چسپی لے رہی ہیں۔ ان کا انٹرنیٹ کے ذریعے کس سے رابطہ ہے اور وہ مثبت تفریح اور معلوماتی موضوعات سے ہٹ کر غیرمعیاری اور فضول ناول اور کہانیاں تو نہیں پڑھ رہیں۔ انہیں پیار سے سمجھائیں کہ یہ ان کے وقت کا ضیاع ہے اور کسی طرح ان کے لیے مفید بھی نہیں۔ اس کے بجائے وہ کسی مفید اور تعمیری سوچ پیدا کرنے والی کتاب کا مطالعہ کریں۔ کم عمری سے ہی بچیوں سے قریبی اور دوستانہ تعلق قائم رکھیں۔
یہ جانیں کہ ان کی سہیلیاں کون ہیں، کس کے ساتھ آپ کی بیٹی زیادہ وقت گزارتی اور بات کرنا پسند کرتی ہے، اپنی بیٹی کی سہیلیوں کے عام حالات اور کوائف کا علم رکھیں۔ بچیاں اگر کسی نئی سہیلی کے گھر جانا چاہیں تو یہ معلوم کریں کہ ان کی سہیلی کے گھر میں کون کون رہتا ہے، ان کے والدین کون ہیں۔ جب بھی بیٹی اسکول یا کالج سے واپس گھر آئے تو ان سے یہ جانیں کہ آج کیسا وقت گزرا، کس سے ملیں اور کیا کچھ کیا۔ یہ سب نہایت دوستانہ اور پیار بھرے انداز میں ممکن ہے۔ اگر آپ اس کی سہیلی جیسی ماں ہیں تو بچی کو یہ احساس بھی نہیں ہو گا کہ آپ اسے کھوج رہی ہیں۔
شروع سے ہی آپ یہ عادت اپنالیں گی تو بچیاں آپ سے کوئی بات نہیں چھپائیں گی، بلکہ اپنا ہر مسئلہ، ہر پریشانی اور عام باتیں آپ سے شیئر کریں گی۔ بیٹیوں کو اتنا مان دیں کہ وہ خود کو کبھی کم زور یا تنہا محسوس نہ کریں۔ کوشش کریں تو یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنی بیٹی کی جتنی بھی سہیلیاں ہیں، ان سے ذاتی طور پر رابطے میں رہیں۔ اپنی بیٹیوں کے موبائل فون بھی وقتاً فوقتاً چیک کرتی رہیں۔ ان کو بچپن سے صحیح اور غلط کی پہچان کرنا سکھائیں، تاکہ وہ کسی غلطی اور کم زوری کا مظاہرہ کرنے سے باز رہیں۔
ان کو شعور کی عمر تک پہنچنے پر یہ سمجھائیں کہ فلموں اور ڈراموں کی زندگی نمائشی ہے اور حقیقی زندگی اس سے بالکل الگ ہے۔ کسی فریب اور دھوکے میں نہ آجانا۔ بچیوں کو بتائیے کہ کبھی کوئی آپ کو گھر سے باہر راستے میں یا تعلیمی ادارے میں تنگ کرے یا موبائل فون پر آپ کو پریشان کرے تو سب سے پہلے اپنی والدہ کو بتائیں یا کسی بھی بڑے سے تذکرہ کریں اور تمام بات تفصیل سے بتائیں۔ ماں باپ کا مان رکھنا سیکھیں اور کسی قسم کی کم زوری کا مظاہرہ نہ کریں۔ والدین اور اپنے بزرگوں کے آپ پر اعتبار اور بھروسے کو ٹھیس نہ پہنچنے دیں۔ ہر معاشرہ والدین کی فرماں برداری، احترام کا تقاضا کرتا ہے، عورت کو اپنی عزت اور وقار کی حفاظت کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اسی طرح اسلام میں سب سے پہلے تو عورت کے مقام کا اور اس کی حیثیت کا تعین کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کے حقوق پر بات کی گئی ہے اور پھر اسے والدین اور اپنے شوہر کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی فرماں برداری کی ہدایت کی ہے۔